Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label رد بریلویت. Show all posts
Showing posts with label رد بریلویت. Show all posts

حضرت گنگوہیؒ پر تکذیب رب العزت کا بہتان اور اس کا جواب

 مولانا ساجد خان نقشبندی ﷾
       
مولوی احمد رضاخان اپنی تکفیری دستاویز ’’حسام الحرمین‘‘ پر مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ :
     پھر تو ظلم و گمراہی میں اس کا حال یہاں تک بڑھا کہ اپنے ایک فتوے میں جو اس کا مہری دستخطی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے بمبئی وغیرہ میں بارہا مع رد کے چھپا صاف لکھ دیا کہ جو اللہ سبحانہ و تعالی کو بالفعل جھوٹا مانے اور تصریح کردے کہ معاذ اللہ اللہ تعالی نے جھوٹ بولا اور یہ عیب اس سے صادر ہوچکا تو اسے کفر بالائے طاق،گمراہی درکنار،فاسق بھی نہ کہو اس لئے کہ بہت سے امام ایسا کہہ چکے ہیں جیسا اس نے کہا بس نہایت کار یہ ہے کہ اس نے تاویل میں خطا کی ۔۔۔یہی وہ ہیں جنھیں اللہ تعالی نے بہر ا کیا اور اس کی آنکھیں آندھی کردیں (حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 71مکتبۃ المدینہ)
     قارئین کرام حضرت گنگوہی ؒ کی طرف کسی ایسے فتوے کی نسبت کرنا سراسر افتراء اور بہتان ہے حسام الحرمین کی اس سے پہلی والی بحث یعنی تحذیر الناس میں تو مولوی احمد رضاخان نے تحذیر الناس کی متفرق عبارتیں جوڑ کر کفر کی مسل تیار بھی کرلی تھی یہاں تو یہ بھی ناممکن ہے ۔بحمد اللہ ہم پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مرحوم کے کسی فتوے میں یہ الفاظ مرقوم نہیں ہیں نہ ہی کسی فتوے کا یہ مضمون ہے ۔بلکہ درحقیقت یہ صرف خان صاحب یاان کے کسی دوسرے ہم پیشہ بزرگ کا افتراء اور بہتان ہے ۔بفضلہ تعالی ہمارے اکابر اس شخص کو کافر ،مرتد ،ملعون سمجھتے ہیں جو خداوند تعالی کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے اور اس سے بالفعل صدور کذب کا قائل ہو بلکہ جو بد نصیب اس کے کفر میں شک کرے ہم اس کو بھی خارج از اسلام سمجھتے ہیں ۔حضرت مولانا رشید احمد صاحب ؒ جن پر خان صاحب نے یہ ناپاک اور شیطانی بہتان لگایا خود انہی کے مطبوعہ فتا وی میں یہ فتوی موجود ہے :
     ذات پاک حق تعالی جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے اس سے کہ متصف بوصف کذب کیا جائے ۔معاذ اللہ تعالی اس کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہ کذب کا نہیں قال اللہ تعالی: و من اصدق من اللہ قیلا(فتاوی رشیدیہ جلد اول ص118وتالیفات رشیدیہ ص96(
جو شخص اللہ تعالی کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ قطعا کافر و ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث کا اور اجما ع امت کا ہے۔و ہ ہرگز مومن نہیں تعالی اللہ عما یقول الظلمون علوا کبیرا(ایضا)۔
ناظرین انصاف فرمائیں کہ اس صریح اور چھپے ہوئے فتوے کے ہوتے ہوئے حضرت ممدوح پر یہ افتراء کرنا کہ معاذ اللہ وہ خدا کو کاذب بالفعل مانتے ہیں یا ایسا بکنے والے کو مسلمان کہتے ہیں کس قدر شرمناک کاروائی ہے۔؟؟الحساب یو م الحساب ۔
شرم ۔۔۔شرم ۔۔۔شرم۔۔۔
رہا مولوی رضاخان صاحب کا یہ لکھنا کہ ’’میں نے ان کا وہ فتوی مع مہر و دستخط بچشم خود دیکھا‘‘اس کے جواب میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے جب اس چودہویں صدی کا ایک عالم و مفتی ایک چھپی ہوئی کثیر الاشاعت کتاب (تحذیر الناس)کی عبارتوں میں قطع و برید کرکے ص3,14,28کی عبارتوں میں تحریف کرکے ایک کفریہ مضمون گھڑ کے تحذیر الناس کی طرف منسوب کرسکتا ہے تو کسی جعلساز کیلئے کسی کے مہر و دستخط بنا لینا کیا مشکل ہے؟ (آپ حضرات اکثر سنتے ہونگے اخبارات و ٹی وی میں کہ فلاں جگہ سے جعلساز پکڑے گئے جن سے جعلی سرکاری مہریں برآمد ہوئی ہیں جو پاسپورٹ پر لگانے کے کام آتی تھی وغیرہ وغیرہ )کیا دنیا میں جعلی سکے جعلی نوٹ جعلی دستاویز تیار کروانے والے موجود نہیں؟مشہور ہے کہ بریلی اور اس کے گرد و نواح میں اس فن کے بڑے بڑے ماہر رہتے ہیں جنکا ذریعہ معاش ہی یہی ہے۔
بہرحال مولوی احمد رضاخان نے حضرت گنگوہی ؒ کے جس فتوے کا ذکر کیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں فتاوی رشیدیہ جو تین جلدوں میں چھپ کر آچکی ہے (اس وقت یہ مجموعہ تالیفات رشیدیہ کے ساتھ بھی چھپ چکا ہے جس میں حضرت گنگوہی ؒ کی تمام تصانیف کو جمع کردیا گیا ہے)وہ بھی ا س کے ذکرسے خالی ہے ۔بلکہ اس میں تو اس کے خلا ف چند فتوے موجود ہیں جن میں سے ایک اوپر نقل بھی کیا جاچکا ہے ۔اور اگر فی الواقع خان صاحب نے ا س قسم کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو وہ یقیناًان کے کسی ہم پیشہ بزرگ یا ان کے کسی پیشرو کی جعلسازی اور دسیسہ کاریوں کا نتیجہ ہے۔
حضرات علمائے کرام و مشائخ کرام رحمھم اللہ کی عزت و عظمت کو مٹانے کیلئے حاسدوں نے اس سے پہلے بھی اس قسم کی کاروائیاں کی ہیں ۔اس سلسلے کے چند عبرت آموز واقعات ہم یہاں عرض کردیتے ہیں:
٭ امت کے جلیل القدر فقیہ اور محدث اعظم اما م احمد حنبل ؒ اس دنیا سے کوچ فرمارہے ہیں کہ اور کوئی بد نصیب حاسد عین اسی وقت تکیہ کے نیچے لکھے ہوئے کاغذات رکھ جاتا ہے جن میں خالص ملحدانہ عقائد اور زندیقانہ خیالات بھرے ہوئے ہیں ۔ کیوں؟صرف اس لئے کہ لوگ ان تحریرات کو امام احمد بن حنبل ؒ ہی کی کاوش دماغی کا نتیجہ سمجھیں گے اور جب ان کے مضامین تعلیمات اسلامی کے خلاف پائیں گے تو ان سے بد ظن ہوجائیں گے اور لوگوں ک دلوں سے ان کی عظمت نکل جائے گی ۔پھر ہماری دکان جو امام کے فیض عام سے پھیکی پڑ چکی تھی چمک اٹھے گی۔
٭ امام لغت علامہ فیروز آبادی صاحب قاموس ؒ زندہ تھے مشہور امام و مرجع خواص و عام تھے حافظ حجر عسقلانی ؒ نے ان کے خرمن علم سے خوشہ چینی کی۔حاسدین نے ان کی اس غیر معمولی مقبولیت کو دیکھ کر ان کی اس عظمت کو بڑ لگانے کیلئے ایک پوری کتاب حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی مطاعن میں تصنیف کر ڈالی جس میں خوب زور و شور سے امام اعظم ؒ کی تکفیر بھی کی اور یہ جعلی کتاب ان کی طرف منسوب کرکے دور دراز تک شائع کروادی۔حنفی دنیا میں علامہ فیرو ز آبادی ؒ کے خلا ف نہایت زبردست ہیجان پیدا ہوگیا لیکن بیچارے علامہ ؒ کو اس کی خبر بھی نہ تھی یہاں تک جب وہ کتاب ابو بکر الخیاط البغوی الیمانی کے پاس پہنچی تو انھوں نے علامہ فیروز آبادی کو خط لکھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟علامہ موصوف اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ :
     اگر وہ کتاب جو افتراء میں میری طرف منسوب کردی گئی ہے آپ کے پاس ہوتو فورا اس کو نذر آتش کردیں خدا کی پناہ !میں اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کی تکفیرو انا اعظم المعتقدین فی امام ابی حنفیہ ۔اس کے بعد ایک ضخیم کتاب امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب میں لکھی۔
٭ امام مصطفی کرمانی حنفی ؒ نے نہایت جانکاہی سے ’’ مقدمہ ابو اللیث سمرقندی‘‘کی مبسوط شرح لکھی جب ختم کرچکے تو مصر کے علما ء کو دکھلانے کے بعد اس کی اشاعت کا ارداہ کیا ۔تصنیف الحمد اللہ کامیاب تھی۔بعض حاسدوں کی نظر میں کھٹک گئی انھوں نے سمجھ لیا کہ اس کی اشاعت سے ہماری دکانیں پھیکی پڑجائیں گی اور تو کچھ نہ کرسکے البتہ یہ خباثت کی کہ اس کے ’’باب آداب الخلاء‘‘کے اس مسئلہ کے حاجت کے وقت آفتاب وماہتاب کی طرف رخ نہ کرے ۔اپنی دسیسہ کاری سے اتنا اضافہ کردیا کہ ’’چونکہ ابراہیم ؑ ان دونوں کی عبادت کرتے تھے‘‘معاذ اللہ ۔علامہ کرمانی ؒ کو اس شرارت کی کیا خبر تھی انھوں نے لا علمی میں وہ کتاب مصر کے علماء کے سامنے پیش کردی جب ان کی نظر ا س دلیل پر پڑی تو سخت برہم ہوئے اور تمام مصر میں علامہ ؒ کے خلاف ہنگامہ کھڑ ا ہوگیا قاضی مصر نے واجب القتل قرار دے دیا۔بیچارے راتوں رات جان بچا کر مصر سے بھاگ گئے ورنہ سر دئے بغیر چھوٹنا مشکل تھا۔
یہ گنتی کے چند واقعات تھے ورنہ تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو حاسدوں کی ان شرارتوں سے تاریخ کے واقعات بھرے پڑے ہیں ۔
پس اگر بالفرض فاضل بریلوی اپنے اس بیان میں سچے ہیں کہ انھوں نے اس مضمون کا کوئی فتوی دیکھا ہے تو یقیناًوہ اسی قبیل سے ہے۔ لیکن پھر بھی فاضل بریلوی کو اس بنا پر کفر کا فتوی دینا ہرگز جائز نہ تھا جب تک کہ وہ خود خوب تحقیق نہ کرلیتے کہ یہ فتوی حضرت مولانا کا ہی ہے یا نہیں؟فقہ کا مسلم اور مشہور مسئلہ ہے کہ ’’الخط یشبہ الخط‘‘یعنی ایک انسان کا خط دوسرے انسان سے مل جاتا ہے اور خود خان صاحب بھی اس کی تصریح فرماتے ہیں کہ :
تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ الخط یشبہ الخط ،الخط لا یعمل بہ (ملفوظات حصہ دوم ص170فرید بک اسٹال لاہور)۔
رہے وہ دلائل جو خان صاحب نے اس فتوے کے صحیح ہونے کیلئے اپنی کتاب تمہیدایمان میں لکھے تو وہ نہایت لچر اور تار عنکبوت سے زیادہ کمزور ہیں قارئین کرام ذرا ان کو بھی خود دیکھ لیں اور جانچ لیں:
یہ تکذیب خدا کا ناپاک فتوے اٹھارہ برس ہوئے 1308ھ میں رسالہ صیانۃ الناس کے ساتھ مطبع حدیقۃ العلوم میرٹھ میں مع رد کے شائع ہوچکا ہے ۔پھر 1318ھ میں مطبع گلزار حسینی بمبئی میں اس کا مفصل رد چھپا پھر 1320ھ میں پٹنہ عظیم آباد میں اس کا ایک قاہرہ رد چھپا اور فتوی دینے والا جمادی الاخر ۱۳۲۳ ھ میں مرا اور مرتے دم تک ساکت رہا نہ یہ کہا کہ وہ فتوی میرا نہیں حالانکہ خود چھپائی ہوئی کتابوں سے اس کا انکار کردینا سہل تھا نہ یہی بتلایا کہ وہ مطلب نہیں جو علمائے اہلسنت بتلارہے ہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے ۔ نہ کفر صریح کی نسبت کوئی سہل بات تھی جس پر التفات نہ کیا۔(تمہید ایمان ص 49)
حشو و زائد کو حذف کردینے کے بعد خان صاحب کی اس دلیل کا صرف حاصل یہ ہے کہ :
(١) یہ فتوی مع رد کے مولانا ممدوح ؒ کی زندگی میں تین دفعہ چھپا۔
(٢) انھوں نے تازیست اس فتوے سے انکار نہیں کیا نہ اس کا کوئی مطلب بتلایا۔
(٣) اور چونکہ معاملہ سنگین تھا اس لئے خاموشی کو عد م التفات پر بھی محمو ل نہیں کیا جاسکتا لہٰذا ثابت ہوگیا کہ یہ فتوے انہی کا ہے اور اسی بنا پر ہم نے ان کی تکفیر کی اور تکفیر بھی ایسی کہ من شک فی کفرہ فقد کفر۔
اگرچہ خان صاحب کے ان دلائل کا لچر پوچ و مہمل ہونا ہمارے نقد تبصرے کا محتاج نہیں ۔ہر معمولی سی عقل رکھنے والا بھی تھوڑے سے غور و فکر کے بعد اس کو لغویت سمجھے گا تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ہر ہر جز پر تھوڑی سی روشنی ڈال دیجائے تاکہ آپ سے خان صاحب کے علم و مجددیت کی کچھ داد دلوادیجائے۔
خان صاحب کی پہلی دلیل کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ:
یہ فتوے مولانا کی حیات میں تین دفعہ چھپے۔
اس مقدمے میں سے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ یہ فتوے مولانا کے مخالفین نے چھاپے ۔مولانایا آپ کے متوسلین کی طرف سے کبھی اس کی اشاعت نہیں ہوئی (خیر اس راز کو تو اہل بصیرت ہی سمجھ سکتے ہیں )ہم کو تو اس کے متعلق صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر خان صاحب کے بیان کو صحیح سمجھ لیا جائے کہ یہ فتوی متعدد بار بمع رد کے حضرت گنگوہی ؒ کی حیات میں شائع ہوا جب بھی لازم نہیں آتا کہ حضرت کے پاس بھی پہنچا ہو یاان کو اس کی اطلاع بھی ہوئی ہو۔اگر ان کے پاس بھیجا گیا تو سوال یہ ہے کہ ذریعہ قطعی تھا یا غیر قطعی؟پھر کیا خان صاحب کو اس کی وصولیابی کی اطلاع ہوئی ؟اگر ہوئی تو وہ ذریعہ قطعی تھا یا ظنی؟ بحث کے پہلوؤں سے چشم پوشی کرکے کفر کا قطعی فتوی دینا کیونکر صحیح ہوسکتا ہے ؟۔بہرحال جب تک قطعی طور پر ثابت نہ ہوجائے کہ فی الواقع حضرت گنگوہی ؒ نے کوئی ایسا فتوی لکھا تھا جس کا قطعی اور متعین مطلب وہی تھا جو مولوی احمد رضاخان نے لکھا اس وقت تک ان تخمینی بنیادوں پر تکفیر قطعا ناروا بلکہ معصیت ہے ۔حضرت مولانا ممدوح ؒ تو ایک گوشہ نشین عارف باللہ تھے جن کا حال بلا مبالغہ یہ تھا
بسو دائے جانان زجان مشتغل 
بذکر حبیب از جہاں مشتغل 
خان صاحب کے دوسرے مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ:
 مولانا ؒ نے اس فتوے کا انکار نہیں کیا نہ ا س کی تاویل کی۔
اس کے متعلق تو پہلی گزارش یہی ہے کہ جب اطلاع ہی ثابت نہیں تو انکار کس چیز کا اور تاویل کس بات کی ؟اور فرض کرلیجئے کہ ان کو اطلاع ہوئی لیکن انھوں نے ناخد ا ترس مفتریوں کی اس ناپاک حرکت کو ناقابل توجہ سمجھا ان کو بحوالہ خدا کرکے سکوت فرمایا۔
رہا یہ کہ کفر کی نسبت کوئی معمولی بات نہ تھی جس کی طرف التفات نہ کیا جائے ۔تو اول تو یہ ضروری نہیں کہ دوسرے بھی آپ کے نظریہ سے متفق ہوں ۔ہوسکتا ہے کہ انھوں نے اس کے انکار کی ضرورت نہ سمجھی ہو۔کہ ایمان والے خود ہی اس ناپاک افتراء کی تکذیب کردیں گے۔یا انھوں نے یہ خیال کیا ہو کہ اس گند کو اچھالنے والے علمی اور مذہبی دنیا میں کوئی مقام نہیں رکھتے لہٰذا ان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں کرے گا ۔بہرحال سکوت کیلئے یہ وجوہ بھی ہوسکتی ہیں ۔پھر قطع نظر ان تمام باتوں سے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ کفر کا معاملہ سنگین تھا بے شک خان صاحب کی ’’مجددیت ‘‘ کے دور سے پہلے تکفیر ایسی غیر معمولی اہمیت رکھتی تھی لیکن خان صاحب کی روح اور ان کی موجودہ ذریت مجھے معاف فرمائے کہ جس دن سے افتاء کا قلمدان خان صاحب کے بے باک ہاتھوں میں گیا ہے اس روز سے تو کفر اتنا سستا ہوگیا ہے کہ اللہ کی پناہ ۔ندوۃ العلماء والے کافر جو نہ مانے کافر،اہلحدیث کافر جو نہ مانے کافر،دیوبندی کافر جو نہ مانے کافر،مولانا عبد الباری فرنگی صاحب کافراور تو اور تحریک خلاف میں شرکت کے جرم اپنے برادران طریقت عبدالماجد صاحب بدایوانی ،عبد القادر بد ایوانی کافر اس کو بھی چھوڑو مصلی رسول ﷺ پرکھڑا ہونے والا شخص آئمہ اسلام سب کافر ۔کفر کی وہ بے پناہ مشین گن چلی کہ الٰہی توبہ! بریلی کے ڈھائی نفر انسانوں کے سوا کوئی مسلمان نہ رہا۔پس ہوسکتا ہے کہ خان صاحب کسی اللہ والے کو کافر کہیں اوروہ اللہ والا اس کو نباح الکلا ب (کتوں کا بھونکنا)سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کرے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا مرحوم ؒ کو اس فتوے کی اطلاع ہوئی اور مولانا ؒ نے انکار بھی کیا ہو مگر خانصاحب کواس کی اطلاع نہ ہوئی پھر عدم اطلاع سے عدم انکار کیوں سمجھا جاسکتا ہے؟کیا عدم علم عدم الشئی کو مستلزم ہے؟۔اہل علم اور ارباب عقل و دانش غور فرمائیں کہ کیا اتنے احتمالات کے ہوتے ہوئے بھی تکفیر جائز ہوسکتی ہے ؟دعوی تو یہ تھا کہ :
ایسی عظیم احتیاط والے (یعنی خود بدولت جناب خانصاحب)نے ہر گز ان دشنامیوں (حضرت گنگوہی ؒ وغیرہ)کو کافر نہ کہا جب تک یقینی ،قطعی واضح،روشن،جلی طور سے ان کا صریح کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہوگیا ۔جس میں اصلا اصلا ہر گز کوئی گنجائش کوئی تاویل نہ نکل سکے۔(تمہید ایمان ص 55)
اور دلیل اس قدر لچر کے یقین کیا ظن کو بھی مفید نہیں۔اور اگر ایسی ہی دلیلوں سے کفر ثابت ہوتا ہے تو پھر تو اسلام اور مسلمانوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔کوئی جاہل اور دیوانہ کسی با خدا کو کافر کہے اور وہ اس کو ناقابل خطاب سمجھتے ہوئے اعراض کرے اور ا سکے لئے اپنی صفائی پیش نہ کرے بس خان صاحب کی دلیل سے کافر ہوگیا۔چہ خوش ۔
گر ہمیں مفتی و ہمیں فتوی
 کار ایماں تمام خواہد شد
ادھر فقہاء کی یہ تصریحات کہ ۹۹ احتمالات کفر کے ہوں صرف ایک احتمال اسلام کا پھر بھی تکفیر جائز نہیں ادھر یہ مجدد کہ محض خیالی و وہمی مقدمے جوڑ کر کہتا ہے کہ من شک فی کفرہ فقد کفر ۔اللہ کی پناہ۔
یہی وہ خیالات و واقعات ہیں جسکی بنیاد پر ہم سمجھتے ہیں کہ خان صاحب نے فتاوی کفر کسی غلط فہمی یا علمی لغزش پر جاری نہ کئے تھے بلکہ درحقیقت اس کی تہ میں صرف حسد و جاہ پرستی اور نفس پرستی کا بے پناہ جذبہ کارفرماتھا۔
٭٭٭

کیا علمائے اہلسنت دیوبند انگریز کے خیر خواہ تھے؟؟

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مولانا ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ


اعتراض نمبر۱:
مکالمۃ الصدرین ص۷ میں ہے کہ جمعیت علماء اسلام حکومت کی مالی امداد اور اس کی ایماء پر قائم ہوئی۔
جواب: بریلوی حضرات کا یہ دعوی سرے سے باطل ہے۔
(اولا): اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند کتاب نہیں اگر اس کتاب میں درج شدہ باتیں واقعۃ کوئی مکالمہ تھا تواس پر فریقین کے سربراہوں کے دستخط ہونے چاہئے تھے۔جب کہ اس پر نہ تو حضرت مولانا مدنی ؒ کے دستخط ہیں اور نہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے۔اصل حقیقت اس کی فقط اتنی ہے کہ نظریہ قومیت کے اختلاف کے دنوں میں جمعیۃ علماٗ ھند کے ارکان کا ایک وفد حضرت شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی صاحب ؒ کی تیمارداری کیلئے ان کے مکان پر حاضر ہوا۔اس ملاقات میں چند ایک اختلافی مسائل بھی زیر بحث آئے۔ارکان جمعیہ اور حضرت علامہ ؒ کے سوا اس مجلس میں کوئی اور شخص موجود نہ تھا ۔جمعیۃ علمائے ہند کے مخالفین کو جب اس ملاقات کا علم ہوا تو ان بزرگوں کا آپس میں مل بیٹھنا سخت ناگوار گزرا۔چنانچہ ان مخالفین نے بتوسط مولوی محمد طاہر صاحب حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب ؒ کی شخصیت کو استعمال کرکے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ ان بزرگوں کو دوبارہ آپس میں مل بیٹھنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔مولوی محمد طاہر صاحب نے کچھ باتیں تو حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے حاصل کیں اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا کر مکالمۃ الصدرین کے نام سے رسال طبع کرادیا۔اس رسالہ کے غیر مستند ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے مرتب یعنی مولوی محمد طاہر بزرگوں کی اس ملاقات میں سرے سے شریک ہی نہیں تھے چنانچہ حضرت مدنی ؒ فرماتے ہیں کہ:
مگر خود غرض چالاک لوگوں نے نہ معلوم مولانا (عثمانی)کو کیا سمجھایا اور کس قسم کا پروپگینڈا کیا کہ کچھ عرصہ بعد یہ رسالہ مکالمۃ الصدرین شائع کردیا گیا۔جس میں نہ فریقین کے دستخط ہیں نہ فریق ثانی (اراکین جمعیہ)کو کوئی خبر دی گئی نہ ان میں سے کسی سے تصدیق کرائی گئی۔خود مولانا موصوف کے دستخط بھی نہیں بلکہ مولوی محمد طاہر صاحب کے دستخط ہیں جو اثنائے گفتگو میں موجود تک نہ تھے(کشف حقیقت ص ۸)
ارکان جمعیۃ کو جب اس رسالہ کی اشاعت کا علم ہوا تو عوام کے بے حد اصرار پر حضرت مولانا مدنی ؒ نے ۱۳۶۵ ؁ ھ بمطابق ۱۹۴۶ ؁ء میں کشف حقیقت کے نام سے اس کا جواب لکھاجو دلی پریس پرنٹنگ سے طبع ہوا(یہ کتاب آپ کو ہماری سائٹ اہلحق٭ پر بریلویوں کے رد میں کتابوں کے سیکشن میں مل جائے گی)جن میں انھوں نے اس بات کی صراحت فرمائی کہ رسالہ مذکورہ اس کے مرتب کے ذہن کی اختراع ہے جسے غلط طور پر علامہ عثمانی ؒ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے چنانچہ حضرت علامہ مدنی ؒ فرماتے ہیں کہ :
مکالمہ مذکورہ مولوی محمد طاہر صاحب ہی کا اثر خامہ اور ان ہی کے فہم و خیالات کا نتیجہ ہے۔اور ہماری باہمی گفتگو کو صرف ان خیالات و افکار کا حیلہ بنایا گیا ہے اور اسی لئے یہ حقیقت سے دور اور کذب و افتراء کا مجموعہ ہے۔(کشف حقیقت ص ۹)
نیز فرماتے ہیں کہ اگر واقع میں یہ تمام تحریر مولانا شبیر احمد عثمانی کی مصدقہ تھی تو مولانا نے اس پر دستخط کیوں نہ فرمائے ؟اور اگر اس میں صداقت اور واقعیت تھی تو قبل اشاعت جمعیت کو دکھایا کیوں نہیں گیا۔(کشف حقیقت ص ۱۰)
یعنی حضرت علامہ عثمانی ؒ کا اس پر دستخط نہ کرنا ہی اس چیز کی دلیل ہے کہ یہ رسالہ ان کا مصدقہ نہیں بلکہ مخالفین نے ان بزرگوں کے درمیان مزید بعد پیدا کرنے کیلئے اس کی نسبت حجرت علامہ عثمانی ؒ کی طرف کردی۔چنانچہ حضرت مولانا مدنی ؒ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
چونکہ اس (مکالمۃ الصدرین)کی نسبت علامہ مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کی طرف کی گئی ہے اس لئے اس سے لوگوں کو بہت سے شبہات اور خلجانات پیدا ہوئے اور وہ ہماری طرف رجوع ہوئے۔دیکھنے سے معلوم ہوا کہ بلاشبہ اس میں اکذیب اور غلط بیانیاں ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہماری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی اور بغیر افسوس اور انا للہ و انا الیہ رجعون پڑھنے کے اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا(ایضا ص ۴)
ان حقائق سے صاف طاہر ہے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند اور مصدقہ کتاب نہیں یہ ایک غیر مستند کتاب ہے تو اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی سرے سے غلط ہے میری تمام بریلوی حضرات سے گزارش ہے کہ خود کشف حقیقت کا مطالعہ کریں جو ہماری سائٹ سے فری میں ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں انشاء اللہ آپ پر تاریخ کے کئی مخفی راز عیاں ہونگے۔
ثانیا: یہ بات مولانا حفظ الرحمن صاحب سے نقل کی گئی مکالمۃ الصدرین میں اور مولانا نے خود ان تمام باتوں کی تردید کی ہے کشف حقیقت میں اس تردید کی تفصیل موجود ہے جس میں سے کچھ عبارتیں ہم آئیندہ پیش کریں گے ۔پس جب کتاب غیر مستند اس کی راوی کی تردید موجود تو ایسے حوالے سے استدلال کرنا سوائے دل ماؤف٭ کو تسکین دینا نہیں تو اور کیا ہے۔
ثالثا: خود مکالمۃ الصدرین کے آگے والے صفحہ میں یہ عبارت موجود ہے کہ انگریز کی طرف سے یہ نوٹ لکھاگیا کہ
ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئیندہ کیلئے امداد بند ہوگئی۔(مکالمۃ الصدرین،ص۸)
پس اگر جمعیت علمائے اسلام انگریز حکومت کی حمایت یافتہ تھی اور اس کی پشت پناہی حاصل تھی تو انگریز نے یہ حمایت اور یہ امداد بند کیوں کردی ۔۔ ؟؟؟اور کیوں یہ کہا کہ ایسے انجمنوں پر پیسہ لگانا فضول ہے۔
اس سے آپ حضرات ’’سابقہ دیوبندی کلین شیو‘‘ خلیل رانا صاحب کے دجل و فریب کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
باقی رہا جمعیت علمائے ہند کا انگریز کے خلاف جدوجہد تو الحمد للہ اس پر اب تک پوری پوری کتابیں لکھی جاچکی ہیں اس جماعت کو ایسے اکابرین بھی ملے جنھوں نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگیاں جیلوں میں گزار دیں میں یہاں صرف ایک حوالہ پیش کرتا ہوں:
جمعیت علمائے ہند کے ۱۹۲۰ کے اجلاس میں جو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں ہوا انگریز کے خلاف یہ فتوی صادر کیا گیا:
مسلمانوں کیلئے ایسی ملازمت جس میں دشمنان اسلام (انگریز)کی اعانت و امداد ہو اور اپنے بھائیوں کو قتل کرنا پڑے قطعا حرام ہیں۔
اس فتوے پر چار سو چوہتر علماء نے دستخط کئے اور اسی فتوے کے بعدتحریک ترک موالات شروع ہوئی ۱۹۲۱ میں جمعیت کا یہ فتوی ضبط کرلیا گیا مگر جمعیت نے قانون شکنی کرکے بار بار اس کو شائع کیا ۔اور اسی تحریک میں حضرت شیخ الہندرحمۃ اللہ علیہ اور مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ’’اسیر مالٹا‘‘ ہوئے ۔ غور فرمائیں انگریز کی روٹیوں پر پلنے والے اس طرح ہوتے ہیں؟؟۔اگر یہ لوگ بھی انگریز کی جوتیاں چاٹنے والے ہوتے تو جیلیں آباد کرنے کے بجائے احمد رضاخان کی طرح ساری زندگی ’’بریلی ‘‘ کے ایک حجرے میں بیٹھ کر ہر اس تحریک پر کفر کا فتوی لگاتے جو انگریز کی مخالفت پر کمر بستہ ہو۔

اعتراض نمبر۲:
تبلیغی جماعت کو بھی ابتداء میں حاجی رشید احمد کے ذریعہ حکومت سے کچھ روپیہ ملتا۔مکالمۃ الصدرین،ص۸۔
جواب:اس سے بھی فریق مخاف کو کوئی فائدہ نہیں
اولا: اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کی حقیقت پہلے بیان ہوچکی ہے وہ غیر معتبر کتاب ہے لہٰذا اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی درست نہیں ۔
ثانیا: یہ روایت بھی مولانا حفظ الرحمن کے حوالے سے ہے اور مولانا نے خود اس کی پرزور تردید کی ہے:
چنانچہ کشف حقیقت ص۴۲ میں یہ عنوان ہے مولانا حفظ الرحمن صاحب کا بیان اور پھر ص۴۴ میں مکالمۃ الصدرین کے حوالے سے لکھا کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولا نا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد صاحب کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہوگیا مکالمۃ الصدرین اس کا جواب حضرت حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ ناظم جمعیۃ علماء ہند یہ دیتے ہیں :
وکفی باللہ شھیدااس کا ایک ایک حرف افتراء اور بہتان ہے میں نے ہر گز ہر گز یہ کلمات نہیں کہے اور نہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے سبحانک ھذا بہتان عظیم۔بلکہ مرتب صاحب (مولوی محمد طاہر مسلم لیگی)نے اپنی روانی طبع سے اس کو گھڑ کر اس لئے میری جانب منسوب کرنا ضروری سمجھاکہ اس کے ذریعہ سے حضرت مولانا الیاس صاحب کی تحریک سے والہا نہ شغف رکھنے والے ان مخلصوں کو بھی جمعیۃ علماء ہند سے برہم اور متنفر کرنے کی ناکام سعی کریں جو جمعیۃ علماء ہند کے اکابر و رفقاء کار کے ساتھ بھی مخلصانہ عقیدت اور تعلق رکھتے ہیں اب یہ قارئین کرام کا اپنا فرض ہے کہ وہ اس تحریر کو صحیح قرار دیں جس کی بنیاد شرعی اور اختلافی احساسات کو نظر انداز کرکے محض جھوٹے پروپگینڈے پرقائم کی گئی ہے یا اس سلسلہ میں میری گزارش اور تردید پر یقین فرمائیں البتہ میں مرتب صاحب کی اس بے جا جسارت کے متعلق اس سے اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں والی اللہ المشتکی واللہ بصیر بالعباد۔انتھی بلفظہ کشف حقیقت ص۴۴،۴۵۔
ایسی واضح اور صریح تردید کی موجودگی میں تبلیغی جماعت کو سرکار برطانیہ کا ہمدرد اور نمک خوار ثابت کرنا کہاں کاانصاف و دیانت ہے ؟سچ کہا
نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
 پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ثالثا: اس لئے کہ فریق مخالف نے عبارت نقل کرنے میں بھی دجل سے کام لیا ہے اور پوری عبارت نقل نہیں کی جواس طرح ہے کہ :
اس ضمن میں مولاناحفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد کچھ روپیہ ملتا تھا۔پھر بند ہوگیا۔ص۸۔
خلیل رانا صاحب نے اپنے اعلحضرت اور دیگر اکابر کا روایتی طریقہ واردات اختیار کرتے ہوئے آخری خط کشیدہ جملہ حذف کردیا ہے یہ جملہ باقی رہتا اور حذف نہ کیا جاتا تو ہر قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا کہ:
(۱) اگر تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال ہورہی تھی تو یہ روپیہ بند کیوں کردیا گیا؟اس روپیہ کا بند ہوجانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال نہ ہوسکی اور انگریز کواس کی توقع بھی نہ تھی ورنہ رقم کبھی بند نہ ہوتی رقم کابند ہوجانا اور بند کردینا ہی اس کی روشن دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت انگریز کیلئے آلہ کار نہیں بنی اور بفضلہ تعالی پہلے سے اب جماعت تمام دنیا میں زیادہ عروج پر ہے اور ان ملکوں اور علاقوں میں بھی کام کررہی ہے جو انگریزوں کے سخت مخالف ہے۔
(۲) انگریز کچھ لوگوں اور بعض انجمنوں کواپنے جال میں پھنسانے کیلئے ابتداء کچھ رقمیں دیا کرتا تھا پھر بند کردیں۔۔چنانچہ مذکورہ بالا عبارت سے متصل ہی یہ عبارت بھی مذکور ہے کہ (ایک سرکاری ہندو افسر نے)گورنمنٹ کو نوٹ لکھا جس میں دکھلایا گیا کہ ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئیندہ کیلئے امداد بند ہوگئی۔
اس سرکاری افسر کے بیان سے بالکل عیا ں ہوگیا کہ جن لوگوں اور انجمنوں کو جال میں پھنسانے کیلئے انگریز کچھ رقمیں دیا کرتا تھا وہ بند کردی گئی تھیں کیونکہ ان میں رقمیں صرف کرنا بالکل بے کار تھا اس لئے کہ ان سے انگریز کے حامی ہونے کی قطعا کوئی توقع نہ تھی ۔جو بزبان حال یوں گویا ہے
ہزار دام سے نکلاہوں کہ ایک جنبش سے
 جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
الفضل ما شھدت بہ الاعداء
تبلیغی جماعت کے متعلق بریلویوں کے روحانی پیشوا نظام الدین مرولوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
تبلیغی جماعت کی کوششیں بے حد مخلصانہ ہیں لیکن اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہورہے ہیں۔(ھو المعظم،ص۷۲)
اس کے نتائج خاطر خواہ کیسے ظاہر ہوں (بقول نظام الدین مرولوی صاحب کے) جبکہ بریلوی حضرات کی طرف سے اس کی مخالفت کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں ان کے بستروں کو مسجدوں سے باہر پھینک دیا جاتا ہے خودتو کبھی گھروں سے نکلنے کی توفیق نہ ہو اور تبلیغی جماعت جنھوں نے لاکھوں انگریزوں کو مسلمان کیا پر انگریز کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جائے ان کووہابی کہہ کر بدنام کیا جائے۔
اعتراض نمبر ۳:
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو ۶۰۰ روپے انگریز سے ملتے تھے ملاحظۃ مکالمۃ الصدرین اس امر کی تردید خود حضرت تھانوی صاحب بھی نہ کرسکے ملاحظہ ہوالاضافات الیومیہ ص ۶۹ ج۶۔
جواب:یہ حوالہ بھی فریق مخالف کیلئے سود مند نہیں اس لئے کہ
(اولا) مکالمۃ الصدرین کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے ایسی غیر مستند کتاب پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی جہالت ہے۔
(ثانیا): اگر بالفرض اس مکالمہ کو مصدقہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی بریلوی حضرات کا یہ دعوی کے مکالمہ الصدرین میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مولانا تھانوی ؒ انگریز سے چھ سو روپے ماہوار لیا کرتے تھے سراسر دجل اور صریح افتراء ہے کیونکہ مکالمہ میں حضرت علامہ عثمانی ؒ کی اصل عبارت اس طرح منقول ہے فرماتے ہیں کہ:
عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو تو اس قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ہمارے اور آپ کے مسلم بزرگ پیشوا تھے۔ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کو چھ سو روپے ماہوار حکومت کی جانب سے دئے جاتے تھے۔(مکالمۃ الصدرین ص ۹)
اس عبارت میں حضرت عثمانی ؒ صاف لفظوں میں اس الزام کو مخالفین کا سیاسی پروپگینڈا قرار دے رہے ہیں لیکن بریلوی حضرات کا دجل ملاحظہ فرمائیں کہ وہ پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے صفحہ کو ایک مخصوص جگہ سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔فالی اللہ المشتکی۔
(ثالثا): اگر مکالمہ کے حوالے بالفرض سے اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔کیونکہ خود حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس الزام کی تردید موجود ہے ۔چنانچہ جب حکیم الامت ؒ کو جب اس الزام کا علم ہوا تو بڑا حکیمانہ جواب دیافرمایا:
اگر چھ سو روپے گورنمنٹ سے پاتا ہوں تو طمع ہے خوف نہیں اور اگر طمع کا یہ عالم ہے تو تم نو سو روپے دے کر اپنے موافق کرلو۔اگر قبول کرلوں تو صحیح وگرنہ غلط۔(الاضافات الیومیہ ص ۶۹۸ ج ۴،بحوالہ مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی ص۵۴)۔

جبکہ اس کے مقابلے میں فریق مخالف کے اعلحضرت کی حکومت انگریز کیلئے وفاداری کا اقرار خود انگریزوں نے کیا ہے ملاحظ ہو:
The mashrik of gorakhpor and albashir usually took note the pro-government fatwas of Ahmed raza Khan.(Separatism among india Muslims,page 268(.
انگریز مورخ سر فرانسس رابنسن کی کتاب علماء فرنگی محل اینڈ اسلامی کلچر میں مندرجہ ذیل الفاظ میں احمد رضاخان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے:
The actions of One learned man ,the very influentional Ahmed Rada Khan (1855,1921) of barielly,present our conlusion yet more Clearly....at the same time he Support the colonial Government loudly and vigorousily through world warI,and through the khilafat Movement when he opposed mahatma Gnadhi allaince with tha nationalist movement and and non-Cooperation with the british.(ulam farange Mehal and Islamic culture page )
Khan ahmed rada of bareilly 37,37 & 47,58,67 and Support for the British 196(Index ,ulma farangi mehal and Islamic Culture page 263(
جبکہ اس کے برخلاف خود انگریز مورخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے راستے میں سب سے سخت رکاوٹ دارالعلوم دیوبند تھا ملاحظہ ہو:
The most Vital School of Ulma in india is the second Half of the initeenth Century was that centerd upon Deoband,the Darul Uloom.(The Muslims or british India,byP.Hardy page 170(
اعلی حضرت اعلی سیرت کے صفحہ ۳۳ اور اسی طرح حیات اعلی حضرت میں یہ بات موجود ہے کہ مولوی احمد رضاخان کے دادا نے گورنمنٹ کی پولیٹیکل خدمات انجام دی جس کے عوض ان کو آٹھ گاؤں جاگیر میں ملے اور ان کے ساتھ آٹھ سو فوجیوں کی بٹالین ہواکرتی تھی۔

شاہ عبد العزیز ؒ کے فتوے کے خلاف کے ہندوستان دارالحرب ہے اعلی حضرت نے ہندوستان کے دارلسلام ہونے کا فتوی دیا اس لئے کہ دارالسلام میں جہاد جائز نہیں۔اس کے علاوہ اس مکتبہ فکر نے آزادی کے ہر متوالے پر کفر کے فتوے لگا کر عوام کوان سے بد ظن کرنے کی کوشش کی۔۱۹۱۴ میں الدلائل القاہرہ علی الکفرۃ النیاشرہ کے نام سے فتوی شائع ہوا جس میں خان صاحب کے علاوہ کئی بریلوی علمائے کے تصدیقات موجود تھے جس میں قائد اعظم کو کافر کہا گیا اور مسلم لیگ سے ہر قسم کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا۔ان کے مولوی حشمت علی نے مسلم لیگ کی زریں بخیہ دری کے نام سے کتاب لکھی جس میں قائد اعظم کو کافر قرار دیا گیا۔مولوی مصطفی رضاخان نے اس زمانے میں مسلمانوں کے دلوں سے کعبہ و مدینہ کی محبت نکالنے کیلئے حج کے ساقط ہونے کا فتوی دیا اور آج بھی بریلوی برملا امام کعبہ اور مدینہ کو کافر لکھتے اور کہتے ہیں ٭مصطفی رضاخان نے ایک کتاب لکھی اس زمانہ میں جو اب نایاب ہے رسالۃ الامارہ والجہاد جس میں انگریز سے جہاد کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ چند مثالیں میں نے دے دی ہے ورنہ ان کی غداریوں سے تاریخ کے صفحات آج بھی بھرے پڑے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے تاریخ آزادی میں کہیں بھی اس گروہ کا نام و نشان نہیں جس کا اعتراف خود مولوی احمد رضاخان کے سوانح نگار کرتے ہیں کہ اور اس کا الزام مورخین پر ڈالتے ہیں کہ انھوں نے محض تعصب کی وجہ سے ہمارے اعلحضرت کا ذکر کہیں نہیں کیا اور وہابی (یعنی دیوبند) کی خدمات سے ساری تاریخ کو بھر دیا۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے حوالے سے بھی آپ نے اپنی ’’مخصوص رضاخانیت‘‘ کامظاہرہ کیا ہے پوری عبارت اس طرح ہے :
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تحریکات کے زمانہ میں میرے متعلق یہ مشہور کیا گیا تھا کہ چھ سو روپیہ ماہانہ گورنمنٹ سے پاتا ہے ایک شخص نے ایک ایسے ہی مدعی سے کہا کہ اس سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ خوف سے متاثر نہیں لیکن طمع سے متاثر ہے بلکہ خوف سے تو گورنمنٹ ہی متاثر ہوئی چنانچہ تمھیں اور ہمیں سو روپیہ نہیں دیتی تو اب اس کا امتحان یہ ہے کہ تم نو سو روپے دیکر اپنی موافق فتوی لے لو اگر وہ قبول کرلے تو وہ بات صحیح ہے ورنہ وہ بھی جھوٹ ۔(الاضافات الیومیہ،ج۶،ص۱۰۳،ملفوظ نمبر،۸۸)
غور فرمائیں کس حکیمانہ اور بلیغ انداز میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس الزام کی تردید کررہے ہیں مگر خلیل رانا صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ تو تردید نہیں بلکہ تصدیق کررہے ہیں۔۔تف ہے ایسی تحقیق پر اور ایسی دیانت پر...ہم بار بار خلیل رانا صاحب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان حوالہ جات کو کل کو کوئی چیک بھی کرسکتا ہے ۔۔
اعتراض: تھا کون جو انگریز کو کہتا رحمت؟ کس نے کیا گوروں کے وظیفے پر گزارا
جواب: ارے وہی جس کی وفاداری کے گن گاتے انگریز بھی بھائی وہی جن کو سیر کرائی جاتی ہے پینٹاگون کی آج بھی
(روزنامہ وقت لاہور ۱۰ مئی ۲۰۱۰ ؁ء کی خبر کے مطابق بریلوی علماء و مشائخ کو انتہا ء پسندی کے خلاف پینٹاگون میں تربیت دی جائے گی۔)



اعتراض نمبر ۴:
 مولانا رشید احمد گنگوہی اور قاسم نانوتوی صاحب اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے ۔ملاحظہ ہو تذکرۃ الرشید ج۱ص۷۹۔
جواب:فریق مخالف کا یہ حوالہ بھی بالکل سود مند نہیں اس لئے کہ انھوں نے تو یہ ثابت کرنا تھا کہ حضرت گنگوہی اور حضرت حجۃ الاسلام رحمہمااللہ انگریز کے وفادار تھے اور اس کے خلاف انھوں نے کچھ نہ کہا مذکورہ بالا عبارت مولف تذکرۃ الرشید کی ہے جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں کسی اور کی عبارت کو لیکر کسی اور پر فٹ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔۔؟؟آپ کا یہ ثابت کرنا کہ ان حضرا ت نے انگریز کی مخالف نہیں کہ قطعا باطل اور مردود ہے جبکہ خود اسی تذکرۃ الرشید میں یہ حوالے بھی موجود ہیں کہ:
(۱) تینوں حضرات (حاجی امداد اللہ صاحب ،حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ )کے نام چو نکہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں اور گرفتار کنندہ کیلئے صلہ (انعام) تجویز ہوچکا تھا اس لئے لوگ تلاش میں ساعی اور حراست کی تگ و دو میں پھرتے تھے۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۷۷)
(۲) روش (پولیس)رامپور پہنچی اور حضرت امام ربانی مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ حکیم ضیاء الدین صاحب کے مکان سے گرفتار ہوئے تخمینے سے یہ زمانہ۱۲۷۵ ؁ ھ کا ختم یا ۱۲۷۶ کا شروع سال ہے (الی قولہ)آپ کے چاروں طرف محاٖفظ پہرہ دار تعنیات کردئے گئے اور بند بیل (بیل گاڑی)میں آپ کو سوار کرکے سہارنپور چلتا کردیا گیا (الی قولہ)حضرت مولانا سہارنوپر پہنچتے ہی جیل خانہ بھیج دئے گئے اور حوالات میں بند ہوکر جنگی پہرہ کی نگرانی میں دے دئے گئے۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۸۲)
(۳) حضرت مولانا تین یا چار یوم کال کوٹھری میں اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے تحقیقات پر تحقیقات اور پیش پر پیشی ہوتی رہی آخر عدالت سے حکم ہوا کہ تھانہ بھون کا قصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے چنانچہ امام ربانی جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرہ میں براہ دیوبند دو پڑاؤ کرکے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور اب یہاں کے جیل خانہ میں بند کردئے گئے ۔(الی قولہ)مظفر نگر کے جیل خانہ میں حضرت کوکم و بیش چھ ماہ رہنے کا اتفاق ہوا اس اثناء میںآپ کی استقامت ،جوانمردی ،استقلال کی پختگی ،توکل،رضا،تدین،اتقاء،شجاعت،ہمت،اور سب پر طرہ حق تعالی کی اطاعت و محبت جو آپ کی رگ رگ میں سرایت کئے ہوئے تھی اس درجہ حیرت انگیز ثابت ہوئیں کہ جن کی نظیر نہیں نظر ملتی۔(تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۸۴)
(۴) حضرت امام ربانی قطب الارشاد مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ کو اس سلسلہ میں امتحان کا بڑا مرحلہ طے کرنا تھا اس لئے گرفتار ہوئے اور چھ مہینے حوالہ جات میں بھی رہے ۔(تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۷۹)
ان تمام واضح حوالوں سے حضرت مولانا گنگوہی اور ان کے رفقاء کا گرفتار ہونا جنگی حراست میں رہنا حوالہ جات اور کال کوٹھریوں کا آباد کرنا اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا روز روشن کی طرح واضح ہے اور ہمارا مدعی بھی یہی ہے۔غرض ان کو انگریز کا وفادار ثابت کرنا تاریخ کو مسخ کرنا ہے اور خلیل رانا صاحب نے جو مجمل اور مبہم حوالہ دیا ہے اس سے انکا مدعی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا یہ مجمل عبارت صرف اس کا مصداق ہے
تم جو دیتے ہو نوشتہ وہ نوشتہ کیا ہے
جس میں ایک حرف وفا بھی کہیں مذکور نہیں
لفظ ’’سرکار‘‘ کا اطلاق رب تعالی (حقیقی سرکار) پر بھی ہوتا ہے
اصل میں فریق مخالف کو اس عبارت میں لفظ ’’مہربان سرکار‘‘ سے مغالطہ ہوا ہے حالانکہ یہ لفظ دیگر متعدد معنوں کے علاوہ مالک حقیقی آقا اور ولی نعمت پر بھی صادق آتا ہے چنانچہ فرہنگ آصفیہ ج۳ ص ۷۰ میں سرکار کے معنی سردار،میر،پیشوا،رئیس ،آقا،ولی نعمت اور والی وغیرہ کے کئے گئے ہیں۔
اور پھر ’’مولف تذکرۃ الرشید‘‘جس طرح لفظ سرکار کا انگریز پر اطلاق کرتے ہیں اسی طرح ’’اللہ تعالی ‘‘ پر بھی اس کا اطلاق کرتے ہیں۔چنانچہ وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے سہارنپور جیل سے مظفر نگر منتقل کرنے کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
سنا ہے کہ دیوبند کے قریب سے گذرنے پرمولانا قاسم العلوم نظر براہ راستہ سے کچھ ہٹ کر بغرض ملاقات پہلے سے آکھڑے ہوئے تھے گو خود بھی مخدوش حالت میں تھے مگر بیتابئ شوق نے اس وقت چھپنے نہ دیا اور دور ہی دور سے سلام ہوئے ایک نے دوسرے کو دیکھا مسکرائے اور اشاروں ہی اشاروں میں خدائے تعالی کے وہ وعدے یاد دلائے جو سچے سرکاری خیرخواہوں اور امتحانی مصیبتوں پر صبر و استقلال کرنے والوں کیلئے انجام کار ودیعت رکھے گئے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۸۴)
بالکل واضح امر ہے کہ یہ وعدے اللہ تعالی کے واللہ مع الصبرین ،و ان جندنا لھم الغلبون ،انا لننصررسلنا والذین امنوافی الحیوۃ الدنیا اور فان حزب اللہ ھم الغلبون وغیرہ کلمات جو قرآن کریم میں موجود ہیں ۔۔سچی سرکار ،آقائے حقیقی اور مالک الملک کے مخلص بندوں کیلئے ہیں جو امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔یہاں سرکار کے لفظ سے اللہ تعالی ہی کی ذات مقدسہ مراد ہے۔

اعتراض نمبر ۵:
حافظ ضامن ،قاسم نانوتوی ،رشید گنگوہی انگریز کی حمایت میں لڑے اور اور حافظ ضامن ’’شہید‘‘ ہوگئے۔تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۷۴،۷۵


جواب: لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔خلیل رانا صاحب اتنا صریح دھوکہ ۔۔ہم نے یہ صفحہ بار بار چیک کیااور کہیں ہمیں یہ عبارت نہیں ملی ٭کہ حافظ ضامن صاحب انگریز کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تاریخ کاادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ان کی شہادت شاملی کے میدان میں انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے ہوئی۔۔مگر آپ کس طرح خدا خوفی سے بے پرواہ ہوکر جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔۔جن صفحات کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں بھی اسی شاملی کے معرکہ کا ذکر ہورہا ہے ۔آپ میں اگر ذرا بھی انصاف ودیانت کامادہ ہے تو جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس کتاب کا اصل عکسی حوالہ دے کر بعینہ ثابت کریں ورنہ
لعنۃ اللہ علی الکاذبین  کا وظیفہ پڑھ کر اپنے اوپردم کریں۔
۱۸۵۷ کی جنگ آزادی حضرت حاجی امداداللہ رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں لڑی گئی اور شاملی کے میدان پر قبضہ کرلیا گیا جو ایک ماہ تک رہا ۔
* حاجی امدااللہ صاحب کو امام ،مولانا قاسم نانوتوی ؒ کو سپہ سالار افواج مولانا رشیداحمد گنگوہی ؒ کو قاضی ،مولانا محمد منیر نانوتوی ؒ اور حافظ محمد ضامن ؒ کو میمنہ اور میسرہ کے افسر مقرر کئے گئے۔(سوانح قاسمی ،ج۲،ص۱۲۷)
* اس معرکہ میں حافظ محمد ضامن شید ہوئے حضرت حاجی صاحب اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی مکہ مکرمہ کی طرف حجرت کرگئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ روپوش ہوگئے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ گرفتار کرلئے گئے۔مولانا گنگوہی ؒ کو سہارنپور کی جیل میں قید کردیا گیا ۔تین چار یوم کال کوٹھری میں رہے اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے ۔آخر عدالت سے حکم ہوا تھانہ بھون کاقصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے ۔چنانچہ جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرے میں براستہ دیوبند چند پڑاؤ کرکے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور حوالات کے اندر بند کرئے گئے چھ ماہ قید رہے آخر چھوڑ دئے گئے۔(ایسٹ انڈیا کمپنی کے باغی علماء ،ص۱۱۳،از مفتی انتظام اللہ شہابی)۔

جناب پروفیسر محمد ایو ب صاحب قادری مرحوم لکھتے ہیں کہ
* اسی (۱۸۵۷ کی جنگ آزادی ) میں حافظ محمد ضامن ؒ صاحب کو گولی لگی اور وہ شہید ہوگئے آخر میں مجاہدین کے پاؤں بھی اکھڑ گئے انگریزوں نے قبضہ کرنے کے بعد تھانہ بھون کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔(جنگ آزادی ،ص۱۸۱)
نوٹ:پروفیسر ایوب قادری بریلوی حضرات کے ہاں بھی مستند مانے جاتے ہیں عبد الحکیم شرف قادری نے اپنی کتاب پر ان سے تقریظ لکھوائی اوران کے انتقال پر اظہار غم بھی کیا۔
غرض یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت حافظ ضامن صاحب انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے شاملی کے میدان میں شہید ہوئے مگر فریق مخالف کا سوء ظن دیوبند دشمنی ملاحظہ ہو کہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے بھی کچھ حیاء نہیں۔ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ خلیل رانا صاحب یہ تمام حوالے کسی بریلوی ملاں کے رسالے سے ہی کاپی پیسٹ کرتے ہیں اس لئے کہ ظاہر ہے کہ بندہ ایک دو حوالوں میں چلو دھوکہ دہی کردے مگر ان کا ہر حوالہ دجل و فریب کا شاہکار ہوتا ہے ۔پہلے تو ہم ان کوان کی داڑھی کا واسطہ دیتے کہ چہرے پرسجائی اس سنت رسول ﷺ سے ہی شرما جاؤ مگر ان کی تو داڑھی بھی نہیں واسطہ دیں بھی تو کس کا...؟؟؟
اب آخر میں ہم فریق مخالف سے سوال کرتے ہیں کہ شاہ صاحب اور انکی تحریک کے لوگ تو تھے ہی بقول آپ کے وہا بی تھے، معاذاللہ ،اللہ و رسولﷺ اور تمام مسلمانوں کے دشمن تھے ، اسلام کے بد خواہ تھے مگر آپ کے روحانی دادا حضور مولوی نقی علی۱۸۵۷ء ؁ کی جنگ آزادی میں کہاں تھے ؟ انکو بھی چھوڑئے آپکے روحانی ابا حضور مولوی احمد رضاخان جو بزعم خویش پورے ہندوستان میں واحد مسلمان اور اسلام کے خیر خواہ تھے، انہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کے کتنے فتوے دیے۔؟؟؟؟؟؟؟
٭٭٭

حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ پر انکارِ ختمِ نبوت کے الزام کا جواب

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مولانا ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ

بہتان: مولانا محمد قاسم نا نو تویؒ ختم نبوت کے قائل نہیں۔
پہلا بہتان جو علماء سُوء  کی طرف سے شیخ الاسلام مولانا محمد قاسم نا نو تویؒ پر لگا یا جاتاہے ، وہ یہ ہے کہ آپ  اجراءِ  نبوت کے قائل ہیں ۔ان کے خیال میں بانی دارا العلوم دیو بند نے اس عقیدہ کا ذکر اپنی کتاب ’’ تخد یر الناس ‘‘ میں کیا ہے یہ عقیدہ رکھنا کہ حضور ﷺکے بعد بھی اگر کوئی نبی آ جائے تو حضور ﷺکی ختم نبوت میں کوئی فر ق نہیں آ تا ہے ۔یہ عقیدہ کفر ہے اس لئے محمد قاسم نانو توی اور ان کے متبعین کا فر اور مرتد ہیں ۔
یہ اعتر اض سب سے پہلے علماء سوء کے امام مو لوی احمد رضاخاں صاحب نے حضرت نانو توی پر کیا ہے۔جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’ حسام الحر مین ‘‘ میں کیا ہے ۔اس اعتر اض کے متعلق بس مختصر الفا ظ میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ لعنۃ اللہ علی الکا ذ بین، اللہ تعالیٰ منکر ین ختم نبوت پر بھی لعنت کریں اور جھو ٹے الزام لگا نے والوں پر بھی خدا کی لعنت ہو ۔دیو بند یوں میں سے کوئی ختم نبوت کا انکار نہیں کرتا ۔
تحقیقی جواب
حسام الحر مین کی عبارت: ہم ذیل میں وہ عبارت مولوی احمد رضا خاں صاحب بر یلوی کی کتاب حسام الحر مین کی نقل کرتے ہیں جو انہوں نے حر مین الشر یفین کے علماء کو حضرت نانو توی ؒ کے متعلق لکھی اور ان سے خواہش کی کہ وہ ایسا عقیدہ رکھنے والے پر کفر کا فتوی صادر فر مائیں ۔
اور قا سمیہ قاسم نا نو توی کی طرف منسو ب کی جس کی تخدیر النا س ہے اور اس نے اپنے اس رسالے میں کہا ہے ۔
’’ بلکہ اگر بالفر ض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو ۔جب بھی آپ کا خاتم ہونا بد ستور باقی رہتا ہے ۔بلکہ اگر با لفر ض بعد زمانہ نبوت میں بھی کوئی نبی پیدا ہو توخاتمیت محمدی میں کچھ فر ق نہیں آ ئے گا ۔عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہو نا بایں معنی ہے ۔ کہ آپ سب میں آ خر نبی ہیں ۔مگر اہل فہم پر رو شن ہے کہ تقدم یا تا خر زمانہ میں بالذ ات کچھ فضلیت نہیں ۔
مولوی احمد رضا خان صاحب کی دیانت کا ادنی نمونہ
مذکورہ بالا حوالہ سے پہلے ہم طائفہ بر یلویہ کے امام کی جس علمی دیانت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔وہ مندرجہ ذیل ہے ۔
او لاً : مولوی صاحب نے حضرت نانو تویؒ کی اُردو عبارت کو جو معنی پہنا ئے ہیں اس سے ہر اہل علم مولوی احمد رضا خان صاحب کی علمی دیانت کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔

ثا نیاً : یہ عبارت مولانا نا نو توی ؒ کی تخدیر الناس میں مسلسل نہیں ہے بلکہ تین مختلف مقامات پر ہے (١)جہاں سے آ دھا آ دھا فقرہ لے کر ایک مسلسل عبارت بنا دی گئی ہے ۔ آپ جانتے ہیں اگر آ دھا فقرہ دوسرے صفحہ ایک فقرہ دس صفحے اور اگلا فقرہ بیس صفحے سے لے کرمسلسل عبارت بنا دی جائے تو اس کا اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ کیا تعلق ہو گا ۔پس یہی حشر مولوی احمد رضاخان صاحب نے مولانا نا نو توی کے حوالے کے ساتھ کیا ہے اب ملا حظہ فر مائیں کہ اس عبارت کے فقر ات اصل کتاب کے کن کن صفحات پر ہیں ۔اور کس بد دیانتی سے ایک جگہ اکٹھا کر کے حضرت نا نو توی اور علماء دیو بند کو بد نام کیا گیا ہے ۔کہ نعو ذ باللہ حضرت نا نو توی اور علماء دیو بند ختم نبوت کے منکر ہیں ۔
ثا لثاً : در میان میں فقرہ ختم ہونے کی نشانی یعنی ڈیش  بھی نہیں لگائی ۔
(i) بلکہ اگر با لفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو ،جب بھی آپ کا خا تم ہونا بد ستور باقی رہتا ہے ۔( یہ صفحہ ۱۸ پر ہے ۔)
(ii) بلکہ اگر با لفر ض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خا تمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ ( صفحہ ۳۴)
(iii) عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا یا یں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد
(١)کہتے ہیں بریلوی مکتبِ فکر کے " اعلیٰ حضرت" خاتم المجددین تھے۔(پاسبانِ مجدد نمبر سنہ٥٩ءبحوالہ دیوبند سے بریلی تک ص١٥٦)   اعلیٰ حضرت کی اِس    "دیانت" سے اُن کی شانِ مجددی کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ اُنہوں نے بشمول دین کے، ہر چیز کی تجدید کر کے  یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی وہ "مجدد" ہیں۔(مدیر)
اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ۔مگراہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تا خر کے زمانے میں بالذات کچھ
فضیلت نہیں ( صفحہ نمبر ۳۸)
خا تمیت ایک جنس ہے جس کی دو قسمیں ہیں ایک زمانی اور دوسری رتبی خاتمیت زما نیہ کے معنی یہ ہیں کہ حضو ر ﷺسب سے اخیر زمانے تمام انبیاء کے بعد مبعو ث ہوئے ۔اور اب آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعو ث نہیں ہو گا اور خاتمیت رتبیہ کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کے تمام کمالات اور مراتب حضور کی ذات بابر کات پر ختم ہیں ۔اور حضورﷺ پر نور دونوں اعتبار سے خاتم النبین ہیں ۔زمانہ کے لحاظ سے بھی آپ خاتم ہیں ۔اور مراتب نبوت اور کمالات رسالت کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں ۔حضور کی خاتمیت فقط زمانی نہیں بلکہ زمانی اوررتبی دونوں قسم کی خاتمیت حضور کو حاصل ہے ۔اس لئے کمال مدح جب ہی ہوگی کہ جب دونوں قسم کی خاتمیت ثابت ہو ۔
مولانا محمد قاسم فر ماتے ہیں کہ حضور کی خاتمیت زمانیہ قر آن اور حدیث متواتر اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔چنانچہ اسی کتاب تخدیر الناس کے صفحہ پر تحریر فر ماتے ہیں ۔
’’ سو اگر اطلاق او رعموم ہے تب تو خاتمیت ظاہر ہے ورنہ تسلیم لز وم خاتمیت زمانی بد لالت التزامی ضرور ثابت ہے ۔ادھر تصر یحات نبوی مثل انت منی بمنز لۃ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی او کماقال
جو بظاہر بطر ز مذکور اسی لفظ خاتم النبین سے ماخوذ ہے اس باب میں کافی ہے ۔کیونکہ یہ مضمون درجہ تو اتر کو پہنچ چکا ہے ۔پھراس پر اجماع بھی منعقد ہو گیا ہے ۔گو الفاظ مذکور بسند متواتر منقول نہ ہو ں سویہ عدم تو اتر الفاظ با و جود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہو گا ۔جیسا کہ تواتر عدد رکعات فر ائض وتر وغیرہ ۔با وجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متوا تر نہیں ۔جیسا کہ اس کا منکر کافر ہے ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہے ۔
مولانا محمد قاسم نا نوتوی کی اس عبارت میں ا س امر کی صاف تصر یح موجود ہے ۔کہ خاتمیت زمانیہ کا منکر ایساہی کافر ہے جیسا کہ تعداد رکعات کا منکر کافر ہے ۔مولانا نانو توی اس خاتمیت زمانیہ کے علاوہ حضور کے لئے ایک اور معنی کو خاتمیت فر ماتے ہیں جس سے حضور کا تمام او لین و آخرین سے افضل و اعلم ہو نا ثابت ہو جائے ۔وہ یہ کہ حضور پر نور کمالات نبوت کے منتہی اور خاتم ہیں ۔اور علوم اولین و آ خرین کے منبع اور معدن ہیں ۔جس طرح تمام رو شنیوں کا سلسلہ آفتاب پر ختم ہوتا ہے ۔اسی طرح تمام علوم اور کمالات کا سلسلہ حضور پر ختم ہو تا ہے ۔
معاذاللہ مو لانا مر حوم خاتمیت زمانیہ کے منکر نہیں بلکہ زمانیہ کے منکر کو کافر سمجھتے ہیں لیکن اس خاتمیت زمانیہ کی فضیلت کے علاوہ خاتمیت رتبیہ کی فضیلت بھی حضور ﷺکے لئے ثابت کر نا چاہتے ہیں ۔تاکہ آپﷺ کی تمام اولین او آخرین پر فضیلت و سیادت ثابت ہو اور خاتمیت زمانی کے اعتبار سے بفر ض محال اگر حضور کے بعد بھی نبی مبعو ث ہوتو حضور کی خاتمیت رتبیہ میں کوئی فر ق نہیں آئے گا۔ آفتا ب اگر تمام ستاروں سے پہلے طلوع کر ے یا درمیان میں طلوع کرے آفتاب کے منبع نور ہونے میں کچھ فرق نہیں آتا اسی طرح با لفر ض اگر حضور پر نور تمام انبیاء سے پہلے مبعو ث ہوں یادر میان میں مبعو ث ہوتے تو آپ کے منبع کمالات ہونے میں کچھ فرق نہ آتا اور یہ فر ض بھی احتمال عقلی کے درجہ میں ہے ۔ورنہ جس طرح خاتمیت زمانیہ میں حضور کے بعد نبی کا آنا محال ہے ۔اسی طرح خاتمیت رتبیہ بھی آپ کے بعد نبی کا آنا محال ہے اس لئے اگر انبیاء متا خرین کا دین دین محمدی کے مخالفت ہو اتو اعلیٰ کا ادنیٰ سے منسو خ ہونا لازم آ ئے گا ۔جو حق تعالیٰ کے اس قول ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا کے خلاف ہے نیز جب علم ممکن للبشر آپ ﷺپر ختم ہو چکا تو آپﷺ کے بعد کسی نبی کا مبعو ث ہونا بالکل عبث اور بے کار ہوگا ۔حاصل یہ نکلا کہ خاتمیت رتبیہ کے لئے خاتمیت زمانیہ بھی لازم ہے ۔
لفظ با لفر ض کی تحقیق
مولانا مرحوم کے نزدیک اگرحضور کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونا شر عا جائز ہوتا تو لفظ بالفر ض استعمال نہ فر ماتے ۔مولانا مرحوم کا یہ فر مانا کہ بالفرض اگرآپ کے بعد کوئی نبی یہ لفظ بالفرض خود اس کے محال ہونے پر دلالت کرتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بات محال ہے کسی طرح ممکن نہیں لیکن اگر بفرض محال تھوڑی دیرکے لئے اس محال کو بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی حضور ﷺکی خاتمیت رتبیہ اور آپ ﷺکی افضلیت و سیادت میں کوئی فر ق نہیں آتا ۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے حضور ﷺکا یہ فر مانا لو کان من بعدی نبی لکان عمر اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا عمر ہوتا تو ظاہر ہے کہ حضور کا مقصو د یہ نہیں کہ آ پ ﷺکے بعد نبی کا آنا ممکن ہے بلکہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی ہو تا تو عمر ہوتا ۔اس ارشاد سے حضور ﷺکی خاتمیت اور عمرؓ کی فضیلت ثابت کر نا مقصود ہے ۔اس کو اس طرح سمجھو کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر ایک چاند نہیں بالفرض ہزاروں چاند ہوں تب بھی ان کا نورآفتاب ہی سے مستفاد ہو گا تو اس کا یہ مطلب کرتا ہے کہ آفتاب تمام انوار اور شعاعوں کا ایسا حاکم ہے اور منتہاہے کہ اگر بالفرض ہزاروں چاند بھی ہوں تو ان کا نور بھی اسی آفتاب سے مستفاد ہو گا ۔
اسطرح بالفرض ہزار چاند کہنے سے آفتاب کی فضیلت دو بالا ہو جائے گی ۔کہ آفتاب فقط اس موجودہ قمر سے افضل نہیں بلکہ اگر جس قمر کے اور بھی ہز اروں افراد فرض کر لئے جائیں تب بھی آفتاب ان سب سے افضل اور بہترہو گا ۔
با لفر ض و اگر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نانوتویؒ کے نزدیک نبی کا پیدا ہو نا ناممکن اور محال کے قبیل سے ہے ۔کیونکہ قر آ ن پاک میں کئی محال چیزوں کو فر ض کیا گیا ہے ۔
(1) اگر رحمن کا بیٹا ہوتا تو میں پہلا عا بد ہوتا (القر آن )
(2) اگر زمین و آسمان میں کئی الہ ہوتے تو فسا د ہوجاتا (القرآن)
(3) اگر اللہ مجھے اور میرے سا تھیوں کو ہلاک کردے (القرآن)
تو ایسی بے شمار مثا لیں آپکو قر آن پاک میں مل جائیں گی ۔جو قضیہ شر طیہ کی قبیل میں سے ہیں اور یہ مسئلہ بھی قضیہ شر طیہ میں سے ہے اور قضیہ شر طیہ کے متعلق مولوی ابو الحسنات قادری لکھتے ہیں
(1) یہ قضیہ شر طیہ ہے اور قضیہ شر طیہ کے صد ق کیلئے یہ لازم نہیں کہ اس کے طر فین صا دق ہوں مثلاً اگر کوئی ضعیف بو ڑھا آدمی کہے کہ میں جوان ہو جا ؤں تو فلاں کام کروں گا ۔ظا ہر ہے کہ ا س کا جوان ہونا او ر اس کام کا وجو د میں آنا ناممکن ہے ۔ (تفسیر الحسنات۔ ج1 ۔ص 283)
(2) اور یہی بات مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں
نہ خدا کا بیٹا ہونا ممکن ہے اور نہ ہی حضور ﷺ کا ان بے دینو ں کی طرف مائل ہونا۔ قضیہ شر طیہ محض تعلق بتا تا ہے اسے مقد موں کے امکان سے کوئی تعلق نہیں ۔ (تفسیر نعیمی ۔ج 1۔ ص 603)
(3) دو سری جگہ لکھتے ہیں با لکل نا ممکن چیز کو ناممکن پر معلق کر دیا جاتا ہے۔ (تفسیر نعیمی۔ ج ا۔ ص 670)
معلوم ہو گیا کہ نہ تو رحمت کائنات ﷺ کے بعد نبی آنا ممکن ہے اور نہ ہی فرق پڑ نا ممکن ۔بلکہ یہ تو محض قضیہ شر طیہ ہے کہ دو نوں جز و ں کے وقو ع اور امکان کو ثابت نہیں کر رہا جیسا کہ مفتی احمد یار نعیمی نے لکھا ہے یہ قاعدہ ہی سرے سے غلط ہے کہ یہ جملہ شر طیہ جس کا مقصد ہوتا ہے سببیت کا بیان کرنا یعنی شرط سبب ہے جز ا کی اسکا ذکر نہیں ہوتا کہ یہ دونوں و اقع یا ممکن ہیں ۔ (تفسیر نعیمی ۔ج ا۔ ص 670)
اب ا س سے یہ گمان کرنا کہ مولانا نانوتوی ؒ نے نبی کے آنے کو جائز قر ار دیا با طل ٹھہر ا۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کی تمام افراد نبوت پر فضیلت او ر بر تری بتلانا مقصود ہے خواہ افراد ذہنی ہوں یا خارجی محقق ہوں یا مقدر ممکن ہوں یا محال اور یہ کہ حضور پر نور پر سلسلہ نبوت علی الا طلاق ختم ہے زمانی بھی اور رتبی بھی ۔
مولانا نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ سرور عالم ﷺ کے بعد نبی کا آنا شرعا جائز ہے ۔بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو شخص اس امر کو جائز سمجھے کہ حضور کے بعد نبی کا آنا شر عاً ممکن الو قوع ہے وہ قطعا دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
چنا نچہ حضرت نا تو توی ’’ منا ظرہ عجیبہ کے صفحہ ۳۹ پر لکھتے ہیں " خاتمیت زمانیہ اپنا دین وایمان ہے ۔ناحق کی تہمت کا البتہ کوئی علاج نہیں ۔"
پھر اسی کتاب کے صفحۃ ۱۰۲ پر لکھتے ہیں
" امتناع بالغیر میں کسے کلا م ہے اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اللہ ﷺ کے کسی اور نبی کے ہونے کااحتمال نہیں جو اس کا قائل ہو ۔اسے کافر سمجھتا ہوں ۔"
مزیداعتر اض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اعتر اض ا س بات پر ہے کہ فر ق نہیں آئیگا ۔
الجو اب :
(1) بات پیچھے گذری کہ قضیہ شر طیہ سے وقوع یا امکان سمجھنا غلط ہے لہذا جب اسکا وقو ع اور امکان ہی نہیں تو اعترا ض کیسا ۔
(2) سورج چمک رہا ہو اور اگر بالفر ض تار ا نکل آئے تو سورج کی چمک دمک میں فر ق آئیگا ؟بالکل نہیں ایسے ہی فرق یہاں بھی نہیں آئے گا ۔
الز امی جواب:
(1)بر یلوی اکا بر ین کے دو مختلف کونسلیں تحذیر النا س کے متعلق فیصلہ دے چکے ہیں ۔
پہلی کونسل:
(5)    خواجہ قمر الدین سیا لوی صاحب (ii) مولانا محبوب الرسول للہ شریف جہلم (iii) قار ی الحاج محمد حنیف صاحب سجادہ نشین کوٹ مومن (iv) مولانا حکیم صدیق صاحب سند یا فتہ لکھنو (v)مولانا محمد تا ج ا لملو ک صا حب فا ضل خطیب جامع شا ہ پورہ گجرات (vi) حضرت مولانا محمد فضل حق خطیب میلو والی ضلع سر گو دھا (vii)مولوی مولانا غریب اللہ صاحب صد ر مدرس مدرسہ عزیزیہ شاہی مسجد بھیرہ (viii) مولانا الحاج مفتی محمد سعید صا حب نمک میانی (ix) حضرت پیر سید حامد شاہ خطیب جامع مسجد متصل ہسپتا ل(x) حضرت پیر سید محمد صا حب خطیب جامع مسجد پویس لائن سر گو دھا۔
دو سری کونسل علماء بر یلویہ:
پیر کرم شاہ بھیروی کی زیر نگرانی میں ان کے مدرسہ کے اسا تذہ یعنی دارالعلوم محمد یہ غو ثیہ کے اسا تذہ نے مل کر تحقیق کی ۔
اور با لآ خر اس کونسل نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا جو پیر کرم شاہ نے اپنے لفظوں سے لکھا ’’ جو تحذیر النا س میری نظر میں‘‘کے آخر میں درج ہے ۔
یہ کہنا درست نہیں سمجھتا کہ مولانا نوتوی عقیدہ ختم نبوت کے منکر تھے کیونکہ یہ اقتباسات بطور عبارۃ النص اور اشا رۃ النص اس امر پر بلا شبہ دلالت کرتے ہیں کہ مو لانا نانو توی ختم نبوت زمانی کو ضر وریات دین سے یقین کرتے تھے ۔اور اس کے دلائل کو قطعی اور متو اتر سمجھتے تھے ۔انہوں نے ا س بات کو صر ا حۃً ذکر کیا ہے کہ جو حضو ر ﷺ کی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے و ہ کافر ہے او ردائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ ( تحذیر النا س میری نظر میں ۔ص 58) (جمال کرم۔ ج ا۔ص694)
اور پہلے اکا برین کی فہرست میں سے ہم صرف خواجہ قمر الدین سیالوی کا ارشاد عر ض کرتے ہیں
میں نے تحذیر النا س کو دیکھا میں مولانا قاسم صا حب کو اعلیٰ در جے کا مسلمان سمجھتا ہوں مجھے فخر ہے میری حدیث کی سند میں انکا نام موجو دہے ۔خاتم النبین کا معنیٰ بیا ن کرتے ہوئے جہاں تک مولانا کا دماغ پہنچاہے ۔وہاں تک معتر ضین کی سمجھ نہیں گئی ۔قضیہ فر ضیہ کو واقعہ حقیقیہ سمجھ لیا گیا ہے ۔(ڈھول کی آواز ۔ص116۔117)
(2) مولوی سعید احمد کاظمی لکھتے ہیں
ہمیں نا نو تو ی صا حب سے یہ شکوہ نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کیلئے تا خر زمانی تسلیم نہیں کیا یا یہ کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد مدعیان نبوت کی تکذیب و تکفیر نہیں کی ۔انہوں نے یہ سب کچھ کیا (مقالات کا ظمی ۔ج 2۔ ص360)
(3) مفتی جلال الدین امجدی صا حب لکھتے ہیں
بے شک سر کار اقد س ﷺ کے بعد کسی نبی کا پید اہونا شرعامحال اور عقلاً ممکن با لذات ہے ۔ (فتا وٰی فیض الرسول۔ ج 1۔ص 9)
(4)مفتی خلیل احمد خان قا دری بر کاتی لکھتے ہیں
مولوی محمد قاسم مر حوم کی تصانیف کے مطالعہ سے ثابت ہوتاہے کہ و ہ خا تمیت زمانی یعنی نبی پاک ﷺ کے آخری ہونے کے منکر نہیں بلکہ مثبت ہیں ۔اس لیے کفری قول کو ان کی طرف نسبت کرنا ہر گز صیحح نہیں (انکشاف حق۔ ص 114)
(5) مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں
اگر قادیانی نبی ہوتا تو وہ دنیا میں کسی کا شاگرد نہ ہوتا ۔ (نور العر فان۔ ص 166)
دو سری جگہ لکھتے ہیں
اگر مر زا قادیانی نبی ہو تا تو پٹھا نوں کے خوف سے حج جیسے فر یضہ سے محروم نہ رہتا ۔ (نور العر فا ن۔ ص 806)
ایک جگہ لکھتے ہیں
اگر قادیانی نبی ہوتا تو حضرت ابر اہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہوتا ۔ (نور ا لعر فان۔ ص166)

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India