ASAN-NAHW-1
آسان نحو
مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین،اعجاز عبید
فہرست
مقدمہ
بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم۔
نحمدہٗ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم۔
اما بعد ! جب میں نے اپنے لڑکے احمد سلمہٗ کو حضرت مولانا مشتاق احمد صاحب چرتھاولی l کی مشہور کتاب ’’علم النحو‘‘ پڑھانی شروع کی تو پہلی فصل پوری کرتے ہی میں نے محسوس کیا کہ بچہ ان مضامین کو برداشت نہیں کر پا رہا ہے، کیوں کہ اردو میں لکھی گئی نحو کی کتابوں میں عام طور پر تدریج ملحوظ نہیں رکھی گئی ہے، جب کہ یہ بات ضروری ہے۔
میں نے مولانا حافظ عبد الرحمن صاحب امرتسری کی ’’کتاب النحو‘‘ بھی دیکھی تو وہ اور بھی مشکل نظر آئی، اس لیے میں نے اپنے بچہ کی ضرورت سے ’’آسان نحو حصہ اول‘‘ مرتب کیا تاکہ بتدریج اس کو فن کی تعلیم دی جائے۔ اس رسالہ میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ بچے کے ذہن پر یکبارگی بہت زیادہ بوجھ نہ پڑ جائے اور اس کو فن نحو بہت زیادہ مشکل نظر نہ آئے۔ چناں چہ ہر باب میں صرف ابتدائی ضروری باتیں اس رسالہ میں لی گئی ہیں، باقی باتیں حصہ دوم کے لیے اٹھا رکھی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی عرض ہے کہ بچوں کو علم نحو کی کتاب عربی زبان شروع کرتے ہی فوراً شروع نہیں کرانی چاہیے۔ عربی کی تعلیم القراءۃ(ریڈر) سے شروع کرانی چاہیے۔ مثلاً: ’’منہاج العربیہ‘‘ اول، دوم، پھر ’’قصص النبیین‘‘ اول، دوم پڑھانی چاہییں، پھر جب بچے کو عربی شدبد ہو جائے تو ’’آسان نحو‘‘ حصہ اول شروع کرانا چاہیے۔ اس میں کل تینتیس سبق ہیں۔ یہ رسالہ زیادہ سے زیادہ دو ماہ میں پورا ہو جانا چاہیے۔ اساتذہ کو چاہیے کہ اسے خوب یاد کرائیں اور بقدر ضرورت ہی سمجھائیں، حواشی اساتذہ کے لیے ہیں۔ جب یہ حصہ خوب مضبوط ہو جائے تو حصہ دوم شروع کرائیں۔
اللہ تعالیٰ اس رسالہ سے سب بچوں کو نفع پہنچائیں۔
والسلام
سعید احمد عفا اللٰہ عنہ پالن پوری
خادم دار العلوم دیوبند
۱۸؍ ربیع الثانی ۱۴۱۷ھ
٭٭٭
بسم اللٰہ الرحمٰن الرحیم۔
پہلا سبق
علم نحو کی تعریف: علم نحو وہ علم ہے جس سے کلمات کو جوڑنے کا طریقہ معلوم ہو، اور ہر کلمہ کے آخری حرف کا اعراب معلوم ہو۔
فائدہ اس علم کا یہ ہے کہ اس سے عربی زبان بولنے میں اور لکھنے میں غلطی کرنے سے آدمی محفوظ رہتا ہے۔
لفظ: جو بات بھی آدمی کے منہ سے نکلے۔
لفظ موضوع: معنی دار لفظ۔ جیسے: قلم۔
لفظ مہمل: بے معنیٰ لفظ۔ جیسے: دیز (زید کا الٹا)۔
لفظ موضوع کی دو قسمیں ہیں: مفرد اور مرکب۔
مفرد وہ اکیلا لفظ ہے جو ایک معنی بتائے۔ جیسے: قلم۔
کلمہ: مفرد کو کلمہ بھی کہتے ہیں۔
کلمہ کی تین قسمیں ہیں: اسم، فعل اور حرف۔
اسم وہ کلمہ ہے جس کے معنی دوسرے کلمہ کو ملائے بغیر سمجھ میں آ جائیں اور اس میں تین زمانوں میں سے کوئی زمانہ نہ پایا جائے۔ جیسے: قلم، کتاب۔
فعل وہ کلمہ ہے جس کے معنی دوسرے کلمہ کو ملائے بغیر سمجھ میں آ جائیں اور اس میں تین زمانوں 1 میں سے کوئی زمانہ پایا جائے۔ جیسے: کتب (لکھا اس نے گزشتہ زمانہ میں)، یکتب (لکھتا ہے وہ فی الحال یا لکھے گا وہ آیندہ زمانہ میں)۔
حرف وہ کلمہ ہے جس کے معنیٰ دوسرے کلمہ کو ملائے بغیر سمجھ میں نہ آئیں۔ جیسے: من (سے)، فی (میں)، إلیٰ (تک)، علیٰ (پر)۔ جب تک ان حرفوں کے ساتھ کوئی اسم یا فعل نہ ملایا جائے کچھ فائدہ حاصل نہ ہو گا۔
٭٭٭
دوسرا سبق
اسم کی علامتیں چند یہ ہیں۔
۱۔ اس کے شروع میں ال ہو۔ جیسے: الرجل۔ ۲۔ اس پر حرف جر آئے۔ جیسے: فی المسجد ۳۔ اس پر تنوین آئے۔ جیسے: رجل۔ ۴۔ وہ مضاف ہو۔ جیسے: قلم قاسم۔ ۵۔ وہ مسند الیہ 1ہو۔ جیسے: الکتاب جدید۔
فعل کی علامتیں:
۱-۳۔ اس پر قد، سین اور سوف آئیں۔ جیسے: قد ضرب (تحقیق مارا اس نے)، سیضرب (ابھی مارے گا)، سوف یضرب (عنقریب مارے گا)۔ ۴۔ اس پر جزم دینے والا حرف آئے۔ جیسے: لم یضرب (نہیں مارا اس نے)۔ ۵۔ اس کے ساتھ ضمیر مرفوع متصل آئے۔ جیسے: کتبوا (لکھا انھوں نے)۔
حرف کی علامت یہ ہے کہ اس میں اسم اور فعل کی علامتیں نہ پائی جائیں۔
اسم کی تین قسمیں ہیں: جامد، مصدر اور مشتق۔
جامد وہ اسم ہے جو نہ خود کسی سے بنا ہو، نہ کوئی اور کلمہ اس سے بنے۔ جیسے: رجل، فرس۔
مصدر وہ اسم ہے جو خود تو کسی سے نہ بنا ہو، مگر اس سے دوسرے الفاظ بنتے ہوں۔ جیسے: نصر، ضرب۔
مشتق وہ اسم ہے جو مصدر سے بنا ہو۔ یہ پانچ 2ہیں: اسم فاعل، اسم مفعول، اسم آلہ، اسم ظرف اور اسم تفضیل۔ جیسے: عالم، معلوم، مفتاح، مسجد اور أکبر۔
٭٭٭
تیسرا سبق
مرکب وہ بات ہے جو دو یا زیادہ کلموں سے مل کر بنے۔
مرکب کی دو قسمیں ہیں: مرکب مفید اور مرکب غیر مفید۔
مرکب مفید وہ بات ہے جس سے سننے والے کو کسی واقعہ کی خبر یا کسی بات کی طلب معلوم ہو۔ جیسے: حسن حاضر(حسن موجود ہے)، ایت بالماء (پانی لاؤ)۔ پہلے جملہ سے سامع کو حسن کے موجود ہونے کی اطلاع اور دوسرے جملہ سے پانی کی خواہش معلوم ہوتی ہے۔
فائدہ: مرکب مفید کو جملہ اور کلام بھی کہتے ہیں۔
مرکب غیر مفید وہ بات ہے جس سے سننے والے کو کوئی خبر یا طلب معلوم نہ ہو۔ جیسے: قلم سعید (سعید کا پین)۔
جملہ دو طرح کا ہوتا ہے: جملہ خبریہ اور جملہ انشائیہ۔
جملہ خبریہ وہ جملہ ہے جس کے بولنے والے کو سچا یا جھوٹا کہہ سکیں۔ اور یہ دو قسم پر ہے: جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ۔
جملہ اسمیہ وہ جملہ ہے جس کا پہلا جزو اسم ہو اور دوسرا جزو خواہ اسم ہو یا فعل۔ جیسے: زید قائم اور زید قام۔
جملہ فعلیہ وہ جملہ ہے جس کا پہلا جزو فعل ہو۔ جیسے: قام زید۔ جملہ انشائیہ وہ جملہ ہے جس کے بولنے والے کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ سکیں۔ جیسے: ایت بالماء۔
مرکب غیر مفید کی چند قسمیں ہیں، ان میں سے دو یہ ہیں:
۱۔ مرکب اضافی جس کا پہلا جزو مضاف اور دوسرا جزو مضاف الیہ ہو۔ جیسے: کتاب قاسم۔
۲۔ مرکب توصیفی جس کا پہلا جزو موصوف اور دوسرا صفت ہو۔ جیسے: ثوب جمیل۔
٭٭٭
چوتھا سبق
تعداد کے اعتبار سے اسم کی تین قسمیں ہیں: واحد، تثنیہ اور جمع۔
واحد وہ اسم ہے جو ایک پر دلالت کرے۔ جیسے: رجل (ایک مرد)۔
تثنیہ وہ اسم ہے جو دو پر دلالت کرے۔ جیسے: رجلان (دو مرد)۔
جمع وہ اسم ہے جو دو سے زیادہ پر دلالت کرے۔ جیسے: رجال (بہت سے مرد)۔
تثنیہ بنانے کا قاعدہ: واحد کے آخر میں حالت رفعی میں الف ما قبل مفتوح اور نون مکسور، اور حالت نصبی و جری میں ی ماقبل مفتوح اور ن مکسور بڑھائی جائے۔ جیسے: رجل سے رجلان اور رجلین۔
جمع کی دو قسمیں ہیں: جمع مکسر اور جمع سالم۔
جمع مکسر وہ جمع ہے جس میں واحد کا وزن باقی نہ رہے۔ یہ جمع واحد میں تبدیلی کرنے سے بنتی ہے۔ جیسے: رجل کی جمع رجال۔
جمع سالم وہ جمع ہے جس میں واحد کا وزن باقی رہے، اس کی پھر دو قسمیں ہیں: جمع مذکر سالم اور جمع مؤنث سالم۔
جمع مذکر سالم بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ واحد کے آخر میں حالت رفعی میں و ما قبل مضموم اور ن مفتوح، اور حالت نصبی و جری میں ی ما قبل مکسور اور ن مفتوح بڑھائی جائے۔ جیسے: مسلم کی جمع مسلمون اور مسلمین۔
جمع مؤنث سالم بنانے کا قاعدہ یہ ہے کہ واحد کے آخر میں الف اور لمبیت بڑھائی جائے۔ جیسے: مسلمۃ کی جمع مسلمات۔
نوٹ: جمع بناتے وقت واحد میں سے تانیث کی علامت گول ۃ کو حذف کر دیں گے۔
٭٭٭
پانچواں سبق
جنس کے اعتبار سے اسم کی دو قسمیں ہیں: مذکر اور مؤنث۔
مذکر وہ اسم ہے جس میں تانیث کی کوئی علامت نہ پائی جاتی ہو۔ جیسے: رجل، فرس، کتاب۔
مؤنث وہ اسم ہے جس میں تانیث کی کوئی علامت پائی جاتی ہو۔ جیسے: طلحۃ۔
تانیث کی تین علامتیں ہیں:
۱۔ گول ۃ۔ جیسے: طلحۃ، قلنسوۃ۔ ۲۔ الف مقصورہ۔ 1 جیسے: صغریٰ، کبریٰ۔
۳۔ الف ممدودہ۔ 2 جیسے: حمراء، بیضاء۔
اور علامت پائے جانے کے اعتبار سے مؤنث کی دوقسمیں ہیں: مؤنث قیاسی اور مؤنث سماعی۔
مؤنث قیاسی وہ ہے جس میں تانیث کی علامت لفظوں میں موجود ہو۔ جیسے: طلحۃ، صغریٰ، حمراء۔
مؤنث سماعی وہ ہے جس میں لفظوں میں تانیث کی علامت موجود نہ ہو مگر اہل زبان اس کو مؤنث مانتے ہوں۔ جیسے: أرض، شمس۔
چند مؤنث سماعی یہ ہیں:
۱۔ وہ تمام اسما جو مؤنث کے نام ہوں۔ جیسے: مریم۔
۲۔ وہ تمام اسما جو عورتوں کے لیے خاص ہوں۔ جیسے: أم، أخت۔
۳۔ وہ تمام اسما جو کسی شہر یا قبیلہ کے نام ہوں۔ جیسے: شام، مصر، قریش۔
۴۔ انسان کے جو اعضا ڈبل ہیں ان پر دلالت کرنے والے اسما۔ جیسے: ید، عین وغیرہ۔ (مگر صدغ، مرفق، حاجب اور خد مؤنث نہیں ہیں۔)٭٭٭
چھٹا سبق
تعیین اور عدم تعیین کے اعتبار سے اسم کی دو قسمیں ہیں: معرفہ اور نکرہ۔
معرفہ وہ اسم ہے جو متعین چیز پر دلالت کرے۔ یہ سات چیزیں ہیں:
۱۔ ضمیریں۔ جیسے: ہو، أنت، أنا وغیرہ۔
۲۔ اعلام (نام)۔ جیسے: زید، دہلی وغیرہ۔
۳۔ اسمائے اشارہ۔ جیسے: ہٰذا، ذٰلک وغیرہ۔
۴۔ اسمائے موصولہ۔ جیسے: الذی، التی وغیرہ۔
۵۔ معرف باللام یعنی وہ نکرہ جس کو ال کے ذریعہ معرفہ بنایا گیا ہو۔ جیسے: الرجل۔
۶۔ ہر وہ اسم جو مذکورہ بالا پانچ قسموں میں سے کسی ایک کی طرف مضاف ہو۔ جیسے: کتابہٗ، 1 قلم سعید، کتاب ہٰذا، کراسۃ الذی عندک، قمیص الرجل۔
۷۔ معرفہ بہ ندا، یعنی جو پکارنے کی وجہ سے متعین ہوا ہو۔ جیسے: یا رجل۔
نکرہ وہ اسم ہے جو غیر متعین چیز پر دلالت کرے۔ جیسے: فرس (کوئی گھوڑا)۔
نوٹ: معرفہ کی سات قسموں کے علاوہ تمام اسما نکرہ ہیں۔
٭٭٭
ساتواں سبق
آخری حرف کی تبدیلی کے اعتبار سے کلمہ کی دو قسمیں ہیں: معرب اور مبنی۔
معرب وہ کلمہ ہے جس کا آخری حرف عامل کے بدلنے کی صورت میں بدلتا رہتا ہو۔
عامل وہ ہے جس کی وجہ سے معرب کے آخر میں تبدیلی ہوتی ہے۔
اعراب وہ تبدیلی ہے جو معرب کے آخری حرف میں ہوتی ہے۔
محل اعراب معرب کا آخری حرف ہے۔ جیسے: جاء زید، رأیت زیدا، مر رت بزید میں زید معرب ہے۔ اور جاء، رأیت اور ب (حرف جر) عامل ہیں اور زید پر رفع، نصب اور جر اعراب ہیں، اور زید کید محل اعراب ہے۔
قاعدہ: اسم معرب کے تین اعراب ہیں: رفع، نصب اور جر، اور جس اسم پر رفع ہو اس کو مرفوع اور جس پر نصب ہو اس کو منصوب اور جس پر جر ہو اس کو مجرور کہتے ہیں۔ مبنی وہ کلمہ ہے جو ہمیشہ ایک حال پر رہتا ہو، عامل کے بدلنے سے اس میں تبدیلی نہ آتی ہو۔ جیسے: جاء ہٰذا، رأیت ہٰذا، اور مر رت بہٰذا، ان مثالوں میں ہٰذا مبنی ہے۔
یہ شعر یاد کر لیں
معرب آں باشد کہ گردد بار بار
مبنی آں باشد کہ ماند برقرار 1
٭٭٭
آٹھواں سبق
مبنیات2 آٹھ ہیں ان میں سے ایک مضمرات یعنی ضمیریں ہیں۔
ضمیر وہ اسم ہے جو غائب یا حاضر یا متکلم پر دلالت کرنے کے لیے وضع کیا گیا ہو۔ ضمیریں پانچ3 ہیں:
۱۔ مرفوع متصل۔ ۲۔ مرفوع منفصل۔ ۳۔ منصوب متصل۔ ۴۔ منصوب منفصل، اور ۵۔ مجرور متصل (مجرور منفصل کوئی ضمیر نہیں ہے)۔
۱۔ مرفوع متصل وہ ضمیریں ہیں جو فاعل بنتی ہیں اور فعل سے ملی ہوئی آتی ہیں۔ یہ چودہ ہیں:
ضرب1(میں ہو پوشیدہ)
ضربا (میں الف تثنیہ)
ضربوا (میں و جمع)
ضربت (میں ھی پوشیدہ)
ضربتا (میں الف تثنیہ)
ضربن (میں ن جمع مؤنث)
ضربت (میں ت مفتوح)
ضربتما (میں تما)
ضربتم (میں تم)
ضربت (میںت مکسور)
ضربتما (میں تما)
ضربتن (میں تن)
ضربت (میں ت مضموم)
ضربنا (میں نا)
۲۔ مرفوع منفصل وہ ضمیریں ہیں جو فاعل2 یا مبتدا بنتی ہیں اور فعل سے جدا آتی ہیں۔ یہ بھی چودہ ہیں:
ہو
ہما
ہم
ہی
ہما
ہن
أنت
أنتما
أنتم
أنت
أنتما
أنتن
أنا
نحن
۳۔ منصوب متصل وہ ضمیریں ہیں جو مفعول بہ بنتی ہیں اور فعل سے ملی ہوئی آتی ہیں۔ یہ بھی چودہ ہیں:
ضربہٗ
ضربہما
ضربہم
ضربہا
ضربہما
ضربہن
ضربک
ضربکما
ضربکم
ضربک
ضربکما
ضربکن
ضربنی
ضربنا
۴۔ منصوب منفصل وہ ضمیریں ہیں جو مفعول بہ یا کوئی اور منصوب بنتی ہیں اور فعل سے جدا آتی ہیں۔ یہ بھی چودہ ہیں:
إیاہ
إیاہما
إیاہم
إیاہا
إیاہما
إیاہن
إیاک
إیاکما
إیاکم
إیاک
إیاکما
إیاکن
إیای
إیانا
۵۔ مجرور متصل وہ ضمیریں ہیں جو حرف جر کے بعد آئیں تو مجرور اور کسی اسم کے بعد آئیں تو مضاف الیہ بنتی ہیں۔ یہ بھی چودہ ہیں:
حرف جر کے بعد:
لہٗ
لہما
لہم
لہا
لہما
لہن
لک
لکما
لکم
لک
لکما
لکن
لی
لنا
اسم کے بعد:
کتابہٗ
کتابہما
کتابہم
کتابہا
کتابہما
کتابہن
کتابک
کتابکما
کتابکم
کتابک
کتابکما
کتابکن
کتابی
کتابنا
٭٭٭
نواں سبق
دوسرا اسم مبنی اسمائے اشارہ ہیں۔
اسم اشارہ وہ اسم ہے جو کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہو۔ اسمائے اشارہ دو قسم کے ہیں، ایک قریب کی طرف اشارہ کرنے کے لیے، دوسرے دور کی طرف اشارہ کرنے کے لیے۔ اسمائے اشارہ قریب یہ ہیں:
ہٰذا (واحد مذکر کے لیے) یہ ایک مرد
ہٰذان (تثنیہ مذکر کے لیے) یہ دو مرد
ہٰذہٖ (واحد مؤنث کے لیے) یہ ایک عورت
ہاتان (تثنیہ مؤنث کے لیے) یہ دو عورتیں
ہٰؤلاء (جمع مذکر و مؤنث کے لیے) یہ سب مرد یا سب عورتیں
اسمائے اشارہ بعید یہ ہیں:
ذٰلک (واحد مذکر کے لیے) وہ ایک مرد
ذانک (تثنیہ مذکر کے لیے) وہ دو مرد
تلک (واحد مؤنث کے لیے) وہ ایک عورت
تانک (تثنیہ مؤنث کے لیے) وہ دو عورتیں
أولٰئک (جمع مذکر و مؤنث کے لیے) وہ سب مرد یا سب عورتیں
قاعدہ: ۱۔ اسم اشارہ سے جس چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اس کو مشار إلیہ کہتے ہیں۔
۲۔ اسم اشارہ اور مشار الیہ کا اعراب ایک1 ہوتا ہے۔ البتہ اسم اشارہ پر اعراب ظاہر نہیں ہوتا کیوں کہ وہ مبنی ہے۔
٭٭٭
دسواں سبق
تیسرا اسم مبنی اسمائے موصولہ ہیں۔
اسم موصول وہ اسم ہے جو صلہ کے ساتھ ملے بغیر جملہ کا جزو نہ بن سکے۔ جیسے: جاء الذی ضربک (وہ شخص آیا جس نے آپ کو مارا ہے)۔ اس میں الذی اسم موصول ہے اور جملہ ضربک صلہ ہے اور موصول صلہ مل کر جاء کا فاعل ہیں۔
چند اسمائے موصولہ یہ ہیں:
الذی (واحد مذکر کے لیے) وہ ایک مرد جو کہ
الذان/ الذین (تثنیہ مذکر کے لیے) وہ دو مرد جو کہ
الذین (جمع مذکر کے لیے) وہ سب مرد جو کہ
التی (واحد مؤنث کے لیے) وہ ایک عورت جو کہ
اللتان/ اللتین (تثنیہ مؤنث کے لیے) وہ دو عورتیں جو کہ
اللاتی/ اللواتی (جمع مؤنث کے لیے)وہ سب عورتیں جو کہ
ما (جو چیز)
من (جو شخص)
أی (کیا چیز)
أیۃ (کیا چیز)
٭٭٭
گیارہواں 1سبق
اسم معرب کی دو قسمیں ہیں: منصرف اور غیر منصرف۔
منصرف وہ اسم ہے جس میں غیر منصرف ہونے کا سبب نہ پایا جاتا ہو۔ جیسے: رجل منصرف پر تینوں حرکتیں آ سکتی ہیں اور تنوین بھی آ سکتی ہے۔
غیر منصرف وہ اسم ہے جس میں منع صرف کے نو اسباب میں سے دو سبب پائے جاتے ہوں یا ایک ایسا سبب پایا جاتا ہو جو دو سببوں کے قائم مقام ہو۔ غیر منصرف پر تنوین اور کسرہ نہیں آتا، کسرہ کی جگہ فتحہ آتا ہے۔
غیر منصرف کے نو اسباب یہ ہیں: عدل، وصف، تانیث، معرفہ، عجمہ، جمع، ترکیب، وزن فعل اور الف نون زائدتان۔
عدل یہ ہے کہ ایک اسم اپنے اصلی صیغہ سے بغیر کسی قاعدہ کے نکل کر دوسرے صیغہ میں چلا گیا ہو۔ جیسے: عامر سے عمر بن گیا ہے۔ پس عمر میں عدل ہے۔
وصف وہ اسم ہے جس کی اصل بناوٹ صفتی معنی کے لیے ہو۔ جیسے: أحمر (سرخ) أسود (سیاہ)۔
تانیث اسم کا مؤنث ہونا۔ جیسے: طلحۃ، زینب، حبلیٰ، صحرآء۔
معرفہ وہ اسم ہے جو کسی چیز کا نام ہو۔ جیسے: زینب۔ عجمہ غیر عربی زبان کا لفظ ہونا۔ جیسے: إبراہیم۔
جمع یعنی منتہی الجموع کے وزن پر ہونا، یہ دو وزن ہیں: مفاعل، جیسے: مساجد، اور مفاعیل، جیسے: مفاتیح۔
ترکیب یعنی دو کلموں کو اضافت اور اسناد کے بغیر جوڑ دینا۔ جیسے: بعلبک (شہر کا نام)
وزن فعل یعنی اسم کا فعل کے وزن پر ہونا۔ جیسے: أحمد مضارع کے واحد متکلم کے وزن پر ہے۔
الف نون زائدتان یعنی کسی اسم کے آخر میں زائد الف اور زائد نون کا ہونا۔ جیسے: عثمان، نعمان۔
قاعدہ: تانیث بالالف اور جمع منتہی الجموع دو سببوں کے قائم مقام ہیں۔
قاعدہ: غیر منصرف پر جب ال آئے یا وہ دوسرے اسم کی طرف مضاف ہو تو اس پر حالت جری میں کسرہ آ سکتا ہے۔ جیسے: ذہبت إلی المقابر اور صلیت فی مساجد البلد۔
٭٭٭
بارہواں سبق
مرفوعات یعنی وہ اسما جن کا اعراب رفع ہے وہ آٹھ ہیں:
۱۔ فاعل۔ ۲۔ نائب فاعل۔ ۳۔ مبتدا۔ ۴۔ خبر۔ ۵۔ حروف مشبہ بالفعل کی خبر۔
۶۔ افعال ناقصہ کا اسم۔ ۷۔ ما اور لا مشابہ بہ لیس کا اسم اور ۸۔ لائے نفی جنس کی خبر۔
فاعل وہ اسم ہے جس کی طرف فعل کی نسبت کی گئی ہو اور وہ فعل اس اسم کے ذریعہ وجود میں آیا ہو۔ جیسے: قام زید میں زید فاعل ہے، کیوں کہ اس کی طرف کھڑے ہونے کی نسبت کی گئی ہے اور کھڑا ہونا اس کے ذریعہ وجود میں آیا ہے۔
قاعدہ: فاعل کبھی اسم ظاہر ہوتا ہے۔ جیسے: قام زید، اور کبھی ضمیر ہوتی ہے۔ جیسے: أکلت (کھایا میں نے)۔
قاعدہ: فاعل کبھی ضمیر بارز (ظاہر) ہوتی ہے۔ جیسے: أکلت اور کبھی ضمیر مستتر (پوشیدہ) ہوتی ہے۔ جیسے: ضربہٗ میں فاعل ہو ضمیر ہے جو پوشیدہ ہے۔
قاعدہ: جب فاعل اسم ظاہر ہو تو فعل ہمیشہ مفرد آئے گا۔ جیسے: ضرب الرجل، ضرب الرجلان، ضرب الرجال۔
قاعدہ: جب فاعل ضمیر ہو تو فعل فاعل کے مطابق آئے گا، یعنی واحد کے لیے واحد، تثنیہ کے لیے تثنیہ اور جمع کے لیے جمع۔ جیسے: الرجل 1 ضرب، الرجلان ضربا اور الرجال ضربوا۔ 2
٭٭٭
تیرہواں سبق
نائب فاعل وہ مفعول بہ ہے جس کی طرف فعل مجہول کی نسبت کی گئی ہو اور اس کا فاعل معلوم نہ ہو۔ جیسے: أکل الخبز (روٹی کھائی گئی) اس میں فاعل یعنی کھانے والے کا تذکرہ نہیں ہے، اس لیے یہ فعل مجہول ہے اور الخبز نائب فاعل ہے جو حقیقت میں مفعول بہ ہے۔ نائب فاعل کو مفعول ما لم یسم فاعلہٗ بھی کہتے ہیں یعنی ایسے فعل کا مفعول جس کے فاعل کا نام نہیں لیا گیا ہے۔
قاعدہ: فعل کے واحد، تثنیہ اور جمع لانے میں نائب فاعل کا حکم فاعل کی طرح ہے۔ 3
مبتدا جملہ اسمیہ کا پہلا جزو ہے جس سے بات شروع کی جاتی ہے، اور جس کے بارے میں کوئی اطلاع دی جاتی ہے۔ جیسے: نسیم نائم (نسیم سویا ہوا ہے) اس میں نسیم مبتدا ہے، کیوں کہ اس سے بات شروع کی گئی ہے اور اس کے بارے میں سوئے ہوئے ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ مبتدا کو مسند الیہ بھی کہتے ہیں۔
خبر جملہ اسمیہ کا دوسرا جزو ہے جس کے ذریعہ مبتدا کے بارے میں کوئی اطلاع دی جاتی ہے۔ اوپر والی مثال میں نائم خبر ہے، کیوں کہ اس کے ذریعہ نسیم کے بارے میں سوئے ہوئے ہونے کی خبر دی گئی ہے۔ خبر کو مسند بھی کہتے ہیں۔
قاعدہ: مبتدا اور خبر کا عامل، عامل معنوی ہوتا ہے، وہی دونوں کو رفع دیتا ہے۔
قاعدہ: مبتدا اکثر معرفہ اور خبر اکثر نکرہ ہوتی ہے۔ جیسے: اوپر والی مثال میں نسیم معرفہ ہے اور نائم نکرہ ہے۔
٭٭٭
چودہواں سبق
حروف مشبہ بالفعل چھ ہیں:
۱۔ إن ۲۔ أن ۳۔ کأن ۴۔ لیت ۵۔ لٰکن اور ۶۔ لعل۔
یہ حروف جملہ اسمیہ خبریہ پر داخل ہوتے ہیں اور مبتدا کو اپنا اسم اور خبر کو اپنی خبر بنا لیتے ہیں اور اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتے ہیں۔ جیسے: إن اللٰہ علیم، علمت أن الرجل نائم، کأن زیدا أسد، لیت الشباب راجع، لٰکن الأستاذ شفیق، لعل المسافر قادم۔
ما اور لا مشابہ بہ لیس اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ 1 جیسے: ما زید قائما (زید کھڑا نہیں ہے) لا رجل أفضل منک (آپ سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے)۔
یہ شعر یاد کر لیں:
إن بہ أن کأن لیت لٰکن لعل 2
ناصب اسمند و رافع در خبر ضد ما ولا
لائے نفی جنس وہ لا ہے جو نکرہ پر داخل ہو کر پوری جنس کی نفی کرتا ہے، یہ لا اسم کونصب اور خبر کو رفع دیتا ہے۔ جیسے: لا رجل قائم (کوئی بھی آدمی کھڑا نہیں ہے)۔
٭٭٭
پندرہواں سبق
افعال ناقصہ تیرہ ہیں۔ یہ جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں اور مبتدا کو اپنا اسم اور خبر کو اپنی خبر بنا لیتے ہیں اور اسم کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:
کان، صار، أصبح، أمسیٰ، أضحیٰ، ظل، بات، ما برح، ما دام، ما انفک، لیس، ما فتئ اور ما زال۔ جیسے: کان اللٰہ علیما، 1 صار الدقیق خبزا، أصبح زید غنیا، لیس بکر قائما۔ (باقی مثالیں حصہ دوم میں آئیں گی)
یہ اشعار سمجھ کر یاد کر لیں:
اے عاقل!2 سیزدہ فعلند کہ ایشاں ناقصند
رافع اسمند وناصب در خبر چو ما و لا
کان، صار، أصبح، أمسیٰ، أضحیٰ، ظل، بات
ما فتئ، ما دام، ما انفک، لیس باشد از قفا
ما برح، 3 ما زال وافعالے کزینہا مشتقند
ہر کجا بینی ہمیں حکم ست در جملہ روا
قاعدہ: مذکورہ افعال ناقصہ سے جو افعال مشتق ہوں ان کا عمل بھی افعال ناقصہ ہی کی طرح ہے یعنی جو کان کا عمل ہے وہی یکون اور کن کا بھی ہے۔
٭٭٭
سولہواں سبق
منصوبات یعنی وہ اسما جن کا اعراب نصب ہے وہ بارہ ہیں:
۱۔ مفعول بہ۔ ۲۔ مفعول مطلق۔ ۳۔ مفعول لہٗ۔ ۴۔ مفعول معہ۔ ۵۔ مفعول فیہ۔ ۶۔ حال۔ ۷۔ تمیز۔ ۸۔ حروف مشبہ بالفعل کا اسم۔ ۹۔ ما ولا مشابہ بہ لیس کی خبر۔ ۱۰۔ لائے نفی جنس کا اسم۔ ۱۱۔ افعال ناقصہ کی خبر۔ ۱۲۔ مستثنیٰ۔
ان میں سے چار (۸ تا ۱۱) کا بیان گزر چکا۔ باقی کی تفصیل یہ ہے:
مفعول بہ وہ اسم ہے جس پر کام کرنے والے کا کام واقع ہوا ہو۔ جیسے: أکل محمد نالخبز، اس میں الخبز مفعول بہ ہے، کیوں کہ اس پر کھانے کا فعل واقع ہوا ہے۔
مفعول مطلق وہ مصدر ہے جو فعل کے بعد آئے اور فعل کے ہم معنی ہو۔ جیسے: ضربت ضربا (میں نے مار ماری)۔ اس میں ضربا مفعول مطلق ہے۔
قاعدہ: مفعول مطلق تین مقاصد کے لیے آتا ہے:
۱۔ فعل کی تاکید کے لیے۔ جیسے: ضربت ضربا (میں نے خوب مارا)۔
۲۔ کام کی نوعیت بیان کرنے کے لیے۔ جیسے: جلست جلسۃ العالم (میں عالم کی طرح بیٹھا)۔
۳۔ کام کی تعداد بیان کرنے کے لیے۔ جیسے: جلست جلسۃ (میں ایک نشست بیٹھا)۔
٭٭٭
سترہواں سبق
مفعول لہ وہ اسم ہے جس کی وجہ سے کام کیا گیا ہو۔ جیسے: ضربتہٗ تأدیبا1 (میں نے اس کو سلیقہ سکھانے کے لیے مارا)۔ اس میں تأدیبا مفعول لہ ہے، کیوں کہ وہ فعل (مارنے) کی غرض ہے۔
مفعول معہ وہ اسم ہے جو و بمعنی مع کے بعد آئے۔ جیسے: جاء قاسم والکتاب2 (قاسم کتاب کے ساتھ آیا)
مفعول فیہ وہ اسم ہے جو اس زمانہ پر یا اس جگہ پر دلالت کرے جس میں کام ہوا ہو۔ جیسے: صمت شہرا (میں نے ایک ماہ کے روزے رکھے)، جلست خلفک (میں آپ کے پیچھے بیٹھا)۔
مفعول فیہ کو ظرف بھی کہتے ہیں۔ اور ظرف کی دو قسمیں ہیں: ظرف زماں اور ظرف مکاں۔
ظرف زماں وہ اسم ہے جو وقت پر دلالت کرے۔ جیسے: دہر، حین، یوم، لیل، شہر، سنۃ۔
ظرف مکاں وہ اسم ہے جو جگہ پر دلالت کرے۔ جیسے: خلف، أمام، دار، مسجد۔
فائدہ: کسی شاعر نے پانچوں مفعولوں کو ایک شعر میں جمع کیا ہے:
حمدت حمدا حامدا وحمیدا
رعایۃ شکرہٖ دہرا مدیدا 1
میں نے خوب تعریف کی حامد کی حمید کے ساتھ، اس کے شکر کی رعایت میں ایک لمبے زمانہ تک۔
٭٭٭
اٹھارہواں سبق
حال وہ اسم ہے جو فاعل کی یا مفعول بہ کی یا دونوں کی صورت حال بیان کرے۔ 2 جیسے: جاء سلیم راکبا، ضربت زیدا مشدودا، لقیت زیدا راکبین۔ اور فاعل و مفعول کو جن کی حالت بیان کی گئی ہے ذو الحال کہتے ہیں۔
قاعدہ: ذو الحال اکثر معرفہ اور حال نکرہ ہوتا ہے اور اکثر مفرد ہوتا ہے۔
قاعدہ: اگر ذو الحال نکرہ ہو تو حال کو مقدم کرنا واجب ہے۔ جیسے: لقیت راکبا رجلا۔
قاعدہ: حال کبھی جملہ اسمیہ اور کبھی جملہ فعلیہ بھی ہوتا ہے۔ جیسے: لقیت حمیدا و ہو جالس، جاء یحییٰ یسعیٰ۔ 3
٭٭٭
انیسواں سبق
تمیز وہ اسم ہے جو کسی مبہم چیز کی پوشیدگی کو دور کرے۔ جیسے: رأیت أحد1 عشر کوکبا اس میں کوکبا نے أحد عشر کے ابہام کو دور کیا ہے۔ اور تمیز جس اسم کے ابہام کو دور کرتی ہے اس کو ممیز کہتے ہیں۔
قاعدہ: تمیز، عدد، وزن، پیمانہ اور پیمایش کے ابہام کو دور کرتی ہے، جیسے: رأیت أحد عشر کوکبا، اشتریت کیلو سمنا، بعت قفیزین برا، وہبت جریبین أرضا (میں نے دو بیگے زمین بخشی)۔
مستثنیٰ وہ اسم ہے جس کو ما قبل کے حکم سے حرف استثنا2 کے ذریعہ نکالا گیا ہو۔ جیسے: جاء نی3 القوم إلا زیدا۔
چند حروف استثنا یہ ہیں: إلا، غیر، سویٰ۔
مستثنیٰ کی دو قسمیں ہیں: متصل اور منقطع۔
مستثنیٰ متصل وہ ہے جو مستثنیٰ منہ میں داخل ہو۔ جیسے: جاء نی القوم إلا زیدا۔ اس میں زید قوم میں داخل ہے۔
مستثنیٰ منقطع وہ ہے جو مستثنیٰ منہ میں داخل نہ ہو۔ جیسے: جاء نی القوم إلا حمارا۔ اس میں حمار قوم میں داخل نہیں ہے۔
٭٭٭
بیسواں سبق
مجرورات یعنی وہ اسما جن کا اعراب جر ہے وہ دو ہیں:
۱۔ مضاف الیہ اور ۲۔ مجرور بہ حرف جر۔ یعنی وہ اسم جس پر حرف جر داخل ہونے کی وجہ سے زیر آیا ہے۔
مضاف الیہ 1وہ اسم ہے جس کی طرف کوئی بات منسوب کی گئی ہو۔ جیسے: قلم محمد۔ اس میں محمد کی طرف قلم منسوب کیا گیا ہے، اس لیے وہ مضاف الیہ ہے۔
قاعدہ: عربی میں مضاف پہلے آتا ہے اور مضاف الیہ بعد میں، اور اردو میں اس کے بر عکس ہوتا ہے۔
قاعدہ: مضاف پر ال اور تنوین نہیں آتے۔
قاعدہ: مضاف الیہ ہمیشہ مجرور ہوتا ہے اور مضاف کی حرکت عامل کے اختلاف سے بدلتی رہتی ہے۔
مجرور بہ حرف جر وہ اسم ہے جس پر حرف جر داخل ہونے کی وجہ سے زیر آیا ہو۔ حروف جر سترہ ہیں جو اس شعر میں جمع ہیں:
باؤ تاؤ کاف و لام واو منذ و مذ خلا
رب حاشا من عدا فی عن علیٰ حتیٰ إلیٰ
جیسے: مر رت2 بالمسجد، تاللٰہ لأکیدن أصنامکم، زید کالأسد، الحمد للٰہ، واللٰہ لأفعلن کذا، سرت من الہند إلی المدینۃ، ہو فی البیت، سألتہٗ عن الأمر۔
(باقی مثالیں حصہ دوم میں آئیں گی)۔
٭٭٭
اکیسواں سبق
توابع پانچ ہیں:
۱۔ صفت ۲۔ تاکید ۳۔ بدل ۴۔ عطف بہ حرف اور ۵۔ عطف بیان۔
تابع وہ دوسرا اسم ہے جس پر وہی اعراب آئے جو پہلے اسم پر آیا ہے اور اعراب کی جہت بھی ایک ہو۔ جیسے: لقیت رجلا عالما میں عالما دوسرا اسم ہے اس پر وہی اعراب آیا ہے جو رجلا پر آیا ہے اور اعراب کی جہت بھی ایک ہے کہ رجلا عالما مرکب توصیفی مفعول بہ ہیں، اس لیے عالما تابع اور رجلا متبوع کہلاتا ہے۔ 1
۱۔ صفت وہ تابع ہے جو اپنے متبوع کی اچھی یا بری حالت بیان کرے۔ جیسے: لقیت رجلا
عالما، قابلت رجلا لئیما۔ 2
اس صورت میں متبوع کو موصوف اور تابع کو صفت کہتے ہیں۔
۲۔ تاکیدوہ دوسرا اسم ہے جو پہلے اسم کو پختہ کرے کہ سامع کو شک باقی نہ رہے۔ تاکید کی دو قسمیں ہیں: تاکید لفظی اور تاکید معنوی۔
تاکید لفظی پہلے ہی لفظ کو مکرر لانا ہے۔ جیسے: جاء فرید فرید (فرید ہی آیا)۔
تاکید معنوی وہ ہے جو چند خاص لفظوں کے ذریعہ لائی جائے اور وہ الفاظ یہ ہیں: کل، أجمع، کلا، کلتا، نفس، عین وغیرہ۔ جیسے: {فسجد الملٰٓئکۃ کلہم اجمعونo}، 1 جاء الرجلان کلاہما، جائت المرأتان کلتاہما، جاء کمال نفسہٗ / عینہٗ۔
٭٭٭
بائیسواں سبق
۳۔ بدل وہ دوسرا اسم ہے جو در حقیقت مقصود ہوتا ہے، پہلا اسم مقصود نہیں ہوتا۔ پہلا اسم مبدل منہ اور دوسرا اسم بدل کہلاتا ہے۔ جیسے: سلب زید ثوبہٗ 2 اس میں ثوبہٗ بدل ہے، کیوں کہ کپڑا ہی چھینا گیا ہے۔
۴۔ عطف بہ حرف: وہ دوسرا اسم ہے جو حرف عطف کے بعد آیا ہو اور پہلے اسم کے ساتھ حکم میں شریک ہو۔ پہلا اسم معطوف علیہ اور دوسرا اسم معطوف کہلاتا ہے۔ جیسے: جاء زید وعمرو۔ حروف عطف دس ہیں: واو، ف، ثم، حتیٰ، إما، أو، أم، لا، بل اور لکن (نون ساکن)
۵۔ عطف بیان: وہ دوسرا اسم ہے جو صفت نہ ہو اور پہلے اسم کی وضاحت کرے۔ جیسے:
قال أبو حفص عمر 3 (ابو حفص یعنی حضرت عمر b نے فرمایا)۔ ابو حفص آپ کی کنیت ہے مگر آپ کا نام زیادہ مشہور ہے، اس لیے اس کو عطف بیان لایا گیا ہے۔
٭٭٭
تیئیسواں سبق
اسم معرب کا اعراب کبھی حرکت کے ذریعہ آتا ہے یعنی زبر، زیر، پیش کے ذریعہ، اور کبھی حرف کے ذریعہ، یعنی الف، و اوری کے ذریعہ۔ پھر اعراب بھی کبھی لفظی ہوتا ہے یعنی لفظوں میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی تقدیری ہوتا ہے یعنی لفظوں میں ظاہر نہیں ہوتا صرف مان لیا جاتا ہے۔
اسم معرب1 کے اعراب کی نو صورتیں ہیں:
! مفرد منصرف2 صحیح، مفرد منصرف مانند صحیح اور جمع مکسر منصرف کا اعراب لفظی حرکت کے ذریعہ آتا ہے، یعنی حالت رفعی میں پیش، حالت نصبی میں زبر اور حالت جری میں زیر آتا ہے۔
صحیح نحویوں کی اصطلاح میں وہ لفظ ہے جس کے آخر میں حرف علت نہ ہو۔ جیسے: رجل، وعد، زید۔
مانند صحیح وہ اسم ہے جس کے آخر میں و یای ما قبل ساکن ہو۔ جیسے: دلو (ڈول)، ظبی (ہرن) اس کا دوسرا نام جاری مجریٰ صحیح بھی ہے۔
مثالیں: ۱۔ ہٰذا زید، رأیت زیدا، مر رت بزید، (مفرد منصرف صحیح)۔
۲۔ ہٰذا دلو/ ظبی، رأیت دلوا / ظبیا، مر رت بدلو/ بظبی، (مفرد منصرف مانند صحیح)۔
۔ ہٰؤلاٗ رجال، رأیت رجالا، مر رت برجال (جمع مکسر)۔
@ تثنیہ، مشابہ تثنیہ لفظا یعنی اثنان اور اثنتان اور مشابہ تثنیہ معنا یعنی کلا اور کلتا (جب کہ وہ ضمیر کی طرف مضاف ہوں 3) کا اعراب بالحرف آتا ہے، یعنی رفع الف سے اور نصب وجری ماقبل مفتوح سے۔ جیسے: جاء رجلان/ اثنان/ کلاہما، رأیت رجلین/ اثنین / کلیہما، مر رت برجلین/ باثنین / بکلیہما۔
٭٭٭
چوبیسواں سبق
جمع مذکر سالم اور مشابہ جمع لفظا یعنی عشرون تا تسعون اور مشابہ جمع معنا یعنی أولو1 کا اعراب بھی بالحرف آتا ہے، یعنی رفع و ماقبل مضموم سے اور نصب وجری ماقبل مکسور سے۔ جیسے: جاء مسلمون / عشرون/ أولو مال، رأیت مسلمین/ عشرین / أولی مال، مر رت بمسلمین/ بعشرین/ بأولی مال۔
جمع مؤنث سالم کا اعراب حرکت سے آتا ہے۔ رفع پیش سے اور نصب وجر زیر سے۔ جیسے: جاء تنی مسلمات، رأیت مسلمات، مر رت بمسلمات۔
غیر منصرف کا اعراب بھی حرکت سے آتا ہے۔ رفع پیش سے اور نصب و جر زبر سے۔ جیسے: جاء عمر، رأیت عمر، مر رت بعمر۔
اسمائے ستہ مکبرہ 2 یعنی أب، أخ، حم (دیور)، ہن (شرم گاہ)، فم 3 (منہ)، ذو (والا)۔
جب یہ چھ اسم یمتکلم کے علاوہ کسی اور کلمہ کی طرف مضاف 4 ہوں تو ان کا اعراب بالحرف آتا ہے۔ رفع و سے، نصب الف سے اور جری سے۔ جیسے: ہٰذا أبوک/ أخوک/
حموک/ ہنوک / فوک/ ذو مال۔
رأیت أباک/ أخاک/ حماک/ ہناک/ فاک/ ذا مال۔
مر رت بأبیک/ بأخیک/ بحمیک/ بہنیک/ بفیک/ بذی مال۔
٭٭٭
پچیسواں سبق
اسم مقصور کا اور اس اسم کا جوی متکلم کی طرف مضاف ہو اعراب تقدیری ہوتا ہے یعنی تینوں حالتوں میں اعراب ظاہر نہیں ہوتا۔ جیسے: جاء موسیٰ/ غلامی۔ رأیت موسیٰ/ غلامی، مر رت بموسیٰ / بغلامی۔
* اسم منقوص کے دو اعراب تقدیری ہوتے ہیں، یعنی رفع اور جر لفظوں میں ظاہر نہیں ہوتے اور اس پر نصب لفظی آتا ہے۔ جیسے: جاء القاضی، رأیت القاضی، مر رت بالقاضی۔
( جمع مذکر سالم کی جبی متکلم کی طرف اضافت ہو تو رفع و تقدیری سے اور نصب وجری ما قبل مکسور سے آتے ہیں۔ جیسے: ہٰؤلاء مسلمی، 4 رأیت مسلمی، مر رت بمسلمی۔ 5
چھبیسواں سبق
ہر فعل عامل ہوتا ہے اور عمل کے اعتبار سے فعل کی دو قسمیں ہیں: معروف اور مجہول۔
فعل معروف وہ فعل ہے جس کا فاعل معلوم ہو۔ جیسے: أکل خالد۔
فعل مجہول وہ فعل ہے جس کا فاعل معلوم نہ ہو۔ جیسے: أکل الخبز۔
پھر فعل معروف کی دو قسمیں ہیں: لازم اور متعدی۔
فعل لازم وہ فعل ہے جو فاعل سے پورا ہو جائے، مفعول کی اس کو حاجت نہ ہو۔ جیسے: جلس جمیل۔
فعل متعدی وہ فعل ہے جو فاعل سے پورا نہ ہو، مفعول کی بھی اس کو حاجت ہو۔ جیسے: ضرب الأستاذ التلمیذ (استاذ نے شاگرد کو مارا)۔
قاعدہ: فعل معروف خواہ لازم ہو یا متعدی، فاعل کو رفع دیتا ہے۔ جیسے: قام زید، ضرب زید بکرا۔
قاعدہ: فعل معروف متعدی سات اسموں کو نصب دیتا ہے۔ پانچ مفعولوں کو اور حال کو اور تمیز کو۔ اور فعل معروف لازم مفعول بہ کے علاوہ باقی چھ اسموں کو نصب دیتا ہے۔
قاعدہ: فعل مجہول فاعل کے بجائے مفعول بہ کو رفع دیتا ہے اور باقی مفعولوں کو نصب دیتا ہے۔ جیسے: ضرب1 زید یوم الجمعۃ أمام الأمیر ضربا شدیدا فی دارہٖ تأدیبا۔
٭٭٭
ستائیسواں سبق
پانچ اسما بھی فعل کی طرح عمل کرتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:
۱۔ مصدر۔ ۲۔ اسم فاعل۔ ۳۔ اسم مفعول۔ ۴۔ صفت مشبہ اور ۵۔ اسم تفضیل۔
۱۔ مصدر وہ اسم ہے جس سے تمام افعال نکلتے ہیں، یہ اپنے فعل کی طرح عمل کرتا ہے۔ یعنی اگر اس سے نکلنے والا فعل لازم ہے تو مصدر صرف فاعل کو رفع دے گا اور اگر فعل متعدی ہے تو مصدر فاعل کو رفع اور مفعول کو نصب دے گا۔ مگر اکثر اپنے پہلے معمول کی طرف
مضاف ہو کر مستعمل ہوتا ہے۔ جیسے: أعجبنی1 قراء ۃ زید اور أعجبنی ضرب زید عمرا۔ 2
۲۔ اسم فاعل وہ اسم مشتق ہے جو ایسی ذات پر دلالت کرے جس کے ساتھ کوئی فعل (کام) نیا قائم ہوا ہو۔ جیسے: ضارب (مارنے والا)یہ بھی اپنے فعل معروف کے مانند عمل کرتا ہے 3 اور اکثر اپنے پہلے معمول کی طرف مضاف ہو کر مستعمل ہوتا ہے۔ جیسے: ہو 4کامل الجود، زید قائم أبوہ۔
٭٭٭
اٹھائیسواں سبق
۳۔ اسم مفعول وہ اسم مشتق ہے جو ایسی ذات پر دلالت کرے جس کے ساتھ فعل کا واقع ہونے کا تعلق ہو۔ جیسے: مضروب (مارا ہوا) یہ اپنے فعل مجہول کے مانند عمل کرتا ہے، یعنی نائب فاعل کو رفع دیتا ہے اور یہ بھی اکثر اپنے معمول کی طرف مضاف ہو کر مستعمل ہوتا ہے۔ جیسے: جاء رجل مقطوع الأنف1 (نک کٹا آیا)
۴۔ صفت مشبہ وہ اسم مشتق ہے جو ایسی ذات پر دلالت کرے جس کے ساتھ کوئی فعل مستقل قائم ہو۔ جیسے: حسن (خوب صورت) یہ اپنے فعل لازم کی طرح فاعل کو رفع دیتی ہے۔ جیسے: جاء 3رجل حسن ثیابہٗ (عمدہ کپڑوں والا آدمی آیا)۔
۵۔ اسم تفضیل وہ اسم مشتق ہے جو دوسرے کی بہ نسبت معنی فاعلیت کی زیادتی پر دلالت کرے۔ جیسے: أکبر من أخیہ (اپنے بھائی سے بڑا)۔ یہ بھی اپنے فعل کے مانند عمل کرتا ہے اور اس کا استعمال تین طرح ہوتا ہے:
۱۔ من کے ساتھ۔ جیسے: أکبر من أخیہ۔
۲۔ ال کے ساتھ۔ جیسے: جاء زید نالأفضل۔
۳۔ اضافت کے ساتھ۔ جیسے: ہو أفضل القوم۔
٭٭٭
انتیسواں سبق
افعال مدح وہ افعال ہیں جن کے ذریعہ کسی کی تعریف کی جاتی ہے۔ یہ دو ہیں: نعم اور حبذا۔ یہ دونوں اپنے فاعل کو رفع دیتے ہیں۔ جیسے: نعم الرجل عمرو، حبذا زید۔ 4
افعال ذم وہ افعال ہیں جن کے ذریعہ کسی کی برائی کی جاتی ہے۔ یہ بھی دو ہیں: بئس اور سائ، یہ بھی اپنے فاعل کو رفع دیتے ہیں۔ جیسے: بئس الرجل عمرو، ساء الرجل عمرو۔ 1
فعل تعجب وہ فعل ہے جس کے ذریعہ کسی بات پر حیرت ظاہر کی جائے۔ اس کے دو وزن ہیں: ما أفعلہٗ 2 اور أفعل بہٖ۔ ہر ثلاثی مجرد سے انہی وزنوں پر فعل تعجب بنائیں گے۔ اور ضمیر کی جگہ اس کو لائیں گے جس پر حیرت ظاہر کرنی ہے۔ جیسے: ما أکتب زیدا، 3 أکتب بزید، ما أجمل زیدا، أجمل بزید۔
نواصب مضارع: چار حرف فعل مضارع کو نصب دیتے ہیں: أن، لن، کی اور إذن۔ جیسے: أرید 4 أن أقوم، لن یذہب خالد، اجتہدت کی أفوز فی الاختبار، إذن أشکرک اس شخص کے جواب میں جو کہے کہ أنا أعطیک مالا۔
یہ شعر یاد کر لیں:
أن ولن پس کی إذن ایں چار حرف معتبر
نصب مستقبل کنند ایں جملہ دائم اقتضا 5
٭٭٭
تیسواں سبق
جوازم مضارع: پانچ حروف فعل مضارع کو جزم دیتے ہیں: إن، لم، لما، لام امر اور لائے نہی۔ جیسے: إن تضربنی أضربک (اگر تو مجھ کو مارے گا تو میں بھی تجھ کو ماروں گا)، لم یضرب (نہیں مارا اس نے)، لما یضرب (اب تک نہیں مارا اس نے)، لیضرب (چاہیے کہ مارے وہ)، لا تضرب(مت مار تو)۔ یہ شعر یاد کر لیں:
إن و لم، لما ولام امر و لائے نہی نیز
پنجحرف جازم فعل اند ہریک بے دغا1
حروف عاطفہ وہ حروف ہیں جو کلمہ کو یا جملہ کو دوسرے کلمہ سے یا جملہ سے جوڑتے ہیں۔ جیسے: جاء زید و عمر و اور جاء زید و ذہب عمرو۔ حروف عاطفہ دس ہیں جو پہلے سبق ۲۲ میں بیان کیے جا چکے ہیں۔
حروف ایجاب وہ حروف ہیں جن کے ذریعہ مثبت جواب دیا جاتا ہے۔ یہ چھ حروف ہیں:
نعم (ہاں)، بلیٰ(کیوں نہیں)، إی (ہاں)، أجل (ہاں)، جیر (ہاں)، إن (بے شک)۔ جیسے: أجاء زید؟ جواب: نعم (ہاں)۔
٭٭٭
اکتیسواں سبق
حروف تفسیر وہ حروف ہیں جو اجمال کی وضاحت کرنے کے لیے لائے جاتے ہیں۔ یہ دو حروف ہیں: أی (یعنی) اور أن (کہ)۔ جیسے: الغضنفر أی الأسد (غضنفر یعنی شیر)۔
{نادینٰہ ان یٰابرٰہیملا} (پکارا ہم نے اس کو کہ اے ابراہیم!)
حروف مصدریہ وہ حروف ہیں جو فعل کو مصدری معنیٰ میں یا جملہ کو مصدر کی تاویل میں کرتے ہیں۔ یہ تین حرف ہیں: ما، أناور أن۔ جیسے: علمت أنک قائم (میں نے آپ کا کھڑا ہونا جانا)۔
حروف استفہام وہ حروف ہیں جن کے ذریعہ کوئی بات دریافت کی جاتی ہے۔ یہ دس حروف ہیں: أ (کیا)، ہل (کیا) ما (کیا)، من (کون)، أی (کون سا) اور اس کا مؤنث أیۃ (کون سی)، متیٰ (کب)، أیان (کب)، أنیٰ (جہاں)، أین (کہاں)۔
٭٭٭
بتیسواں سبق
حروف تاکید وہ حروف ہیں جن کے ذریعہ کلام میں تاکید پیدا کی جاتی ہے۔ یہ دو حرف ہیں: نون تاکید (ثقیلہ و خفیفہ) اور لام تاکید (مفتوح)۔ جیسے: لیضربن (البتہ ضرور مارے گا وہ ایک مرد) إن زیدا لقائم (بے شک زید البتہ کھڑا ہے)۔
حروف تحضیض وہ حروف ہیں جن کے ذریعہ مخاطب کو کسی کام پر ابھارا جاتا ہے۔ یہ چار حرف ہیں: ہلا، ألا، لولا اور لوما۔ جیسے: ہلا ضربتہٗ (آپ نے اس کو مارا کیوں نہیں ؟)
حروف ندا وہ حروف ہیں جن کے ذریعہ مخاطب کو اپنی طرف متوجہ کیا جاتا ہے۔ یہ پانچ حروف ہیں: یا (قریب، بعید اور متوسط کے لیے)، أیا، ہیا (بعید کے لیے)، أی، ہمزہ مفتوحہ (قریب کے لیے)۔ جیسے: یا زید / رجل (اے زید/ آدمی)۔
حروف زیادت وہ حروف ہیں جن کے معنی کچھ نہیں ہوتے، ان کو کلام میں زینت کے لیے لایا جاتا ہے۔ یہ آٹھ حروف ہیں۔
إن، أن، ما، لا، من، ک، ب، ل۔ جیسے: ما إن زید قائم (زید کھڑا نہیں ہے) {فلما ان جاء البشیر} (پس جب خوش خبری دینے والا آیا)۔ باقی مثالیں حصہ دوم میں آئیں گی۔
٭٭٭
تینتیسواں سبق
حروف شرط وہ حروف ہیں جو ایک بات کو دوسری بات پر معلق کرنے کے لیے لائے جاتے ہیں۔ جیسے: إن تضربنی أضربک (اگر تو مجھے مارے گا تو میں بھی ماروں گا)۔ حرف شرط یہ ہیں: إن (اگر)، لو (اگر)، أما (رہے)، من (جو شخص)، ما (جو چیز) وغیرہ۔
قاعدہ: إن مستقبل کے لیے ہے اگر چہ ماضی پر داخل ہو۔ جیسے: إن ضربت ضربت (اگر تو مارے گا تو میں بھی ماروں گا)۔
قاعدہ: لو ماضی کے لیے ہے اگر چہ مضارع پر داخل ہو۔ جیسے: لو تضرب أضرب (اگر تو مارتا تو میں بھی مارتا)۔
قاعدہ: أما اجمال کی تفصیل کے لیے ہے۔ جیسے: الناس سعید وشقی: أما الذین سعدوا ففی الجنۃ، وأما الذین شقوا ففی النار۔ (لوگ نیک بخت اور بد بخت ہیں، رہے نیک بخت تو وہ جنت میں ہوں گے اور رہے بد بخت تو وہ دوزخ میں ہوں گے)۔
حروف تنبیہ: وہ حروف ہیں جو مخاطب کی غفلت دور کرنے کے لیے لائے جاتے ہیں تاکہ وہ بات اچھی طرح سنے۔ یہ تین حروف ہیں: ألا، أما، ہا۔ جیسے: {الا بذکر اللٰہ تطمئن القلوب} (سنو! اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے)، أما ہٰذا الکتاب سہل جدا۔ (سنو! یہ کتاب بہت ہی آسان ہے)، ہا قد تم الکتاب (دیکھو! کتاب پوری ہو گئی)۔
٭٭٭
ماخذ: مکتبہ جبرئیل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
Asan Nahw Part 1 Complete Text - by Mufti Saeed Palanpuri