Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label قرآنِ مقدس-تذکیر. Show all posts
Showing posts with label قرآنِ مقدس-تذکیر. Show all posts

دعااور اللہ مجیب الدعوات

 حافظ عماد الدین ابو الفداء ابنِ کثیر
وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۭ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙفَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ   ١٨٦؁
اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو ( آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں ۔ لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔ (آسان ترجمہ قرآن- سورہ ٢ ،البقرہ: ١٨٦)

     ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم)
     ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے؟یہ آیت اتری (ابن جریر) حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ جب آیت (ادعونی استجب لکم) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہئے؟ اس پر یہ آیت اتری (ابن جریج)
     حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آکر فرمانے لگے لوگو! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے، اے عبداللہ بن قیس ! سن لو! جنت کا خزانہ لاحول ولاقوۃ الا باللہ ہے (مسند احمد) حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے قریب ہی ہوتا ہوں(مسند احمد)
     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے آیت (ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ہم محسنون ) جو تقویٰ واحسان وخلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالٰی ہوتا ہے، حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے آیت (انی معکما اسمع واری) میں تم دونون کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں، مقصود یہ ہے کہ باری تعالٰی دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بندہ جب اللہ تعالٰی کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ ارحم الراحمین اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے (مسند احمد)
    حضرت ابو سعید خدر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعالٰی سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے :
1۔ یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا  ہے
2۔یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے
3۔ یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے
 لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے؟ (مسند احمد)
      عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالٰی قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (مسند احمد)
     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ جلدی کرنا یہ ہے کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (موطا امام مالک) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کرے دے یہ جلدی کرنا ہے۔ ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے۔
      حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں، اے لوگوں تم جب اللہ تعالٰی سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالٰی ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا (مسند احمد)
     حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے دعا کی کہ الہ العالمین! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالٰی آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں(ابن مردویہ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے۔
      ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بےمثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت ودوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں(ابن مردویہ)
     حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ گویا میرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا (بزار)
     دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان ٭ وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالٰی اسے قبول فرماتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے (ابوداود طیالسی)
      ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے:
    اللہم انی اسألک برحمتک اللتی وسعت کل شئی ان تغفرلی
     یعنی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے اور حدیث میں تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ، روازے دار اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالٰی بلند کرے گا مظلوم کی بددعا کے لئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالٰی فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں(مسند، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ )٭

مباہلہ کی دعوت


قاضی ثناء اللہ پانی پتی ﷫
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ   94؀
آپ (ان سے) کہیے کہ : اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو۔ (آسان ترجمہ قرآن- سورہ ٢ ،البقرہ: ٩٤)

قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ ( کہہ دیجئے اے محمد ﷺاگر تمہارے واسطے) لَکُمْ کَانت کی خبر ہے اور
الدَّارُ الْاٰخِرَةُ ( عاقبت کا گھر) کا نت کا اسم ہے
عِنْدَ اللّٰهِ ( اللہ کے ہاں) یہ کانت کا ظرف ہے۔
خَالِصَةً ( خاص ہے) دَارُ سے حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔
مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ ( دوسروں کے لیے نہیں) اَلنَّاسِ میں اَ لْ یا تو استغْراق کا ہے یا جنس کا اور یا مراد اس سے مسلمان ہو اور ال عہد کا ہو۔
فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ ( تو مرنے کے کی آرزو کرو) یعنی اگر تم اس دعوے میں سچے ہو تو موت مانگو اس لیے کہ جس شخص کو یہ یقیناً معلوم ہوجائیگا کہ میں جنتی ہوں اور اللہ کے پیاروں میں سے ہوں تو وہ ضرور اس طرح کی پریشانی والے گھر سے خلاصی اور نجات کی تمنا کرے یگا اور اللہ کے ملنے کا مشتاق ہوگا۔
ابن مبارک نے باب زھد میں اور بیہقی نے ابن عمر   سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ مؤمن کا تحفہ موت ہے اور دیلمی نے بھی حضرت جابر   سے اس مضمون کو نقل کیا ہے اور حسین بن علی   سے مرفوعاً منقول ہے کہ مؤمن کا پھول موت ہے اور حبان بن الاسود فرماتے ہیں کہ موت ایک پل ہے جو دوست کو دوست سے ملا دیتا ہے یہ آیت و احادیث اس پر دال ہیں کہ آخرت کی منزلوں میں سے قبر پہلی منزل ہے اور اس مضمون کو ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عثمان سے مرفوعاً نقل بھی کیا ہے اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے بلا کیف وصل موت کے بعد قیامت سے پہلے دنیا سے زیادہ حاصل ہوگا کیونکہ اگر یہ امر نہ ہوتا تو موت کی تمنا میں کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نہ موت دوست سے ملنے کا پل ہوتا۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ آیت کے یہ معنی ہیں کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو تو اس فراق کے عذاب شدید سے خلاصی کے لیے موت مانگو اس تقدیر پر یہ آیت آیت مباہلہ کی نظیر ہوگی۔
ابن عباس   سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ اگر یہ یہودی موت کی تمنا کرتے تو اسی دم ہر شخص کا ان میں سے اپنے آب دہن سے گلا گھٹ جاتا اور روئے زمین پر ایک بھی یہودی باقی نہ رہتا سب کے سب ہلاک ہوجاتے اس حدیث کو بیہقی نے دلائل میں لکھا ہے اور بخاری اور ترمذی نے بھی مرفوعاً کچھ الفاظ بدل کر اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے ابن عباس   سے اس کو موقوفاً نقل کیا ہے۔
اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ( اگر تم سچے) اس کی جزاء محذوف ہے کلام گذشتہ اس پر دلالت کر رہے ہیں۔
فصل اس مقام پر یہ مسئلہ قابل نظر ہے کہ آیا موت کی تمنا کرنا جائز ہے یا نہیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی مصیبت مالی یا جسمانی یا اولاد و اہل و عیال کے مرنے کی وجہ سے موت کی تمنا کرتا ہے تو جائز نہیں۔
حضرت انس   سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا مصیبت کے سبب کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے اگر اس تمنا کرنے کو جی ہی چاہتا ہے اور بغیر تمنا کے رہ ہی نہیں سکتا تو اس قدر کہہ دے کہ اے اللہ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرا مرنا بہتر ہو تو موت دے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور انہیں سے ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی تم میں سے مرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہوجاتا ہے اور عمر خیر ہی کو بڑھاتی ہے ( یعنی عمر بری چیز نہیں کچھ نہ کچھ اس میں مؤمن خیر ہی کرے گا) اور ابو ہریرہ   سے مرفوعاً مروی ہے کہ کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے کیونکہ یہ شخص یا تو نیک کار ہوگا تو شاید نیکی زیادہ کرے اور یا بدکار ہے تو ممکن ہے کہ بدی سے باز آجائے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے اور نیز ابو ہریرہ   سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ کوئی تم میں موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت کے آنے سے پہلے اس کی دعا کرے کیونکہ موت آنے کے بعد آدمی کا عمل بالکل منقطع ہوجاتا ہے اور مؤمن کی عمر خیر اور نیکی ہی بڑھاتی ہے اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے اور موت کی تمنا ممنوع ہونے میں اور بہت سی حدیثیں احمد اور بزار اور بیہقی نے جابر   سے روایت کی ہیں اور مروزی نے قاسم مولی معاویہ   سے اور ابن عباس   سے روایت کی ہے اور نیز اسی موضوع پر احمد اور ابو یعلی اور حاکم اور طبرانی نے ام الفضل سے روایت کی ہے اور یہ سب رسول اللہ ﷺسے روایت کرتے ہیں۔
ایک امر ضروری یہاں قابل تنبیہ یہ ہے کہ زبان سے موت کی تمنا کرنے اور سوال کرنے سے نہی وارد ہوئی ہے ویسے تمنا اور رغبت اگر ہو تو اس سے نہی نہیں کیونکہ دل کا میلان تو ایک مجبوری امر ہے اس کے دفع پر آدمی کو قدرت نہیں ہاں اگر کوئی دینی فتنہ کے خیال سے موت کا سوال کرے تو کچھ حرج نہیں ۔٭چنانچہ امام مالک اور بزار ثوبان   سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺاپنی دعا میں فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ جب آپ لوگوں میں فتنہ ڈالناچاہئے تو مجھے اس فتنہ سے محفوظ رکھ کر اپنے پاس بلا لیجئے اور امام مالک نے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر   نے اپنی دعا میں فرمایا کہ اے اللہ میری قوت ضعیف ہوگئی اور میری عمر زیادہ ہوگئی اور میری رعیت جا بجا پھیل گئی اب اے اللہ مجھے صحیح سالم بلا کسی کے حکم کے ضائع اور کوتاہی کئے ہوئے اپنے پاس بلالے۔ چنانچہ اس دعا کو ایک مہینہ بھی نہ گزرا تھا کہ حضرت عمر   کی وفات ہوگئی۔
اور طبرانی نے عمرو بن عنبسہ  سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کوئی تم میں سے موت کی تمنا نہ کرے ہاں اگر اپنے عمل پر اعتماد نہ ہو
( کہ شاید برا عمل ہوجائے) تو موت کی تمنا جائز ہے اور جب اسلام میں چھ خصلتیں دیکھوتو موت کی تمنا کرو اور تمہاری جان (بالفرض) تمہارے قبضہ میں بھی ہو تو اس کو چھوڑ دو ( یہ تمنا اور دعائے موت میں مبالغہ ہے) وہ چھ خصائل یہ ہیں :
(١) خونریزی (٢) لڑکوں کی سلطنت (٣) شرط کی کثرت (٤) جاہل بیوقوفوں کا امیر ہونا (٥) فیصلہ حکم کی بیع ( یعنی مقدمات کا فیصلہ کرنے کو بیچنا) (٦) قرآن پاک کو راگ بنانا اور ابن عبد البر نے تمہید میں روایت کیا ہے کہ عمرو بن عنبسہ   سے موت کی تمنا کی بابت بعض لوگوں نے پوچھا کہ آپ موت کی کیوں تمنا کرتے ہیں اس سے تو منع کیا گیا ہے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے آپ ﷺفرماتے تھے چھ چیزیں ظاہر ہونے سے پہلے مر رہو۔ ( یعنی موت کا سوال کرو)
(١) جاہل بے وقوفوں کی سلطنت، (٢) شرط کی کثرت،(٣) حکم کی بیع،(٤) خون کے معاملہ کی پرواہ نہ کرنا،(٥) قرابت کو قطع کرنا۔ (٦) قرآن کو مزامیر بنانا۔ حاکم نے ابن عمر (رض) سے اور ابن سعد نے ابو ہریرہ (رض) سے بھی اسی طرح روایت کیا ہے اور خوف فتنہ کی وجہ سے بعض سلف صالحین نے اکثر تمنا کی ہے چنانچہ اس قسم کے مضامین ابن سعد نے خالد بن معدان سے اور ابن عساکر اور ابو نعیم نے خالد مذکور سے اور مکحول اور ابن ابی الدنیانے ابو الدرداء   سے اور ابن ابی شیبہ اور ابن ابی الدنیا نے ابی جحیفہ سے اور ابن ابی الدنیا اور خطیب اور ابن عساکر نے ابو بکرہ سے اور ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے ابو ہریرہ   سے اور طبرانی اور ابن عساکر نے عرباض بن ساریہ   سے روایت کئے ہیں اور اگر موت کی تمنا اللہ کے ملنے کے شوق میں کرے تو یہ بہت ہی اچھا ہے۔ ابن عساکر نے ذوالنون مصری ؒ سے روایت کی ہے آپ فرماتے تھے کہ شوق سب مقامات سے برتر مقام ہے اور سب درجوں سے بڑھ کر درجہ ہے جب بندہ کو یہ مقام نصیب ہوتا ہے تو اپنے پروردگار کے شوق میں موت کی آرزو کرتا ہے اور اس کے دیر میں آنے سے اکتاتا ہے۔
میں (صاحب تفسیر) کہتا ہوں کہ اس آیت میں مقصود خطاب سے یہی تمنا ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے شوق میں ہو اب اس تقدیر پر فَتَمَنُّوُ الْمَوْتَ کی تفسیر یہ ہوگی کہ اللہ کے شوق میں موت کی تمنا کرو۔
ابن سعد اور بخاری و مسلم نے حضرت عائشہ   سے روایت کی ہے کہ میں سنا کرتی تھی کہ ہر نبی کو وفات سے پیشتر اختیار دیا جاتا ہے کہ خواہ دنیا میں رہو یا یہاں چلے آؤ جب رسول اللہ ﷺکو مرض کی شدت ہوئی تو میں نے سنا کہ آپ فرما رہے تھے : مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِییِّیْنَ وَالصِّدِّیقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِ وَالصَّالِحِیْن وَ حَسُنَ اُوْلٰئِکَ رَفِیْقًا ( ان کے ساتھ جن پر خدا تعالیٰ نے احسان اور انعام فرمایا ہے یعنی نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بندے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں) میں سمجھ گئی کہ اب حق تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملا ہے اور آپ ﷺنے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور نسائی نے حضرت عائشہ   سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺمیری گود میں لیٹے ١؂تھے کہ آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی میں آپ کے بدن مبارک پر ہاتھ پھیرتی تھی اور آپ کے لیے ان کلمات سے دعاء شفار کرتی تھی : اَذھِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ ( اے لوگوں کے پروردگار شدت کو دور فرمائیے) اس کے بعد آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے ہاتھ کو میرے ہاتھ سے الگ کرلیا اور فرمایا نہیں میں تو اللہ سے رفیق اعلیٰ کا سوال کرتا ہوں۔
طبرانی نے روایت کی ہے کہ ملک الموت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس ان کی روح قبض کرنے آئے ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ملک الموت! بھلا کہیں ایسا دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کی روح قبض کر ے۔ ملک الموت نے یہ سن کر حق تعالیٰ سے عرض کیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہہ دو کہ تم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کوئی دوست اپنے دوست کے ملنے کو ناگوار جانے ابراہیم (علیہ السلام) نے سن کر فرمایا میری روح ابھی قبض کرلو! اور یوسف ( علیہ السلام) نے فرمایا اے اللہ مجھ کو اسلام کی حالت میں وفات دے اور نیک بندوں سے ملا دے اور علی   فرماتے تھے کہ مجھے کچھ پرواہ نہیں خواہ موت مجھ پر گرائی جائے یا میں موت پر گرایا جاؤ اس کو ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے اور عمار صفین میں فرماتے تھے کہ میں آج اپنے دوستوں سے یعنی محمد ﷺاور آپ کے گروہ سے ملوں گا۔ اس قول کو طبرانی نے کبیر میں اور ابو نعیم نے دلائل میں نقل کیا ہے اس پر اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ امام احمد نے ابو امامہ   سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول للہ ﷺکی خدمت اقدس میں بیٹھے تھے آپ نے وعظ فرمایا اور ہمارے دلوں کو نرم کیا۔ سعد بن وقاص    یہ وعظ سن کر خوب روئے اور کہہ اٹھے اے کاش میں تو مرجا تا۔ حضور نے فرمایا کہ سعد ! میرے پاس ہو کر موت کی تمنا کرتے ہو اور یہی مضمون تین بار فرمایا پھر فرمایا : سعد! اگر تم جنت کے لیے پیدا کئے گئے ہو اور تمہاری عمر طویل اور عمل اچھے ہوں تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ پس اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موت کی تمنا کرناہر حال میں ناجائز ہے خواہ کوئی مالی یا جسمی ضرر ہو یا نہ ہو چنانچہ حضرت سعد   نے اس قصہ میں موت کی تمنا کسی مالی یا بدنی ضرر وغیرہ سے نہیں کی بلکہ عذاب کے خوف سے کی تھی۔
میں کہتا ہوں بے شک یہ امر صحیح ہے کہ عذاب کے خوف سے تمنا کی لیکن موت سے اللہ کا عذاب دفع نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لیے تو استغفار کرنا اور اعمال صالحہ میں سبقت کرنا اور گناہوں سے بچنا ضروری ہے اورا سی بنا پر جناب رسول اللہ ﷺنے موت کی تمنا کرنے کو منع فرمایا ہے۔
تحقیق مقام یہ ہے کہ گناہ میں مبتلا ہوجانے یا طاعت میں کوتاہی کے خوف سے موت کی تمنا کرنا جائز ہے۔ اس میں شبہ نہیں اور محبوب حقیقی کی لقاء کے شوق میں خود تمنا کرنا بعض سلف سے مرض الموت میں وارد ہوا ہے چنانچہ پہلے ہم نے جناب رسول ﷺاور ابراہیم (علیہ السلام) اور عمار وغیرہم سے نقل کیا ہے کہ جب موت کا وقت قریب ہو اور اعمال صالحہ کی زیادتی کی ان کو امید نہ رہی تو اللہ تعالیٰ کی لقاء کے شوق میں موت کو حیات پر ترجیح دی۔ ٭

٭ تفسیرِ مظہری-قاضی ثناء اللہ پانی پتی ﷫، سورہ ٢ ،البقرہ:٩٤، تاریخِ اشاعت غیر مذکور

تبلیغ-فریضہٴ عامہ یا خاصہ؟

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ     ١٠٤؁
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضرور ہے کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کام کے کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں اور ایسے لوگ پورے کامیاب ہونگے۔ (ترجمہ بیان القرآن- سورہ ٣آلِ عمران، آیت ١٠٤)

یعنی ایک جماعت تم میں سے ایسی ہونی چاہیے جو داعی الی الخیر ہو۔ یعنی جو دین کی بقا میں کوشاں ہو اور شرعی امور اور دینی معاملات کا انتظام کرے اور امۃ منکم اس لئے فرمایا کہ اگر سب یہی کرنے لگیں تو کھیتی کون کرے گا اور نوکری تجارت وغیرہ کون کرے گا۔ یہ شریعت کا انتظام ہے کہ زراعت تجارت وغیرہ کو فرض کفایہ کیا ہے۔ اگر سب چھوڑ دیں تو سب کے سب گنہگار ہوں کیونکہ مجموعہ کو اسباب معیشت کی بھی حاجت ہے ورنہ سب ہلاک ہوجائیں اور نہ دنیا رہے نہ دین اور جو لوگ تارک اسباب ہیں ان کو جمعیت وتوکل بھی مباشرین اسباب ہی کی بدولت ہے گو ان احاد کی تعیین نہیں مگر مجموعہ میں ایسے احاد کا ہونا ضروری ہے خصوصاً ہم جیسے ضعفاء کے لئے تو اگر ظاہری سامان نہ ہو تو تشویش سے دین ہی میں خلل پڑنے لگے۔
حاصل یہ ہے کہ دنیا سے سب کو تعلق ہے کوئی سگا ہے کوئی سوتیلا اور مطلق مذموم بھی نہیں کیونکہ دنیا مطلقاً بری نہیں ہے بلکہ دنیا جو معصیت ہے صرف وہ بری ہے۔ اس لئے باری تعالیٰ نے ولتکن فرمایا کونوا نہیں فرمایا۔ جیسا کہ اوپر واعتصموا بحبل اللہ جمیعا فرمایا۔ اس لئے مقصود تو یہ کہ دین تو سب میں ہو لیکن ایک ایسی ہی جماعت ہو جو مولویت ہی کا کام کریں اور کچھ دوسرا کام نہ کریں۔
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ
لفظ منکم سے معلوم ہوتا ہے کہ سب اس کام کے لائق نہیں ہیں اور یہ تجربہ ہے کہ جو لوگ اس کے اہل نہیں سمجھتے جاتے۔ ان کا کہنا لوگوں کو ناگوار گزرتا ہے اور جو لوگ اہل ہیں ان کا کہنا چنداں گران نہیں گزرتا۔ نیز علماء جو کچھ کہتے ہیں تہذیب سے اور شائستگی سے کہتے ہیں۔ غرض یہ طعن وتشنیع کا شیوہ مناسب نہیں ہے اپنے کام میں لگے رہو اگر کوئی برا ہو تم اس پر ترحم کرو اور اس کے لئے دعا کرو۔
تبلیغ کا ایک درجہ سب کے ذمہ ہے
اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ تو یوں فرمایا : ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر کہ اے مسلمانوں ! تمہارے اندر ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے۔ یہاں تو دعوت کو ایک جماعت کے ساتھ خاص فرمایا اور اس کے بعد ارشاد ہے :
کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر۔
کہ اے مسلمانو ! تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت) کے لئے ظاہر کئے گئے ہو۔ تم نیک کاموں کا حکم کرتے ہو، برے کاموں سے روکتے ہو۔
یہاں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو سب کے لئے عام کیا گیا ہے اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ اس بالمعروف ونہی عن المنکر کا ایک درجہ ایسا بھی ہے جو سب کے ذمہ ہے اور علماء کے ساتھ خاص نہیں۔ (آداب تبلیغ)
اہل علم کی شان
جن کو اس آیت میں فرماتے ہیں :
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ     ١٠٤؁
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے کہ خیر کی طرف بلایا کریں اور نیک کام کرنے کو کہا کریں اور برے کاموں سے روکا کریں) اس آیت میں یدعون (بلاویں) کا مفعول ذکر نہیں فرمایا یہ ذکر نہ کرنا مشیر (اشارہ کرنے والا) ہے اس کے عموم کی طرف مطلب یہ ہے کہ یدعون الناس یعنی عام لوگوں کو خیرکی طرف بلاویں تو یہ شان اہل علم کی ہے یعنی ان لوگوں کی جنہوں نے سب علوم کا بقدر ضرورت احاطہ کیا اور فرض یہ بھی ہے مگر فرض علی الکفایہ ہے۔ کہ امت میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونا چاہئیں کہ جن سے عوام امت کا کام چلے اسی لئے محققین نے من کو اس آیت سے تبعیضہ کہا ہے یعنی تم میں بعض ایسے ہونے چاہئیں۔
دعوت عامہ کے اقسام
یہ ایک خاص جماعت کا کام ہے ساری امت کا کام نہیں ہے اور دعوت الی الخیر اور دعوت الی اللہ کے ایک ہی معنی ہیں سو اس میں تو اس کو صرف ایک خاص جماعت کا کام فرمایا گیا ہے اور دوسرے مقام پر ارشاد ہے :
قل ھذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ انا ومن اتبعنی، وسبحن اللہ وما انا من المشرکین۔
کہ فرمادیجئے یہ میرا راستہ ہے بلاتا ہوں میں اللہ کی طرف بصیرت پر ہو کر میں اور جتنے میرے متبع ہیں اور حق تعالیٰ تمام برائیوں سے پاک ہیں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ دیکھئے یہاں پر مطلقا ومن اتبعنی ہے یعنی جتنے میرے متبع ہیں سب حق کی طرف بلاتے ہیں اس میں عموم ہے۔
اس خصوص اور اس عموم سے معلوم ہوا کہ اس کے درجات ومراتب ہیں ایک درجہ کا پہلی آیت میں ذکر ہے اور ایک درجہ کا دوسری آیت میں اور وہ درجات دو ہیں ایک دعوت عامہ ایک دعوت خاص پھر دعوت عامہ کی دو قسمیں ہیں ایک دعوت حقیقیہ اور ایک دعوت حکمیہ۔ دعوت حکیمہ وہ جو کہ معین ہو دعوت حقیقیہ میں میں نے آسانی کے لئے یہ لقب تجویز کئے ہیں ان میں اصل دو ہی قسمیں ہیں دعوت الی اللہ کی۔ دعوت عامہ، دعوت خاصہ۔ اور ایک قسم معین ہے دعوت عامہ کی۔ تو اسی طرح یہ کل تین قسمیں ہوگئیں۔ تو ہر شخص کے متعلق جدا جدا مرتبہ کے لحاظ سے ایک ایک دعوت ہوگی۔ چنانچہ دعوت خاصہ ہر مسلمان کے ذمہ ہے اور وہ وہ ہے جس میں خطاب خاص ہوانپے اہل وعیال کو، دوست احباب کو اور جہاں جہاں قدرت ہو اور خود اپنے نفس کو بھی۔ چنانچہ حدیث میں ہے کلکم راع وکلکم مسئول۔ کہ تم میں ہر ایک راعی ونگران ہے اور تم میں ہر ایک (قیامت میں) پوچھا جائے گا کہ رعیت کے ساتھ کیا کیا۔ یہ دعوت خاصہ ہے اور قرآن میں بھی ذکر ہے۔
یایھا الذین امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا۔
اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو عذاب دوزخ سے بچاؤ۔ یہ بھی دعوت خاصہ ہے کہ اپنے اہل وعیال کو عذاب دوزخ سے بچانے کا حکم ہے سو اس کا تو ہر شخص کو اپنے گھر میں اور تعلقات کے محل میں اہتمام کرنا چاہیے۔
عمومی دعوت میں تخصیص کا راز
ایک اور دعوت عام ہے جس میں خطاب عام ہو یہ کام ہے صرف مقتداؤں کا۔ جیسا کہ ولتکن منکم امۃ الایہ سے معلوم ہورہا ہے اور اس تخصیص میں ایک راز ہے۔ وہ یہ کہ دعوت عامہ (یعنی وعظ) اس وقت مؤثر ہوتی ہے کہ جب مخاطب کے قلب میں داعی کی وقعت ہو۔ بلکہ مطلق دعوت میں بھی اگر داعی کی وقعت نہ ہو تو وہ مؤثر نہیں ہوتی تو عام دعوت میں عام مخاطبین کے قلب میں داعی کی وقعت ہونی چاہیے اور ظاہر ہے کہ بجز مقتداء کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو عام لوگوں کے دل پر اثر ڈال سکے اور ایسے لوگ کتنے ہوتے ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہوں کہ انظر الی ماقال ولا تنظر الی من قال اور یہ سمجھتے ہوں کہ
مردباید کہ گیرد اندر گوش
درنبشت است پند بر دیوار

(انسان کو چاہیے کہ نصیحت پر عمل کرے۔ وہ نصیحت کی بات خواہ دیوار پر لکھی ہوئی کیوں نہ ہو)(١)

(١)اشرف التفاسیر- از مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ، تفسیر سورہ ٣آلِ عمران، آیت ١٠٤، تاریخِ اشاعت غیر مذکور

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India