Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label اظہار خیال. Show all posts
Showing posts with label اظہار خیال. Show all posts

فکریے

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
ابنِ غوری، حیدر آباد، ہند
رمضان:
    چاند نظر آتے ہی مسلمان  -ما شاء اللہ -مساجد میں یدخلون فی دین اللہ افواجا کی مجسم تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن پھر چاند نظر آتے ہی وہ - معاذ اللہ مساجد سے یخرجون من دین اللہ افواجا اور کالعرجون القدیم کی طرح نظروں سے دور ہوجاتے ہیں۔
    کیا یہی  طریقہ ہے (دارین میں) عزت یابی کا؟

بے ریش صوفی:
"وہ اپنے مختصر سفر میں اپنا ٹفن ساتھ رکھتے تھے۔"
پھر تو، وہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہوں گے؟
جی نہیں، وہ تھے سلطنتِ آصفیہ دکن کے دیوان سالار جنگ اول (تراب علی خاں)

جعلی کام:
جعلی نوٹ کتنی ہی بڑی رقم کا کیوں نہ ہو، اس کا نفع بالکل وقتی/ غیر یقینی ہوتا ہے۔ جب وہ حکومت کی نظر میں آجائے تو نوٹ ساز مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
    اسی طرح غیر مسنون عمل/بدعت خواہ وہ کتنی ہی دلکش اور مفید معلوم ہو، اللہ کے نزدیک اس کے حامل مجرم ہی ہوں گے۔

دو چیزیں:
    سیاست میں اخلاقیات............اچھی بات!
    اخلاق میں سیاسیات............۔بری بات!

مدینہ -مدینہ:
    تاج دارِ مدینہ کانفرنسیں ......۔بہت ہوتی رہتی ہیں! ماشاءاللہ
لیکن ان کے شرکاء میں "تابع دارِ تاج دارِ مدینہ" کتنے ہوتے ہیں؟ انا للہ

Cell: 9392460130

جماعت والے لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہیں؟؟؟

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

 محسن اقبال حفظہ اللہ
عجیب لوگ ہیں یہ تبلیغی جماعت والے بھی، جہاں دیکھو وہاں پہنچے ہوتے ہیں۔۔لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور کفریہ اور شرکیہ عقائد کی تعلیم دیتے ہیں...
نجانے کتنے لوگوں کو انہوں نے گمراہ کر دیا ہے۔ قران، حدیث تو مانتے نہیں بس ایک کتاب فضائل اعمال اٹھائی ہوتی ہے اوراس کتاب سے کچھ احادیث ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات اور کچھ پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کرتے ہیں...
فضائل اعمال تو ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہے اور ضعیف حدیث تو قبول کرنے کے لائق نہیں اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے واقعات ہیں تو ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔۔ بس صرف قران اور حدیث کو ہی ماننا چائیے...۔یہ سب واقعات تو شرک ہیں۔
ان تبلیغیوں کے گمراہ کرنے کے طریقے بھی بہت عجیب ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے لڑکے کرکٹ ، یا فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں اور یہ اوپر سے آکر اپنی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نماز پڑھو ، مسجد میں آؤ ،۔۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ کرکٹ یا فٹبال کھیلنا ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے ذیادہ اہم ہے...
انہوں نے تو بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے۔

اچھا بھلا جنید جمشید گانے گاتا تھا،اور بہت مشہور تھا، پکا مسلمان تھا۔۔ اب دیکھو! ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر داڑھی بھی رکھ لی، گانا بھی چھوڑ دیا اور ان تو نعتیں پڑھتا ہے،، مکمل گمراہ اور مشرک ہو گیا ہے۔۔
اسی طرح سعید انور تھا، جب تک کرکٹ کھیلتا تھا تب تک اس کا کتنا نام تھا اور تب وہ پکا مسلمان بھی تھا لیکن ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر اس نے بھی داڑھی رکھ لی اور نماز پڑھنا شروع کر دی،اور دوسرے کرکٹرز کو بھی نمازوں پہ لگا دیا، خود تو گمراہ ہوا لیکن دوسرے کئی کرکٹرز جیسا کہ شاہد آفریدی،انضمام الحق وٖغیرہ کو بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ مل کر مشرک اور گمراہ بنا دیا۔۔

ارے یہ سب تو پہلے مسلمان تھے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ ملکر گمراہ اور مشرک ہوئے لیکن محمد یوسف کو دیکھو!،وہ عیسائی تھا پھر تبلیغی جماعت کی کوششوں سے مسلمان ہوا لیکن کیا فائدہ ۔۔ ہے وہ ابھی بھی گمراہ اور مشرک۔۔ تو اس کو عیسائیت چھوڑنے کا کیا فائدہ جب وہ مسلمان ہو کے بھی گمراہ ہوا۔ تبلیغی جماعت والوں نے اس کو مشرک بنا دیا ۔

ان جیسے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں جنہوں نے تبلیغی جماعت کی وجہ سےداڑھی رکھی، نماز شروع کی، برا کام چھوڑے لیکن پھر بھی وہ گمراہ ہیں کیونکہ تبلیغ والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں...

یاد آیا! ہم سچے مسلمان ہیں، قرآن و حدیث کو ماننے والے۔۔ہمارا کام لوگوں کو قرآن،حدیث کی طرف لانا ہےاور اور فضائل اعمال جیسی ضعیف کتاب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگوں کے واقعات سے نجات دلانا ہے۔


ہمارا کام بے نمازیوں کو نماز پڑھوانا نہیں بلکہ جو نماز پڑھتے ہیں ان کو بتانا ہے کہ تم لوگوں کی نماز قران حدیث والی نہیں ہے۔کیونکہ تم نے رفع یدین نہیں کیا،،تماری نماز مکمل نہیں کیونکہ تم نے اونچی آمین نہیں کہی،،تمہاری نماز نبی کریم ﷺ جیسی نماز نہیں کیونکہ تم نے سینے پہ ہاتھ نہیں باندھے...

لوگوں کو قران و حدیث سمجھانے کے لئے ہم لوگوں کو اپنے علماء کی کتابیں دیتے ہیں۔ ان کتابوں میں اگر ضعیف احادیث آ جائیں تو ہم ان کو نہیں مانتے... اگر ہمارے کسی عالم کا یا بزرگ کا کوئی ایسا واقعہ آ جائے جیسے واقعات فضائل اعمال میں ہیں تو ان سب کو ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمارے علماء سے غلطی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔اللہ ہمارے علماء کی غلطیوں کو معاف کرے لیکن یہ معافی صرف ہمارے علماء کے لئے ہے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں ،تبلیغی جماعت کی کتاب میں جو واقعات ہیں وہ شرکیہ ہیں کیونکہ تبلیغی جماعت والے گمراہ ہیں۔

اصل میں ہم اپنے علماء کی کتابوں کو ہی نہیں مانتے کیونکہ ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں لیکن قران و حدیث سمجھنے کے لئے ہم اپنے انہی علماء کی کتابیں ہی پڑھتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر ہمیں قران و حدیث سمجھ نہیں آتا۔
تو ہمارے علماء کی جو کتابیں ہیں ہم ان سے قران و حدیث سمجھتے ہیں لیکن ہم ان کو مانتے نہیں اور ان کے واقعات پہ ہم شرک کا فتوی بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں...

بس صرف اتنا یاد رکھیں کہ تبلیغی جماعت والے مشرک اور گمراہ ہیں اور اگر ہمارے علماء کی کتابوں میں ایسی کوئی بات آ جائے جیسی فضائل اعمال میں ہے تو ہمارے علماء گمراہ اور مشرک نہیں کیونکہ ہم ان کو نہیں مانتے ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں۔


دوستو! یہ اوپر ایک جھلک ہے تبلیغی جماعت کے ان مخالفین کی سوچ اور نظریات کی جن کا دعوی ہے کہ وہ صرف قران و حدیث پہ عمل کرتے ہیں اور تبلیغی جماعت والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں...۔۔
شکریہ
غلامِ خاتم النبیین ﷺ
محسن اقبال

روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
کوکب شہزاد
یہ بات تو عیاں ہے کہ روزہ ایک کٹھن عبادت ہے اور خاص طورپر گرمیوں کے روزے تو بچوں کے لیے بہت ہی مشکل ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے بچوں کو یہی بتانا چاہیے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے.
اسلام میں روزہ فرض ہے اس لیے میں نے شروع سے ہی اپنے بچوں میں روزہ رکھنے کی عادت ڈالی ہے مگر میرا بڑا بیٹا رمضان میں بہت چڑچڑا ہوجاتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے بہن بھائیوں سے لڑتا اور انھیں مارتا ہے اور میری اور اپنے باپ کی نافرمانی کرتا ہے۔مجھے بتائیں کہ میں اس کے لیے کیا کروں کہ وہ روزہ رکھنے کا صحیح حق ادا کرسکے؟
یہ بات تو عیاں ہے کہ روزہ ایک کٹھن عبادت ہے اور خاص طورپر گرمیوں کے روزے تو بچوں کے لیے بہت ہی مشکل ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے بچوں کو یہی بتانا چاہیے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے ۔تقویٰ کا مطلب ہے ایسے کام کرنا جن سے اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے۔دراصل بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ہم ان کو روزہ رکھوانے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اس کا فلسفہ آداب اور بنیادی تقاضے نہیں بتاتے جس کی وجہ سے بچوں کے اندر صبراور برادشت پیدا نہیں ہوتی اور وہ بھوکا اور پیاسارہنے کو ہی روزہ سمجھتے ہیں حالانکہ ہمارے دین اسلام نے روزہ رکھنے کے مقاصد واضح طورپر بتایئے ہیں ۔قرآن مجید میں ہے۔
”اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ حاصل کرسکو۔
اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی مقررکردہ حدودومیں رہنااور لڑائی ،جھگڑا،چوری،ملاوٹ،گالم گلوچ اور ہر طرح کے برے کاموں کو چھوڑدینا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
ایک مقام پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے روزے کی حالت میں لڑنا،جھگڑنانہ چھوڑا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر بنی آدم کی نیکی دس گناسے سات سو گنا بڑھادی جاتی ہے سوائے روزے کے پس وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادیتا ہوں کیونکہ وہ میرے لیے اپنی شہوت اور اپنا کھانا چھوڑتا ہے ۔روزہ دار کے لیے دوہری خوشیاں ہیں۔ایک خوشی جواس کو روزہ افطار کرتے وقت ملے گی اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی اور روزے دار کے منہ کی بواللہ تعالیٰ کو مشک (عطر) کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔روزہ ڈھال ہے۔جس دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ فحش بات کرے نہ شور مچائے۔اگر اس کو گالی دی جائے یا اس سے کوئی لڑے تو وہ کہے میں روزے سے ہوں ۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ایک حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا رتو اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑے۔
ہمیں اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ رمضان تربیت کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں سب سے زیادہ تربیت صبروشکر کی ہوتی ہے۔اگر ہم شروع ہی سے یہ باتیں ان کے ذہن میں ڈال دیں اور خود بھی اس کا عملی نمونہ بنیں تو ضرور بچوں پر اس کا اثر ہوگا کیونکہ بچے آخر کار وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کو کرتے دیکھتے ہیں۔(١)
(١)بشکریہ اردو پوائنٹ ڈاٹ کام

کنواروں کا مسئلہ

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

عبد الرحمٰن صدیقی حفظہ اللہ

"پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ پھر شادی کی سوچنا"
یہ ایک جملہ ہے جو ہمارے عہد کے بہت سارے کنواروں کے دل پر بجلی بن کر گرتا ہےاور ان کی سلگتی تمنّاؤں اور امنگتی آرزوں کو خاکستر کردیتا ہے ۔ ہمارےیہاں لڑکے کے لیے پیروں پر کھڑا ہونے معیار اتنی بلندی پر رکھا گیا ہے کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے لڑکے کی عمر اس مرحلہ میں پہنچ جاتی ہے جہاں گھٹنوں کا درد شروع ہوجاتا ہے ۔ لیکن گھنٹے میں درد شروع ہوجانے کی اور بھی کئی ساری وجوہات ہوتی ہیں ۔
عجیب معاملہ یہ ہے کہ تیس سال سے پہلے تو یہ سمجھا ہی نہیں جاتا کہ بچّہ اب بچّہ نہیں رہا۔ جوان ہوچکا ہے ۔ آرزوئیں اب اس کےدل میں بھی کچوکے لگاتی ہیں ، خواب اب اس کی راتوں کو سونے نہیں دیتے ۔بے چارہ نوجوان شرم اور بے شرمی کے بیچ جھولتا رہتا ہے اس فکر میں کہ آخر بے شرمی کی کون سی حد تک جائے کہ گھر والے اس کا مسئلہ سمجھ پائیں ۔ کبھی حیا اس کو ہاتھ پکڑ کر روک لیتی ہے تو کبھی کنوارگی کا درد اس کو مجبور کرتا ہے کہ" اتر جاؤ بے شرمی پر اور رکھ دو دل کا درد کھول کر سب کے سامنے ۔"
پھر جب عمر کی دہائی پر جب 3 آکر لگتا ہے تو گھر والوں کو لگتا ہے بچّہ اب شادی کے لائق ہوگیا ۔پھر رخ کیا جاتا ہے منڈی کی طرف ۔ لڑکے پر حسب لیاقت و صلاحیت قیمت کے ٹیگ لگتے ہیں ۔ خریدارکی تلاش ہوتی ہے ۔ دلالوں سے کانٹیکٹ کیا جاتا ہے۔ بولیاں لگتی ہیں ۔ مول بھائی ہوتا ہے۔ نیلامی ہوتی ہے ۔ اور تلاش ہوتی ہے صحیح خریدار اور مناسب دام کی ۔
مردوں کی منڈی میں ہر طرح دلہے بکنے کو دستیاب ہوتےہیں ۔ ہر قسم کے دلہے کہ اپنی ولیو ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر اور انجینر اور باہر ملکوں میں مقیم سب سے اعلیٰ نسل کے دلہے سمجھے جاتے ہیں منڈی میں جہاں اس نسل کے دولہے بکتے ہیں وہاں کی انٹری فیس بھی بڑی ہوتی ہے ۔ جو صرف انتہائی امیر گھرانے کے لڑکی والے ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
متوسظ قسم کے مالداروں اور خوشحال گھرانوں کا بھاؤ کافی عروج پر ہے آج کل ۔ اور انگریجی پڑھائی پڑھنے والوں کی بھی کافی مانگ ہے ۔
منڈی ایک کونے مولوی بھی بکتے ہیں ۔ کیونکہ مولوی نسل کے دولہوں کے بارے میں خریداروں کی رائے یہ ہے کہ اس نسل کے دولہے کسی نا کسی طرح اپنے بال بچّوں کا پیٹ پال ہی لیتے ہیں ، اس لیے مارکیٹ میں ان کا بھی ریٹ کافی اچھا ہوگیا ہے ۔ بلکہ شاید یہی ایک مارکیٹ ہے جہاں ان کی ویلیو تھوڑی ٹھیک ٹھاک ہے ۔ دو پہیہ سے کم اب کوئی مولوی فروخت نہیں ہوتا ۔ الا من شاء ربک
لیکن مسئلہ صرف صحیح خریدار اور مناسب قیمت ملنے کا بھی نہیں ہے۔ یہ بازار ایسا ہے کہ بکنے والے کو خریدار بھی پسند آنا چاہے ورنہ ڈیل کینسل ۔
ذہنیت یہ بن گئی ہے کہ جب تک دس بیس گھرانے کی دعوتیں اڑا کر ان کی لڑکیاں ریجیکٹ نہ کردی جائیں لڑکے کے گھر والوں کو تسکین نہیں ہوتی ۔(١)
وہی ہوتا ہے کہ لڑکے کا تھوبڑا چاہے دیکھنے لائق نہ ہو ۔گھر والوں کی فکر لگی ہوتی ہے ، ۔ "وہ پری کہاں سے لاؤں ، تیری دلہن کسے بناؤں" لڑکی چاہیے حور پری ۔ لڑکے کو چاہے بات کرنے کی تمیز نہ ہو لڑکی چاہیے بے اے ایم اے ۔
لڑکیوں کو ریجکٹ کرنے کےلیے ایسے ایسے کمنٹ سنے گئے ہیں :
"رنگ سانولا ہے ۔ میرے بھائی کو گوری لڑکی چاہیے ۔ "
"بال دیکھے تھے اپّی کتنے چھوٹے تھے اس کے ۔ "
"اس کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں میں نے چپ کے سے موزہ اتروا کے دیکھ لی تھی"
"قد چھوٹا ہے نہیں جمے گی بھائی کو "
" ماسٹر ہی تو ہے ابّا لڑکی کے ۔ کچھ بھی دے لیں تو کتنا دیں لیں گے آخر"
(١) یہ صورتِ حال اکثر جگہوں پر دیکھی گئی ہے اور انتہائی شرم کا مقام ہے۔ اِن میں بلامبالغہ صرف عورتیں ہی پیش پیش رہتی ہیں۔ کاش کہ  "مرد" حضرات اپنی "مردانگی" کا  پاس کرلیں اور  نبی اکرم ﷺ کے فرمانِ عالیشان  فلیغیرہ بیدہ   کا  خیال کرلیں۔ (مدیر)
" چودھری تو ہیں وہ لوگ لیکن چھوٹے چودھری ہیں ۔ ہم بڑے چودھری کے گھر کی لڑکی لائیں
گے"
"ہم انصاری لوگ شیخوں کے یہاں شادی نہیں کرتے"
اور بعض مرتبہ بہانہ ہوتا ہے ۔
"لڑکی سمجھ نہیں آرہی ہے "
الغرض اس طرح پسندیدہ خریدار اور مناسب دام ملتے ملتے لڑکا 35 / 40 کراس کرچکا ہوتا ہے ۔
اب بھلا بتائیے کہ کہ ایک ایسے زمانہ میں جب تقویٰ مسجد کی صفوں میں بھی دکھائی نہیں دیتا ، ایک لڑکے سے جس کی ضرورت 15 /16 سال سے ہی شروع ہو گئی تھی آپ بیس سال تک روزے پر کیسے گذارا کراسکتے ہیں ۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ معاشرہ میں فحاشی بڑھ گئی ہے ۔ تو بھائی جہاں نکاح مشکل ہوگا وہاں زنا اپنے لیے راستے آسان کر ہی لے گا۔
بہت سارے معاملا ت میں نے دیکھے ہیں کہ لڑکے جہیز کی لالچ نہیں رکھتے لیکن ان کی جوانی گھر والوں کی لالچ کی بھینٹ چڑھا جاتی ہے ۔
میں اپنے عہد کے کنواروں کو بغاوت پر ابھارتا ہوں ۔ دوستو! اصل کھیلنے کے دن تو یہ بیس کی دہائی کے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ ایک ایک دن بڑے قیمتی ہیں ۔ ان کو اپنی کنوارگی میں ضائع مت کرو، نا جوانی کی اس پاک دامنی پر بد کرداری  کا داغ نہ لگنے دو۔ تمہارے نبی کی تعلیم ہے کہ اگر بیوی کا نان نفقہ برداشت کرسکتے ہو تو شادی کرلو۔ اس سے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہے ۔
یہ خوبصورت لمحے لالچی گھر والوں کی بھینٹ مت چڑھاؤ ۔ یہ لالچی لوگ تمہاری جوانی واپس نہیں لاکر دینے والے ۔ لڑکے کو شادی کےلیے ولی کی ضرورت نہیں ۔ قدم آگےبڑھاؤ اور گھر دلہن لےآؤ۔ ورنہ تیس کے بعد حور پری بھی مل جائے تونوجوانی کا یہ لطف نہیں ملنے والا۔
دیکھو تمھارے لیے بھی آسمان سے اتر کر حوریں نہیں آنے والی ۔ دنیا ہی کی کسی لڑکی سے کام چلانا پڑے گا۔ بقیہ خواہشیں پوری کرنے کے لیے دینداری اختیار کرو اور جنّت کا انتظار۔ دنیا کےلیے تو رسول کی یہی ہےہدایت ہے کہ :
تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ
"عورت سے چار وجہوں سے شادی کی جاتی ہے ۔ مال ،جمال ، نسب اور دین ۔ دین دار لڑکی سے شادی کرکے کامیاب ہولے ۔ " ( متفق علیہ)
٭٭٭

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India