Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label رد رافضیت. Show all posts
Showing posts with label رد رافضیت. Show all posts

کیا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو شیطان اغوا کر لیتا تھا؟

 "سربکف" میگزین 3-نومبر، دسمبر 2015
محسن اقبال ﷾

ایک شیعہ نے تاریخ طبری سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے  سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا ہے کہ سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بعض اوقات شیطان اغواء کر لیتا تھا۔
تاریخ طبری کی یہ روایت سخت ضعیف ہے۔اس کی مکمل سند درج ذیل ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا عَمِّي ، قَالَ : حَدَّثَنَا سَيْفٌ ، وَحَدَّثَنِي السَّرِيُّ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ : حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سَيْفِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِي ضَمْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ ،
اس روایت کا ایک راوی سیف بن عمر سخت ضعیف ہے۔اس کی تحقیق درج ذیل ہے۔
أهل السنة والجماعة:
1۔إمام أهل الجرح يحيى بن معين المتوفى (232 أو 233 هـ ) . قال عن سيف : ( فَلْس خير منه ) .لكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي ج4 ص507 رقم 851 ، تهذيب الكمال ج10 ص326 .)
2۔محمد بن عبدالله بن نُمَيْر الهمْداني المتوفى (234 هـ): سيف الضبي تميمي ، وكان جُمَيْع يقول : حدثني رجل من بني تميم ، وكان سيف يضع الحديث ، وكان قد اتهم بالزندقة ). المجروحين لابن حبان ج1 ص345 – 346 ، الميزان للذهبي ج3 ص353 رقم 3642 )
3۔أبو زرعة الرازي المتوفى (246هـ) قال : ( ضعيف الحديث ).تهذيب الكمال ج12 ص327
4۔قال أبو داوود المتوفى (246هـ) صاحب السنن في سيف : ( ليس بشيء ).سؤالات الآجري لأبي داود ج1 ص214 رقم 216)
5۔أبو حاتم الرازي المتوفى (277هـ) قال عنه : ( متروك الحديث ).الجرح والتعديل ج4 ص278 رقم 1189)
6۔أورد النسائي المتوفى (303هـ) صاحب السنن في كتابه ( الضعفاء والمتروكين ) وقال عنه : ( سيف بن عمر الضبي : ضعيف ).الضعفاء والمتروكين للنسائي رقم 256)
7۔الإمام عبدالرحمن بن أبي حاتم الرازي المتوفى (327هـ) صاحب كتاب الجرح والتعديل قال في سيف : ( وسيف متروك الحديث ).الجرح والتعديل ج7 ص136 رقم762)
8-وقال ابن حبان المتوفى (354 هـ) ذكر سيف بن عمر في المجروحين فقال : ( يروي الموضوعات عن الاثبات ، وقالوا : سيف يضع الحديث وكان قد اتهم بالزندقة ).كتاب المجروحين لابن حبان ج1 ص 345 – 346
9-الحاكم النيسابوري المتوفى (405 هـ) صاحب المستدرك قال في سيف : ( اتهم بالزندقة وهو في الرواية ساقط )تهذيب التهذيب ج4 ص296
10۔وذكره ابن الجوزي المتوفى (571 هـ) في الضعفاء ، وقال أيضاً : ( وهذا حديث موضوع بلا إشكال وفيه جماعة مجروحين ، وأشدهم في ذلك سيف وسعد ،وكلاهما متهم بوضع الحديث ).الموضوعات لابن الجوزي ج1 ص362 رقم 444 ۔
11۔الذهبي المتوفى (847 هـ ) قال عن سيف : ( متروك باتفاق ) .المغني ج1 ص460 رقم 2716)
 12۔جلال الدين السيوطي المتوفى (911 هـ) قال عن سيف : بعد أن عقب على حديث هو في سنده فقال : ( موضوع ، فيه ضعفاء أشدهم سيف ). اللئالي المصنوعة للسيوطي ج1 ص392۔
13۔وقال علي بن أبي بكر الهيثمي المتوفى (807 هـ) في حديث ضعفه لأجل سيف قال : ( وفيه سيف بن عمر متروك ) فيض القدير شرح الجامع الصغير للمناوي ج1 ص460 ۔
14۔محمد بن علي الشوكاني المتوفى (1250 هـ) قال عن سيف : في سند هو فيه : ( وفي إسناده سيف بن عمر ، وهو وضاع ). الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة ص 491 
15۔قال الشيخ المحدث محمد العربي التباني توفي نحو (1390 هـ ) في كتابه القيم ( تحذير العبقري من محاضرات الخضري ) . (1/275) ( سيف بن عمر الوضاع المتهم بالزندقة المتفق على أنه لا يروي إلا عن المجهولين )
الشيعة:
۔1،قال الخوئي المتوفى ( 1413هـ) : ( سيف بن عمر الوضاع الكذاب ).معجم رجال الحديث ج11 ص 207)
۔2۔قال الأميني المتوفى (1390 هـ) عن سيف :" راوي الموضوعات ، المتروك ، الساقط ، المتسالم على ضعفه ، المتهم بالزندقة" .ونقل العلامة الأميني أقوال أهل الجرح والتعديل فيه. (الغدير ج8 ص 84 – 85 و 140 – 141 و 327 و 351)
سیف بن عمر کو شیعہ علماء نے بھی ضعیف اور متروک کہا ہے۔
شیعہ عالم الامینی کا یہ قول ایران سے  شیعہ عالم سیستانی کے مکتب سے شایع کی گئی کتاب السلف الصالح میں بھی پیش کیا گیا ہے کہ سیف بن عمر متروک اور ضعیف ہے۔
    اس کے علاوہ شیعہ کا اصل اعتراض اس روایت کے لفظ اغوینّھم پہ تھا اور شیعہ کا استدلال تھا کہ
قرآن کی آیت یہ ہے :  قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴿٣٩﴾ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿٤٠﴾
اس نے کہا کہ پروردگار جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں ان بندوں کے لئے زمین میں ساز و سامان آراستہ کروں گا اور سب کو اکٹھا گمراہ کروں گا,علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنا لیا ہے۔
یہاں پر اغوینّھم کا لفظ ہے ، یعنی میں انہیں اغوا کروں گا۔
ابوبکر کہتا ہے کہ مجھے کبھی کبھا شیطان اغوا کر لیتا ہے جبکہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ شیطان اللہ تعالی کے خالص بندوں‌ کو اغوا نہیں‌ کر پائیگا۔ تو ابوبکر کیسے خلیفہ تھے جو کہتے ہیں کہ مجھے شیطان اغوا کر لیتا ہے۔ ماننا پڑیگا کہ ابوبکر مومن نہیں تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام زین العابدین ؒ نے بھی اپنے لئے انہی الفاظ کا استعمال کیا ہے جس کا ذکر شیعہ کتب میں موجود ہے۔
روایت یہ ہے
يقول الإمام زين العابدين في مناجاته : «إلهي إليك أشكو نفسا بالسوء أمارة، وإلى الخطيئة مبادرة، وبمعاصيك مولعة، ولسخطك متعرضة، تسلك بي مسالك المهالك، وتجعلني عندك أهون هالك، كثيرة العلل، طويلة الامل، إن مسها الشر تجزع، وإن مسها الخير تمنع، ميالة إلى اللعب واللهو، مملوء‌ة بالغفلة والسهو، تسرع بي إلى الحوبة وتسوفني بالتوبة. إلهي أشكو إليك عدوا يضلني، وشيطانا يغويني، قد ملأ بالوسواس صدري، وأحاطت هواجسه بقلبي، يعاضد لي الهوى، ويزين لي حب الدنيا، ويحول بيني وبين الطاعة والزلفى. إلهي إليك أشكو قلبا قاسيا، مع الوسواس متقلبا، وبالرين والطبع متلبسا، وعينا عن البكاء من خوفك جامدة، وإلى ما يسرها طامحة. إلهي لا حول ولا قوة إلا بقدرتك، ولا نجاة لي من مكاره الدنيا إلا بعصمتك. فأسألك ببلاغة حكمتك، ونفاذ مشيتك، أن لا تجعلني لغير جودك متعرضا، ولا تصيرني للفتن غرضا، وكن لي على الأعداء ناصرا، وعلى المخازي والعيوب ساترا، ومن البلايا واقيا، وعن المعاصي عاصما، برأفتك ورحمتك يا أرحم الراحمين.
(الصحيفة السجادية ص 236.)
اب شیعہ کو چائیے کہ یہ لفظ بیان کرنے پہ جو فتوی وہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پہ لگاتے ہیں وہی فتوی امام زین العابدین پہ لگائیں کہ کیا امام زین العابدینؒ کو بھی شیطان نے اغوا کر لیا تھا؟؟؟
اگر ان کے نزدیک یہ لفظ بیان کرنے سے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ مومن نہیں ہیں تو پھر یہی لفظ بیان کرنے سے امام زین العابدینؒ بھی مومن نہیں ہو سکتے۔
غلامِ خاتم النبیینﷺ
محسن اقبال
٭٭٭

صدیق کی خلافت و بیعت پر اعتراضات کے جواب

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

اعتراض1:کہا جاتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اجماع تھا.تو کیا یہ درست ہے کہ حضرت علی  اور ان کے ہمراہ صحابہ کرام نے بیعت نہیں کی تھی جبکہ ایسا اجماع جس میں وہ شریک نہ ہوں اس پر خدا وند متعال نے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ امام ابن حزم فرماتے ہیں:
لعنة اللہ علی کلّ اجماع یخرج منہ علی بن أبی طالب ومن بحضرتہ من الصحابة ( المحلّٰی ٩:٣٤٥)
الجواب:
 پہلی بات یہ کہ ابن حزم کی اس عبارت کا ترجمہ اس طرح ہے لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی نہ ہوں یا جس میں صحابہ میں کسی کی موجودگی نہ ہو۔
اجماع کے واسطے ضروری نہین ہے کہ ہر آدمی اس بات سے متفق ہو بلکہ جس کو غالب اکثریت اپنائے اسے اجماع ہی کہیں گے سیدنا صدیق کے خلافت پر بھی اجماع منعقد ہو چکا ۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نھج بلاغہ میں قول ہے
فَإِنِ اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَ سَمَّوْهُ إِمَاماً كَانَ ذَلِكَ لِلَّهِ رِضًا
اگر مهاجرين و انصار کسی کی امامت پر اجماع کرلیں اور اسے پیشوا قرار دے تو اللہ تعالی کی رضا بھی اس میں شامل ہیں۔
اورپھر سیدنا صدیق کی خلافت پر تمام مہاجرین و انصار نے اتفاق کر لیا تھا جس سے یہ ثابت ہوا کہ ان کی خلافت متفق علیہ تھی۔
قول ابن حزم رحمہ
وَلَعْنَةُ اللَّهِ على كل إجْمَاعٍ يَخْرُجُ عنه عَلِيُّ بن أبي طَالِبٍ وَمَنْ بِحَضْرَتِهِ من الصَّحَابَةِ
 اللہ کی لعنت ہو ایسے اجماع پر جس میں علی نہ ہوں یا جس میں صحابہ میں کسی کی موجودگی نہ ہو
اول : ابن حزم  اللہ کی ان پر رحمت ہو کے یہ الفاظ کسی حدیث یا روایت سے نہیں ہیں بلکہ یہ ان کے اپنے الفاظ ہیں جس کی حیثیت ایک عالم کے قول کی ہے جس اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ ان الفاظ سے استدلال لینا کہ سیدنا صدیق کی خلافت پر اجماع نہیں تھا یقنن جہالت ہی ہے۔
دوم : ابن حزم نے یہ الفاظ فقہاء پر بحث کرتے ہوئے کہیں ہیں جس میں ان کا مطلب تھا کہ کسی بھی فقہی مسئلہ میں اگر علی کے اور صحابہ کے موقف کو سائیڈ کردیا جائے تو ایسا فقہی اجماع کسی کام کا نہیں ہے ۔ اللہ ان پر رحم کرے ان مقصد یقنن فقہاء پر لعنت بھیجنا نہین تھا ۔  اتنی سی بات ہے اس مین کہیں پر بھی سیدنا صدیق کی خلافت کا زکر تک نہیں ہے ۔ پھر ہم پہلے بھی کہ چکے ہیں کہ سیدنا صدیق کی خلافت پر علی رضی راضی تھے ۔پھر بھی رافضیوں کا شک دور کرنے کے لئے بیعت صدیق کا احوال لکھ دیتے ہیں۔
حضرت علی کا صدیق کی بیعت کرنے کا احوال:
ابن كثير في البداية والنهاية (6\693. في أحداث سنة 11:
 وقد اتفق الصحابة –رضي الله عنهم– على بيعة الصديق في ذلك الوقت حتى علي بن أبي طالب والزبير بن العوام –رضي الله عنهما
ابن کثیر الدایہ میں نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ حضرت ابی بکر صدیق کی بیعت پر متفق ہوگئے اور تو اور اس وقت علی ابن ابی طالب   اور زبیر بن العوام   نے بھی بیعت کرلی۔
 امام عبداللہ  بن احمد بن حنبل اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہین
حدثني عبيد الله بن عمر القواريري حدثنا عبد الأعلى بن عبد الأعلى حدثنا داود بن أبي هند عن أبي نضرة قال لما اجتمع الناس على أبي بكر رضي الله عنه فقال ما لي لا أرى عليا قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال له يا علي قلت ابن عم رسول الله وختن رسول الله فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه ثم قال أبو بكر ما لي لا أرى الزبير قال فذهب رجال من الأنصار فجاءوا به فقال يا زبير قلت ابن عمة رسول الله وحواري رسول الله قال الزبير لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه
ابی ندرہ سے روایت ہے کہ جب لوگ ابی بکر کی بیعت کر رہے تھے تو اس وقت انہوں نے کہا کہ مجھے کیا ہوا ہے کہ میں علی کو نہیں دیکہ رہا پھر انصار کا ایک آدمی گیا اور علی اس کے ساتھ آگئے صدیق نے کہا اے علی آپ کہ سکہتے ہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہیں اور آپ ان کے عمزاد ہیں تو علی نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ  سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی نے بیعت کرلی۔ پھر صدیق نے کہا کہ مجھے کیا ہواہے کہ میں زبیر کو نہیں دیکہ رہا انصار کا ایک آدمی گیا اور انہیں بلا کہ لایا صدیق نے کہا اے زبیر تم کہ سکتے ہو کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوپھی کے بیتے ہو زبیر نے کہا  اے خلیفہ رسول اللہ مجھ سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہا یا اور زبیر نے بیعت کرلی۔
یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے اسناد قوی ہیں پھر اس حدیث کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ امام حاکم نے اپنی کتاب مستدرک (4457حدیث) مین نقل کیا ہے ان کہنا ہے کہ یہ حدیث شیخین کے طریقہ پر صحیح ہے۔ پھر بیہقی نے اپنی کتاب اعتقادات جلد 1 ص 349-350 مین اسے  ابی سعید الخدری سے نقل کیا ہے اس کا مضمون بھی ایسا ہی ہے اور بیہقی کی یہ حدیث صحیح ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل اپنی کتاب سنن(2-563) میں قیس بن العبدی سے نقل کرتے ہیں کہ قیس کہتے ہیں کہ میں علی کو بصرہ میں خطبہ دیتے ہوئے دیکہا انہوں نے اللہ کی تعریف کی اس کا شکریہ ادا کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لوگوں کے لئے قربانیوں کا زکر کیا پھر اللہ نے انہیں موت دی تو مسلمانوں نے دیکہاکہ ان کو ابی بکر کی بیعت کرنی چاہئے تو انہوں ان کی بیعت کی میں نے بھی ان کی بیعت کی اور ان سے وفاداری کی وہ (مسلمان) ان سے خوش تھے ابی بکر نے اچھے کام کئے اور جہاد کیا یہاں تک اللہ نے ان کو موت دے دی ان پر اللہ کی رحمت ہو۔
شیعہ کتب سے حوالے:
محمد بن حسن نوبختی فرق الشیعہ ص 30  پر لکہتے ہیں
ان علیا علیہ اسلام لھما الامر ورضی بذلک و بایعھما طائعا غیر مکرہ و ترک حقھ لھما فنحن راضون کما رضی لھ، لا یحل لنا غیر ذلک ولایسع منا احد الا ذالک و ان ولایۃ ابی بکر صارت رشدا وھدی ، لتسلیم علی ورضاہ۔
ترجمہ: کہ علی (ر) نے اُن (یعنی ابو بکر و عمر) کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا اور اُس پر راضی ھو گئے تھے ، اور بغیر کسی جبر کے اُن کی بیعت کر کے فرماںبرداری کی ، اور اُن کے حق میں دستبردار ھو گئے تھے۔ پس ہم بھی اس پر راضی ھیں جیسے وہ راضی تھے۔ اب ہمارے لئے یہ حلال نہیں کہ ہم اس کے علاوہ کچھ اور کہیں ، اور ہم میں سے کوئی اس کے سوا کچھ اور کہے۔ اور یہ کہ علی (ر) کی تسلیم (تسلیم کرنے) اور راضی ھونے کی وجہ سے ابو بکر (ر) کی ولایت ، راشدہ اور ھادیہ بن گئی
شیخ علی البحرانی منار الہدی ص 685  پر لکہتے ہیں
وكما ينقشع السحاب، فمشيت عند ذلك إلى أبي بكر فبايعته ونهضت في تلك الأحداث حتى زاغ الباطل وزهق وكانت كلمة الله هي العليا ولو كره الكافرون (2) فتولى أبو بكر تلك الأمور وسدد وقارب واقتصد، وصحبته مناصحا وأطعته فيما أطاع الله فيه جاهدا

یہ دیکھ کر کہ کہیں فتنے یا شر پیدا نہ ھو جائے ، میں ابوبکر (ر) کے پاس چل کر گیا اور اور اُن کی بیعت کرلی۔ اور اُن حوادث کے خلاف (ابوبکر(ر) کے ساتھ) کھڑا ھوگیا ، حتیٰ کہ باطل چلا گیا اور اللہ کا کلمہ بلند ھو گیا چاھے وہ کافروں کو برا لگے۔ پس جب ابوبکر (ر) نے نظام امارت سنبھالا اور حالات کو درست کیا اور آسانیاں پیدا کیں ، تو میں اُن کا مُصاحب شریک کار (ہم نشیں) بن گیا اور اُن کی اطاعت (فرماںبرداری) کی ، جیسے اُنہوں نے اللہ کی اطاعت کی۔
امالی ص 507  میں شیخ طوسی نقل کرتے ہین۔
 فبايعت أبا بكر كما بايعتموه، وكرهت أن أشق عصا المسلمين، وأن أفرق بين جماعتهم، ثم أن أبا بكر جعلها لعمر من بعده، وأنتم تعلمون أني أولى الناس برسول الله (صلى الله عليه وآله) وبالناس من بعده، فبايعت عمر كما بايعتموه،

ترجمہ: پس میں نے ابو بکر (ر) کی اُسی طرح بیعت کی ، جس طرح تم لوگوں نے کی۔ اور میں نے یہ ناپسند کیا کہ مسلمانوں کی جماعت کے مابین کوئی پھوٹ یا تفرقہ پیدا ھو۔ پھر ابو بکر (ر) نے (خلافت) عمر (ر) کو سونپی ، اور (حالانکہ) تم جانتے ھو کہ رسول (ص) کے بعد اُن کے قریب ہم تھے۔ پس پھر میں نے بھی عمر (ر) کی اُسی طرح بیعت کی جس طرح تم لوگوں نے کی۔
شیخ طبرسی الاحتجاج جلد ۱ ص 114 پر لکہتے ہیں:
وروي عن الباقر عليه السلام قال: فلما وردت الكتب على أسامة انصرف بمن معه حتى دخل المدينة، فلما رأى اجتماع الخلق على أبي بكر انطلق إلى علي بن أبي طالب عليه السلام فقال له: ما هذا؟ قال له علي: هذا ما ترى. قال له أسامة: فهل بايعته؟ فقال: نعم يا أسامة.
امام باقر سے روایت ھے: جب اسامہ (ر) کو (نبی (ص) کے وصال کا) خط پہنچا تو وہ ساتھیوں سمیت مدینہ آگئے ، اور دیکھا کہ ابوبکر (ر) کے پاس (بیعت کے لئے) لوگ جمع ھیں۔ تو وہ علی (ر) کے پاس گئے اور اُن سے پوچھا: یہ کیا ھے؟ علی (ر) نے اُن سے کہا: یہ وھی ہے جو تم دیکھ رھے ھو۔ اسامہ (ر) نے اُن سے پوچھا: کیا آپ نے بھی بیعت کر لی ھے؟ علی (ر) نے کہا: ہاں اسامہ (میں نے بھی بیعت کر لی ھے۔
محمد بن حسن طوسی تلخیص شافی جلد 3 ص 42 پر لکہتے ہیں
لا اشکال فیہ : انھ علی علیہ السلام بایع مستدفعا للشر و فارا من الفتنہ۔
اس میں کوئی اشکال نہیں ہے کہ علی (ر) نے (ابوبکر کی) بیعت کرلی تاکہ شر دفع ھو اور فتنہ پیدا نہ ھو۔
اس کے علاوہ دوسرے کتب اور نھج البلاغہ وغیرہ میں علی رضی اللہ کی بیعت کا زکر موجود ہے۔
چناچہ یہ بات ثابت ہوئی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور جو ان کے سا تھ تھے انہوں نے بنا کسی جبر کے بیعت کرلی تھی اور انصار و مہاجرین نے تو پہلے ہی بیعت کر لی تھی ۔ اس بات سے ثابت ہوا کہ سیدنا صدیق کی خلافت پر تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا تھا تو ابن حزم کی اس بات کا اطلاق خلافت صدیق پر نہیں ہوتا اور ابن حزم صحیح ہیں جس اجماع میں علی شامل نہ ہوں وہ اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔  شیعوں کو چاہئے کہ وہ اپنے امام کی بات مان لیں اور جس طرح نوبختی نے لکہا ہے کہ وہ ابی بکر سے راضی ہوگئے تھے وہ ان کے حق میں دستبردار ہوگئے تھے۔ اسی طرح شیعے بھی یہود مدینہ کی طرح ہٹ دہرمی چھوڑ کر سیدنا صدیق کی  خلافت بلا فصل کو ہادیہ خلافت مان لیں۔ پر کیا کیا جا سکتا ہے یہود مدینہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرتے رہے اور اب ان کی اولاد شیعے بھی وہی کرہے ہیں رسول اللہ کے خلیفہ کا انکار کرتے رہے ہیں۔
اعتراض 3:

آپ کہتے ہیں : ابوبکر کی بیعت تمام مہاجرو انصار کے اجماع کے ذریعہ حاصل ہوئی ، لیکن عمر بن خطاب نے کہا ہے : تمام مہاجرین، ابوبکر کی بیعت کے مخالف تھے ، علی (علیہ السلام) ، زبیر اور ان کے چاہنے والے بھی موافق نہیں تھے۔ ” حین توفی اللہ نبیہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ان الانصار خالفونا ، و اجتمعوا باسرھم فی سقیفة بنی ساعدة و خالف عنا علی والزبیر و من معھما”۔ (١)۔
آپ کا دعوی صحیح ہے یا عمر بن خطاب کا دعوی صحیح ہے؟
الجواب:
ہم اس بات کو تو ثابت کرچکے ہیں کہ تمام انصار و مہاجرین نے سیدنا صدیق کی بیعت کر لی تھی اور وہ سب کے سب سیدنا صدیق کے ساتھ خلافت کے کاموں میں لگ گئے تھے۔
سقیفہ کے بارے میں عمر رضی اللہ عنہ کی روایت
یہ ایک طویل روایت ہے ہم اس ضروری حصہ یہاں صحیح بخاری کتاب الحدود باب  رجم الحبلی سے نقل کردیتے ہیں
إِنَّمَا کَانَتْ بَيْعَةُ أَبِي بَکْرٍ فَلْتَةً وَتَمَّتْ أَلَا وَإِنَّهَا قَدْ کَانَتْ کَذَلِکَ وَلَکِنَّ اللَّهَ وَقَی شَرَّهَا وَلَيْسَ مِنْکُمْ مَنْ تُقْطَعُ الْأَعْنَاقُ إِلَيْهِ مِثْلُ أَبِي بَکْرٍ مَنْ بَايَعَ رَجُلًا عَنْ غَيْرِ مَشُورَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَلَا يُبَايَعُ هُوَ وَلَا الَّذِي بَايَعَهُ تَغِرَّةً أَنْ يُقْتَلَا وَإِنَّهُ قَدْ کَانَ مِنْ خَبَرِنَا حِينَ تَوَفَّی اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْأَنْصَارَ خَالَفُونَا وَاجْتَمَعُوا بِأَسْرِهِمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ وَخَالَفَ عَنَّا عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَمَنْ مَعَهُمَا وَاجْتَمَعَ الْمُهَاجِرُونَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ فَقُلْتُ لِأَبِي بَکْرٍ يَا أَبَا بَکْرٍ انْطَلِقْ بِنَا إِلَی إِخْوَانِنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَانْطَلَقْنَا نُرِيدُهُمْ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْهُمْ لَقِيَنَا مِنْهُمْ رَجُلَانِ صَالِحَانِ فَذَکَرَا مَا تَمَالَأَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ فَقَالَا أَيْنَ تُرِيدُونَ يَا مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ فَقُلْنَا نُرِيدُ إِخْوَانَنَا هَؤُلَائِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَا لَا عَلَيْکُمْ أَنْ لَا تَقْرَبُوهُمْ اقْضُوا أَمْرَکُمْ فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّهُمْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّی أَتَيْنَاهُمْ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ فَإِذَا رَجُلٌ مُزَمَّلٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا فَقَالُوا هَذَا سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ فَقُلْتُ مَا لَهُ قَالُوا يُوعَکُ فَلَمَّا جَلَسْنَا قَلِيلًا تَشَهَّدَ خَطِيبُهُمْ فَأَثْنَی عَلَی اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَنَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ وَکَتِيبَةُ الْإِسْلَامِ وَأَنْتُمْ مَعْشَرَ الْمُهَاجِرِينَ رَهْطٌ وَقَدْ دَفَّتْ دَافَّةٌ مِنْ قَوْمِکُمْ فَإِذَا هُمْ يُرِيدُونَ أَنْ يَخْتَزِلُونَا مِنْ أَصْلِنَا وَأَنْ يَحْضُنُونَا مِنْ الْأَمْرِ فَلَمَّا سَکَتَ أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ وَکُنْتُ قَدْ زَوَّرْتُ مَقَالَةً أَعْجَبَتْنِي أُرِيدُ أَنْ أُقَدِّمَهَا بَيْنَ يَدَيْ أَبِي بَکْرٍ وَکُنْتُ أُدَارِي مِنْهُ بَعْضَ الْحَدِّ فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَتَکَلَّمَ قَالَ أَبُو بَکْرٍ عَلَی رِسْلِکَ فَکَرِهْتُ أَنْ أُغْضِبَهُ فَتَکَلَّمَ أَبُو بَکْرٍ فَکَانَ هُوَ أَحْلَمَ مِنِّي وَأَوْقَرَ وَاللَّهِ مَا تَرَکَ مِنْ کَلِمَةٍ أَعْجَبَتْنِي فِي تَزْوِيرِي إِلَّا قَالَ فِي بَدِيهَتِهِ مِثْلَهَا أَوْ أَفْضَلَ مِنْهَا حَتَّی سَکَتَ فَقَالَ مَا ذَکَرْتُمْ فِيکُمْ مِنْ خَيْرٍ فَأَنْتُمْ لَهُ أَهْلٌ وَلَنْ يُعْرَفَ هَذَا الْأَمْرُ إِلَّا لِهَذَا الْحَيِّ مِنْ قُرَيْشٍ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ نَسَبًا وَدَارًا وَقَدْ رَضِيتُ لَکُمْ أَحَدَ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ فَبَايِعُوا أَيَّهُمَا شِئْتُمْ فَأَخَذَ بِيَدِي وَبِيَدِ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ الْجَرَّاحِ وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَنَا فَلَمْ أَکْرَهْ مِمَّا قَالَ غَيْرَهَا کَانَ وَاللَّهِ أَنْ أُقَدَّمَ فَتُضْرَبَ عُنُقِي لَا يُقَرِّبُنِي ذَلِکَ مِنْ إِثْمٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَأَمَّرَ عَلَی قَوْمٍ فِيهِمْ أَبُو بَکْرٍ اللَّهُمَّ إِلَّا أَنْ تُسَوِّلَ إِلَيَّ نَفْسِي عِنْدَ الْمَوْتِ شَيْئًا لَا أَجِدُهُ الْآنَ فَقَالَ قَائِلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا جُذَيْلُهَا الْمُحَکَّکُ وَعُذَيْقُهَا الْمُرَجَّبُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْکُمْ أَمِيرٌ يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ فَکَثُرَ اللَّغَطُ وَارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ حَتَّی فَرِقْتُ مِنْ الِاخْتِلَافِ فَقُلْتُ ابْسُطْ يَدَکَ يَا أَبَا بَکْرٍ فَبَسَطَ يَدَهُ فَبَايَعْتُهُ وَبَايَعَهُ الْمُهَاجِرُونَ ثُمَّ بَايَعَتْهُ الْأَنْصَارُ
ترجمہ:
تمہیں کوئی شخص یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے کہ ابوبکر کی بیعت اتفاقیہ تھی اور پھر پوری ہوگئی، سن لو کہ وہ ایسی ہی تھی لیکن ﷲ نے اس کے شر سے محفوظ رکھا اور تم میں سے کوئی شخص نہیں ہے جس میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ جیسی فضیلت ہو، جس شخص نے کسی کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بیعت کرلی تو اس کی بیعت نہ کی جائے- اس خوف سے کہ وہ قتل کردیے جائیں گے جس وقت ﷲ نے اپنے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو وفات دے دی تو اس وقت وہ ہم سب سے بہتر ہے– مگر انصار نے ہماری مخالفت کی اور سارے لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوگئے اور حضرت علی وزبیر نے بھی ہماری مخالفت کی اور مہاجرین ابوبکر کے پاس جمع ہوئے تو میں نے ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ اے ابوبکر ہم لوگ اپنے انصار بھائیوں کے پاس چلیں، ہم لوگ انصار کے پاس جانے کے ارادے سے چلے جب ہم ان کے قریب پہنچے تو ان میں سے دو نیک بخت آدمی ہم سے ملے، ان دونوں نے وہ بیان کیا جس کی طرف وہ لوگ مائل تھی پھرانہوں نے پوچھا اے جماعت مہاجرین کہاں کا قصد ہے ہم نے کہا کہ اپنے انصار بھائیوں کے پاس جانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا ہم تمہارے لئے مناسب نہیں کہ ان کے قریب جاؤ تم اپنے امر کا فیصلہ کرو میں نے کہا کہ خدا کی قسم ہم ان کے پاس جائیں گے چناچہ ہم چلے یہاں تک کہ سقیقہ بنی ساعدہ میں ہم ان کے پاس پہنچے تو ایک آدمی کو ان کے درمیان دیکھا کہ کمبل میں لپٹا ہوا ہے میں نے کہا یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ سعد بن عبادہ، میں نے کہا کہ ان کو کیا ہوا لوگوں نے عرض کیا کہ ان کو بخار ہے ہم تھوڑی دیر بیٹھے تھے کہ ان کا خطیب کلمہ شہادت پڑھنے لگا اور ﷲ کی حمدوثناء کرنے لگا جس کا وہ سزاوار ہے- پھر کہا امابعد، ہم ﷲ کے انصار اور اسلام کے لشکر ہیں اور تم اے مہاجرین وہ گروہ ہو کہ تمہاری قوم کے کچھ آدمی فقر کی حالت میں اس ارادہ سے نکلے کہ ہمیں ہماری جماعت کو جڑ سے جدا کردیں اور ہماری حکومت ہم سے لے لیں- جب وہ خاموش ہوا تو میں نے بولنا چاہا، میں نے ایک بات سوچی رکھی کہ جس کو میں ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کرنا چاہتا تھا- اور میں ان کا ایک حد تک لحاظ کرتا تھا، جب میں نے بولنا چاہا تو ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے گفتگو کی وہ مجھ سے زیادہ بردباراور باوقار تھے- خدا کی قسم جو بات میری سمجھ میں اچھی معلوم ہوتی تھی اسی طرح یا اس سے بہتر پیرایہ میں فی البدیہہ بیان کی یہاں تک کہ وہ چپ ہوگئے انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے جو خوبیاں بیان کی ہیں تم ان کے اہل ہو لیکن یہ امر (خلافت) صرف قریش کے لئے مخصوص ہے یہ لوگ عرب میں نسب اور گھر کے لحاظ سے اوسط ہیں میں تمہارے لئے ان دو آدمیوں میں ایک سے راضی ہوں ان دونوں میں کسی سے بیعت کرلو، چناچہ انہوں نے میرا اور ابوعبیدہ بن جراح کا ہاتھ پکڑا اور وہ ہمارے درمیان بیٹھے ہوئے تھے (عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں) مجھے اس کے علاوہ انکی کوئی بات ناگوار نہ ہوئی، خدا کی قسم میں اس جماعت کی سرداری پر جس میں ابوبکر ہوں اپنی گردن اڑائے جانے کو ترجیح دیتا تھا، یا ﷲ مگر میرا یہ نفس موت کے وقت مجھے اس چیز کو اچھا کر دکھائے جس کو میں اب نہیں پاتا ہوں انصار میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ہم اس کی جڑ اور اس کے بڑے ستون ہیں اے قریش ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک تم میں سے شوروغل زیادہ ہوا اور آوازیں بلند ہوئیں یہاں تک کہ مجھے اختلاف کا خوف ہوا میں نے کہا اے ابوبکر اپنا ہاتھ بڑھائیے، انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے ان سے بیعت کی اور مہاجرین نے بھی بیعت کی پھر انصار نے ان سے بیعت کی۔
اب یہ سوال کرنے ولا عقل کا دشمن ہے حضرت عمر  یہاں سیدنا صدیق کے خلیفہ بننے سے پہلے کا حال بتا رہے ہیں ظاہر اس وقت وہ خلیفہ نہیں تھے تو اس وقت اجماع کیسے ہو سکتا ہے ۔یہ سراسر جہوٹ و کذب ہے کہ تمام مہاجرین ابی بکر رضی اللہ عنہ کے مخالف تھے سیدنا عمر نے ایسا نہیں کہا بلکہ صرف علی و زبیر اور کچھ اور لوگ ہی علی کء گھر میں تھےمخالف وہ بھی نہیں تھے انہیں جیسے پتا چلا بیعت کے لئے آگئے ۔ لیکن جب سیدنا صدیق کی خلافت پر انصار نے اجماع کرلیا اور  مہاجرین نے بھی بیعت کی پھر علی و زبیر کی بیعت کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو تھے انہوں نے بھی بیعت کی۔ تو عقل کے دشمن کیا یہ اجماع نہیں ہوا سب نے بیعت کی۔اس بات سے کس کو انکار ہے کہ انصار نے اپنا خلیفہ چننے کے لئے ہی اجتماع کیا تھا اور پھر اس بات سے کس کو انکا ر ہے کہ سیدنا  علی و زبیر بھی الگ تھے لیکن جب ان سب لوگوں نے سیدنا صدیق کی بیعت کر لی تو پھر یہ اجماع ہی ہوا نہ ۔ اب پتا نہیں کہ شیعہ اجماع کسے کہتے ہیں۔
اعتراض 4:کیا یہ صحیح ہے کہ حضرت علی نے ہرگز حضرت ابوبکر کی بیعت نہ کی اور اپنی مٹھی بند رکھی لیکن جب حضرت ابوبکر نے یہ صورت حال دیکھی تو خود اپنا ہاتھ حضرت علی کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اسی کو اپنی بیعت قرار دے دیا ؟جیسا کہ مسعودی لکھتے ہیں:
فقالوا لہ : مدّ یدک فبایع ، فأبٰی علیہم فمدّوا یدہ کرھا فقبض علی أناملہفراموا بأجمعھم فتحھا فلم یقدروا فمسح علیھا أبوبکر وھی مضمونة ( اثبات الوصیة: ١٤٦؛ الشّافی ٣: ٢٤٤)
اس کے باوجو د بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر کی بیعت اہل حل و عقد کے اجماع سے واقع ہوئی .کیا اسی کو اجماع واتفاق کہتے ہیں؟ اور پھر اس حدیث ((علیّ مع الحقّ وا لحقّ مع علیّ یدور معہ حیث مادار)) مستدرک حاکم ٣: ١٢٥؛ جامع ترمذی ٥: ٥٩٢ ،ح٣٧١٤؛مناقب خوارزمی :١٧٦،ح ٢١٤؛فرائد السّمطین ١: ١٧٧،ح ١٤٠؛ شرح المواہب اللدنیة ٧: ١٣
علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے .حق اسی طرف پھرتا ہے جہاں علی پھرجائیں.
الجواب:
یہ حوالے شیعہ کتب سے ہیں جو کہ ہمارے لئے حجت نہیں ہیں لیکن پھر کچھ عرض کردیتے ہیں۔
بیعت علی کا مکمل احوال از شیعہ و سنی کتب سوال 1 میں آگیا لیکن یہ بلکل ہی سفید جہوٹ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ نہیں کھولا تھاعلی نے بیعت کرتے وقت ہاتھ بند نہیں کیا تھا بلکہ خود سیدنا صدیق کو کہا کہ ہاتھ دیں تو انہوں آگے کیا اور علی نے بیعت کرلی ۔
اس کا صحیح روایت سے ثبوت:
امام عبداللہ  بن احمد بن حنبل اپنی کتاب سنن ص 554 میں نقل کرتے ہین
فقال علي رضي الله عنه لا تثريب يا خليفة رسول الله ابسط يدك فبسط يده فبايعه
تو علی نے کہا اے رسول اللہ کے خلیفہ آپ مجھ  سے ناراض نہ ہوں اپنا ہاتھ بڑہائے آپ نے ہاتھ بڑہایا اور علی نے بیعت کرلی۔
سیدنا علی سیدنا صدیق کی بیعت کے لئے بھاگتے ہوئے آئے تھے حتی کہ وہ ٹھیک سے قمیص بھی نہیں پہن سکے تھے تاکہ بیعت میں دیر نہ ہو جن کا حال یہ ہے اور  آپ کہتے ہیں کہ انہوں ہاتھ بند رکھا تھا۔
تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ 448
عن حبيب ابن أبي ثابت قال كان علي في بيته إذ أتى فقيل له قد جلس أبو بكر للبيعة فخرج في قميص ما عليه إزار ولا رداء عجلا كراهية أن يبطئ عنها حتى بايعه ثم جلس إليه وبعث إلى ثوبه فأتاه فتخلله ولزم مجلس
حبیب بن ابی ثابت سے روایت ہے کہ علی اپنے گھر میں تھے کہ کسی نے آکر کہا کہ ابوبکر مسجد میں بیعت لے رہے ہیں تو آپ فور ااٹھے اور قمیص پہنے بغیر اس خوف سے کہ کہیں دیر نہ ہوجائے گھر سے مسجد آئے بیعت کی اور پھر ابی بکر کے ساتھ بیٹھے رہے اور کسی کو بھیج کر قمیص منگوا کر پہنی اور پھر وہیں بیٹھے رہے۔
اس سے ظاہر ہوا کہ یہ روایت کہ انہوں ہاتھ بند رکہا تھا کذب ہیں۔
باقی مستدرک وغیرہ کی روایات کہ حق علی کے ساتھ ہے اور علی حق کے ساتھ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ حق گو تھے اگر آپ دیکہتے کہ سیدنا صدیق حق پر نہیں ہیں تو ان کی بیعت کبھی نہیں کرتے بلکہ امام حسین کی طرح قربانی دیتے ۔ یہ بات شیعوں کا جاننی چاہئے کہ علی نے سیدنا صدیق کی بیعت کی مطلب وہ حق (یعنی صدیق) کے ساتھ تھے اور حق (صدیق) بھی ان کے ساتھ تھے وہ آپس میں سیر و شکر تھے ۔
شیعوں اپنی گریبان میں جھانکو۔
 اب یہ شیعہ ہیں کہ ایک طرف تو کہتے ہیں علی حق ہیں اور دوسری طرف پھر صدیق کوحق نہین مانتے جسے علی حق مانتے ہیں ۔ اور ہم الحمداللہ ہمیشہ کہتے ہیں علی حق ہر ہیں۔ لیکن شیعہ کہتے ہیںکہ نہیں وہ حق پرست نہیں تھے وہ اپنی جان بچانے کے خاطر اسلام اور اس کے اصولوں کو پیچھے ڈال دیتے تھے۔اور حق سے دستبردار ہوجاتے تھے حق چھپاتے تھے ۔ اندر میں ایک اور باہر میں دوسرے ہوتے تھے ...۔ معاذاللہ اللہ کی لعنت ہو ایسے سوچ رکہنے والوں پر۔
اعتراض 6:کیا یہ درست ہے کہ امام بخاری نے اسی حدیث کو اپنی کتاب میں چار مختلف مقامات پر نقل کیا ہے لیکن لفظ گناہگار ، خائن ، پیمان شکن کی جگہ کذا وکذا یا ((کلمتکما واحدة))لکھ دیاتاکہ یوں خلافت شیخین کے بارے میں اہل بیت پیغمبر ۖکی منفی نظر سے لوگ آگاہ نہ ہو پائیں؟؟
کہا جاتا ہے کہ امام بخاری نے باب خمس ، نفقات ،اعتصام اور باب فرائض میں اس روایت کو نقل توکیا لیکن اس میں تبدیلی کردی .کتاب نفقات میں لکھا ہے ( تزعمان أنّ أبابکرکذا وکذا)) اور باب فرائض میں یوں لکھا ہے : ( ثم ّ جئتمانی وکلمتکما واحدة)
الجواب
امام بخاری ، ابن عبدالبر اور دیگر محدیثین نے یہ الفاظ مختلف سندوں کے ساتھ نقل کئے ہیں ضروری نہیں کہ انہوں یہ الفاط حذف کر دئے ہوں ہر راوی کا کلام اپنا ہوتا ہے حدیث کا مفہوم و مقصد تو وہی رہتا ہے لیکن راوی کے بیان مختلف ہوتا ہے
امام بخاری کی سندیں یہ ہیں
صحیح بخاری ٣: ٢٨٧، کتاب النفقات
حدثنا سعيد بن عفير قال حدثني الليث قال حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة
حدثنا عبد الله بن يوسف حدثنا الليث حدثني عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس النصري وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي
کتاب الفرائض
حدثنا يحيى بن بكير حدثنا الليث عن عقيل عن ابن شهاب قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير بن مطعم ذكر لي
کتاب الخمس
حدثنا إسحاق بن محمد الفروي حدثنا مالك بن أنس عن ابن شهاب عن مالك بن أوس بن الحدثان وكان محمد بن جبير ذكر لي ذكرا من
كتاب المغازي » باب حديث بني النضير
حدثنا أبو اليمان أخبرنا شعيب عن الزهري قال أخبرني مالك بن أوس بن الحدثان النصري أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه
یہاں تقریبن ہر سند ہی الگ ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کو بیان کرنے میں جو فرق ہے وہ راویوں کی وجہ سے ہو ۔ اب اگر امام بخاری نے اگر یہ الفاط حدیث میں سے ختم کردئے ہیں تو انہوں نے اس کو راوی کا کلام ہی سمجہا ہوگا مثلا۔ ایک روایت راوی کے الفاظ کچھ اور ہونگے دوسری روایت میں دوسرے راوی کے الفاظ  کچہ اور ہونگے اور پھر تیسری روایت میں راوی نے کذا کذا وغیرہ کہ کر الفاظ بیان کردئے ہونگے کیوں کہ بعض اوقات ہم ایسے کہ دیتے ہیں کہ اس نے ایسا ایسا کہا (اب اس ایسا ایسا کو  پھر راویون نے اپنے اندازوں پر بیان کیا ہوگا کسی نےکہا ہوگا کہ چور ، خائن تو کسی نے کہا ہوگا غاصب وغیرہ)۔ تو امام بخاری نے سمجھا ہوگا کہ یہ راویوں کی ہی بیان کردہ باتیں ہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا کسی کو صحیح معلوم نہیں اس لئے صحابہ سے حسن ظن رکہتے ہوئے یہ الفاط بیان نہیں کئے ہون۔ کیوں کہ انہیں راویوں کے مختلف  اندازوں کو بیان کرنے کے بجائے صحابہ سے حسن ظن رکہنا ہی آسان لگا ہوگا۔کیوں کہ صحابہ کی عدالت متفق علیہ ہے۔ یہی بات الماورزی نے کہی ہے امام نووی شرح صحیح مسلم جلد اول ص 90 پر ان سے نقل کرتے ہیں کہ انہون نے کہا اسی وجہ بعض اہل علم نے اپنے نسخہ میں ان الفاظ کو بیان نہیں کیا بلکہ اس کو راوی کا وہم قرار دیا  ۔
جبکہ صحیح مسلم کی دو سندوں کے راوی الگ ہیں اس لئے ممکن ہے کہ امام بخاری سے بیان کرنے والے نے یہ الفاظ نہیں کہے ہوں اور صرف کذا و کذا کہا ہو۔
٭٭٭
بشکریہ سرونٹ آف صحابہ

خلافتِ راشدہ کے دلائل

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

خلفائے راشدینؓ مسلمانوں کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلفاء تھے
مولانہ محمد  یوسف  شہید  رحمہ اللہ علیہ  اس بات پر اپنی  مشہور کتاب  شیعہ سنی اختلافت اور صراط مستقیم میں فرماتے ہیں یہ چاروں حضرات خلفائے راشدینؓ ہیں، جو افضل البشرﷺ ‘‘خیرامت’’ کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلیفہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت سے پہلے ان کے استخلاف فی الارض کی پیش گوئی فرمائی اور اس پیش گوئی میں ان کی اقامت دین اور حفظ ملت کے اوصاف کو بطور خاص ذکر فرمایا۔ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد جب ان پیش گوئیوں کے ظہور کا وقت آیا تو حضرات مہاجرین و انصار ؓ کو توفیق خاص عطا فرمائی کہ ان خلفاء اربعہ ؓ کو اپنا امام اور خلیفہ بنائیں تاکہ ان کے ذریعہ موعود پیش گوئیاں پوری ہوں اور اقامت دین و حفظ ملت کا عظیم الشان کارنامہ پردہ غیب سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہو۔
قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ہیں مگر خلفاء اربعہؓ کے بابرکت عدد کی مناسبت سے یہاں قرآن کریم کی چار پیش گوئیوں کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
پہلی پیش گوئی: مظلوم مہاجرین کو تمکین فی الارض نصیب ہوگی اور وہ اقامت دین کا فریضہ انجام دیں گے
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ(الحج 40)
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ  (الحج 41 )
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔یہ آیت کریمہ دو پیش گوئیوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ مہاجرین کو اقتدار نصیب ہوگا اور دوسرہ یہ کہ ان کا  اقتدار اقامت دین  امر بلمعروف  ور نہی عن المنکر کا زریعہ ہوگا
اس آیت کے مطابق مہاجرین اولین میں سے چار حضرات کو اقتدار عطا کیا گیا اور دنیا نے دیکہا کہ کس طرح ان حضرات نے اقامت دین کا کام کیا بلکہ جناب صدیق نے زکواۃ کے انکاریوں سے جہاد کا اعلان کیا ۔
دوسری آیت
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ( 55 )
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
لفظ منکم سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ جو حضرات نزول آیت کے موقع پر موجود تھے یہ پیش گوئی ان کے لئے نہ کہ صدیوں بعد میں آنے والوں کے لئے ۔ اس آیت کا بلخصوص خطاب صحابہ ہی تھے ۔ اور ان سے چار وعدے کئے گئے ہیں۔
پہلا وعدہ : اس جماعت کے کچھ لوگوں کو خلیفہ بنا دیا جائے گا اور ان کی خلافت منشا الہی ہوگی ۔
دوسرا وعدہ: اللہ تعالی اپنے پسندیدہ دین کو ان خلفاء کے زریعہ سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے قائم کردین گے ۔ یعنی وہ خلفاء دین السلام کی اشاعت کے لئے اللہ کے الا کار ہونگے
تیسرا وعدہ: ان کے خوف کو امن سے بھر دیا جائے گا آج جو ان کو خطرہ  لاحق ہے وہ پھر ختم ہوجائے
 اس کے  بر عکس شیعہ عقیدہ امامت کے مطابق شیعوں کے اماموں  کو خوف ساری زندگی ساتھ رہا اس لئے تکیہ کرتے رہے (١)
چوتھا وعدہ :وہ اللہ کے فرمانبردار ہوںگے اور شرک و بدعت کو اکھاڑ پھینکیں  گے۔
ومن کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقون۔
یعنی ان حضرات کا استخلاف حق تعالیٰ شانہ کا عظیم الشان انعام ہے۔ جو لوگ اس جلیل القدر نعمت کی ناقدری و ناشکری کرین گے وہ قطعاً فاسق اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے۔
نزول آیت کے وقت تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قرعہ فال کس کس کے نام نکلتا ہے؟ خلافت الٰہیہ موعودہ کا تاج کن کن خوش بختوں کے سر پر سجایا جاتا ہے؟ کون کون خلیفہ ربانی ہوں گے؟ اور ان کی خلافت کی کیا ترتیب ہوگی؟ لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد جب یہ وعدہ الٰہی مفصہ شہود پر جلوہ گر ہوا تب معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ شانہ کے یہ عظیم الشان وعدے انہی چار اکابر سے متعلق تھے جن کو خلفائے راشدینؓ کہا جاتا ہے۔
گزشتہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوچکا ہے کہ خلفاء اربعہؓ حق تعالیٰ شانہ کے ‘‘موعود امام’’ تھے ، حکمت خداوندی نے ان حضرات کو خلافت نبوت کے لئے پہلے سے نامزد کر رکھا تھا، اور تنزیل محکم میں ان کی خلافت کا اعلان فرما رکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان خلفاء ربانی اور ائمہ ہدیٰ کے ذریعہ دین وملت کی حفاظت ہوئی اور وہ تمام امور جو امامت حقہ اور خلافت نبویہ سے وابستہ ہیں ان اکابر کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئے
(١)اور ایک امام  مارے خوف  کے اب بھی "غائب " ہیں،  غالب امکان ہے کہ یہ خوف سنیوں کا ہوگا۔ (مدیر)
تیسری پیش گوئی
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المائدہ 54)
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے
اس آیت میں جناب صدیق اکبر کی خلافت کی پیش گوئی ہے ۔ وصال نبوی کے بعد جب لوگ ہر طرف سے مرتد ہونے لگے ماسواء مکہ ،مدینہ ، اور طائف کے باقی سارہ عرب اس کی لپیٹ مین آگیا ۔ تو جناب صدیق نے بہت ہی زبردست طریقہ سے اس ی سرکوبی کی او آپ اور آپ کے ساتھی  اس آیت کا مصداق بنے ۔اللہ تعالی نے آپ کے اور آپکے ساتھیوں کے جو اوصاف بتائے وہ یہ ہیں ۔
1۔اللہ تعلی ان سے محبت رکہتے ہیں
2۔یہ اللہ تعلی سے سچی محبت رکہتے ہیں
3۔مسلمانوں ہر شفیق و مہربان ہیں
4۔کافرون پر سخت ہیں اور ان پر غالب ہیں
5۔یہ مجاہد ہیں محض رضا ئے الٰہی  کے لئے جہاد کرتے ہیں
6۔یہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ( یاد رہے جناب صدیق نے جب زکواۃ کے انکاریوں سے اعلان جہا د کیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں تو آپ نے کسی کے پرواہ  نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ نماز و زکواۃ میں فرق کرتے ہیں میں ان سے جہاد کرون گا)
حضرت صدیق اکبرؓ نے مسلمانوں کی از سر نو شیرازہ بندی کی اور پورے عرب کو نئے سرے سے متحد کر کے ایمان و اخلاص اور جہاد فی سبیل اللہ کے راستہ پر ڈال دیا۔ اور ان کے ہاتھ میں علم جہاد دے کر ان کو قیصرو کسریٰ سے بھڑایا۔ لہٰذا اس قرآنی پیش گوئی کا اولین مصداق حضرت صدیق اکبر ؓ اور ان کے رفقاء ہیں۔ رضی اللہ عنہم وارضا ھم یہاں ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے
وہ یہ کہ غزوہ خیبر میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: ‘‘میں کل یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اللہ و رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ ’’
اس ارشاد کے وقت آنحضرت ﷺ نے اس شخصیت کا نام نامی مبہم رکھا تھا۔ اس لئے ہر شخص کو تمنا تھی کہ یہ سعادت اس کے حصہ میں آئے۔ اگلے دن جب جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں دیا گیا تو اس پیش گوئی کے مصداق میں کوئی التباس نہیں رہا اور سب کو معلوم ہوگیا کہ اس بشارت کا مصداق حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔
ٹھیک اسی نہج پر سمجھنا چاہئے کہ اس آیت شریفہ میں جس قوم کو مرتدین کے مقابلہ میں لائے جانے کی پیش گوئی فرمائی گئے ہے نزول آیت کے وقت ان کے اسمائے گرامی کی تعین نہیں فرمائی گئے تھی۔ اس لئے خیال ہوسکتا تھا کہ خدا جانے کون حضرات اس کا مصداق ہیں؟ لیکن جب وصال نبویﷺ کے بعد فتنہ ارتداد نے سراٹھایا اور اس کی سرکوبی کے لئے حضرت صدیق اکبرؓ اور ان کے رفقاء ؓ کو کھڑا کیا گیا، تب حقیقت آشکارا ہوگئی اور التباس واشتباہ باقی نہ رہا کہ اس پیش گوئی کا مصداق یہی حضرات تھے اور انہی کے درج ذیل سات اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں:
چوتھی آیت
لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًاحَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (الفتح  16 )
 جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لئے بلائے جاؤ گے ان سے یا تو تم جنگ کرتے رہو گے یا پھر وہ اسلام لے کر ائیں اگر تم حکم مانو گے تو خدا تمہیں اچھا بدلا دے گا اور اگر اگر منھن پھیر لو گے جیسا کہ پہلے پھیرلیا تھا تو اللہ تم کوبری تکلیف کی سزا دےگا۔
یہ آیت دعوت اعراب کہلاتی  ہے  یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام سے حدیبیہ کے موقع پر پہلو تہی کی تھی انہیں بتایا جا رہا کہ آئندہ تمہیں جنگجو قوموں کے مقابلے مین نکلنے کی دعوت دی جائے گی اور تم کو یہاں تک جنگ کرنا ہوگی کہ وہ اسلام لے آئیں یا جزیہ دے کر اسلام کے زیر اثر آجائیں ۔ عربوں کو یہ دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں دی گئی کیون کہ آپ کے زمانے میں  دوسری قوموں سے جنگ کی نوبت نہین آئی تھی ۔بلکہ جناب صدیق کے زمانے میں جہاد شام و عراق کے لئے انہیں نکلنے کے کی دعوت دی گئی اور خلفاء ثلاثہ کے زمانہ مبارک مین ہی یہ مقامات اسلام کے زیر اثر آئے اس سے ان کی خلافت ،اللہ تعالی کی موعودہ خلافت ہی بنتی ہے۔
چناچہ قرآن کریم کی یہ پیش گویاں خلافاء ثلاثہ  ہی پوری کرتے ہیں نہ ہی ان کے علاوہ کوئی مہاجر  خلیفہ بنا اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے مرتدیں سے قتال کیا ۔ اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے اعراب کو دعوت جہاد دی۔
اس سے خلفاءراشدہ موعودہ ثابت ہوتی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اس کو نہ ماننے والا بحکم قرآن بدکردار بنتا ہے ۔(١)
(١)بشکریہ سرونٹ آف صحابہ

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India