دو رنگی چھوڑ دے...قسط ۱
"سربکف" میگزین 3-نومبر، دسمبر 2015
مدیر
ایک بلند ٹیلہ تھا۔تمام لوگ نیچے تھے، اور ”وہ“ اوپر تھا۔ زمانے کی آنکھ نے رشک سے اس ٹیلے کو دیکھا جس پر اس کے مبارک قدم ٹکے ہوئے تھے، لوگوں نے اسے اس بلند ٹیلے پر چڑھ کر ایک پیش گوئی کرتے سنا، ایک سچی پیش گوئی۔۔۔جسے دنیا نہ اس وقت جھٹلا پائی، نہ قیامت تک جھٹلا سکے گی۔
”کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“(صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم:۳۵۹۷)
”وہ“ وہی تھا جسے بلندی دوجہان کے خالق نے عطا کی تھی۔
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (سورہ ۹۴، الانشراح:۴)
ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔
اور جس نے قیامت تک کے لیے اپنے راستے پر چلنے والوں کو رفعت و معراج، کامرانی وسربلندی کا مژدۂ جانفزا سنایا تھا۔
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ(سورہ ۳،آل عمران:۱۳۹)
تم ہی سربلند ہوگے۔
رفعت والے نبی ﷺ کی چشمِ نبوت نے فتنوں کو بارش کے پانی کی طرح برستے دیکھا۔ اور جو ہماری نظر سے پوشیدہ تھا، وہ ہمیں بتلادیا گیا۔
إِنِّي أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ
” میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“
اللہ اکبر!کیسی سچی پیش گوئی ہے! پتہ نہیں اُن پیارے لوگوں کے وقت ان فتنوں کا کوئی تصور ہوگا بھی یا نہیں۔
پہلے زمانے میں تھیٹر ہوا کرتے تھے۔اس وقت تھیٹر دیکھنے کے لیےٹکٹ خریدنا ہوتا تھا، قطار لگانی ہوتی تھی،لیکن آج نہ وہ تھیٹر ہے نہ تھیٹر کے باہر کی قطار ہے۔ سب کچھ جیب میں موبائل کی صورت میں سماچکا ہے۔
اس وقت ساری دنیا کے سامنے ظاہر تھا کہ یہ شخص آج تھیٹر دیکھ رہا ہے، چھپ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے، کوئی پہچان والا دیکھ سکتا تھا۔اور اب ساری دنیا بے خبر ہے... لحاف کےاندر چھپا تھیٹر ہے، باتھ روم و بیت الخلاء کے اندر تھیٹر ہے۔
پھر اس تھیٹر میں کیا ہوتا ہوگا؟ کچھ مار دھاڑ ہوتی ہوگی۔ کچھ ایکشن ہوتا ہوگا۔ کچھ جاسوسی اور سسپنس (Suspense)ہوتا ہوگا، کچھ رومانس ہوتا ہوگا، کچھ عریانیت بھی ہوتی ہوگی۔
اور اس موبائل میں... فحاشی اور بے حیائی کا وہ سیلاب ہے جو ساری شرم و حیا بہا کے لے جائے... شیطان جن سے شرمانے لگے۔
آج، خداوندِ قدوس کی عزت و جلالت کی قسم،فتنوں کو بارش کی طرح برستے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دیکھ لو دن بدن نت نئے فتنوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے، کمی کہیں نہیں ہے، انصاف رسوا ہے، قانون بکاؤ ہے، انسانی زندگی کھیل تماشا ہے، ننگا ناچ ایک آرٹ ہے، عریانیت اور فحاشی ایک فیشن ہے،فضا گناہوں سے آلودہ ہے، ہر گھر میں ناچ گانے کی آواز ہے، ، ہر سو بے حیائی کا شیطانی رقص ہے ،ہر سمت موسیقی کی جھنکارہے،ہر آن شیطان کے قہقہے ہیں۔
فتنوں کی اس دھواں دھار بارش میں...
کچھ لوگ اکھڑ جاتے ہیں۔
کچھ لوگ فتنوں کے خلاف ثابت قدم "نظر آتے ہیں"۔
کچھ لوگ ان فتنوں کے مقابل ثابت قدم ہوتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دو اقسام بتائی ہیں:
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ (سورہ ۶۴،التغابن: ۲)
وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کچھ انکار کرنے والے ہیں، اور کچھ ایمان لانے والے ہیں۔
یوں مجموعی طور پر انسان دو اقسام میں بٹ جاتا ہے۔
١۔ماننے والے
٢۔ نہ ماننے والے
یہ ماننے اور نہ ماننے والے، اعمال کی بنیاد پر چار طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔
١۔ قالب کی زندگی
قالب جسم کو کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کی زندگی صرف اپنے جسم کے لیے ہوتی ہے۔ ان کی ساری کارکردگی کا لب لباب اپنے بدن کو لذت پہنچانا ہوتا ہے۔ چنانچہ کافر کی ساری زندگی صرف کھانا، پینا اور اپنی شہوات کو پورا کرنا، اسی کے گرد ختم ہوجاتی ہے۔ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں اللہ نے کہا:
اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ
وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں
بَلْ هُمْ اَضَلُّ(سورہ ۷، الاعراف:۱۷۹)
بلکہ جانوروں سے بھی بدتر(بھٹکے ہوئے) ہیں۔
کیونکہ جانوروں کی زندگی میں بھی صرف یہی کام ہیں۔ یا تو کھائے گا، پیے گا، یا پھر جماع کرے گا۔اور یہ بھی انہیں کاموں میں مگن ہے۔
جانوروں کو عقل نہیں ہوتی، یہ سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے ۔چنانچہ اللہ نے آگے ترقی کر کے کہا:
بَلْ هُمْ اَضَلُّ- یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کردیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔(تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر آیتِ مذکورہ)
٢۔ قلب کی زندگی
یہ لوگ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اور دین کے بنیادی احکام پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ سارے کفار و مشرکین والے کام بھی انجام دیتے ہیں۔ فیشن اور ٹپ ٹاپ میں رہنا انہیں پسند ہوتا ہے۔ مغربی طرزِ زندگی سے انسیت ہوتی ہے اور انہیں کے طریقے پسند ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہیں میں سے ہوگا۔
چنانچہ ان کے دوست احباب بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مجالس بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی روش پر ہوتا ہے۔ یہ پیٹ اور مال کے پجاری ہوتے ہیں، اور صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ موت سے انہیں خوف آتا ہے۔
٣۔ ایمان کی زندگی
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جونمازکے پابند ہوتے ہیں۔ ان کا لباس سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ چہرہ نبی پاک ﷺ کی سنت یعنی داڑھی سے مزین ہوتا ہے۔دین داروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نشست و برخاست دین داروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ دین کی محنتیں کرتے ہیں۔ اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ دین کے کام میں دوڑ دوڑ کے حصہ لیتے ہیں۔ خوب وقت لگاتے ہیں۔ ذکر و تسبیح کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ دین کے سمجھنے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔
اور تو اور، دین کی بات کرتے ہیں، دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے مطابق زندگی گزارنے پر ابھارتے ہیں۔ وعظ و نصیحت بھی کرتے ہیں۔ تصنیف و تالیف بھی کرتے ہیں۔
لیکن جب انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو گناہ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ شیطان ان کو ذرا سا پُش Push کرے تو فوراً اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔یہ لوگ جلوت میں متقی اور خلوت میں گناہ گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چھُپ کر گناہ کرتے ہیں۔لوگوں کے سامنے مولانا ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں متقی اور پرہیزگار سمجھتے ہیں۔ علم بھی انہیں خوب ہوتا ہے۔ ان کی نیکیاں کثیر تعداد میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اوپر سے لا الٰہ ہوتے ہیں اور اندر سے کالی بلا ہوتے ہیں۔یہ لوگ اس لیے گناہ سے بچتے ہیں کہ "لوگ دیکھ رہے ہیں" یعنی اللہ کے ڈر کی وجہ سے گناہوں سے نہیں بچتے، بلکہ لوگوں کے ڈر سے بچتے ہیں۔
انہیں گناہ کرنے کا احساس بھی ہوتا ہے، اور یہ گناہ سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رب تعالیٰ کے سامنے روتے بھی ہیں۔ لیکن جونہی انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو فوراً شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔ یعنی کلیتاً ان کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا... ۱۰۰ گناہوں میں سے ۹۵ نہیں کرتے البتہ ۵ ضرور کرتے ہیں۔ کبھی ۹۸ نہیں کرتے لیکن ایک دو گناہ ایسے ضرور ہوتے ہیں جس میں یہ لگے رہتے ہیں۔
چنانچہ یہ اعلانیہ طور پر تو خدا پرست ہوتے ہیں، البتہ خفیہ طور پر نفس پرست اور ہویٰ پرست ہوتے ہیں۔
بقول مرشدی پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم:
”یاد رکھیں!زن پرستی، زر پرستی، شہوت پرستی، نفس پرستی... یہ سب کی سب بت پرستی ہی کی اقسام ہیں... خدا پرستی کوئی اور چیز ہے!“
”کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“(صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم:۳۵۹۷)
”وہ“ وہی تھا جسے بلندی دوجہان کے خالق نے عطا کی تھی۔
وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (سورہ ۹۴، الانشراح:۴)
ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔
اور جس نے قیامت تک کے لیے اپنے راستے پر چلنے والوں کو رفعت و معراج، کامرانی وسربلندی کا مژدۂ جانفزا سنایا تھا۔
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ(سورہ ۳،آل عمران:۱۳۹)
تم ہی سربلند ہوگے۔
رفعت والے نبی ﷺ کی چشمِ نبوت نے فتنوں کو بارش کے پانی کی طرح برستے دیکھا۔ اور جو ہماری نظر سے پوشیدہ تھا، وہ ہمیں بتلادیا گیا۔
إِنِّي أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ
” میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“
اللہ اکبر!کیسی سچی پیش گوئی ہے! پتہ نہیں اُن پیارے لوگوں کے وقت ان فتنوں کا کوئی تصور ہوگا بھی یا نہیں۔
پہلے زمانے میں تھیٹر ہوا کرتے تھے۔اس وقت تھیٹر دیکھنے کے لیےٹکٹ خریدنا ہوتا تھا، قطار لگانی ہوتی تھی،لیکن آج نہ وہ تھیٹر ہے نہ تھیٹر کے باہر کی قطار ہے۔ سب کچھ جیب میں موبائل کی صورت میں سماچکا ہے۔
اس وقت ساری دنیا کے سامنے ظاہر تھا کہ یہ شخص آج تھیٹر دیکھ رہا ہے، چھپ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے، کوئی پہچان والا دیکھ سکتا تھا۔اور اب ساری دنیا بے خبر ہے... لحاف کےاندر چھپا تھیٹر ہے، باتھ روم و بیت الخلاء کے اندر تھیٹر ہے۔
پھر اس تھیٹر میں کیا ہوتا ہوگا؟ کچھ مار دھاڑ ہوتی ہوگی۔ کچھ ایکشن ہوتا ہوگا۔ کچھ جاسوسی اور سسپنس (Suspense)ہوتا ہوگا، کچھ رومانس ہوتا ہوگا، کچھ عریانیت بھی ہوتی ہوگی۔
اور اس موبائل میں... فحاشی اور بے حیائی کا وہ سیلاب ہے جو ساری شرم و حیا بہا کے لے جائے... شیطان جن سے شرمانے لگے۔
آج، خداوندِ قدوس کی عزت و جلالت کی قسم،فتنوں کو بارش کی طرح برستے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دیکھ لو دن بدن نت نئے فتنوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے، کمی کہیں نہیں ہے، انصاف رسوا ہے، قانون بکاؤ ہے، انسانی زندگی کھیل تماشا ہے، ننگا ناچ ایک آرٹ ہے، عریانیت اور فحاشی ایک فیشن ہے،فضا گناہوں سے آلودہ ہے، ہر گھر میں ناچ گانے کی آواز ہے، ، ہر سو بے حیائی کا شیطانی رقص ہے ،ہر سمت موسیقی کی جھنکارہے،ہر آن شیطان کے قہقہے ہیں۔
فتنوں کی اس دھواں دھار بارش میں...
کچھ لوگ اکھڑ جاتے ہیں۔
کچھ لوگ فتنوں کے خلاف ثابت قدم "نظر آتے ہیں"۔
کچھ لوگ ان فتنوں کے مقابل ثابت قدم ہوتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دو اقسام بتائی ہیں:
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ (سورہ ۶۴،التغابن: ۲)
وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کچھ انکار کرنے والے ہیں، اور کچھ ایمان لانے والے ہیں۔
یوں مجموعی طور پر انسان دو اقسام میں بٹ جاتا ہے۔
١۔ماننے والے
٢۔ نہ ماننے والے
یہ ماننے اور نہ ماننے والے، اعمال کی بنیاد پر چار طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔
١۔ قالب کی زندگی
قالب جسم کو کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کی زندگی صرف اپنے جسم کے لیے ہوتی ہے۔ ان کی ساری کارکردگی کا لب لباب اپنے بدن کو لذت پہنچانا ہوتا ہے۔ چنانچہ کافر کی ساری زندگی صرف کھانا، پینا اور اپنی شہوات کو پورا کرنا، اسی کے گرد ختم ہوجاتی ہے۔ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں اللہ نے کہا:
اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ
وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں
بَلْ هُمْ اَضَلُّ(سورہ ۷، الاعراف:۱۷۹)
بلکہ جانوروں سے بھی بدتر(بھٹکے ہوئے) ہیں۔
کیونکہ جانوروں کی زندگی میں بھی صرف یہی کام ہیں۔ یا تو کھائے گا، پیے گا، یا پھر جماع کرے گا۔اور یہ بھی انہیں کاموں میں مگن ہے۔
جانوروں کو عقل نہیں ہوتی، یہ سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے ۔چنانچہ اللہ نے آگے ترقی کر کے کہا:
بَلْ هُمْ اَضَلُّ- یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کردیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔(تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر آیتِ مذکورہ)
٢۔ قلب کی زندگی
یہ لوگ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اور دین کے بنیادی احکام پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ سارے کفار و مشرکین والے کام بھی انجام دیتے ہیں۔ فیشن اور ٹپ ٹاپ میں رہنا انہیں پسند ہوتا ہے۔ مغربی طرزِ زندگی سے انسیت ہوتی ہے اور انہیں کے طریقے پسند ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہیں میں سے ہوگا۔
چنانچہ ان کے دوست احباب بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مجالس بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی روش پر ہوتا ہے۔ یہ پیٹ اور مال کے پجاری ہوتے ہیں، اور صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ موت سے انہیں خوف آتا ہے۔
٣۔ ایمان کی زندگی
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جونمازکے پابند ہوتے ہیں۔ ان کا لباس سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ چہرہ نبی پاک ﷺ کی سنت یعنی داڑھی سے مزین ہوتا ہے۔دین داروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نشست و برخاست دین داروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ دین کی محنتیں کرتے ہیں۔ اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ دین کے کام میں دوڑ دوڑ کے حصہ لیتے ہیں۔ خوب وقت لگاتے ہیں۔ ذکر و تسبیح کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ دین کے سمجھنے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔
اور تو اور، دین کی بات کرتے ہیں، دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے مطابق زندگی گزارنے پر ابھارتے ہیں۔ وعظ و نصیحت بھی کرتے ہیں۔ تصنیف و تالیف بھی کرتے ہیں۔
لیکن جب انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو گناہ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ شیطان ان کو ذرا سا پُش Push کرے تو فوراً اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔یہ لوگ جلوت میں متقی اور خلوت میں گناہ گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چھُپ کر گناہ کرتے ہیں۔لوگوں کے سامنے مولانا ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں متقی اور پرہیزگار سمجھتے ہیں۔ علم بھی انہیں خوب ہوتا ہے۔ ان کی نیکیاں کثیر تعداد میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اوپر سے لا الٰہ ہوتے ہیں اور اندر سے کالی بلا ہوتے ہیں۔یہ لوگ اس لیے گناہ سے بچتے ہیں کہ "لوگ دیکھ رہے ہیں" یعنی اللہ کے ڈر کی وجہ سے گناہوں سے نہیں بچتے، بلکہ لوگوں کے ڈر سے بچتے ہیں۔
انہیں گناہ کرنے کا احساس بھی ہوتا ہے، اور یہ گناہ سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رب تعالیٰ کے سامنے روتے بھی ہیں۔ لیکن جونہی انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو فوراً شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔ یعنی کلیتاً ان کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا... ۱۰۰ گناہوں میں سے ۹۵ نہیں کرتے البتہ ۵ ضرور کرتے ہیں۔ کبھی ۹۸ نہیں کرتے لیکن ایک دو گناہ ایسے ضرور ہوتے ہیں جس میں یہ لگے رہتے ہیں۔
چنانچہ یہ اعلانیہ طور پر تو خدا پرست ہوتے ہیں، البتہ خفیہ طور پر نفس پرست اور ہویٰ پرست ہوتے ہیں۔
بقول مرشدی پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم:
”یاد رکھیں!زن پرستی، زر پرستی، شہوت پرستی، نفس پرستی... یہ سب کی سب بت پرستی ہی کی اقسام ہیں... خدا پرستی کوئی اور چیز ہے!“
(جاری......)
فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ
٢١ نومبر،بروز سنیچر،١٠:٥٠بجے صبح
٢١ نومبر،بروز سنیچر،١٠:٥٠بجے صبح
0 comments:
Post a Comment