Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS

سر بکف 4 کے لیے تحاریر ارسال کرنے کی آخری تاریخ

سر بکف 4 کے لیے تحاریر ارسال کرنے کی آخری تاریخ ـ 25 جنوری 2016
Last Date to send articles for SarBakaf 4.

الاحادیث المنتخبہ 3

پیش کش: مدیر 

اگرچہ ایک ہی آیت ہو

حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاکُ بْنُ مَخْلَدٍ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي کَبْشَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ وَمَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ
ابو عاصم ضحاک بن مخلد اوزاعی حسان بن عطیہ ابوکبشہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میری بات دوسرے لوگوں کو پہنچا دو اگرچہ وہ ایک ہی آیت ہو۔ اور بنی اسرائیل کے واقعات (اگر تم چاہو تو) بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور جس شخص نے مجھ پر قصدا جھوٹ بولا تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لینا چاہئے۔
(صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 718 )
ادارتی نوٹ: اس حدیث کے تینوں ٹکڑے عام طور پر الگ الگ مواقع پر مستعمل ہیں۔ البتہ حدیث کے مطابق چونکہ تینوں یکجا ہیں، سو تینوں ٹکڑوں کو الگ الگ عنوانات کے تحت نہ لاتے ہوئے ایک ہی جگہ درج کیا گیا ہے۔
مکررات: ٭ جامع ترمذی:جلد دوم،حدیث نمبر 578٭سنن دارمی:جلد اول،حدیث نمبر 541٭ مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1974، 1983، 2087، 2379، 2496

ہدایت دینے والا میں ہوں

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ کَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَکَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ الْآيَةَ
محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید یعنی ابن کیسان، ابوکیسان، ابوحازم، ابوہریرہ (رض) روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا سے ان کی موت کے وقت فرمایا لا اِلٰہ اِلا اللہ کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ)سورہ 28، القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بےشک تو ہدایت نہیں کرسکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔
(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 137)
مکررات: ٭ صحیح بخاری:جلد اول،حدیث نمبر 1298 ٭صحیح بخاری:جلد دوم،حدیث نمبر 1117 ٭صحیح بخاری:جلد دوم،حدیث نمبر 1859 ٭صحیح بخاری:جلد دوم،حدیث نمبر 1975

دعااور اللہ مجیب الدعوات

 حافظ عماد الدین ابو الفداء ابنِ کثیر
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ   ١٨٦؁
اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں ۔ لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔ (آسان ترجمہ قرآن- سورہ ٢ ،البقرہ: ١٨٦)

     ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)
     ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے؟یہ آیت اتری (ابن جریر) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب آیت (ادعونی استجب لکم) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہئے؟ اس پر یہ آیت اتری (ابن جریج)
     حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آکر فرمانے لگے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس ! سن لو! جنت کا خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے (مسند احمد) حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے قریب ہی ہوتا ہوں(مسند احمد)
     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے آیت (ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون ) جو تقویٰ واحسان وخلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے، حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے آیت (انی معکما اسمع واری) میں تم دونون کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں، مقصود یہ ہے کہ باری تعالٰی دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بندہ جب اللہ تعالٰی کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ ارحم الراحمین اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے (مسند احمد)
    حضرت ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعالٰی سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے :
1۔ یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا  ہے
2۔یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے
3۔ یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے
 لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے؟ (مسند احمد)
      عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (مسند احمد)
     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ جلدی کرنا یہ ہے کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (موطا امام مالک) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کرے دے یہ جلدی کرنا ہے۔ ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے۔
      حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں، اے لوگوں تم جب اللہ تعالٰی سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالٰی ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا (مسند احمد)
     حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے دعا کی کہ الہ العالمین! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالٰی آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں(ابن مردویہ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے۔
      ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بےمثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت ودوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں(ابن مردویہ)
     حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ گویا میرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا (بزار)
     دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان ٭ وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے قبول فرماتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے (ابوداود طیالسی)
      ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے:
    اللہم انی اسألک برحمتک اللتی وسعت کل شئی ان تغفرلی
     یعنی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے اور حدیث میں تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ، روازے دار اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالٰی بلند کرے گا مظلوم کی بددعا کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں(مسند، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ )٭

Standard Ayat Reference

 قرآن پاک کی آیات کے حوالے کے متعلق ایک معیار کا تعین ضروری تھا۔ اس کے لیے عموماً انگریزی میں کولون کے بائیں طرف سورہ نمبر، اور دائیں جانب آیت نمبر لکھا جاتا ہے(مثلاً 1:3 یعنی پہلی سورہ کی تیسری آیت)۔ البتہ اس  ترتیب کو اردو میں کرنے پر سورہ نمبر دائیں طرف اور آیت نمبر بائیں طرف کیا جاتا ہے(مثلاً ٣:١ )  لیکن انگریزی کے اس فارمیٹ سے مانوس ہونے کے سبب ہم اسے الٹا (یعنی ١:٣)پڑھ بیٹھتے ہیں۔ اور اگر اسے انگریزی ہی سے ہم آہنگ کر کے ١:٣ لکھیں گے تو اردو میں لکھا ہوا ہونے کے سبب ہوسکتا ہے بعض احباب اسے بھی الٹا پڑھ لیں۔اس کے علاوہ اس طرز پر سورہ کا نام بھی آنا ضروری ہوتا ہے، بعض لوگوں کو اس میں سہولت ہوتی ہے۔ چنانچہ اسی آیت نمبر کو الفاتحہ: ٣ کے طرز پر لکھتے ہیں۔اس فارمیٹ کی خامی یہ ہے کہ اس میں سورہ نمبر نہ لکھا ہونے کی وجہ سے قرآن کی ساری فہرست میں مطلوبہ سورہ ڈھونڈنی پڑتی ہے اور اس کے بعد آیت نمبر کی باری آتی ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے قرآنی آیات کا  Standard Format  چنا ہے وہ یوں ہے۔ سورہ ١،الفاتحہ:٣۔ اس میں بغیر کسی ابہام کے حوالہ بھی مکمل دستیاب ہوتا ہے اور تمام جزئیات بھی سمٹ جاتی ہیں۔ مضمون نگاروں سے گزارش ہے کہ حوالوں کے لیے اپنی آئندہ تحریر میں اس فارمیٹ کا استعمال کریں تاکہ مجلہ پروفیشنل ٹچ سے مزید قریب ہوسکے۔
(مدیر)

دو رنگی چھوڑ دے...قسط ۱


 "سربکف" میگزین 3-نومبر، دسمبر 2015

مدیر
ایک بلند ٹیلہ تھا۔تمام لوگ نیچے تھے، اور ”وہ“ اوپر تھا۔ زمانے کی آنکھ نے رشک سے اس ٹیلے کو دیکھا جس پر اس کے مبارک قدم ٹکے ہوئے تھے، لوگوں نے اسے  اس  بلند  ٹیلے پر چڑھ کر ایک پیش گوئی کرتے سنا، ایک سچی پیش گوئی۔۔۔جسے دنیا نہ اس وقت جھٹلا پائی، نہ قیامت تک جھٹلا سکے گی۔
”کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“(صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم:۳۵۹۷)
”وہ“   وہی تھا جسے بلندی دوجہان کے خالق نے عطا کی تھی۔
  وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ   (سورہ ۹۴، الانشراح:۴)
ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔
اور جس نے قیامت تک کے لیے اپنے راستے پر چلنے والوں کو رفعت و معراج، کامرانی وسربلندی کا مژدۂ جانفزا سنایا تھا۔
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ(سورہ ۳،آل عمران:۱۳۹)
تم ہی سربلند ہوگے۔
رفعت والے نبی ﷺ  کی چشمِ نبوت نے فتنوں کو بارش کے پانی کی طرح برستے دیکھا۔ اور جو ہماری  نظر سے پوشیدہ تھا، وہ  ہمیں  بتلادیا گیا۔
إِنِّي أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ
” میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“
اللہ اکبر!کیسی سچی پیش گوئی ہے! پتہ نہیں اُن پیارے لوگوں کے وقت ان فتنوں کا کوئی تصور ہوگا بھی یا نہیں۔ 
پہلے زمانے میں تھیٹر ہوا کرتے تھے۔اس وقت تھیٹر دیکھنے کے لیےٹکٹ خریدنا ہوتا تھا، قطار لگانی ہوتی تھی،لیکن آج  نہ وہ تھیٹر ہے نہ تھیٹر کے باہر کی قطار ہے۔ سب کچھ جیب میں  موبائل کی صورت میں سماچکا ہے۔
اس وقت  ساری دنیا کے سامنے ظاہر تھا کہ یہ شخص آج تھیٹر دیکھ رہا ہے، چھپ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے، کوئی پہچان والا دیکھ سکتا تھا۔اور اب ساری دنیا بے خبر ہے...   لحاف کےاندر چھپا تھیٹر ہے، باتھ روم و بیت الخلاء کے اندر تھیٹر ہے۔
پھر اس تھیٹر میں کیا ہوتا ہوگا؟ کچھ مار دھاڑ ہوتی ہوگی۔ کچھ ایکشن ہوتا ہوگا۔ کچھ جاسوسی اور سسپنس (Suspense)ہوتا ہوگا، کچھ رومانس ہوتا ہوگا، کچھ عریانیت بھی ہوتی ہوگی۔
اور اس موبائل میں...  فحاشی اور بے حیائی کا وہ سیلاب ہے جو ساری شرم و حیا بہا کے لے جائے...   شیطان جن سے شرمانے لگے۔
 آج، خداوندِ قدوس کی عزت و جلالت کی قسم،فتنوں کو بارش کی طرح برستے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دیکھ لو  دن بدن نت نئے فتنوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے، کمی کہیں نہیں ہے، انصاف رسوا ہے، قانون بکاؤ ہے، انسانی زندگی کھیل تماشا ہے، ننگا ناچ ایک آرٹ ہے، عریانیت اور فحاشی ایک فیشن ہے،فضا گناہوں سے آلودہ ہے،   ہر گھر میں ناچ گانے کی آواز ہے، ، ہر سو بے حیائی کا شیطانی رقص ہے ،ہر سمت موسیقی کی جھنکارہے،ہر آن شیطان کے قہقہے ہیں۔
فتنوں کی اس  دھواں دھار بارش میں...
کچھ لوگ اکھڑ جاتے ہیں۔
کچھ لوگ فتنوں کے خلاف ثابت قدم "نظر آتے ہیں"۔
کچھ لوگ ان فتنوں کے مقابل ثابت قدم ہوتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دو اقسام بتائی ہیں:
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ (سورہ ۶۴،التغابن: ۲)
وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کچھ انکار کرنے والے ہیں، اور کچھ ایمان لانے والے ہیں۔
یوں مجموعی طور پر انسان دو اقسام میں بٹ جاتا ہے۔
١۔ماننے والے
٢۔ نہ ماننے والے
یہ ماننے اور نہ ماننے والے، اعمال کی بنیاد پر چار طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔
١۔ قالب کی زندگی
قالب جسم کو کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کی زندگی صرف اپنے جسم کے لیے ہوتی ہے۔ ان کی ساری کارکردگی کا لب لباب اپنے بدن کو لذت پہنچانا ہوتا ہے۔ چنانچہ کافر کی ساری زندگی صرف کھانا، پینا اور اپنی شہوات کو پورا کرنا، اسی کے گرد ختم ہوجاتی ہے۔ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں اللہ نے کہا:
اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ
وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں
بَلْ هُمْ اَضَلُّ(سورہ ۷، الاعراف:۱۷۹)
 بلکہ جانوروں سے بھی بدتر(بھٹکے ہوئے) ہیں۔
کیونکہ جانوروں کی زندگی میں بھی صرف یہی کام ہیں۔ یا تو کھائے گا، پیے گا، یا پھر جماع کرے گا۔اور یہ بھی انہیں کاموں میں مگن ہے۔
جانوروں کو عقل نہیں ہوتی، یہ سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے ۔چنانچہ اللہ نے آگے ترقی کر کے کہا:
 بَلْ هُمْ اَضَلُّ- یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کردیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔(تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر آیتِ مذکورہ)
٢۔ قلب کی زندگی
یہ لوگ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اور دین کے بنیادی احکام پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ سارے کفار و مشرکین والے کام بھی انجام دیتے ہیں۔ فیشن اور ٹپ ٹاپ میں رہنا انہیں پسند ہوتا ہے۔ مغربی طرزِ زندگی سے انسیت ہوتی ہے اور انہیں کے طریقے پسند ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہیں میں سے ہوگا۔
چنانچہ ان کے دوست احباب بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مجالس بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی روش پر ہوتا ہے۔ یہ پیٹ اور مال کے پجاری ہوتے ہیں، اور صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ موت سے انہیں خوف آتا ہے۔
٣۔ ایمان کی زندگی
    یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جونمازکے پابند ہوتے ہیں۔  ان کا لباس سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ چہرہ  نبی پاک ﷺ کی سنت  یعنی داڑھی سے مزین ہوتا ہے۔دین داروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نشست و برخاست دین داروں کے ساتھ ہوتی ہے۔  دین کی محنتیں کرتے ہیں۔  اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ دین کے کام میں دوڑ دوڑ کے حصہ لیتے ہیں۔ خوب وقت لگاتے ہیں۔ ذکر و تسبیح کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ دین کے سمجھنے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔
    اور تو اور، دین کی بات کرتے ہیں، دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے مطابق زندگی گزارنے پر ابھارتے ہیں۔ وعظ و نصیحت بھی کرتے ہیں۔ تصنیف و تالیف بھی کرتے ہیں۔
     لیکن جب انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو گناہ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ شیطان ان کو ذرا سا پُش Push  کرے تو فوراً اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔یہ لوگ جلوت میں متقی اور خلوت میں گناہ گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چھُپ کر گناہ کرتے ہیں۔لوگوں کے سامنے مولانا ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں متقی اور پرہیزگار سمجھتے ہیں۔ علم بھی انہیں خوب ہوتا ہے۔ ان کی نیکیاں کثیر تعداد میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اوپر سے لا الٰہ ہوتے ہیں اور اندر سے کالی بلا ہوتے ہیں۔یہ لوگ اس لیے گناہ سے بچتے ہیں کہ "لوگ دیکھ رہے ہیں" یعنی اللہ کے ڈر کی وجہ سے گناہوں سے نہیں بچتے، بلکہ لوگوں کے ڈر سے بچتے ہیں۔
انہیں گناہ کرنے کا احساس بھی ہوتا ہے، اور یہ گناہ سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رب تعالیٰ کے سامنے روتے بھی ہیں۔ لیکن جونہی انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو فوراً شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔ یعنی کلیتاً ان کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا...   ۱۰۰ گناہوں میں سے ۹۵ نہیں کرتے البتہ ۵ ضرور کرتے ہیں۔ کبھی ۹۸ نہیں کرتے لیکن ایک دو گناہ ایسے ضرور ہوتے ہیں جس میں یہ لگے رہتے ہیں۔
چنانچہ  یہ اعلانیہ طور پر تو خدا پرست ہوتے ہیں، البتہ خفیہ طور پر نفس پرست اور ہویٰ پرست ہوتے ہیں۔
بقول مرشدی پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم:
”یاد رکھیں!زن پرستی، زر پرستی، شہوت پرستی، نفس پرستی...  یہ سب کی سب بت پرستی ہی کی اقسام ہیں...  خدا پرستی کوئی اور چیز ہے!“
(جاری......) 
      فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ
    ٢١ نومبر،بروز سنیچر،١٠:٥٠بجے صبح

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India