Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS

Learn Hindi [Devanagari] through Urdu - Chapter 3

Learn Hindi [Devanagari] through Urdu - Chapter 3
ہندی (دیوناگری) رسم الخط بذریعۂ اردو ٹیوٹوریل از شکیب احمد

سبق ۳

آداب عرض ہے!
ہندی رسم الخط سیکھنے کے تیسرے سبق میں آپ آ پہنچے ہیں۔
ہم نے ۱۰  دس حروفِ علت میں سے۶ چھ اب تک پڑھ لیے ہیں۔ ذرا دہرائیے تو آپ نے کون سے چھ vowels سیکھے ہیں؟ 
اَ a
آ aa
اِ इ   i
ای ई   ee
اُ u
اُوऊ   oo
اور ان کی ماترائیں بھی تو سیکھی ہیں۔۔۔ وہ بھی یاد ہیں یا نہیں؟ کیونکہ ہم ماتراؤں کا استعمال حروف کی بہ نسبت زیادہ کرتے ہیں۔
اس سبق میں ہم سیکھیں گے صرف ۲ حروفِ علت اور ۴ حروفِ صحیح۔ تو آئیے، شروع کرتے ہیں۔
۲ حروفِ علت: 
اے e
یائے معروف کے لیے آپ نے کون سا حرفِ علت پڑھا تھا؟ وہ جس سے ”ای ی ی ی “ کی آواز نکلتی ہے؟ جی ہاں! ”ایई ee“ جس کی ماترا حرفِ علت کی دائیں جانب لگائی جاتی ہے۔ مثلاً ”ت“ کو ”تی“ کرنا ہو تو اس میں ” ई“ کی ماترا لگائی جائے گی۔ کچھ اس طرح ”ती“۔
آپ کو یاد ہوگا کہ ”ای“ کی ماترا کے وقت ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ یائے ”مجہول“ کے لیے ایک الگ حرفِ علت ہندی میں موجود ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح اردو میں ”ای“ کی آواز کے لیے ”ی“ اور ”اے“ کی آواز کے لیے ”ے“ کا استعمال ہوتا ہے، اسی طرح ہندی میں بھی دو الگ حروف استعمال ہوتے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اردو میں ”ی“ یا ”ے“ اگر  لفظ کے درمیان میں آجائے تو دونوں کی شکل ایک جیسی ہوتی ہے۔ 
مثلاً : ۱۔ کیل 
۲۔ کیلا
مثال ۱ میں ”ی“ معروف درمیان میں آئی ہے۔ (کی ل)
مثال ۲ میں ”ے“ مجہول درمیان میں آئی ہے۔ (کے لا)
لیکن دونوں کی اشکال میں کوئی فرق نہیں۔ 
جبکہ ہندی میں آواز ”ای“ اور ”اے“ کی اشکال میں ہمیشہ فرق رہے گا۔ یعنی لفظ کے درمیان میں (مثلاً ماترا کی شکل میں) استعمال ہونے پر دونوں کی اشکال الگ ہی رہتی ہیں۔
خیر! تو ہم بات کر رہے تھے ہمارے نئے حرفِ علت ”ए “ کی۔
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ پہلے دائیں طرف ایک عمودی/کھڑی لکیر کھینچیں جس کا اختتامی سرا ہلکا سا بائیں جانب اندر مڑا ہوا ہو۔
۲۔ پھر بائیں طرف  بالکل مساوی لمبائی کی عمودی لکیر کھینچیں، اور اس لکیر کو نیچے کی سمت دائیں جانب ترچھا بڑھا دیں۔ (مرحلہ ۲ کی  دونوں لکیریں بغیر قلم اٹھائے بنتی ہیں)
کیسا رہا؟ اس حرف کی شکل دیکھ کے یوں  لگتا ہے جیسے کوئی "لنگڑی" کھیل رہا ہو۔
”اے ए “ کی ماترا:  ◌े
جس حرفِ صحیح consonant کو ”اے“ کی آواز دینا ہو، اس کے اوپر ایک ترچھی لکیر ڈال دیں۔ (یہ ”اے“ کی ماترا ہے۔) مثلاً ”د“ کو ”دے“ کرنے کے لیے ”द“ پر ”اے“ کی ماترا کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس طرح ”दे“۔ 
مثالیں(”ए “ اور ” ए “ کی ماترا):
۱۔  ایدھی एधी edhee
۲۔تھے थे the 
۳۔ بے نام बेनाम benaam
آخری مثال میں ”م“ کا حرف خوب اچھی طرح یاد کرلیا تھا یا نہیں؟ پوچھنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ ”م“ یعنی ”म“ اور ”بھ“ یعنی ”भ“ دونوں کی شکل میں بہت ہلکا سا فرق ہے جسے پچھلے سبق میں واضح کر دیا گیا تھا۔ 
چلیے۔ دوسرا حرفِ علت دیکھتے ہیں۔
اَے ai
شکل تو بہت آسان ہے۔پچھلے حرفِ علت اور اس میں   کیا فرق نظر آ رہا ہے؟
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ ए کے اوپر بائیں جانب سے نیچے کی طرف ایک ترچھی لکیر کھینچ دیں۔
یاد رکھنے کا طریقہ:
ए میں ए کی ماترا (یعنی ◌े) کا اضافہ کر دیں۔ یہی اصول ऐ کی ماترا کے یاد رکھنے کے لیے بھی کارآمد ہوگا۔
اَے ऐ کی ماترا: ◌ै
کسی بھی حرفِ صحیح consonant  کو ”اَے“ کی آواز دینے کے لیے اس پر دو ترچھی لکیروں کا اضافہ کر دیں جو ایک ہی نقطہ پر آکر ملتی ہوں۔ مثلاً حرف ”م“ یعنی ”म“ کو ”مَے“ کرنے کے لیے اس پر اس طرح ” ऐ “ کی ماترا ڈالیں گے۔ ”मै“
مثالیں(ऐ اور ऐ کی ماترا):
۱۔ ایمن ऐमन aiman
۲۔ میدان मैदान maidaan
۳۔ پیمانہ(ہ=ا) पैमाना paimaanaa
بہت خوب!  یہ ہوئے اس سبق  کے حروفِ علت۔ اب چلتے ہیں حروفِ صحیح کی جانب۔  ایک یاد دہانی اور کراتا چلوں! جس طرح ہم نے سبق – ۲ میں "پھफ" کے نیچے ایک نقطہ لگا کر اسے "فफ़" بنا دیا تھا، یہ نقطہ کا جادو یہاں بھی چلے گا۔
چار حروفِ صحیح:
کَ/ق   ka
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ ایک عمودی/کھڑی لکیر کھینچیں۔
۲۔ لکیر کے درمیان میں قلم رکھ کر  بائیں جانب ایک قوس کھینچیں اس طرح کہ عمودی لکیر قوس کا "منہ بند" کر دے۔
۳۔ بغیر قلم اٹھائے دائیں جانب بھی قوس کھینچیں جس کا منہ کھلا ہوا ہو۔
ک क کی شکل دیکھیے۔ ایک بار پھر دیکھیے۔ بائیں قوس کا منہ بند، دائیں قوس کا منہ کھلا ہوا۔ اب یہ مت پوچھ لیجیے گا کہ دائیں قوس کا بھی منہ بند کیوں نہیں کیا گیا؟ بھئی ہو سکتا ہے کہ بائیں قوس  "عمودی لکیر" کی بیوی اور دائیں قوس محبوبہ ہو۔ 
ک لکھنا تو آپ سیکھ گئے، اب مثالیں دیکھ لیجیے، جن میں ابھی ابھی سیکھے گئے حروفِ علت "اے ए " اور "اَے ऐ "اور ان کی ماتراؤں  کا بھی استعمال ہے۔
۱۔ کام काम kaam
۲۔ قدم क़दम kadam
۳۔ ایک एक ek
۴۔ قیدی क़ैदी kaidee
چلیے جناب۔ یہ حرف سیکھنے کے بعد  آپ کو "کام" لکھنا تو آگیا، اب کچھ کر بھی دکھائیے۔
اگلے حرف کی جانب چلتے ہیں جو کہ ک میں "ھ" کے اضافے سے حاصل ہوگی۔
کھَ/خ kha
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ اوپر بائیں جانب سے شروع کرتے ہوئے نیچے کی جانب ایک چھوٹا قوس بنائیں۔
۲۔ بغیر قلم اٹھائے ایک قدرے بڑا قوس طشتری کی ماننددائیں جانب  پھیلا کر بنائیں۔
۳۔ دائیں جانب ایک عمودی لکیر یوں کھینچیں کہ "طشتری" کا دایاں سرا اس سے جا ٹکرائے۔
۴۔ عمودی/کھڑی لکیر کے بائیں طرف قوس بنائیں جس کا منہ عمودی لکیر بند کردے۔
نہیں! اب اس شکل میں بھی "بہت آسان ہے" نہیں کہوں گا۔ لیکن بہت مشکل بھی نہیں ہے۔ تھوڑا وقت لگے گا ذہن نشین کرنے میں، لیکن ہو جائے گا۔ مثالیں دیکھ لیجیے، ابھی یاد ہو جائے گا۔
مثالیں:
۱۔ کھیتی khetee खेती
۲۔ کھانا khaanaa खाना
۳۔ خفا khafaa ख़फ़ा
آخری مثال میں نقطے نے"کھख" کو "خ"سے  اور "پھफ" کو "ف" سے بدل کر دو مرتبہ جادو دکھایا ہے۔ 
اگلا حرف دیکھیے۔
گَ ga
اس میں لکھنے کا طریقہ واقعی دیکھا بھالا لگ رہا ہوگا؟
لکھنے کا طریقہ: 
۱۔ ایک عمودی / کھڑی لکیر کھینچیں اور اس کے سرے پربغیر قلم اٹھائے بائیں طرف ایک چھوٹا دائرہ(یا مثلث) بنادیں۔ 
۲۔ دائیں جانب ایک نسبتاً بڑی لکیر کھینچ دیں۔
مثالیں:
۱۔ گانا gaanaa गाना
۲۔ گائے gaae गाए
بہت خوب! اب آج کے سبق کا آخری حرف دیکھ لیجیے۔
گھَ/غ gha
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ انگریزی کا الٹا 3 بنائیں جو بائیں جانب ذرا سا جھکا ہوا ہو۔
۲۔دائیں جانب ایک عمودی لکیر کھینچ دیں۔
مثالیں:
۱۔ گھُپ ghup घुप
۲۔ گھی ghee घी
ابہام کا ازالہ ۱:
گھُپ دیکھ کر آپ کچھ کنفیوژ تو نہیں ہو گئے؟ کوئی بات نہیں، شروع میں کچھ کنفیوژن تو چلتا ہی ہے۔ کنفیوشس نے کہا تھا-
" سیکھنے کے دوران آنے والا کنفیوژن یہ یقینی بناتا ہے کہ آپ بہت جلد سیکھنے کا عمل مکمل کر لیں گے، بشرطیکہ آپ سیکھنا جاری رکھیں۔"
سبق – ۲ کی مشق میں ایک لفظ "دھوپधूप " آپ کو ہندی میں لکھ کر اسے انگریزی اور اردو میں لکھنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب ذرا "دھوپ" اور "گھپ" کا موازنہ دیکھ لیجیے۔
धूप
घुप
"اُउ" اور "اُوऊ" کی ماترا پہچاننے میں تو آپ ماہر ہیں، ہمیں  پتہ ہے اس میں کوئی غلطی نہیں کریں گے۔ توجہ دلانے کا مقصد "دھ " اور "گھ" کی ملتی جلتی اشکال ہیں۔یاد رکھیں۔ اگر شروع میں چھوٹا سا دائرہ ہے تو وہ "دھध" ہے، ورنہ "گھघ "۔
ابہام کا ازالہ ۲: 
خبردار! "بھ" اور" م" کی اشکال کے لیے یہ تیسری بار یاد دہانی ہو رہی ہے۔ اگر اب بھی یہ یاد نہ ہوا تو کہیں آپ نکھٹو شاگردوں میں نہ شامل ہو جائیں!
"بھभ" ، "مम" اور "گग"، تینوں کی اشکال کافی حد تک ملتی جلتی ہیں۔ اس میں کنفیوژن ہو تو یاد رکھنے کے لیےابھی ابھی سیکھے گئے حرف "گग" کو بنیاد بنا لیں۔
۱۔ "گग" کے چھوٹے دائرہ/مثلث اور دائیں جانب کی کھڑی لکیر کو ملانے پر "مम" حاصل ہوگا۔
۲۔ اور "مम " کی شروع میں ایک چھوٹے دائرے سے "بھभ" حاصل ہوگا۔
اشکال ایک بار پھر دیکھ لیں، ذہن نشین کر لیں۔ "گग"، "مम"، "بھभ"۔
اب تو کوئی ابہام نہیں؟
چلتے چلتے کنفیوشس والے اقتباس کے بارے میں جان لیجیے کہ وہ در اصل کنفیوشس کا نہیں ہے۔ہاں  اگر آپ ہمیں کنفیوشس ماننے کو تیار ہیں تو پھر انہیں کا ہے۔ آپ ہی بتائیے، ایسا نصیحت آمیز جملہ اگر ہم براہِ راست سبق کے درمیان شامل کرتے تو آپ کی جمائی کا ذمہ دار کون ہوتا؟ کنفیوشس کے نام کی وجہ سے آپ نے اسے کتنی غور سے پڑھا۔ ہمارا  نام ہوتا تو۔۔۔
خیر! اب آپ مشق کے ساتھ دو دو ہاتھ کریں،  ہم چلتے ہیں۔ اگلے سبق میں ملاقات ہوگی۔
والسلام!
مشق:
۱۔ اپنے کسی دوست کو ہندی میں "گدھے" لکھ کر بھیجیے۔ (ہم منتظر رہیں گے)
۲۔ ذیل کے الفاظ کو ہندی اور انگریزی رسم الخط میں لکھیے۔
عیب، باغی، خوفناک، غبن
۳۔ "کب کام آؤ گے بھائی؟"
"بھون کے مت کھا!"
اوپر لکھے دونوں جملے ہندی رسم الخط میں لکھیے۔
۴۔ ذیل کے ہندی متن کو اردو رسم الخط کا جامہ پہنائیے۔
मई की धूप
आख़ थू!
तू गाना गाता था?
۵۔ بلا کسی ہچکچاہٹ کے سبق پر تبصرہ و تنقید سے نوازیں کہ کس پہلو پر زیادہ زور دیا جانا چاہیے؟ طریقہ کار میں کیا تبدیلی کی جا سکتی ہے جس سےآپ کے لیے  سیکھنا اور آسان ہو سکے؟ کوئی تجویز جو سیکھنے کے عمل میں معاون ثابت ہو؟  سبق کا کون سا حصہ آپ کو مشکل لگتا ہے؟
 ٭٭٭

Learn Hindi [Devanagari] through Urdu - Chapter 2

Learn Hindi [Devanagari] through Urdu - Chapter 2

ہندی (دیوناگری) رسم الخط بذریعۂ اردو ٹیوٹوریل از شکیب احمد

سبق ۲

سر بکف کی اشاعت کی مصروفیت(جسے پہلے ہی ہفتہ بھر تاخیر ہو چکی تھی) کے سبب ہم یہاں کا  سبق جلد پیش نہیں کر سکے، اس کے لیے ہماری جانب سے دلی معذرت قبول فرمائیں۔ لیکن اس تاخیر کا ازالہ کرنے کے لیے اس سبق میں ۲ کی بجائے ۴ حروفِ علت مزید شامل کیے ہیں۔
آپ لوگوں کے سیکھنے کی رفتار اور امنگ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ کیا یہ بات آپ کو عجیب نہیں لگتی کہ وہ رسم الخط جو پاکستان والے”ذرا“ سی محنت سے محض چھ یا سات اسباق میں سیکھ سکتے ہیں، اسے اب تک آپ سے دور کیوں رکھا گیا ہے؟ یا یہ کہ ہندوستانی فلموں میں تھوک کے بھاؤ سے اردو الفاظ استعمال کرنے کے باوجود عوام کو اردو سے کیوں دور رکھا گیا ہے؟   ہند و پاک کی سیاست نے عوام کی دوریاں بڑھا دی ہیں۔ یہ اسباق بھی انہیں دوریوں کو مٹانے کی ایک کوشش ہے۔
چلیے! بہت باتیں ہو گئیں۔ اگلے سبق کی جانب چلتے ہیں۔
اس سبق میں ہم ہندی کے مزید ۴ حروفِ علتVowels اور ۵ حروفِ صحیح Consonants سیکھیں گے۔ 
۴ حروفِ علت( Vowels)
اِ
इ 
i
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ ایک بہت ہی مختصر سی عمودی/کھڑی لکیر کھینچیں۔
۲۔ انگریزی کا sبنائیں۔
۳۔ آخر میں ایک ”دُم“ بنا دیں۔ خیال رہے کہ پورا حرف لکھتے وقت ایک بھی مرتبہ قلم کاغذ سے اٹھنا نہیں چاہیے۔
یہ زیر کی حرکت ہے۔ اس کی مثالیں دیکھیے۔
۱۔ اِتنا इतना itnaa
۲۔ عِناد इनाद inaad
 آپ نے پہلے سبق میں پڑھا ہے، یاد دہانی کے لیے دہرا لیجیے۔ اگر حروفِ علت کو  کسی حرفِ صحیحconsonant کے ساتھ استعمال کرنا ہو تو دوسری اور مختصر شکل استعمال کی جاتی ہے جسے ”ماترا“ کہتے ہیں۔ مثلاً  आکودرمیان میں استعمال کرنے کے لیے आ کی ماترا(◌ा) استعمال کی جائے گی۔ جیسے दादा
इ کی ماترا: ि
غور سے دیکھیے۔ یوں لگتا ہے گویا اگلے حرف پر سایہ کیا جا رہا ہو۔ کسی بھی حرفِ صحیحconsonant پر آپ نے زیر کی حرکت ڈالنی ہے، تو آپ ”اس کے پہلے“ یہ ماترا ڈالیں گے۔
مثلاً
دِن दिन din
نِدا निदा nidaa
آسان لگا؟ اگلا حرفِ علت اس سے بھی آسان لگے گا۔
اِی/عی
ई 
ee
ई کی ماترا: ◌ी
کیا نئی بات نظر آئی؟ مجھے پورا یقین ہے کہ ”لکھنے کا طریقہ“ تو آپ خود ہی سمجھ گئے ہوں گے۔
لکھنے کا طریقہ: 
۱۔इ  بنا کر اس کے اوپر ایک”جھٹکا“ لگا دیں۔ خیال رہے، یہ جھٹکا ”چھت“ کے اوپرباہر  کی جانب ہے۔
اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ یہ ”ای“ کی آواز یائے معروف کے ساتھ ہے۔ یعنی ”ای ی ی ی ی ی ی“۔ یائے مجہول یعنی ”اے“ کے لیے الگ حرفِ علت ہے جسے ہم اگلے سبق میں نمٹائیں گے، ان شاء اللہ۔ 
ई کی ماترا بھی بالکل इ کی ماترا کی مانند ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ इ کی ماترا(ि) حرفِ صحیح consonant کے بائیں جانب تھی، اور ई کی ماترا(◌ी) دائیں جانب ہے۔
مثالیں(”ای“ اور اس کی ماترا):
۱۔ عید ईद eed
۲۔ دھنی धनी dhanee
۳۔ تین तीन teen
اگلا حرفِ علت دیکھتے ہیں۔
اُ
उ 
u
بہت ہی آسان شکل ہے۔ یہ پیش کی حرکت ہے۔
لکھنے کا طریقہ: 
۱۔ انگریزی کا 3بنادیں۔
उ کی شکل اور ہمارے سیکھے گئے پہلے حرفِ علت ” अ “  سے ملتی ہے۔ فرق واضح ہے۔  अ میں ہم 3بنانے کے بعد ایک چھوٹی افقی لکیر اور پھر ایک عمودی لکیر کا اضافہ کرتے ہیں۔ جبکہ उ میں ایسا کچھ نہیں ہے، محض انگریزی کا 3 ہے۔ اور چھت تو ہر جگہ ڈالنی ہی پڑتی ہے۔
उ کی ماترا:  ◌ु
کسی بھی حرفِ صحیحconsonantمیں◌ु کا اضافہ کرنے سے اس پر پیش کی حرکت لگ جاتی ہے۔
مثالیں(उ اور उ کی ماترا):
۱۔ اُسامہ उसामह usaamah
۲۔ دُھن धुन dhun
جس حرف پر پیش لگانا ہو اس حرف کے نیچے◌ु لگا دیں۔ 
خوب!  اگلے حرفِ علتvowel کی جانب چلیں؟ 
اُو
ऊ 
oo
یہ کیسا نظر آ رہا ہے؟ یہ در اصل उ ہی کی شکل کی دائیں جانب ایک ”جھٹکے“ کا اضافہ ہے۔
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ انگریزی کا 3 تین بنائیں۔
۲۔ دائیں جانب ایک جھٹکے کا اضافہ کر دیں۔
اُو ऊ  کی ماترا: ◌ू
ماترا بھی उ کی ماترا ◌ु کی مانند ہے۔ بس ◌ु میں جھٹکا بائیں رخ پر جاتا ہے اور ऊ   کی ماترا یعنی ◌ू میں دائیں جانب۔ یہ اردو کے ”و“ (معروف)کا متبادل ہو جاتا ہے۔
مثالیں(ऊ   اور ऊ   کی ماترا): 
۱۔ اُوبنا ऊबना oobnaa
۲۔ دودھ दूध doodh
اپنے اب تک کے سیکھے گئے حروفِ علت vowels کو ایک مرتبہ دہرائیے۔ 
اَ۔۔۔آ۔۔۔ اِ۔۔۔اِی ۔۔۔اُ۔۔۔اُو۔۔۔
a…aa…i…ee…u…oo
आ ◌ा
इ 
ि
ई ◌ी
उ ◌ु
ऊ ◌ू
اسے دہرائیے۔ اشکال کو ذہن نشین کیجیے۔ دہراتے ہوئے حروف پر اپنی نگاہ رکھیے۔
بہت خوب! اس سبق کے حروفِ علت ختم ہوئے۔ اب ہم ۵ حروفِ صحیح کی طرف چلتے ہیں۔
پَ
pa
پ کی شکل، اردو کے چھ ۶ سے ملتی ہے۔ بس اس کا اوپری حصہ انگریزی کے u کی طرح  تھوڑا زیادہ گہرا ہے۔
لکھنے کا طریقہ:
ا۔ انگریزی کا uبنائیں۔
۲۔ uکے دائیں جانب کی لکیر کو نیچے کی جانب کھینچ دیں۔ پورا حرف ایک ہی مرتبہ میں بغیر ہاتھ اٹھائے بنایا جاتا ہے۔
مثالیں:
۱۔ پتہ पता pataa
۲۔ پانی पानी paanee
۳۔ تھاپ थाप thaap
مثال ۲ میں ”نی“ آپ نے کیسے لکھا ہے؟ بالکل درست۔ یہ ”ای“ کی ماترا  ہے جو حرف کے دائیں جانب ڈالی جاتی ہے۔ 
پہلے سبق میں آپ نے جو حروف سیکھے تھے، وہ یاد کیجیے۔ ت کے بعدتھ۔ د کے بعد دھ۔ ویسے ہی، پ کے بعد؟ جی ہاں! پ کے بعد  پھ کی شکل کا حرف آئے گا۔
پھَ
pha
یہاں प میں محض دائیں طرف ایک قوس کا اضافہ نظر آتا ہے، لیکن عموماً یہ ایسے نہیں لکھا جاتا، اس کے لکھنے میں درمیان کی ”کھڑی ڈنڈی“ پہلے بنا دی جاتی ہے۔
لکھنے کا طریقہ:
۱۔  ایک عمودی لکیر/کھری ڈنڈی بنائیں۔
۲۔ بائیں طرف اوپر سے شروع کرتے ہوئے دائیں طرف نیچے تک (حرف کی شکل دیکھیے) قوس کھینچیے۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی ”پھ“ سے آپ ”ف“ کا کام بھی نکال سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کو محض پھ फ نیچے ایک نقطہ ڈالنا ہوگا۔ اس طرح۔۔۔ फ़
چنانچہ آپ ”پ“ کی شکل کو”ف“ سمیت یاد رکھ سکتے ہیں۔
(بائیں سے دائیں پڑھیے)
ف/پھَ
फ/फ़
pha/fa
اس اصول کو یاد رکھیں، کیونکہ یہ اصول ہر جگہ کام میں آئے گا۔ ک کو ق، جھ کو ز/ض/ظ، کھ کو خ، گ کو غ۔۔۔ ہر جگہ تبدیلی کے لیےحرف کے نیچے بس ایک نقطہ کافی ہے۔ بلکہ یقین کریں تو اس نقطے کا بھی ہم اردو والے ہی تکلف کرتے ہیں، ہمارا ذووق جو ٹھہرا۔ ورنہ زیادہ تر ہندی والے ”فقیر“ کو ”پھکیر“ ہی لکھتے ہیں۔ 
مثالیں دیکھیے۔
۱۔ پھن फन phan
۲۔ فَن फ़न fan
۳۔ فِدا फ़िदा fidaa
اگلے حرف کی طرف چلتے ہیں۔
بَ
ba
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ چھوٹی سی بیضوی شکل بنائیں، جو دائیں طرف سے کھلی ہوئی ہو۔
۲۔ دائیں طرف ایک عمودی لکیر کھینچ دیں جس سے بیضوی شکل کا کھلا ہوا حصہ بند ہو جائے۔
۳۔ بیضوی شکل کے درمیان میں ایک ترچھی لکیر کھینچ دیں۔ (لکیر کا آغاز اوپر سے ہو)
یہ ب ہے۔  بیضوی شکل یا دائرے کے درمیان میں ترچھی لکیر، بس اسی حرف میں آتی ہے۔اس لیے اسے پہچاننا بہت آسان ہے۔  اس کی مثالیں دیکھیے۔
۱۔ بُت बुत but
۲۔ باپ बाप baap
اگلا حرف، ظاہر ہے ب میں ”ھ“ کے اضافے کے ساتھ ہوگی۔ یعنی بھ۔ 
بھَ
bha
لکھنے کا طریقہ: 
۱۔ بہت چھوٹا سا دائرہ بنائیں۔
۲۔ دائرے کے دائیں جانب سے ایک عمودی/کھڑی لکیر کھینچ کر ایک نسبتاً چھوٹا دائرہ(یا مثلث) بنائیں۔
۳۔ مثلث کے دائیں جانب افقی لکیر کھینچیں۔ یہاں تک ایک بھی مرتبہ قلم، کاغذ سے نہیں اٹھنا چاہیے۔
۴۔ دائیں طرف ایک عمودی لکیر کھینچ دیں۔
भ کی مثالیں دیکھیے۔
۱۔ بھاپ भाप bhaap
۲۔ بھوت भूत bhoot
آسان تھا؟ بہت خوب۔اب  آج کے سبق کا آخری حرف دیکھیے۔ اور اپنی پیٹھ ٹھونکیے۔
مَ
ma
شکل میں آپ کو کیا خاص بات نظر آئی؟ صحیح سمجھے۔ بھ(भ)کی شکل  میں سے پہلا دائرہ/بیضوی شکل ہٹا دی گئی ہے۔ لکھنے کے لیے آپ بھ کے step 2 سے شروع کریں گے۔
لکھنے کا طریقہ: 
۱۔ ایک عمودی/کھڑی لکیر کھینچ کر ایک چھوٹا دائرہ(یا مثلث) بنائیں۔
۲۔ مثلث کے دائیں جانب افقی لکیر کھینچیں۔ پورے حرف بنانے میں  ایک بھی مرتبہ قلم، کاغذ سے نہیں اٹھنا چاہیے۔
مثالیں دیکھیے:
۱۔ مدد मदद madad
۲۔ دھوم धूम dhoom
دوسری مثال میں ”دھ“ کی شکل پر کون سی ماترا ہے؟ جی پہچانیے! ہم نے اسی سبق میں پڑھا ہے۔ یہ ”اُو ऊ“ کی ماترا ہے۔
بہت خوب! تو اب آپ نے یہ سبق بھی کر لیا۔ یہ سبق پچھلےسبق کی نسبت زیادہ طویل تھا، چنانچہ ہو سکتا ہے آپ کو الفاظ کی اشکال grasp کرنے میں دقت کا سامنا ہو۔ اگر ایسا ہو بھی تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس شکل کے یاد کرنے میں دقت ہو اسے لکھ کر دیکھ لیں۔ ان کے اردو متبادل ساتھ ہی لکھے ہوئے ہیں۔ ان کی مدد سے آپ با آسانی اشکال یاد کر لیں گے۔
آپ نے سبق کس حد تک سمجھا ہے، اسے جانچنے کے لیے مشق کیجیے۔ نیز یہ بھی ضرور بتائیے کہ اگلا سبق کتنے روز بعد پیش  کیا جانا چاہیے۔
اگلے سبق میں ہم  دو حروفِ علت، چار حروفِ صحیح اور ہندی میں جزم و تشدید لگانا سیکھیں گے۔
مشق ۲
1. آپ نے جو نئے  پانچ حروفِ صحیحconsonants  یاد کیے ہیں، انہیں بغیر دیکھے اپنی مشقی کاپی میں لکھیں۔ 
2. سیکھے گئے(بشمول سبق ۱ کے)  تمام حروفِ علت ان کی ماتراؤں کے ساتھ لکھیے۔
3. پھ کو ف لکھنے کے لیے ہم کیا کرتے ہیں؟ نیز اس کی مدد سے ہم اردو کے کن کن حروف کی تشکیل کر سکتے ہیں جو ہندی میں explicitly موجود نہیں۔
4. مندرجہ ذیل الفاظ کو ہندی(دیوناگری) میں لکھیے۔
بھات، نام، بھون، بدنام،تبھی، منع(اشارہ: ع کو الف کا قائم مقام مانا جائے گا)
5. مندرجہ ذیل الفاظ کے اردو اور انگریزی متبادل لکھیے۔
फ़ना, धूप, बत़न, बिना, बधाई
6. سبق سے بین السطور آپ نے کیا بات اخذ کی جسے آپ اس سبق کو  یاد رکھنے یا  سمجھنے کے لیے معاون سمجھتے ہیں؟
٭٭٭

Learn Hindi [Devanagari] through Urdu- Chapter 1

Learn Hindi [Devanagari] through Urdu- Chapter 1

ہندی (دیوناگری) رسم الخط بذریعۂ اردو ٹیوٹوریل از شکیب احمد
سبق ۱

نوٹ۱: ذیل کی تحریر  میں ”اعراب“ کا استعمال کیا گیا ہے۔ اگر آپ زبر، زیر، پیش اور دیگر علامات جیسے تشدید، جزم وغیرہ نہیں دیکھ پا رہے ہیں تو یہ آپ کے سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ 
نوٹ ۲: جو حضرات دیوناگری رسم الخط سے واقف ہیں انہیں بتا دوں کہ میں روایتی طریقے سے تھوڑا خلاف نظر آؤں(مثلاً حروف تہجی کی ترتیب، کچھ حروف کا حذف کرنا وغیرہ) تو اسے میری creativity پر محمول کیجیے گا۔ کچھ حروف جو عام بول چال میں استعمال نہیں ہوتے، انہیں شروع میں مبتدیوں کو نہیں بتایا جائے گا، تاکہ وہ پریشان نہ ہوں۔ حتی الامکان آسان طریقہ اپنانے کے لیے کنفیوزن پیدا کرنے والی صورتوں کو شروع میں پیش نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ اصل مقصد سیکھنا ہے،اور اس کے لیے ضروری نہیں کہ ”کورس بک سکوینس“ ملحوظ رکھی جائے۔  بعد میں ان شاء اللہ قاری کی  استعداد کے مطابق  اسباق کے کچھ کڑوے گھونٹ پلائے جا سکتے ہیں۔
نوٹ ۳: سبق میں کسی قسم کی الجھن کے متعلق سوال کرنے کے لیے اپنے مراسلے کے شروع میں ”الجھن“ کا عنوان قائم کریں۔ اسی طرح جب مشق کا حل پیش کرنا ہو تو ”مشق (نمبر) “ کا عنوان قائم کریں۔ مشق کے لیے کاغذ اور قلم کا استعمال کریں اور مذکورہ صفحے کا اسکین/موبائل سے فوٹو لے کر شامل کر دیں۔ یہ ممکن نہ ہو تو ”مائکرو سافٹ پینٹ MS Paint“ میں ”پینٹ برش“ لے کر مشق کریں اور وہ تصویر شامل کریں۔ 
نوٹ ۴: ”ٹیوٹوریل“ کے مراسلے کو بقیہ مراسلوں سے نمایاں کرنے کے لیے اس پر سرخ رنگ کے پھولوں کی قطار لگائی جائے گی۔ جیسا کہ آپ اس مراسلے کے شروع میں دیکھ رہے ہیں۔
ہندی / دیوناگری رسم الخط سیکھنا آسان کیوں ہے؟
اردو کے مقابلے میں ہندی رسم الخط سیکھنا نہایت آسان ہے۔ اس کی وجہ وہ ہے جسے ہم انگریزی میں ”شارٹ واویل Short Vowel“ کے نام سے پکارتے ہیں۔ 
اردو/فارسی کی تحاریر میں الفاظ پر اعراب نہیں لگائے جاتے۔ ہم اردو کی تحریر پڑھتے ہوئے الفاظ پر مناسب زبر، زیر وغیرہ خود بخود لگا لیتے ہیں۔ اعراب لگانے کے عمل میں ہم سیاق و سباق کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ مثلاً:
۱۔ لفظ  ”پر“ کو ”پَر“ یا ”پُر“ پڑھنا
۲۔ لفظ”مُشدّد“ میں ”د“ پر تشدید لگانا۔ 
۳۔ لفظ ”بِعَیْنِہٖ“(جو در اصل عربی لفظ ہے) کو ”بِ عَی نِ ہٖ“ پڑھنا۔ حالانکہ اسی لفظ کو کئی اور (غلط) تلفظ کے ساتھ بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
عربی کی تحاریر پر ہمارے یہاں اعراب کا رواج ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جس طرح ہم اردو میں اعراب نہیں لگاتے، ویسے ہی عرب، عربی کی کتب میں اعراب کا استعمال نہیں کرتے۔ یا کرتے بھی ہیں تو شاذ ہی،اس صورت میں کہ کتاب عجمیوں کے لیے لکھی جا رہی ہو۔
چنانچہ یہاں یہ بات صاف ہوئی کہ اردو(بشمول فارسی/عربی)  رسم الخط سیکھنا ہندی کی بہ نسبت  قدرے دشوار ہے۔ 
ٹیوٹوریل میں موجود رسم الخط
اس ٹیوٹوریل میں تین رسم الخط استعمال کیے جائیں گے۔
۱۔ عربی
عربی رسم الخط/اسکرپٹ دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے۔ اس میں اردو، عربی، اور فارسی جیسی زبانیں شامل ہیں جن سے ہم واقف ہیں۔
 آپ یہ ٹیوٹوریل اسی ”عربی“ رسم الخط میں پڑھ رہے ہیں۔
۲۔ دیوناگری 
یہ ایک قدیم رسم الخط ہے۔ ہندی اور مراٹھی سے قبل یہ سنسکرت کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اسی نسبت سے اس رسم الخط کو سنسکرت رسم الخط بھی کہتے ہیں۔ یہ انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں لکھا جاتا ہے۔
یہ ٹیوٹوریل اسی رسم الخط کے سیکھنے کے بارے میں ہے۔
۳۔ رومن
رومن اسکرپٹ میں بہت سی زبانی لکھی جاتی ہیں جن میں سرِ فہرست ”انگریزی“ ہے۔ یہ بھی بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہے۔
ہر چند کہ اردو کی مدد سے آپ کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی، لیکن ٹیوٹوریل کے دوران جب بھی مثالیں پیش کی جائیں گی، تو رومن اسکرپٹ کا استعمال بھی کیا جائے گا تاکہ کوئی ابہام یا اشکال باقی ہو(جو اردو میں اعراب نہ دیکھ سکنے  کی وجہ سے بعید از قیاس نہیں) تو رفع ہو سکے۔
ان تینوں اسکرپٹس کے نمونے ملاحظہ ہوں۔
عربی رسم الخط کا نمونہ: ہندی آسان ہے۔
دیوناگری رسم الخط کا نمونہ: हिंदी आसान है.
رومن رسم الخط کا نمونہ:Hindi aasaan hai.
ٹیوٹوریل کے دوران مثالیں انہیں  تینوں رسم الخط   میں اور اسی ترتیب سے دی جائیں گی۔ یعنی پہلے اردو، پھر ہندی اور پھر انگریزی۔ رسم الخط کی مناسبت سے کہیں تو پہلے عربی، پھر دیوناگری اور پھر رومن۔
اس سبق میں ہم ہندی کے ۲ حروفِ علتVowels اور ۵ حروفِ صحیح Consonants سیکھیں گے۔ 
پہلے دو۲ حروفِ علت( Vowels)
”اَ“अ اور ”آ“आ
سب سے پہلے تو اپنے آپ کو شاباش دے دیں کہ آپ نے بالآخر اس پہلے سبق میں قدم رکھ ہی دیا ہے۔ اور یقین کریں تو اردو زبان سے واقف ہونے کی وجہ سے ہندی سیکھنا آپ کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ مزے کا کھیل ہے اور یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ حروف کو  کتنا یاد رکھتے ہیں اور  ان کی شکلیں ذہن نشین کرتے ہیں۔  بچوں کو آپ دیکھ لیں۔ جب حروفِ تہجی پڑھاتے ہیں تو انہیں پہلے حروف کی شکلیں ہی یاد کرائی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ کا حروف کی شکلوں کو یاد رکھنا بڑا اہم ہے۔
نوٹ کیجیے  کہ ہندی میں جو حروفِ علت یعنی vowelsہیں، ان کی بھی وہی خاصیت ہے جو اردو کے حروفِ علت کی ہے۔ یعنی ہر حرفِ علت vowel کو ۲ طرح لکھا جا سکتا ہے۔
آپ کو علم ہے کہ اردو میں حروف کی ”تین“ شکلیں ہوتی ہیں، اس مطابقت سے کہ وہ لفظ میں کہاں واقع ہوا ہے۔
۱۔ شروع میں۲۔  درمیان/بیچ  میں۳۔  اخیر میں۔
جبکہ ہندی میں حروف کی صرف ”دو“ ہی اشکال ہوتی ہیں۔ ایک ”شروع“ اور دوسرا ”درمیان یا اخیر“۔ یعنی ہندی میں حروفِ علت اگر لفظ کے شروع میں آئیں، تو ہمیشہ ”مکمل“ شکل میں آئیں گے۔  اگر لفظ کے شروع میں نہ آئیں، تو ”ادھوری“ شکل میں آئیں گے۔ 
اس ادھوری شکل کو ”ماترا“ کہتے ہیں۔ 
قوی امید ہے کہ اوپر کی بحث ذرا خشک گزری ہوگی، اور آپ بوریت کے مارے جمائیاں لینے لگے ہوں گے۔ چلیے شروع کرتے ہیں ہمارا پہلا سفر  ہندی کے پہلے حرفِ علت  کی طرف۔
اَ a
یہ زبر کی حرکت ہے۔ اس کی شکل کو دیکھیں۔ یوں گویا انگریزی کے 3 کے ساتھ ایک Tملا دیا گیا ہو اور درمیان میں ایک چھوٹی سی  افقیhorizontalلائن سے اسے جوڑ دیا گیا ہو۔
اوپر جو افقیhorizontal لکیر کھینچی جا رہی ہے، وہ محض ”چھت“ ہے۔ ان کی وجہ سے حروف خوبصورت نظر آتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔ جماعت ”دہم“ کا امتحان دیتے وقت ہم یہ ”چھت“ نہیں ڈالا کرتے تھے۔(کیونکہ کاپی پر لکیر پہلے ہی سے کھنچی ہوتی ہے)۔ در اصل اس اوپری لکیر یعنی چھت کے کھینچنے میں وقت برباد ہوتا لگتا تھا۔ لیکن بہتر یہی ہوگا کہ آپ اس ”چھت“ کے ساتھ لکھیں اور ہماری طرح کی ”کاہلی“ سے اجتناب کریں۔ آپ کو تمام ہندی متن اس چھت کے ساتھ ہی ملے گا۔ بغیر چھت کے صرف کاہل یا جلدی میں لکھنے والے لوگ ہی لکھتے ہیں۔
چونکہ یہ افقی لکیر بالکل لازمی سی چیز ہے، اس لیے ”لکھنے کا طریقہ“ عنوان کے تحت جب حروف کی اشکال بنانے کا طریقہ بتایا جائے گا تو یہ ”چھت“ اس میں شامل نہیں رہے گی۔ آپ خود سمجھ دار ہیں!چنانچہ اس چھت کو خود ہی ڈال لیجیے گا،کسی بے قصور حرف کی ”چھت“ چھین کر آپ کو کیا ملے گا؟
لکھنے کا طریقہ:
 ۱۔ پہلے انگریزی کا 3بنائیں۔
 ۲۔ 3 کے بالکل درمیان میں دائیں طرف چھوٹی سی افقیhorizontal لکیر ملائیں۔
۳۔ اس میں ایک کھڑی لکیر جوڑ دیں۔
لکھنے کی ترتیب یہی رکھیں۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ پہلے 3 اور ”کھڑی لکیر“ کھینچ دی، اور بعد میں ان کے درمیان میں چھوٹی افقی لکیر۔ ہرگز نہیں۔ آپ کے لکھنے کا طریقہ شروع ہی سے درست ہوگا تو بعد میں پریشانی نہیں ہوگی۔
اس کا تلفظ ہے ” اَ“ یعنی الف کے اوپر زبر۔ بول کر دیکھیے، ”अ“۔ واضح رہے کہ ہم زبر کی حرکت کو کھینچ نہیں رہے۔ ورنہ وہ ”آ“ ہو جائے گا۔ 
ذیل کی مثالیں دیکھیے۔
۱۔ اَب अब ab
۲۔ اَگر अगर agar
۳۔ اَنار अनार anaar
کیا آپ ان تمام مثالوں میں अ تلاش کر سکتے ہیں؟ بالکل درست کہا۔ ان تمام مثالوں میں अ بالکل شروع میں واقع ہوا ہے۔ 
”اَ“ سے شروع ہونے والے جتنے حرف ہیں، وہ تمام अ کی مثالیں ہیں۔
ہندی کے بقیہ حروف دیکھ کر گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ رفتہ رفتہ آپ سب سے واقف ہونے ہی والے ہیں۔ ابھی اپنی توجہ صرف اسی حرف پر رکھیں جسے آپ سیکھ رہے ہیں۔
یہ ہوئی  अکے بارے میں پہلی بات۔ دوسری اور دلچسپ بات یہ ہے کہ अ کی کوئی درمیانی شکل نہیں ہوتی۔ جی ہاں! ہم نے اوپر وضاحت کی تھی کہ ہر حرفِ علت دو شکل میں آئے گا۔ ایک شکل ہوگی جب وہ لفظ کے آغاز میں آئے، اور دوسری شکل جب وہ درمیان یا اخیر میں آئے۔ لیکن अ ہمیشہ شروع ہی میں آتا ہے، درمیان میں یا اخیر میں نہیں آتا۔
چلیں جی! آپ کی جان چھوٹی کہ ایک اضافی شکل نہیں سیکھنا پڑے گا۔لیکن ایک باریک سا نکتہ سمجھ لیں۔ 
لفظ ”مگر “ मगर میں شروع میں ”مَ“ آ رہا ہے۔ اس میم پر زبر کی حرکت ہے۔ میم کے بعد ”گَ“ اس پر بھی زبر کی حرکت ہے۔ یہاں ”م“ اور ”گ“ پر زبر کی حرکت کا تلفظ کریں، معلوم ہوگا کہ یہ ہمارے سیکھے گئے حرفِ علتvowel یعنی ”اَ“ ہی کی طرح ادا ہو رہے ہیں۔ چنانچہ یہاں ”م“ اور ”گ“ کے ساتھ بھی अ جڑا ہوا ہے، لیکن نظر نہیں آتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم ”مگر“بغیر اعراب کے لکھتے ہیں تب بھی زبر کی حرکت موجود ہوتی ہے۔ 
چنانچہ لفظ ”مگر“ یعنی मगर میں بھی अ موجود ہے، لیکن لکھا نہیں گیا۔ 
آسان لفظوں میں یوں یاد رکھیں کہ ہندی کا یہ حرف علت अ، اگر لفظ کے شروع میں نہ آئے تو اردو کے ”زبر“ کا متبادل بھی ہے۔]۱[
]۱[آپ کہیں گے کہ صاحب آپ نے تو کہا تھا کہ ہندی میں ”شارٹ واول“ لکھے جاتے ہیں۔ آپ کی تسلی کے لیے یہ بتادوں کہ یہ بات صرف अ کے ساتھ خاص ہے۔ بقیہ حروفِ علت کی درمیانی اشکال موجود ہیں۔ مثلاً  ”پیش“ کی علامت اور ”زیر“ کی علامت کے لیے ہندی میں حروفِ علت موجود ہیں۔
شکل اچھی طرح یاد ہو چکے تو اسے اپنی مشقی کاپی میں لکھ لیجیے، حسبِ استطاعت کچھ نکات جو آپ یاد رکھنا چاہتے ہوں، انہیں بھی نوٹ کر سکتے ہیں۔ یہ نہ سہی تو کم از کم حرف کو اس کے اردو اور انگریزی تلفظ کے ساتھ ضرور لکھ لیں۔ 
 اگلے حرفِ علت کی جانب چلتے ہیں۔
آ aa
شکل کو غور سے دیکھیں۔ کیا خاص بات نظر آ رہی ہے؟
 بھئی آپ تو  بتانے سے پہلے ہی سمجھ گئے۔ جی ہاں! پچھلے حرفِ علت یعنی ”اَ“अ میں محض ایک ”کھڑی ڈنڈی“ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ یوں جیسے ایک الف لگا دی گئی ہو۔ ظاہر ہے، کسی بھی حرف پر ایک ”الف“ کا اضافہ کرنے سے اسے ایک الف کی مقدار کھینچا جاتا ہے۔ اس لیے اس حرفِ علت आ کا تلفظ ہوگا ” aaآ“۔
لکھنے کا طریقہ: 
۱۔ अ کی دائیں طرف ایک عمودی لکیر/کھڑی ڈنڈی کا اضافہ کر دیں۔
مثالیں دیکھیں:
۱۔آپ आप aap
۲۔ آج आज aaj 
کیا آپ اپنے نئے سیکھے حرف کو دیکھ سکتے ہیں؟ ارے واہ۔ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں جناب۔ 
یہ ہوئی ”آ“ کی وہ صورت جب وہ لفظ کے شروع میں آئے۔ جب ”آ“ کو کسی consonant کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس کی آواز تو ظاہر ہے ”آ“ ہی نکلے گی، لیکن شکل بدل جائے گی۔ اور ہم اس consonant کے ساتھ ایک ”کھڑی ڈنڈی“ کا اضافہ کر دیں گے۔ بس!
مثلاً
۱۔ جا जा jaa
۲۔ چاچا चाचा chaachaa
۳۔ نام नाम naam
۴۔ اَنار अनार anaar
ہر ایک مثال میں ”ا،◌ा ،aa“ کو غور سے دیکھیں۔  یہ ”آ“ کی آواز نکال رہا ہے۔ اسے ہم لونگ واولLong Vowel کہتے ہیں۔ اردو میں شارٹ واول کو لکھا ہی نہیں جاتا، زبر زیر اور پیش کر دیا جاتا ہے۔ اور لونگ واول کو ”ا“ سے ظاہر کیا جاتا ہے جس کی آواز ”آ“ نکلتی ہے۔ 
چنانچہ ہندی میں کسی بھی حرفِ صحیح (جو حرفِ علت vowel نہ ہو، یعنی consonant) کے ساتھ اس ”آ“ یعنی ایک ”کھڑی ڈنڈی“ کو جوڑنے پر اس حرف کی آواز ایک الف کی مقدار کھنچ جاتی ہے۔ 
اس کھڑی ڈنڈی کو ”آ“आ کی ماترا کہتے ہیں۔ مثلاً حرف ”تत“ پر ” आ  کی ماترا“ لگانے پر ”تاता “بنے گا۔
آپ اسے یوں پڑھیں گے: ”ت“ میں ”آ“ کی ماترا ”تا “ 

بہت خوب! آپ نے ہندی کے پہلے دو حروفِ علت مکمل طور سے سیکھ لیے ہیں۔چونکہ ابھی آپ زبان کے لیے بالکل نئے تھے، اس لیے اوپر پوری وضاحت کے ساتھ تفصیلاً ہر بات لکھی گئی ہے۔ 
 اب سبق کے دوسرے حصے، یعنی حروفِ صحیح کی طرف چلتے ہیں۔
پہلے پانچ حروفِ صحیح Consonants:
ت/ط ta
یہ حرف ” त “ اردو کے ”ت“ یا ”ط“ کا متبادل ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپ ”تالا“ لکھ رہے ہوں یا ”طوطا“، آپ त ہی سے لکھیں گے۔ 
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ بائیں طرف کے نچلے حصے سے شروع کرتے ہوئے curve بنائیں۔
۲۔ بنائے ہوئے curveکی دائیں جانب ایک عمودی/کھڑی  لکیرکھینچ دیں۔
آسان ہے؟ بہت اچھے۔ چند مثالیں دیکھیں۔
۱۔ تالا ताला taalaa
۲۔ طوطا तोता totaa
کیا آپ دونوں مثالوں میں نئے سیکھے حرف کے ساتھ आکی ماترا پہچان سکتے ہیں؟
یاد رہے، حروفِ صحیح یعنی consonants لفظ کے شروع، اخیر یا درمیان میں ایک ہی شکل میں آتے ہیں، شکل نہیں بدلتے۔( الا یہ کہ انہیں ”ادھورا“ ادا کرنے کی ضرورت پیش آجائے۔ اسے ”ادھورے پن“ کو بعد میں دیکھیں گے، آپ پریشان نہ ہوں۔ )چنانچہ مثال ۲ میں त کو دیکھیں۔ اس میں دونوں جگہوں پر ” त “ مکمل آیا ہے اور اس کی شکل تبدیل نہیں ہوئی۔ 
کیا بات ہے صاحب۔ تو فرمائیے! نیا حرف سیکھنے کے لیے تیار ہیں؟
تھ tha
ت کے آواز کے ساتھ ”ھ“ لگانے سے اردو میں جو آواز بنتی ہے، وہی थ کی آواز ہے۔ 
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ بائیں طرف کے اوپری حصے سے شروع کرتے ہوئے چھوٹا سا انگریزی کا 9بنائیں جو ہلکا سا دائیں جانب جھکا ہوا ہو۔
۲۔ بنائے گئے 9 کے نچلے حصے ہی پر قلم رکھے ہوئے نیچے کی جانب ایک چھوٹا قوس کھینچیں۔ واضح رہے کہ یہاں تک آپ کو ایک بھی بار قلم  کو صفحے پر سے نہیں اٹھانا ہے۔
۳۔ اب (قلم اٹھا کر) دائیں جانب ایک عمودی لکیر کھینچ دیں۔
یہ تھ ہے۔ پچھلے سیکھے حرف کے ساتھ اسے بول کر دیکھیں۔ ت ، تھ۔۔۔ت ، تھ۔۔۔ت ، تھ۔۔۔ یاد ہوگیا؟ خوب۔ مثالیں دیکھیے۔
۱۔ تھا था thaa
۲۔ تھرتھر थरथर tharthar
اگلا حرف دیکھتے ہیں جو ”د“ کا متبادل ہے۔
د da
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ ایک بہت چھوٹی عمودی لکیر کھینچیں۔
۲۔ صفحے پر سے قلم اٹھائے بغیر بائیں جانب ایک قوس کھینچیں۔
۳۔ پھر سے بغیر قلم اٹھائے،اس قوس کی ایک ”دُمچی“ بنا دیں۔
امید ہے د द کے آخیر میں یہ ”دُم“  آپ کو پسند آئی ہوگی۔
مثالیں:
۱۔ داد दाद daad
۲۔ دادا दादा daadaa
اب ذرا آپ بتائیے۔ اگلا حرف کیا ہوگا بھلا؟ جی ہاں!
جیسے  ”ت त“ کے بعد ”تھ थ “ آیا تھا، ویسے ہی  ”د द “ کے بعد”دھ ध “ آئے گا۔
دھ dha
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ بائیں جانب کے اوپری حصے سے شروع کرتے ہوئے اردو کا اُلٹا ۹ بنائیں جو بائیں جانب جھکا ہوا ہو۔
۲۔ ایک بائیں جانب جھکا ہوا  چھوٹا سا قوس بنائیں۔
۳۔ ایک عمودی/کھڑی لکیر جوڑ دیں۔
مثالیں:
۱۔ آدھا आधा aadhaa
۲۔ دھَت धत dhat
مثال ۱ میں ” आ “ آپ کو یاد ہے یا نہیں؟  یہ ”آ“ کا متبادل ہے۔ اور اسی ”آ کی ماترا“ یعنی ” ◌ा“ کو ”ध “ میں لگانے سے ”دھध “ کی آواز ایک الف کی مقدار کھنچ گئی ہے۔ 
آپ اسے یوں پڑھیں گے: ”آ“ + ”دھ“ میں ”آ“ کی ماترا ”دھا “ = ”آدھا “
یعنی: ”आ “ + ”ध “ میں ”आ “ کی ماترا ”धा“ = ”आधा “
مثال ۲ میں ”دھ ध “ اور آپ کے سیکھے گئے حرفِ صحیح ”تत “ کو ملایا گیا ہے۔ 
ایک مرتبہ آپ ان چاروں حروف کو بول کر دیکھیں۔تत ، تھ थ، دद ، دھध۔۔۔ تत ، تھ थ، دद ، دھध۔۔۔ تत ، تھ थ، دद ، دھध۔۔۔ 
 خیال رہے کہ بولتے وقت جو حرف زبان سے کہیں، اس کی شکل پر نگاہ بھی ہو تاکہ شکل یاد ہوتی رہے۔ ایک بار پھر دہرائیں۔ تत ، تھ थ، دद ، دھध۔۔۔ تत ، تھ थ، دद ، دھध۔۔۔ تत ، تھ थ، دद ، دھध۔۔۔
بہت اچھے۔ آپ نے یہ حرف بھی سیکھ لیا۔ اب پہلے پانچ حروفِ صحیح consonantsمیں سے فقط ایک بچ گیا ہے، وہ ہے ”ن“۔ آئیے اسے بھی نمٹاتے ہیں۔
ن na
لکھنے کا طریقہ:
۱۔ ایک بلکل چھوٹا سا مثلث(یا دائرہ) بنائیں اور بغیر قلم اٹھائے اسے دائیں طرف ایک افقیhorizontal لکیر سے بڑھا دیں۔
۲۔دائیں جانب  ایک کھڑی لکیر کھینچ دیں۔
بہت ہی آسان! یہ ”ن न “ ہے۔
اب ذرا آپ بتائیں۔ ”نانا“ کو کیسے لکھا جائے گا؟
درست۔ ذرا بول کر لکھیں۔ یوں کہیں: ”ن“ میں ”آ“ کی ماترا ”نا“ +”ن“ میں ”آ“ کی ماترا ”نا“  = ”نانا“
یعنی: ”न“ میں ”आ“ کی ماترا ”ना“ +”न“ میں ”आ“ کی ماترا ”ना“= ”नाना“
ویسے ہی بتائیے۔ ”دانا“ کیسے لکھیں گے؟ حرف ”د“ آپ سیکھ چکے ہیں۔ ”د“ کیسے لکھا جاتا ہے؟ جی جی! وہی ”دُم“ والا ”د“۔ یہ رہا۔۔۔”द“
”د“ میں ”آ“ کی ماترا ”دا“ +”ن“ میں ”آ“ کی ماترا ”نا“  = ”دانا“
یعنی: ”द“ میں ”आ“ کی ماترا ”दा“ +”न“ میں ”आ“ کی ماترا ”ना“= ”दाना“
مزید مثالیں:
۱۔ نادان नादान naadaan
۲۔ دھان धान dhaan
اب اپنے سیکھے ہوئے تمام حروفِ صحیح consonants کو ایک ساتھ بولیں۔
ت۔۔۔تھ۔۔۔د۔۔۔دھ۔۔۔ن
त۔۔۔थ۔۔۔द۔۔۔ध۔۔۔न
تत ۔۔۔ تھ थ۔۔۔  دद ۔۔۔  دھ۔۔۔ ध۔۔۔ نन 
محسوس کریں گویا کلاسک انڈین سنگیت بج رہا ہو۔ نہیں محسوس ہو رہا پھر بھی محسوس کریں۔
تत ۔۔۔ تھ थ۔۔۔  دद ۔۔۔  دھ۔۔۔ ध۔۔۔ نन 
یاد ہو گیا؟ اگر ہوگیا ہو تو اپنی پیٹھ ٹھونکنا نہ بھولیں۔ شکریہ۔
آپ نے کیا سیکھا؟
دو حروفِ علت Vowels
اَ a
آ aa
پانچ حروفِ صحیح Consonants
ت/ط ta
تھ tha
د da
دھ dha
ن na
مشق ۔ ۱:
نوٹ: مشق کرنے سے اس بات کو یقینی بنا لیں کہ آپ نے سبق اچھی طرح ذہن نشین کر لیا ہے۔ اگر آپ کو سبق یاد نہیں اور آپ اوپر دیکھ دیکھ کر مشق حل کرلیں گے تو ظاہری بات ہے اس کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ آپ یہاں مشق حل کر کے جواب دیں گے تو آپ کو کوئی نوبل پرائز تو نہیں ملنے والا! خیال رکھیں کہ آپ یہاں رسم الخط ”سیکھنے“ آئے ہیں۔ چنانچہ ذیل کی مشق کو بغیر کسی قسم کے مدد لیے از خود حل کرنے کی کوشش کریں۔ ہاں! اگر کسی جگہ کوئی ہلکا سی الجھن ہونے کے سبب آپ آگے نہیں بڑھ پا رہے تو اس الجھن کو اوپر سبق کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے۔ 
حاصلِ کلام یہ کہ مشق اپنی مدد آپ کے تحت کریں، اور بھرپور ایمانداری کے ساتھ۔ اب آپ کا ایمان آپ کے ساتھ۔ :ڈ
آپ ایک کاپی کے بائیں طرف کے چند صفحات اس کام کے لیے مختص کر سکتے ہیں۔ آگے بھی اپنے اسباق اور یادداشت اسی میں درج کریں۔ اس سے سیکھنے کے عمل میں Sincerity شامل رہے گی۔
1. آپ نے جو پہلے پانچ حروفِ صحیحconsonants  یاد کیے ہیں، انہیں بغیر دیکھے اپنی مشقی کاپی میں لکھیں۔ 
2. ہر حرفِ صحیحconsonant  کو لکھیں، اس کے بازو اسپیس space چھوڑ کر اسی حرف کو ”آ“ کی ماترا کے ساتھ لکھیں۔مثلاً
त      ता 
اب ان تمام کوبلند آواز سے پڑھیں۔جیسے ت تا۔۔۔ تھ تھا۔۔۔وغیرہ۔
3. مندرجہ ذیل کو ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھیے۔
دھَن dhan
دان daan
دھنادھن dhanaadhan
تھانہ thaanaa
طعنہ(تلفظ=طانا) taanaa اشارہ/hint: ع اور آخری ”ہ“  کو ”آ“ کی ماترا کے قائم مقام مانا جائے گا۔
4. پانچوں حروفِ صحیح اور ایک حرفِ علت(بشمول اس کی ماترا) ملا کر کم از کم پانچ الفاظ (اردو، ہندی، انگریزی تینوں زبانوں میں)  مزید لکھیے۔ 
5. سبق سے بین السطور آپ نے کیا بات اخذ کی جسے آپ اس سبق کو  یاد رکھنے یا  سمجھنے کے لیے معاون سمجھتے ہیں؟
٭٭٭

گریۂ خوں


عارف باللہ حضرت شاہ حکیم محمداختر صاحب ﷫


جب کبھی دل سے آہ کرتا ہوں
منزلیں پیشِ راہ کرتا ہوں
عشق کی نامراد وادی میں
اپنے غم سے نباہ کرتا ہوں
ساری خلقت سے دور ہو کے کبھی
دشت کو خواب گاہ کرتا ہوں
صبر کو شکوہ و گلہ کیوں ہے
ضبطِ غم بے پناہ کرتا ہوں
گریۂ اشک عشق میں کیا ہے
گریۂ خوں بھی گاہ کرتا ہوں
دردِ دل جب شدید ہوتا ہے
یاد میں اُن کی آہ کرتا ہوں
لذتِ ذکر کیا کہوں اخترؔ
جھوم کر واہ واہ کرتا ہوں

حضرت گنگوہیؒ پر تکذیب رب العزت کا بہتان اور اس کا جواب

 مولانا ساجد خان نقشبندی ﷾
       
مولوی احمد رضاخان اپنی تکفیری دستاویز ’’حسام الحرمین‘‘ پر مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
     پھر تو ظلم و گمراہی میں اس کا حال یہاں تک بڑھا کہ اپنے ایک فتوے میں جو اس کا مہری دستخطی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے بمبئی وغیرہ میں بارہا مع رد کے چھپا صاف لکھ دیا کہ جو اللہ سبحانہ و تعالی کو بالفعل جھوٹا مانے اور تصریح کردے کہ معاذ اللہ اللہ تعالی نے جھوٹ بولا اور یہ عیب اس سے صادر ہوچکا تو اسے کفر بالائے طاق،گمراہی درکنار،فاسق بھی نہ کہو اس لئے کہ بہت سے امام ایسا کہہ چکے ہیں جیسا اس نے کہا بس نہایت کار یہ ہے کہ اس نے تاویل میں خطا کی ۔۔۔یہی وہ ہیں جنھیں اللہ تعالی نے بہر ا کیا اور اس کی آنکھیں آندھی کردیں (حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 71مکتبۃ المدینہ)
     قارئین کرام حضرت گنگوہی ؒ کی طرف کسی ایسے فتوے کی نسبت کرنا سراسر افتراء اور بہتان ہے حسام الحرمین کی اس سے پہلی والی بحث یعنی تحذیر الناس میں تو مولوی احمد رضاخان نے تحذیر الناس کی متفرق عبارتیں جوڑ کر کفر کی مسل تیار بھی کرلی تھی یہاں تو یہ بھی ناممکن ہے ۔بحمد اللہ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مرحوم کے کسی فتوے میں یہ الفاظ مرقوم نہیں ہیں نہ ہی کسی فتوے کا یہ مضمون ہے ۔بلکہ درحقیقت یہ صرف خان صاحب یاان کے کسی دوسرے ہم پیشہ بزرگ کا افتراء اور بہتان ہے ۔بفضلہ تعالی ہمارے اکابر اس شخص کو کافر ،مرتد ،ملعون سمجھتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے اور اس سے بالفعل صدور کذب کا قائل ہو بلکہ جو بد نصیب اس کے کفر میں شک کرے ہم اس کو بھی خارج از اسلام سمجھتے ہیں ۔حضرت مولانا رشید احمد صاحب ؒ جن پر خان صاحب نے یہ ناپاک اور شیطانی بہتان لگایا خود انہی کے مطبوعہ فتا وی میں یہ فتوی موجود ہے :
     ذات پاک حق تعالی جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے اس سے کہ متصف بوصف کذب کیا جائے ۔معاذ اللہ تعالی اس کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہ کذب کا نہیں قال اللہ تعالی: و من اصدق من اللہ قیلا(فتاوی رشیدیہ جلد اول ص118وتالیفات رشیدیہ ص96(
جو شخص اللہ تعالی کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ قطعا کافر و ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث کا اور اجما ع امت کا ہے۔و ہ ہرگز مومن نہیں تعالی اللہ عما یقول الظلمون علوا کبیرا(ایضا)۔
ناظرین انصاف فرمائیں کہ اس صریح اور چھپے ہوئے فتوے کے ہوتے ہوئے حضرت ممدوح پر یہ افتراء کرنا کہ معاذ اللہ وہ خدا کو کاذب بالفعل مانتے ہیں یا ایسا بکنے والے کو مسلمان کہتے ہیں کس قدر شرمناک کاروائی ہے۔؟؟الحساب یو م الحساب ۔
شرم ۔۔۔شرم ۔۔۔شرم۔۔۔
رہا مولوی رضاخان صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’میں نے ان کا وہ فتوی مع مہر و دستخط بچشم خود دیکھا‘‘اس کے جواب میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے جب اس چودہویں صدی کا ایک عالم و مفتی ایک چھپی ہوئی کثیر الاشاعت کتاب (تحذیر الناس)کی عبارتوں میں قطع و برید کرکے ص3,14,28کی عبارتوں میں تحریف کرکے ایک کفریہ مضمون گھڑ کے تحذیر الناس کی طرف منسوب کرسکتا ہے تو کسی جعلساز کیلئے کسی کے مہر و دستخط بنا لینا کیا مشکل ہے؟ (آپ حضرات اکثر سنتے ہونگے اخبارات و ٹی وی میں کہ فلاں جگہ سے جعلساز پکڑے گئے جن سے جعلی سرکاری مہریں برآمد ہوئی ہیں جو پاسپورٹ پر لگانے کے کام آتی تھی وغیرہ وغیرہ )کیا دنیا میں جعلی سکے جعلی نوٹ جعلی دستاویز تیار کروانے والے موجود نہیں؟مشہور ہے کہ بریلی اور اس کے گرد و نواح میں اس فن کے بڑے بڑے ماہر رہتے ہیں جنکا ذریعہ معاش ہی یہی ہے۔
بہرحال مولوی احمد رضاخان نے حضرت گنگوہی ؒ کے جس فتوے کا ذکر کیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں فتاوی رشیدیہ جو تین جلدوں میں چھپ کر آچکی ہے (اس وقت یہ مجموعہ تالیفات رشیدیہ کے ساتھ بھی چھپ چکا ہے جس میں حضرت گنگوہی ؒ کی تمام تصانیف کو جمع کردیا گیا ہے)وہ بھی ا س کے ذکرسے خالی ہے ۔بلکہ اس میں تو اس کے خلا ف چند فتوے موجود ہیں جن میں سے ایک اوپر نقل بھی کیا جاچکا ہے ۔اور اگر فی الواقع خان صاحب نے ا س قسم کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو وہ یقیناًان کے کسی ہم پیشہ بزرگ یا ان کے کسی پیشرو کی جعلسازی اور دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔
حضرات علمائے کرام و مشائخ کرام رحمھم اللہ کی عزت و عظمت کو مٹانے کیلئے حاسدوں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کی کاروائیاں کی ہیں ۔اس سلسلے کے چند عبرت آموز واقعات ہم یہاں عرض کردیتے ہیں:
٭ امت کے جلیل القدر فقیہ اور محدث اعظم اما م احمد حنبل ؒ اس دنیا سے کوچ فرمارہے ہیں کہ اور کوئی بد نصیب حاسد عین اسی وقت تکیہ کے نیچے لکھے ہوئے کاغذات رکھ جاتا ہے جن میں خالص ملحدانہ عقائد اور زندیقانہ خیالات بھرے ہوئے ہیں ۔ کیوں؟صرف اس لئے کہ لوگ ان تحریرات کو امام احمد بن حنبل ؒ ہی کی کاوش دماغی کا نتیجہ سمجھیں گے اور جب ان کے مضامین تعلیمات اسلامی کے خلاف پائیں گے تو ان سے بد ظن ہوجائیں گے اور لوگوں ک دلوں سے ان کی عظمت نکل جائے گی ۔پھر ہماری دکان جو امام کے فیض عام سے پھیکی پڑ چکی تھی چمک اٹھے گی۔
٭ امام لغت علامہ فیروز آبادی صاحب قاموس ؒ زندہ تھے مشہور امام و مرجع خواص و عام تھے حافظ حجر عسقلانی ؒ نے ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی۔حاسدین نے ان کی اس غیر معمولی مقبولیت کو دیکھ کر ان کی اس عظمت کو بڑ لگانے کیلئے ایک پوری کتاب حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی مطاعن میں تصنیف کر ڈالی جس میں خوب زور و شور سے امام اعظم ؒ کی تکفیر بھی کی اور یہ جعلی کتاب ان کی طرف منسوب کرکے دور دراز تک شائع کروادی۔حنفی دنیا میں علامہ فیرو ز آبادی ؒ کے خلا ف نہایت زبردست ہیجان پیدا ہوگیا لیکن بیچارے علامہ ؒ کو اس کی خبر بھی نہ تھی یہاں تک جب وہ کتاب ابو بکر الخیاط البغوی الیمانی کے پاس پہنچی تو انھوں نے علامہ فیروز آبادی کو خط لکھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟علامہ موصوف اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ :
     اگر وہ کتاب جو افتراء میں میری طرف منسوب کردی گئی ہے آپ کے پاس ہوتو فورا اس کو نذر آتش کردیں خدا کی پناہ !میں اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی تکفیرو انا اعظم المعتقدین فی امام ابی حنفیہ ۔اس کے بعد ایک ضخیم کتاب امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب میں لکھی۔
٭ امام مصطفی کرمانی حنفی ؒ نے نہایت جانکاہی سے ’’ مقدمہ ابو اللیث سمرقندی‘‘کی مبسوط شرح لکھی جب ختم کرچکے تو مصر کے علما ء کو دکھلانے کے بعد اس کی اشاعت کا ارداہ کیا ۔تصنیف الحمد اللہ کامیاب تھی۔بعض حاسدوں کی نظر میں کھٹک گئی انھوں نے سمجھ لیا کہ اس کی اشاعت سے ہماری دکانیں پھیکی پڑجائیں گی اور تو کچھ نہ کرسکے البتہ یہ خباثت کی کہ اس کے ’’باب آداب الخلاء‘‘کے اس مسئلہ کے حاجت کے وقت آفتاب وماہتاب کی طرف رخ نہ کرے ۔اپنی دسیسہ کاری سے اتنا اضافہ کردیا کہ ’’چونکہ ابراہیم ؑ ان دونوں کی عبادت کرتے تھے‘‘معاذ اللہ ۔علامہ کرمانی ؒ کو اس شرارت کی کیا خبر تھی انھوں نے لا علمی میں وہ کتاب مصر کے علماء کے سامنے پیش کردی جب ان کی نظر ا س دلیل پر پڑی تو سخت برہم ہوئے اور تمام مصر میں علامہ ؒ کے خلاف ہنگامہ کھڑ ا ہوگیا قاضی مصر نے واجب القتل قرار دے دیا۔بیچارے راتوں رات جان بچا کر مصر سے بھاگ گئے ورنہ سر دئے بغیر چھوٹنا مشکل تھا۔
یہ گنتی کے چند واقعات تھے ورنہ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو حاسدوں کی ان شرارتوں سے تاریخ کے واقعات بھرے پڑے ہیں ۔
پس اگر بالفرض فاضل بریلوی اپنے اس بیان میں سچے ہیں کہ انھوں نے اس مضمون کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو یقیناًوہ اسی قبیل سے ہے۔ لیکن پھر بھی فاضل بریلوی کو اس بنا پر کفر کا فتوی دینا ہرگز جائز نہ تھا جب تک کہ وہ خود خوب تحقیق نہ کرلیتے کہ یہ فتوی حضرت مولانا کا ہی ہے یا نہیں؟فقہ کا مسلم اور مشہور مسئلہ ہے کہ ’’الخط یشبہ الخط‘‘یعنی ایک انسان کا خط دوسرے انسان سے مل جاتا ہے اور خود خان صاحب بھی اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ :
تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ الخط یشبہ الخط ،الخط لا یعمل بہ (ملفوظات حصہ دوم ص170فرید بک اسٹال لاہور)۔
رہے وہ دلائل جو خان صاحب نے اس فتوے کے صحیح ہونے کیلئے اپنی کتاب تمہیدایمان میں لکھے تو وہ نہایت لچر اور تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں قارئین کرام ذرا ان کو بھی خود دیکھ لیں اور جانچ لیں:
یہ تکذیب خدا کا ناپاک فتوے اٹھارہ برس ہوئے 1308ھ میں رسالہ صیانۃ الناس کے ساتھ مطبع حدیقۃ العلوم میرٹھ میں مع رد کے شائع ہوچکا ہے ۔پھر 1318ھ میں مطبع گلزار حسینی بمبئی میں اس کا مفصل رد چھپا پھر 1320ھ میں پٹنہ عظیم آباد میں اس کا ایک قاہرہ رد چھپا اور فتوی دینے والا جمادی الاخر ۱۳۲۳ ھ میں مرا اور مرتے دم تک ساکت رہا نہ یہ کہا کہ وہ فتوی میرا نہیں حالانکہ خود چھپائی ہوئی کتابوں سے اس کا انکار کردینا سہل تھا نہ یہی بتلایا کہ وہ مطلب نہیں جو علمائے اہلسنت بتلارہے ہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے ۔ نہ کفر صریح کی نسبت کوئی سہل بات تھی جس پر التفات نہ کیا۔(تمہید ایمان ص 49)
حشو و زائد کو حذف کردینے کے بعد خان صاحب کی اس دلیل کا صرف حاصل یہ ہے کہ :
(١) یہ فتوی مع رد کے مولانا ممدوح ؒ کی زندگی میں تین دفعہ چھپا۔
(٢) انھوں نے تازیست اس فتوے سے انکار نہیں کیا نہ اس کا کوئی مطلب بتلایا۔
(٣) اور چونکہ معاملہ سنگین تھا اس لئے خاموشی کو عد م التفات پر بھی محمو ل نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ثابت ہوگیا کہ یہ فتوے انہی کا ہے اور اسی بنا پر ہم نے ان کی تکفیر کی اور تکفیر بھی ایسی کہ من شک فی کفرہ فقد کفر۔
اگرچہ خان صاحب کے ان دلائل کا لچر پوچ و مہمل ہونا ہمارے نقد تبصرے کا محتاج نہیں ۔ہر معمولی سی عقل رکھنے والا بھی تھوڑے سے غور و فکر کے بعد اس کو لغویت سمجھے گا تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہر ہر جز پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیجائے تاکہ آپ سے خان صاحب کے علم و مجددیت کی کچھ داد دلوادیجائے۔
خان صاحب کی پہلی دلیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ:
یہ فتوے مولانا کی حیات میں تین دفعہ چھپے۔
اس مقدمے میں سے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ یہ فتوے مولانا کے مخالفین نے چھاپے ۔مولانایا آپ کے متوسلین کی طرف سے کبھی اس کی اشاعت نہیں ہوئی (خیر اس راز کو تو اہل بصیرت ہی سمجھ سکتے ہیں )ہم کو تو اس کے متعلق صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر خان صاحب کے بیان کو صحیح سمجھ لیا جائے کہ یہ فتوی متعدد بار بمع رد کے حضرت گنگوہی ؒ کی حیات میں شائع ہوا جب بھی لازم نہیں آتا کہ حضرت کے پاس بھی پہنچا ہو یاان کو اس کی اطلاع بھی ہوئی ہو۔اگر ان کے پاس بھیجا گیا تو سوال یہ ہے کہ ذریعہ قطعی تھا یا غیر قطعی؟پھر کیا خان صاحب کو اس کی وصولیابی کی اطلاع ہوئی ؟اگر ہوئی تو وہ ذریعہ قطعی تھا یا ظنی؟ بحث کے پہلوؤں سے چشم پوشی کرکے کفر کا قطعی فتوی دینا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ؟۔بہرحال جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہوجائے کہ فی الواقع حضرت گنگوہی ؒ نے کوئی ایسا فتوی لکھا تھا جس کا قطعی اور متعین مطلب وہی تھا جو مولوی احمد رضاخان نے لکھا اس وقت تک ان تخمینی بنیادوں پر تکفیر قطعا ناروا بلکہ معصیت ہے ۔حضرت مولانا ممدوح ؒ تو ایک گوشہ نشین عارف باللہ تھے جن کا حال بلا مبالغہ یہ تھا
بسو دائے جانان زجان مشتغل 
بذکر حبیب از جہاں مشتغل 
خان صاحب کے دوسرے مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ:
 مولانا ؒ نے اس فتوے کا انکار نہیں کیا نہ ا س کی تاویل کی۔
اس کے متعلق تو پہلی گزارش یہی ہے کہ جب اطلاع ہی ثابت نہیں تو انکار کس چیز کا اور تاویل کس بات کی ؟اور فرض کرلیجئے کہ ان کو اطلاع ہوئی لیکن انھوں نے ناخد ا ترس مفتریوں کی اس ناپاک حرکت کو ناقابل توجہ سمجھا ان کو بحوالہ خدا کرکے سکوت فرمایا۔
رہا یہ کہ کفر کی نسبت کوئی معمولی بات نہ تھی جس کی طرف التفات نہ کیا جائے ۔تو اول تو یہ ضروری نہیں کہ دوسرے بھی آپ کے نظریہ سے متفق ہوں ۔ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی ہو۔کہ ایمان والے خود ہی اس ناپاک افتراء کی تکذیب کردیں گے۔یا انھوں نے یہ خیال کیا ہو کہ اس گند کو اچھالنے والے علمی اور مذہبی دنیا میں کوئی مقام نہیں رکھتے لہٰذا ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کرے گا ۔بہرحال سکوت کیلئے یہ وجوہ بھی ہوسکتی ہیں ۔پھر قطع نظر ان تمام باتوں سے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ کفر کا معاملہ سنگین تھا بے شک خان صاحب کی ’’مجددیت ‘‘ کے دور سے پہلے تکفیر ایسی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی لیکن خان صاحب کی روح اور ان کی موجودہ ذریت مجھے معاف فرمائے کہ جس دن سے افتاء کا قلمدان خان صاحب کے بے باک ہاتھوں میں گیا ہے اس روز سے تو کفر اتنا سستا ہوگیا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ندوۃ العلماء والے کافر جو نہ مانے کافر،اہلحدیث کافر جو نہ مانے کافر،دیوبندی کافر جو نہ مانے کافر،مولانا عبد الباری فرنگی صاحب کافراور تو اور تحریک خلاف میں شرکت کے جرم اپنے برادران طریقت عبدالماجد صاحب بدایوانی ،عبد القادر بد ایوانی کافر اس کو بھی چھوڑو مصلی رسول ﷺ پرکھڑا ہونے والا شخص آئمہ اسلام سب کافر ۔کفر کی وہ بے پناہ مشین گن چلی کہ الٰہی توبہ! بریلی کے ڈھائی نفر انسانوں کے سوا کوئی مسلمان نہ رہا۔پس ہوسکتا ہے کہ خان صاحب کسی اللہ والے کو کافر کہیں اوروہ اللہ والا اس کو نباح الکلا ب (کتوں کا بھونکنا)سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا مرحوم ؒ کو اس فتوے کی اطلاع ہوئی اور مولانا ؒ نے انکار بھی کیا ہو مگر خانصاحب کواس کی اطلاع نہ ہوئی پھر عدم اطلاع سے عدم انکار کیوں سمجھا جاسکتا ہے؟کیا عدم علم عدم الشئی کو مستلزم ہے؟۔اہل علم اور ارباب عقل و دانش غور فرمائیں کہ کیا اتنے احتمالات کے ہوتے ہوئے بھی تکفیر جائز ہوسکتی ہے ؟دعوی تو یہ تھا کہ :
ایسی عظیم احتیاط والے (یعنی خود بدولت جناب خانصاحب)نے ہر گز ان دشنامیوں (حضرت گنگوہی ؒ وغیرہ)کو کافر نہ کہا جب تک یقینی ،قطعی واضح،روشن،جلی طور سے ان کا صریح کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہوگیا ۔جس میں اصلا اصلا ہر گز کوئی گنجائش کوئی تاویل نہ نکل سکے۔(تمہید ایمان ص 55)
اور دلیل اس قدر لچر کے یقین کیا ظن کو بھی مفید نہیں۔اور اگر ایسی ہی دلیلوں سے کفر ثابت ہوتا ہے تو پھر تو اسلام اور مسلمانوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔کوئی جاہل اور دیوانہ کسی با خدا کو کافر کہے اور وہ اس کو ناقابل خطاب سمجھتے ہوئے اعراض کرے اور ا سکے لئے اپنی صفائی پیش نہ کرے بس خان صاحب کی دلیل سے کافر ہوگیا۔چہ خوش ۔
گر ہمیں مفتی و ہمیں فتوی
 کار ایماں تمام خواہد شد
ادھر فقہاء کی یہ تصریحات کہ ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں صرف ایک احتمال اسلام کا پھر بھی تکفیر جائز نہیں ادھر یہ مجدد کہ محض خیالی و وہمی مقدمے جوڑ کر کہتا ہے کہ من شک فی کفرہ فقد کفر ۔اللہ کی پناہ۔
یہی وہ خیالات و واقعات ہیں جسکی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ خان صاحب نے فتاوی کفر کسی غلط فہمی یا علمی لغزش پر جاری نہ کئے تھے بلکہ درحقیقت اس کی تہ میں صرف حسد و جاہ پرستی اور نفس پرستی کا بے پناہ جذبہ کارفرماتھا۔
٭٭٭

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India