Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label رد غیر مقلدیت. Show all posts
Showing posts with label رد غیر مقلدیت. Show all posts

عورتوں کی امامت کا مسئلہ اور غیر مقلد علماء کا جھوٹ، خیانت اور دھوکہ

حافظ محمود احمد(عرف عبد الباری محمود)

قارئین کرام! علمائے اہلحدیث (غیر مقلدین علماء) کو احناف اور فقہ حنفی سے اس قدر چڑٓ ہے کہ وہ جہل، جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا سہارا لیکر آۓ دن فقہ حنفی اور احناف کو بدنام کرتے رہتے ہیں جس کا ایک نمونہ یہاں پیش کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بہت بڑے عالم جنکا نام ابوالاقبال سلفی ہے، اپنی کتاب "اصلی اسلام کیا ہے؟ اور جعلی اسلام کیا؟" میں جگہ جگہ جھوٹ، خیانت اور بد دیانتی کا مظاہرہ کیا ہے، (تفصیل جاننے کیلئے دیکھئے: مولانا مرتضیٰ حسن صاحب سدھارتھ نگری کی کتاب "ضدی ابلیس" اور "پردہ اُٹھ رہا ہے") 
اس کتاب کے صفحہ۴۷۹/پر عورتوں کی امامت سے متعلق دو روایتیں نقل کرتے ہیں:
 عَنْ اُمِّ وَرَقَۃَ اَمَرَھَا اَنْ تَؤُمَّ اَھْلَ دَارِھَا. (ابوداؤد باب امامت النساء)
رسول اللہ ﷺ نے (حضرت، ناقل) ام ورقہ(رضی اللہ عنہا، ناقل) کو اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا۔ 
عَنْ عَائِشَۃَ اَنَّھَا تَؤُمُّ النِّسَاءَ وَتَقُوْمُ وَسْطَھُنَّ. (مستدرک حاکم باب امامت المرأۃ)
حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا صف کے بیچ میں کھڑی ہوکر عورتوں کی امامت کراتی تھیں۔"
 پھر لکھتے ہیں:
     "دونوں حدیثیں بالکل صاف اور واضح ہیں۔ ایک میں رسول کا حکم ہے ... دوسری میں زوجۂ رسولؐ کا اس پر عمل ہے۔ لیکن حنفی مذہب اللہ کے رسول کے اس حکم کو نہیں مانتا۔ نہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ﷝ کے اس حکم (یہاں سلفی صاحب نے اپنی جہالت سے حضرت عائشہ صدیقہؓ کے "عمل" کو "حکم" بنا دیا ہے، ناقل) پرعمل کرنے کو پسند کرتا ہے۔ بلکہ اپنی طرف سے گڑھ کر فتوی دیتا ہے۔ اور اس حکم رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے۔"
یہی سلفی صاحب اپنی ایک دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
     "ناظرین یہ ہیں صحیح احادیث جن سے صاف طور پر ثابت ہے کہ عورتیں عورتوں کی امامت کرسکتی ہیں۔ لیکن حقانی اور حنفیہ ان تمام صحیح حدیثوں کو نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت نہیں کراسکتی۔ یہ امت حنفیہ ہے اس لئے اسلام کے رسول کا حکم یہ کیوں کر مان سکتی ہے۔ " (مذہبِ حنفی کا دینِ اسلام سے اختلاف، صفحہ ۴۵) 
 اس فرقہ کے ایک اور بڑے عالم حکیم صادق سیالکوٹی  اپنی کتاب "سبیل الرسول" میں لکھتے ہیں:
     "حنفی بھائیو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف عورتوں کو بھی جماعت سے نماز پڑھنے کی اجازت دیں۔ عورت کی امامت عورت کے لئے روا رکھی، لیکن فقہ میں یہ کام منع قرار پائے کہ حدیث کی برابری کتنی بری چیز ہے" (صفحہ ۱۵۷)
اسی فرقہ کے ایک اور مشہور غیر مقلد عالم فاروق الرحمٰن صاحب یزدانی حضرت عائشہؓ کی مستدرک حاکم اور ابوداؤد کے حوالہ سے روایت مع ترجمہ نقل کرکے لکھتے ہیں:
     "اس روایت سے کس قدر واضح ہے کہ عورت عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔ ابوداؤد شریف کی روایت میں ام ورقہ رضی اللہ تعالی عنہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے خود جماعت کرانے کا حکم دیا ہے اور مستدرک حاکم کی روایت میں فرض نماز کا بھی ذکر ہےکہ وہ امامت فرض نماز کی ہوتی تھی۔ مگر کیا کیا جائے اس رائے و قیاس کے مرض کا کہ حدیث پیغمر صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اس نے اپنا شعار بنالیا ہے چناچہ فقہ حنفی میں لکھاہے: 
ویکرہ للنساء ان یصلین وحدھن الجماعۃ [ہدایہ ج۱،ص۱۲۵، کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، شرح وقایہ ۱۷۶/۱، قدوری ص۴۴] 
یعنی مکروہ سمجھا گیا ہے کہ عورتیں علیحدہ جماعت سے نماز پڑھیں۔ یعنی مردوں کی جماعت کے علاوہ جماعت کرائیں۔"
 مزید لکھتے ہیں:
     "قارئین اوپر آپ نے حدیث پڑھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ورقہؓ کو جماعت کرانے کا حکم دیا ہے مگر یہ فقہ حنفی ہے کہ اسے مکروہ سمجھ رہی ہے۔ تو گویا جس کام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کرنے کا مشورہ ہی نہیں بلکہ کرنے کا حکم دیں لیکن فقاہت کا تقاضہ ہے کہ اس کو نا پسند کیا جائے۔ یہ حال ہے امت کے دعویداروں کا۔" (احناف کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف، صفحہ ۳۱۸ و ۳۱۹)
 ***الجواب***
قارئین کرام! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دے رکھی تھی کہ اگر عورتیں اپنی جماعت کریں تو ان کی نماز باطل نہیں ہوگی بلکہ جائز  ہوگی لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی نے اس کو ایسا بیان کیا ہے کہ گویا صحابہ کرام﷢ اور اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس پر برابر عمل ہوتا رہا ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام﷢ کے زمانہ میں استمرار کے ساتھ  اس پر عمل نہیں تھا (جیسا کہ آگے چل کر معلوم ہوگا)
 لیکن ابوالاقبال سلفی، حکیم صادق سیالکوٹی اور فاروق الرحمٰن یزدانی کو چونکہ فقہ حنفی کو بدنام کرنا تھا اس لئے ایسا بیان کیا۔
     قارئین کرام! ابوالاقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے ہدایہ کو حدیث کے خلاف بتانے کے لئے ایک عبارت تو نقل کردی لیکن وہ عبارت اڑا دی جس سے کہ حدیث کے خلاف نہیں بلکہ اس کے موافق ہو رہی تھی. دیکھئے ہدایہ میں صاف لکھا ہے:
     وان فعلن قامۃ الامام وسطهن
یعنی عورتیں اگر خود جماعت کریں تو جو عورت امام ہو ان کے بیچ میں کھڑی ہو. (دلیلیں آگے آرہی ہیں) 
     قارئین! ہدایہ کی یہ عبارت کتنی صاف ہے کہ اگر عورتیں ایسا کریں تو ان کی  نماز درست ہوگی اور انکی جماعت کا طریقہ بھی بتلادیا مگر اقبال سلفی اور صادق سیالکوٹی نے از راہ خیانت اس عبارت کو گول کر دیا اور جھوٹ بولتے ہوئے یہ بتلایا کہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت منع ہے.  (لعنت اللہ علی الکٰذبین)
     قارئین! رہا مسئلہ فقہ حنفی میں عورتوں کی جماعت کے مکروہ ہونے کا،، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حدیث میں خود اس کو نا پسند کیا گیا ہے۔ دیکھئے عورتوں کی جماعت سے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: 
"لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل
یعنی عورتوں کی جماعت میں کوئ بھلائی نہیں ہے الا یہ کہ مسجد  میں یا مقتول کے جنازہ میں" 
(رواہ احمد والطبرانی فی الاوسط بحوالہ اعلاء السنن جلد۴ صفحہ ۲۴۲)
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی جماعت میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی فرمائی ہے جو اس کے کراہیت کی کافی دلیل ہے۔
اور خلیفۂ راشد حضرت علی﷛ فرماتے ہیں: 
"لا تؤم المرأۃ  ۔یعنی عورت امامت نہ کرے " (المدونۃ الکبریٰ جلد ۱ صفحہ ۸۶)
*مرد و عورت کی امامت کی جائے قیام میں فرق کی دلیل*
مرد امامت میں آگے کھڑا ہوگا اس لئے کہ حضرت سمرہ بن جندبؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ جب ہم تین (آدمی) ہوں (اور با جماعت نماز پڑھنے لگیں) تو ہم میں ایک آگے ہو جایا کرے۔ (ترمذی شریف جلد ۱، باب ماجاء فی الرجل یصلی مع الرجلین) 
اور حضرت جابرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس سلسلہ کا اپنا واقعہ یوں بیان کیا ہے ایک موقع پر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور گھما کر مجھے اپنی داہنی طرف کھڑا کر لیا، اتنے میں (حضرت) جبار  بن صخرؓ بھی وضو کرکے آگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم دونوں کے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کر دیا (اب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے آگے)۔ دیکھیے: صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقاق) 
جبکہ عورت امام کی جائے قیام کے بارے میں درج ذیل روایتیں آئی ہیں۔
(۱) حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ: "تؤم المرأۃ النساء تقوم فی وسطھن 
یعنی عورت (اگر) عورتوں کی امام بنے تو ان کے درمیان کھڑی ہو" (مصنف عبدالرزاق جلد ۳ صفحہ ۱۴۰)
(۲) حضرت ریطہ حنفیہؓ روایت کرتی ہیں: 
(ایک دفعہ) حضرت عائشہؓ نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائیں تو ان کے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (مصنف عبدالرزاق، جلد ۳ صفحہ۱۴۱)
(۳) یحیٰ بن سعید خبر دیتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ نفل نماز میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں تو ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں۔(حوالہ سابق)
(۴) حضرت عائشہؓ ماہ رمضان میں عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو بیچ میں کھڑی ہوتی تھیں۔ 
(کتاب الآثار ، باب المرأۃ النساء...)
(۵) نصب الرایہ کتاب الصلاۃ میں ہے کہ:
عن ام الحسن انھا رأت ام سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم تؤم النساء فتقوم معھن فی صفھن
یعنی حضرت ام حسن سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت ام سلمہؓ کو دیکھا کہ وہ عورتوں کی امامت کرتی تھیں تو ان کے ساتھ ان کے صف میں کھڑی ہوتی تھیں.

فائدہ: ان احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ مرد امامت میں صف میں آگے کھڑا ہوگا، جبکہ عورت امامت میں صف کے آگے نہیں، بلکہ درمیانِ صف کھڑی ہوگی۔ اور یہ بھی صاف معلوم ہوا کہ عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے  لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے جیساکہ اوپر میں گزرچکا ہے کہ  آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں خیریت (یعنی بھلائی) کی نفی کی ہے جو "لا خیر فی جماعۃ النساء الا فی المسجد او فی جنازۃ قتیل" سے واضح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زمانہ خیر القرون میں اس کا رواج نہ تھا۔ حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ نے جو امامت کرائ ہیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا۔ چنانچہ ابوداؤد کی شرح بذل المجہود میں ہے:
الا ﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋﺘﮭﻦ ﻣﮑﺮﻭھۃ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻭ ﻋﻨﺪ ﺍﻟﺸﺎﻓﻌﯽ مستحبۃ ﮐﺠﻤﺎعۃ ﺍﻟﺮﺟﺎﻝ ﻭ ﯾﺮﻭﯼ ﻓﯽ ﺫﻟﮏ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻟﮑﻦ ﺗﻠﮏ ﮐﺎﻧﺖ ﻓﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ ﺛﻢ ﻧﺴﺨﺖ ...
"یعنی ہمارے نزدیک عورتوں کی جماعت مکروہ ہے امام شافعیؒ کے نزدیک مستحب ہے جیسے مرد کی جماعت اور یہ کہ جو روایت کی گئی ہے عورتیں امامت کرواتی تھیں تو یہ ابتداء اسلام میں تھا بعد میں منسوخ ہوگیا" (جلد ۴ صفحہ ۲۰۹)
اسی طرح مولانا عبدالحئ لکھنویؒ فرماتے ہیں:
ﻓﺎین ﺫﺍﻟﻚ ﻣﻦ ﺍﺑﺘﺪﺍﺀ ﺍﻻﺳﻼﻡ
ﻟﻜﻦ یمکن ﺍﻥ یقال ﺍﻧﻪ ﻣﻨﺴﻮﺥ
"یعنی تو ایسا ہے کہ یہ ابتداء اسلام سے، لیکن ممکن ہے کہ اسے منسوخ کہا جائے" دیکھئے: (حاشیۂ ہدایہ) 
لہذا خلاصہ کلام یہ کہ:
عورتوں کی اپنی جماعت فی نفسہ جائز ہے  لہذا اگر وہ اپنی جماعت کرنا چاہیں تو منع نہیں ہے، لیکن شریعت کی نظر میں یہ بہتر و پسندیدہ بھی نہیں ہے۔ 
اللہ پاک ہم کو صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
٭٭٭

نام نہاد اہل حدیث کے پچاس سوالات کے جوابات

عبد الرشید قاسمی سدھارتھ نگری ﷾

(1) تقلید کسے کہتے ہیں؟
جواب: غیر منصوص مسائل میں مجتہد کے قول کو تسلیم کرلینے یا بالفاظ دیگر دلیل کی تحقیق اور مطالبہ کے بغیر محض اس حسن ظن پر کسی کا قول مان لینے کو تقلید کہتے ہیں کہ وہ دلیل کے موافق ہی بتائے گا۔
(2)تقلید ضروری کیوں ہے؟
جواب: اس لئے کہ ہرفرد شریعت کا مکلف ہے،اور اس کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے، اور ہرکس وناکس براہ راست قرآن وحدیث سے مسائل کا استنباط واستخراج نہیں کرسکتا، اس لئے غیر مجتہد کے لئے تقلید ضروری ہے۔
(3)تقلید کس کی ضروری ہے؟
جواب: مجتہد، اہل الذکر، اولواالامر اور منیب الی اللہ کی۔
(4)کیوں میں حنفی ہوں؟
(5)کیوں میں مالکی ہوں؟
(6)کیوں میں شافعی ہوں؟
(7)کیوں میں حنبلی ہوں؟
جواب: آپ کچھ بھی نہیں ہیں، آپ کی تو دنیا ہی الگ ہے، ہاں جولوگ ائمہ اربعہ امام ابوحنیفہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کو مجتہد ومنیب الی اللہ سمجھ کر ان کے اجتہادی فیصلوں پر عمل کرتے ہیں، اور غیر منصوص مسائل میں ان کی اتباع اور تقلید کرتے ہیں، وہ اسی اتباع اور تقلید کی وجہ سے حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کہلاتے ہیں۔
(8)کیا تقلید کرنا فرض ہے؟
جواب: تقلید فرض نہیں بلکہ واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر شریعت کی پاسداری ہے۔
(9)تقلید کب تک کرنا ضروری ہے؟
جواب: جب تک مکلف کے اندر اجتہادی اور استنباطی واستخراجی صلاحیت نہ ہوجائے۔
(10)جب عیسی علیہ السلام دنیا میں پھر سے نازل ہونگے تو ان چار اماموں میں سے کس کی تقلید کریں گے؟
جواب: کسی کی بھی نہیں، بلکہ وہ خود مجتہد ہوں گے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب اور تقلید حرام ہے۔
(11)عیسی علیہ السلام جس امام کی تقلید کریں گے وہ حق پر ہوگا کیوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں؟
جواب: کسی امام کی تقلید کریں گے ہی نہیں، پھر حق وناحق کا مسئلہ کیسا؟
(12)چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنے کا حکم کس نے دیا؟ اللہ نے؟ رسول نے؟ خود ان اماموں نے؟ یا آج کے مولویوں نے؟
جواب: سب نے دیا ہے، اللہ نے بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی، اور خود ائمہ اور علماء نے بھی،
اس لئے کہ سب نے قرآن وسنت پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، اور یہ غیر مجتہد کے لئے اجتہادی مسائل میں کسی مجتہد کے اجتہادی فیصلے کو تسلیم کئے بغیر ہو ہی نہیں سکتا، اور اسی کا نام تقلید ہے۔
(13)اسلام میں صرف چار طرح کا حکم ہے، فرض، واجب، سنت اور نفل، تو پھر ان چار اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید کرنا کیا ہے، فرض، واجب، سنت یا نفل؟
جواب: واجب لغیرہ ہے، اور وہ غیر جس کی وجہ سے تقلید واجب ہوئی احکام شرعیہ کی پاسداری ہے
اگر نفل ہے تو پھر آپ کے لئے فرض کیسے بن گئی؟
جواب: کس نے کہا کہ فرض ہے؟
جب ہم نے نہ نفل کا دعوی کیا نہ فرض کا، تو نفل کا اثبات اور فرض کا استفہامیہ انکار چہ معنی دارد؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ اب تک جو تقلید آپ کے یہاں حرام، شرک، ناجائز اور نہ جانے کیا کیا تھی، وہ اب نفل ہوگئی؟
(14)صحابہ کون تھے؟ حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی؟
جواب: صحابہ کس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے؟ اور حدیث کی کونسی کتاب پڑھتے تھے؟ بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابوداؤد یا ابن ماجہ؟
جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے صحابہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے اور حدیث پڑھتے پڑھاتے تھے، اسی طرح فقہ ائمہ اربعہ کی تدوین سے پہلے احکام شرعیہ پر عمل بھی کرتے تھے۔
(15)کیا صحابہ میں کوئی ایک صحابی اس قابل نہیں تھا کہ ان کو اپنا امام بنادیا جائے؟
جواب: کیا صحابہ میں کوئی اس قابل نہیں تھا کہ اس کی قرآت پر قرآن کریم کی تلاوت کیجائے اور اس کی کتاب پڑھی پڑھائی جائے اور اسی کو اپنا مستدل بنایا جائے؟
(16)صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان میں سے کوئی امام کیوں نہیں بنا؟
جواب: صحابہ کا درجہ بڑا ہے یا بعد والے امتیوں کا؟ پھر ان کی قرآت اور کتاب کیوں نہیں پڑھی پڑھائی جاتی؟
(17)ہم تو چار امام کو مانتے ہیں، لیکن شیعہ تو بارہ امام کو مانتے ہیں، تو پھر ہم ان کو گمراہ کیوں کہتے ہیں؟
جواب: ائمہ کی تعداد گمراہی کا سبب نہیں، اور نہ ہم اس وجہ سے انہیں گمراہ کہتے ہیں، ورنہ تو آپ کو شیعوں سے بھی بڑھ کر گمراہ سمجھتے۔
بلکہ گمراہی کا سبب فساد عقیدہ ہے، ہم ائمہ اربعہ کو اولواالامر، اہل ذکر، مجتہد ومنیب، قانون دان، شارح اور غیر معصوم سمجھتے ہیں، جب کہ شیعہ اپنے بارہ ائمہ کو قانون ساز، شریعت ساز اور معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں، جو یقینا گمراہی ہے۔
(18)کیا ان چار اماموں میں سے کسی ایک امام کا نام قرآن وحدیث میں آیا ہے؟
جواب: جس طرح شریعت پر عمل کرنے اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے کا حکم قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ محدثین اور قراء سبعہ کا نام نہیں آیا۔اسی طرح احکام شرعیہ کی پاسداری کا حکم تو قرآن وحدیث میں آیا ہے، لیکن ائمہ اربعہ کا نام نہیں آیا۔
(19)جو لوگ ان چار اماموں کے پیدا ہونےسے پہلے مرچکے ان کا کیا ہوگا ؟
جواب: ان کی فکر چھوڑیے، پہلے آپ اپنی فکر کیجئے کہ مرنے کے بعد آپ کا کیا ہوگا؟ اس لئے کہ ائمہ اربعہ سے پہلے کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا، لوگوں کے اندر تدین، تقوی، خوف آخرت، خشیت الہی اور اتباع شریعت کا غلبہ تھا، وہ آپ کی طرح خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ نہیں تھے کہ.....
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
کڑوا کڑوا تھو تھو
(20)ان چار اماموں کے والدین کس امام کی تقلید کرتے تھے ؟
جواب: قراء سبعہ اور ائمہ محدثین کے والدین کس کی قرآت پر قرآن اور کس کی حدیث کی کتاب پڑھتے تھے ؟
(21)امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد (رحمہم اللہ) کونسے امام کو مانتے تھے؟
جواب: سارے ائمہ کو مانتے تھے، البتہ کسی امام کی تقلید نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ وہ خود مجتہد ومستنبط تھے، اور مجتہد کے لئے اجتہاد واجب ہے۔
(22)اگر میں ایک امام کو مانتا ہوں تو کیا باقی امام حق پر نہیں؟
جواب: ہم تو سارے ائمہ کی امامت تسلیم کرتے بلکہ برحق مانتے ہیں،ہاں اگر ماننے کا مطلب اس کے فیصلہ کے مطابق شریعت پر عمل کرنا ہو، تو یہ بتادیں کہ اگر آپ ایک نبی کو مانتے ہیں اور ایک قاری کی قرات پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، تو کیا باقی انبیاء اور قراء حق پر نہیں؟
(23)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر میں ایک ہی امام کے پیچھے کیوں ؟
جواب: اس لئے کہ آپ خواہش پرست اور ہوا وہوس کے دلدادہ ہیں، اور شریعت خواہش پرستی سے منع کرتی ہے۔
(24)امام ایک دوسرے کے استاذ شاگرد تھے تو پھر ان کی فقہ الگ الگ کیوں ؟
جواب: جس طرح ائمہ محدثین کی کتابیں ایک دوسرے کا شاگرد ہونے کے باوجود الگ الگ ہیں، اسی طرح ائمہ کی فقہ بھی الگ الگ ہوگئی۔
(25)اگر سب امام حق پر ہیں تو پھر ان کے اندر آپس میں اختلاف کیوں ؟
جواب: جس طرح سارے صحابہ اور سارے قراء کا حق پر ہونے کے باوجود آپس میں اختلاف ہے، اسی طرح ائمہ کا بھی اختلاف ہے، اس لئے کہ کسی بھی امام کا کوئی ایسا قول نہیں جو کسی صحابی سے ثابت نہ ہو۔
(26)ان چار اماموں میں سے باقی تین اماموں کی اپنی لکھی ہوئی کتاب آج بھی موجود ہے، لیکن ابوحنیفہ کی لکھی ہوئی کتاب کا نام کیا ہے؟ یہ کتاب حنفی مسجدوں میں کیوں نہیں پڑھائی جاتی؟
جواب: اگر اطاعت وفرماں برداری یا تقلید واتباع کے لئے مطاع ومتبوع کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب کا ہونا ضروری ہے، تو یہ بتائیے کہ امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک یا صحابہ کرام کے ہاتھ کی لکھی ہوئی کونسی کتاب دنیائے اہل حدیث میں موجود ہے، جسے آپ لوگ اپنی مساجد میں پڑھ پڑھا کر عمل کرتے ہیں؟
(27)اگر امام کو نہ ماننا گناہ ہے، تو ایک امام کو ماننے سے دوسرے تین امام چھوٹ جاتے ہیں، اس کا گناہ میرے سر پر کیوں؟
جواب: جس طرح ایک نبی اور ایک قاری کو ماننے سے باقی انبیاء اور قراء نہیں چھوٹتے، اسی طرح ایک امام کو ماننے سے دوسرے ائمہ بھی نہیں چھوٹتے، اس لئے کہ سب کی تعلیم ہے کہ شریعت پر عمل کرو اور خواہشات کی اتباع نہ کرو، اور یہ ایک امام کی مان کر ہی ہوسکتا ہے، آپ گناہ کی بالکل فکر نہ کریں۔
(28)جب اماموں نے اپنے آپ کو حنفی، شافعی، مالکی یا حنبلی جیسی نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر میں کیوں اپنے آپ کو ایسی نسبتوں سے جوڑتا/جوڑتی ہوں؟
جواب: جب امام الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو محمدی، اہل حدیث، اہل اثر اور سلفی اثری وغیرہ نسبتوں سے نہیں جوڑا، تو پھر آپ کیوں آپ آپ کو ان نسبتوں سے جوڑتے/جوڑتی ہیں؟ اور ان ناموں سے متعارف کراتے /کراتی ہیں؟
(29)کیا ہمارے امام نے ہم سے کہا ہے کہ صرف میری ہی تقلید کرنا، اور میرے علاوہ کسی کی بھی تقلید نہ کرنا؟
جواب: امام نے یہ کہا ہے کہ قرآن وسنت پر عمل کرنا اور خواہشات کی پیروی مت کرنا، اور یہ ایک امام کی ہی تقلید سے ہوسکتا ہے، جیسا کہ علماء امت نے صراحت کی ہے۔
(30)کیا میرا منہج وہی ہے جو ہمارے امام کا تھا ؟
جواب: جی ہاں ہمارا منہج تو وہی ہے جو ہمارے امام کا ہے، البتہ چونکہ آپ کا کوئی امام ہی نہیں اس لئے آپ لامنہج اور لامذہب ضرور ہیں
(31)میں اپنے امام کے بارے میں کتنا جانتا ہوں ؟
جواب: جب آپ کا کوئی امام ہی نہیں، تو آپ کیا جانیں گے، البتہ اتنا ضرور بتادیجئے کہ جس نبی کا آپ کلمہ پڑھے ہیں، اور جن کی امامت اور رسالت ونبوت کا اقرار جزو ایمان ہے، ان کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں ؟
(32)کتنی کتاب اب تک میں نے یا میرے گھر والوں نے اپنے امام کی پڑھی ہے ؟
جواب: جب آپ اور آپ کے گھر والوں کا کوئی امام ہی نہیں، تو اس کی کتاب کیا پڑھیں گے؟ ہاں یہ ضرور بتادیجئے کہ آپ یا آپ کے گھر والوں نے اب تک امام الائمہ بلکہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اب تک کتنی کتابیں پڑھی ہیں ؟
(33)قبر میں فرشتے کیا مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ بتا تیرا امام کون ہے؟ 
جواب: یہ تو نہیں پوچھیں گے، البتہ جو سوال کریں گے ان کا جواب ان ائمہ کی تقلید کے بغیر مشکل ہے۔
(34)قیامت کے دن کیا مجھ سے یہ سوال کیا جائے گا کہ بتا تیرا امام کون تھا؟ اور تو اس کی تقلید کرتا تھا؟
جواب: یہ پوچھا جائے گا کہ بتا تو نے شریعت کے احکامات پر عمل کیا یا نہیں؟ اور شریعت کے غیر منصوص احکام پر غیر مجتہد کے لئے کسی مجتہد کی تقلید کے بغیر عمل کرنا دشوار ہے ۔
(35)قبر میں یا قیامت کے دن باقی تین اماموں کے بارے میں کیا جواب دوں گا ؟
جواب: آپ اگر کسی ایک کی مان کر احکام شرعیہ پر عمل کرلئے تو باقی ائمہ کے بارے میں آپ سے پوچھا ہی نہیں جائے گا، تو جواب کی تیاری کیسی؟
ہاں اگر عامی اور جاہل ہونے کے باوجود کسی کی نہیں سنے، تو آپ کی جہالت آپ کو نہیں بچاسکے گی، اور یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ جب معلوم نہیں تھا تو اپنی خواہش پرستی ونفس پرستی کے مقابلے میں کسی اولواالامر اور اہل ذکر سے پوچھ کر عمل کیوں نہیں کیا ؟
(36)اگر میں نے اپنے امام کا نام بتا بھی دیا، اور اگر مجھ سے یہ سوال ہوگیا کہ صرف اس امام ( مثلا امام شافعی) کی ہی تقلید کو کیوں چنا؟ تو اس کا میں کیا جواب دوں گا ؟؟
جواب: ایسی صورت میں کسی اور کے بارے میں پوچھا ہی نہیں جائے گا، اس لئے کہ کسی ایک امام کی تقلید سے مقصود اصلی (احکام شرعیہ پر عمل) حاصل ہوجاتا ہے۔
(37)کیا میری یا میرے والدین کی یا میرے علماؤوں ٭کی اتنی حیثیت ہے کہ کس امام کو مانا جائے اور کس کو چھوڑا جائے ؟
جواب: حیثیت نہیں، بلکہ بتوفیق الہی صحیح اور غلط، اور حق وباطل کی تمیز اور صحیح راستے کی رہنمائی ہے، جسے توفیق خداوندی اور ارائة الطریق کہا جاتا ہے، اور یہی ارائة الطریق کا فریضہ ہم آپ کے ساتھ بھی انجام دے رہے ہیں،
اللہ ہماری اور آپ کی راہ راست کی رہنمائی فرمائے، اور تاحیات اس پر قائم رکھے۔
(38)کیا یہ لوگ امام سے زیادہ تقوی والے اور علم والے ہیں ؟
جواب: امام سے زیادہ تو نہیں، البتہ آپ، آپ کے علماء اور والدین سے علم وتقوی میں زیادہ ہونے میں کوئی شک نہیں، اس لئے کہ آپ کے علماء (جو درحقیقت جہلاء ہیں) خود دین حق سے جاہل اور غلط راستے پر ہیں، تو پھر ان کے شانہ بشانہ چلنے والے آپ اور آپ کے والدین کے پاس کہاں سے علم اور تقوی آئے گا۔
(39)اور ایک خاص سوال یہ ہے کہ جب یہ امام نہیں تھے تو مسلمان کس کی تقلید کرتے تھے ؟
جواب: جس طرح قراء سبعہ اور ائمہ محدثین سے پہلے قرآن کریم کی تلاوت اور حدیث پڑھی پڑھائی جاتی تھی، اسی طرح غیر منصوص مسائل پر عمل بھی ہوتا تھا۔
٭بھائیو! اگر آپ کے پاس ان سوالات کے جوابات نہیں ہیں، تو معاف کرنا، آپ نہ حنفی ہیں، نہ مالکی اور نہ حنبلی
جواب: سارے سوالات کے جوات بحمد اللہ ہیں، بلکہ دے بھی دیئے، اور یقینا ہم مسلکا حنفی ہیں، والحمد للہ علی ذلک
٭اور شاید آپ کو یہ بھی نہیں پتہ کہ آپ کیا ہیں ؟؟
جواب: ہمیں تو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم دینا مسلم، مسلکا حنفی اور نسبتا دیوبندی ہیں، البتہ آپ کیا ہیں؟ اس کی وضاحت ضرور فرمادیں۔
اور کچھ سوالات:
جواب: جی! فرمائیں، ہم بھی خدمت کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
(40)وہ کونسا امام ہوگا جو اللہ کے آگے ہماری سفارش کے لئے سجدہ میں جائے گا ؟
جواب: خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید اختیار کیا ہے۔
(41)وہ کونسا امام ہوگا جس کی سفارش ہمارے حق میں اللہ قبول کرے گا ؟
جواب: امام الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور دیگر مقبول بارگاہ خداوندی، جنہیں خاص اجازت حاصل ہوگی۔
(42)وہ کونسا امام ہوگا جو حوض کوثر پر کھڑا ہوگا ؟
جواب: خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہونگے، اور اپنے لائے ہوئے دین میں تبدیلی کرنے والوں کو سحقا سحقا لمن بدل دینی کہہ کر حوض سے دور بھگائیں ۔

(43)وہ کونسا امام ہوگا جس کے بارے میں ہم سے قبر میں سوال ہوگا ؟
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کی شریعت پر عمل کرنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کے دامن کو پکڑا ہے۔
(44)وہ کونسا امام ہے جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت اور جس کی نافرمانی اللہ کی نافرمانی ہے؟ 
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور اسی اطاعت کے جذبہ اور نافرمانی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ مجتہدین کی تقلید اختیار کیا ہے۔
(45)وہ کونسا امام ہے جس کا کلمہ ہم نے پڑھا ہے؟
(46)وہ کونسا امام ہے جو اپنی امت کی خاطر رویا ہے؟
(47)وہ کونسا امام ہے جس کے لائے ہوئے دین پر ایمان لانا نجات کے لئے ضروری ہے؟ 
جواب: خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اور انہی کے لائے ہوئے دین اور شریعت پر عمل کرنے اور خواہش پرستی سے بچنے کے لئے ہم نے ائمہ کی تقلید کی ہے۔
(48)سوچئے! کیا ہم اتنے غافل ہیں اسلام سے؟
جواب: اگر ہم اسلام سے غافل ہوتے، تو اس کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے کسی اولواالامر اور اہل ذکر کی تقلید ہی کیوں کرتے؟ آپ کی طرح مادر پدر آزاد گھومتے پھرتے نہیں ؟؟
(49)کیا تقلید کی وجہ سے یہ امت فرقوں میں نہیں تی ؟
جواب: نہیں، اس لئے کہ مقلدین کا باہمی جو اختلاف ہے وہ وہی ہے جس میں صحابہ وتابعین باہم مختلف تھے، اور یہ کوئی معیوب نہیں!
البتہ اس سے شاید کسی بھی عقلمند کو انکار نہ ہو کہ جب تک ہند وپاک میں تقلید پر اتفاق رہا، سارے مسلمان باہم شیر وشکر تھے، کسی کے اندر اسلام کی طرف غلط نگاہ بھی اٹھانے کی ہمت نہیں تھی،لیکن افسوس! کہ جب آپ کے آباؤ واجداد نے ترک تقلید اور مادر پدر آزادی کا نعرہ لگایا، اسی وقت سے آج تک امت ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوسکی، اور وہ مسلمان جو اب تک شیر وشکر تھے، باہم دست وگریباں ہونے لگے،اور آج اس کے نتیجہ میں جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے، دنیا دیکھ رہی ہے،
یہ کوئی لفاظی نہیں بلکہ وہ حقائق ہیں جنہیں آپ کے بڑوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔
(50)اگر اختلاف اس امت کے لئے رحمت ہے تو پھر ہم اور زیادہ اختلاف کریں ؟
جواب: ہند وپاک میں آپ کے جنم لئے ہوئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے، اور ان ایام میں آپ نے جمہور امت ( جو ائمہ اربعہ کی تقلید پر متفق تھی) سے قادیانیت، نیچریت، انکار حدیث، مودودیت اور نہ جانے کتنے فرقے اپنی کوکھ سے جنم دیئے، اب باقی کیا رہ گیا ہے، جو اور کریں گے۔
     خدا را امت کو اب اور فرقوں میں مت تقسیم کیجئے، بہت ہوگیا، اختلاف کا جو مقصد تھا وہ بھی آپ کو حاصل ہوگیا، جاگیریں اور جائیدادیں بھی ملیں، انگریز ملک چھوڑنے کے باوجود اب تک آپ کے احسانوں کو فراموش نہیں کرسکا، 
فی الحال اسلام پر ہرچہار جانب سے حملے ہورہے ہیں، سب کا نشانہ واحد اسلام ہے، سب کی نگاہیں اسلام کی طرف اٹھی ہوئی ہیں، ہر ایک موقع کی تلاش میں گھات لگائے بیٹھا ہے، ایسے وقت میں امت مسلمہ کے اتحاد کی سخت ضرورت ہے،
خدا را! خدا را! امت کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کرو، اور جو ایک ہیں ان میں انتشار نہ پیدا کرو۔
اللہ ہم سب کو صحیح راستے پر چلنے اور باطل وگمراہ راستے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہم اھدنا الصراط المستقیم
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ۔
٭٭٭

عقیدہ وحدت الوجود

جاوید خان صافی ﷾
   
  اہل حدث عرف وکٹورین علماء دیوبند پر بھتان لگاتے ہیں کہ علماء دیوبند وحدتُ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں جوکہ ایک کفریہ شرکیہ عقیدہ ہے ۰ یہ بہتان فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند جہلاء نے پھیلایا ہوا ہے اور اپنی طرف سے عوام کواس مطلب بتلاتے ہیں پھران سے کہتے ہیں یہ علماء دیوبند کا عقیدہ ہے ، اس باب میں ایک مختصر مگرجامع مضمون لکھنا چاہتا ہوں ۔
     1 ۔علماء حق علماء دیوبند پر ایک بہتان چند جہلاء ونام نہاد اہل حدیث کی طرف سے یہ بھی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالی کے لئے حُلول واتحاد کا عقیدہ رکھتے ہیں جس کو ” وحدتُ الوجود “ کہا جاتا ہے اور اس کا مطلب ومفہوم یہ لوگ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ( معاذاللہ ) اللہ تعالی تمام کائنات کے اجزا مثلا حیوانات جمادات نباتات وغیرہ ہر چیز میں حلول کیا ہوا ہے یعنی مخلوق بعینہ خالق بن گیا اور جتنی بھی مشاہدات ومحسوسات ہیں وہ بعینہ اللہ تعالی کی ذات ہے ۔)معاذاللہ ثم معاذاللہ وتعالی اللہ عن ذالک علوا کبیرا (
     ناحق بہتان والزام لگانے والے جہال ومتعصبین کا منہ کوئی بند نہیں کرسکتا اور نہ کوئی مقرب جماعت علماء اس سے محفوظ رہ سکتی ہے اور ہرزمانے میں کمینے اور جاہل لوگوں نے علماء ربانیین کی مخالفت وعداوت کی ہے ،لہذا جولوگ اپنی طرف سے ” وحدتُ الوجود ” کا یہ معنی کرکے اس کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کرتے ہیں یقینا ایسے لوگ اللہ تعالی کے پکڑ سے نہیں بچ سکیں گے علماء دیوبند اور دیگر صوفیہ کرام ” وحدتُ الوجود “ کے اس کفریہ معنی ومفہوم سے بری ہیں ۔ واضح رہے کہ کچھ بدبخت لوگ اس بیان وتصریح کے بعد بھی یہ بہتان لگاتے رہیں گے کیونکہ ان کا مقصد حق بات کو قبول کرنا اور اس پرعمل کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد وحید توابلیس کی پیروی کرتے ہوئے علماء حق علماء دیوبند کی مخالفت وعداوت ہی ہے چاہے علماء دیوبند ہزار باریہ کہیں کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے ہماری نصیحت تو ایسے عام ناواقف لوگوں کے لئے ہے جوایسے جھوٹے اورجاہل لوگوں کی سنی سنائی باتوں کی اندھی تقلید کرکے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں۔ اور اس بارے میں امام شعرانی شافعی رحمہ اللہ کے یہ نصیحت آمیز کلمات ذہن میں رکھیں قسم اٹھاکرفرماتے ہیں کہ:
     جب بتوں کے پجاریوں کو یہ جراءت نہیں ہوئی کہ اپنے معبودان باطلہ کو عین اللہ تعالی کی ذات تصور کریں بلکہ انہوں نے بھی یہ کہا جیسا کہ قرآن میں ہے
    مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ ( سورہ  ٣٩،الزمر: 3 )
     یعنی ہم ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے ہیں تاکہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں تو اولیاء اللہ کے متعلق یہ بہتان لگانا کہ وہ ، حلول واتحاد ، کا عقیدہ رکھتے تھے سراسر بہتان اور جھوٹ ہے اور ان کے حق میں ایک محال وناممکن دعوی ہے جس کو جاہل واحمق ہی قبول کریگا۔
     2 ۔جن صوفیہ کرام اور بزرگان دین کے کلام میں ” وحدتُ الوجود “ کا کلمہ موجود ہے اور ایسے لوگوں کی فضل وعلم تقوی و ورع کی شہادت کے ساتھ ان کی پوری زندگی اتباع شرع میں گذری ہے تو اس حالت میں ان کے اس کلام کی اچھی تاویل کی جائے گی جیسا کہ علماء محققین کا طریقہ ہے اس قسم کے امور میں ۔اور وہ تاویل اس طرح کہ ایسے حضرات کی مراد ” وحدتُ الوجود ” سے وہ نہیں ہے جو ملحد و زندیق لوگوں نے مراد لیا ہے اور حقیقت بھی یہی ہے ۔ اس کلمہ اور اس طرح کے دیگر کلمات جو صوفیہ کرام کی کتب میں وارد ہوئے ہیں جو بظا ہر خلاف شرع معلوم ہوتے ہیں ان کی مثال اس اعرابی کی طرح ہے جس کی دفاع خود آپ ﷺ نے کی ہے صحیح بخاری ومسلم کی روایت ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جنگل بیابان میں اپنی سواری پر سفر کر رہا تھا اس پر اس کا کھانا پینا بھی تھا لہذا وہ تھکاوٹ کی وجہ سے آرام کے کے لئے ایک درخت کے سایہ میں لیٹ گیا جب اٹھا تو دیکھا کہ سواری سامان سمیت غائب ہے وہ اس کو تلاش کرنے کے لئے گیا لیکن اس کو نہیں ملا لہذا پھر اس درخت کے نیچے مایوس ہو کرلوٹ آیا اور موت کے انتظار میں سو گیا پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہے کہ اس کی سواری بھی موجود ہے اور کھانا پینا بھی وہ اتنا خوش ہوا بلکہ خوشی وفرحت کے اس انتہا پہنچا کہ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے
ﺍﻟﻠﻬﻢ ﺍﻧﺖَ ﻋﺒﺪﯼ ﻭﺍﻧﺎ ﺭﺑُﮏ 
یعنی اے اللہ تو میرا بندہ میں تیرا رب ، اسی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی بندہ کی توبہ سے اِس آدمی سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں ۔
جاء فی الحدیث الذی رواہ الإمام مسلم للہ أشد فرحاً بتوبة عبدہ حین یتوب إلیہ من أحدکم کان على راحلتہ بأرض فلاة فانفلتت منہ وعلیھا طعامہ وشرابہ فأیس منھا فأتى شجرة فاضطجع فی ظلھا وقد أیس من راحلتہ فبینما ھو کذلک إذ ھو بھا قائمة عندہ بخطامھا ، ثم قال من شدة الفرح : اللھم أنت عبدی وأنا ربک ! أخطأ من شدة الفرح 
 اوکما قال النبی ﷺ 
اب اس حدیث میں اس آدمی کا قول اے اللہ تو میرابندہ میں تیرا رب کیا ان ظاہری الفاظ کو دیکھ کر نام نہاد اہل حدیث وہی حکم لگا ئیں گے جو دیگر اولیاء وعلماء کے ظاہری الفاظ کو لے کر اپنی طرف سے معنی کرکے حکم لگاتے ہیں ؟ یا حدیث کے ان ظاہری الفاظ کی تاویل کریں گے ؟خوب یاد رکھیں کہ ” وحدتُ الوجود “ کا مسئلہ نہ ہمارے عقائد میں سے ہے نہ ضروریات دین میں سے ہے، نہ ضروریات اہل سنت میں سے، نہ احکام کا مسئلہ ہے کہ فرض واجب سنت مستحب مباح کہا جائے بلکہ صوفیہ کرام کے یہاں یہ ایک اصطلاحی لفظ ہے اور یہ صوفیہ کرام کے یہاں محض احوال کا مسئلہ ہے فقط اور اس سے وہ صحیح معنی ومفہوم مراد لیتے ہیں ۔
٭٭٭

عقائد علماء اہلحدیث...تیسری اور آخری قسط

عباس خان ﷾

عقیدہ نمبر 31
اگر امام کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام نماز لوٹائے مقتدی نہیں۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں:
امام حالت جنابت یا بغیر وضو کے نماز پڑھا دے یا کسی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہو جائے تو فقط امام اپنی نماز لوٹائے مقتدیوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں اور نہ  ہی امام کا ذمہ ہے کہ وہ مقتدیوں کو یہ بتائے کہ  میں نے اس حالت میں نماز پڑھا دی ہے۔ (نزل الابرار ج 1 ص 101)
جبکہ  نبی کریمﷺ نے امام کو ضامن قرار دیا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اگر اسکی نماز صحیح ہو گی تو مقتدیوں کی بھی صحیح ہو گی اور اگر اس کی نماز فاسد ہو گی تو مقتدیوں کی بھی فاسد ہو گی۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا امام ضامن ہوتا ہے اور مؤذن امانت دار ہوتا ہے ۔
(مسند احمد ج 9 ح 4341)

عقیدہ نمبر 32
نا پاک اور پلید کپڑوں میں نماز بلکل صحیح ہے۔
نواب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ناپاک کپڑوں (جن پر پیشاب ، پاخانہ  وغیرہ گند لگا ہو) میں نماز صحیح ہے۔(عرف الجادی ص 21)
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
”نمازی کے جسم پر نجاست (پیشاب، پاخانہ) لگا ہوا ہوا ہو تو بھی نماز باطل نہیں“۔ (بدور الاہلہ ص 38)

عقیدہ نمبر 33
گدھی کتیا  سورنی سب کا دودھ اہلحدیث کے ہاں پاک ہے۔
مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں
” گدھی کتیا ، سورنی سب کا دودھ پاک ہے“۔ (بدور الاہلہ ص 18)
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
”کتے اور خنزیر کا جھوٹا پانی ، دودھ وغیرہ بھی پاک ہے“۔ (نزل الابرار فقہ نبی المختار ج 1 ص 30)


عقیدہ نمبر 34
توسل شرک  اور ناجائز ہے۔
مولوی محمد احمد  غیرمقلد صاحب لکھتے ہیں:
وسیلہ کا یہی وہ غیر مشروط طریقہ ہے جو انسان کو شرک میں مبتلا کر دیتا ہے۔(فتاویٰ صراط مستقیم ص 75)
طالب الرحمٰن زیدی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
کسی فوت شدہ نبی یا وی کا وسیلہ دینا جائز نہیں۔ (آئیے عقیدہ سیکھئے ص 159)
جبکہ حدیث  میں ہے کہ
حضرت انس  ؓ فرماتے ہیں  کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانے میں قحط پڑتا تو حضرت عمرؓ حضرت عباسؓ کے وسیلے سے اس طرح دعا کرتے 
«اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَسْقِينَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا» (بخاری ج1 ص 137)
ایک اور حدیث میں  ہے
حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ ” أَنَّ رَجُلًا كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حَاجَةٍ لَهُ , فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ , وَرُحْ إِلَيَّ حَتَّى أَرُوحَ مَعَكَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ عُثْمَانُ , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ , فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتَّى أَخَذَ بِيَدِهِ , فَأَدْخَلَهُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , وَقَالَ: حَاجَتُكَ؟ فَذَكَرَ حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا لَهُ , ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَكَرْتَ حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَتْ هَذِهِ السَّاعَةُ , وَقَالَ: مَا كَانَتْ لَكَ مِنْ حَاجَةٍ , فَأْتِنَا , ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ , فَقَالَ: لَهُ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا , مَا كَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي , وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتَّى كَلَّمْتَهُ
حضرت عثمانؓ بن حنیفؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضرت عثمانؓ کے پاس ضرورت کیلئے آیا جایا کرتا تھا اور حضرت عثمان (غالباً  مصروفیت کی وجہ سے) اس کی طرف توجہ نہ فرماتے وہ شخص حضرت عثمان بن حنیفؓ سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ وضو  کرکے مسجد میں جا کر  دو رکعات نماز پڑھو اور پھر کہو اے اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپکی طرف متوجہ ہوتا ہوں ہمارے پیارے نبیﷺ کے وسیلے سے۔
(معجم الصغير ج 1 ص 183-184  صحیح )

عقیدہ نمبر 35
عیسائیوں کا قبضہ بھی دارلاسلام ہوتا ہے۔
وکیل اہلحدیث محمد حسین بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
ہندوستان باوجود  یہ کہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے۔٭(الاقتصاد فی مسائل اجہاد ص 25)

عقیدہ نمبر 36
حضرت عیسیٰؑ کے والد کا اثبات۔ العیاذ باللہ
مشہور غیرمقلد عالم عنایت اللہ اثری صاحب لکھتے ہیں:
عیسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ تو اپنا شوہر اور اس کا باپ بتا رہی ہے اور باپ بیٹا بھی دونوں اسے تسلیم فرما رہے ہیں مگر صدیوں بعد لوگوں نے انہیں بے پدر بتایا اور آپ کی والدہ کو بے شوہر بتایا کیا خوب ہے۔(عیون زمزم ص 40)
نوٹ:
اس عقیدہ میں حضرت عیسیؑ کے لئے والد ثابت کیا گیا ہے حالانکہ حضرت عیسیٰؑ بغیر باپ کے پیدا ہوئے قرآن یہی بتاتا ہے۔

عقیدہ نمبر 37
مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھنا
مولوی عبد العزیز صاحب سیکرٹری جمعیہ مرکزیہ اہلحدیث ہند لاہور صاحب ،غیرمقلد ثناء اللہ امرتسری صاحب (جو کہ فرقہ اہلحدیث کے  ہاں شیخ الاسلام ہیں )کے بارے میں لکھتے ہیں۔
”آپ (ثناء اللہ امرتسری صاحب) نے لاہوری مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھی“۔
”آپ نے فتویٰ دیا کہ مرزئیوں کے پیچھے نماز جائز ہے“
”آپ نے مرزئیوں کو عدالت میں مرزئی وکیل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مرزئیوں کو مسلمان مانا“۔
العیاذ باللہ
(فیصلہ مکہ ص 36)


عقیدہ نمبر 38
جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں۔
چنانچہ نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھی تو خیر ہے کھاتے وقت پڑھ لے۔(عرف الجادی 239)

عقیدہ نمبر 39
کپڑوں پر اگر حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ لگا ہوا ہو تو اس میں پڑھنی درست ہے۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے  ایک بڑے عالم لکھتے ہیں:
”اور جس کپڑے پر وہ (حلال جانوروں کا پیشاب پاخانہ) لگا ہوا ہو اس میں نماز پڑھنی درست ہے“۔٭
(فتاویٰ ستاریہ ج 1  ص 105)

عقیدہ نمبر 40
نماز کی طرف دعوت دینا درست نہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے بڑے عالم طالب الرحمن صاحب کی ایک بڑی حماقت  لکھتے ہیں:
”کیا لوگوں کو نماز کی دعوت دینا اسوۂ رسولﷺ ہے ۔ اگر نہیں تو پھر نبیﷺ کے طریقے کو کیوں نہیں اپنایا جاتا“۔ (یعنی نماز کی دعوت نہ دی جائے)٭
(تبلیغی جماعت عقائد و نظریات ص 10)

عقیدہ نمبر 41
کتا پاک ہے اور اس کا پاخانہ بھی نجس نہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے  عالم جنہیں فرقہ اہلحدیث امام شوکانی کے نام سے جانتی ہے لکھتے ہیں:
حدیث کی وجہ سے صرف کتے کا لعاب نجس ہے علاوہ ازیں اس کی بقیہ مکمل ذات یعنی گوشت ، ہڈیاں ، خون بال وغیرہ پاک ہے کیونکہ اصل طہات  ہے اور اس کی ذات کی نجاست کے متعلق کوئی دلیل  موجود نہیں“۔
(فقہ الحدیث ص 147)
کتے کا پاخانہ بھی پاک ہے۔
چنانچہ امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
اور لوگوں (غیرمقلدین) کا  اس میں بھی اختلاف ہے کہ کتے کا پاخانہ  نجس ہے یا نہیں لیکن حق بات یہ ہے کہ اس کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں“۔(نزل الابرار ص 50)
نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
کتے اور خنزیر کے پلید ہونے کا دعویٰ ٹھیک نہیں۔(عرف الجادی ص 10)
عقیدہ نمبر 42
صحابہ کرامؓ میں سے بعض لوگ فاسق تھے العیاذ باللہ
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
”اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے جو فاسق تھے جیسے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہایے ہی   معاویہ رضی اللہ عنہ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، مغیر بن شیبہ رضی اللہ عنہاور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہکے متعلق۔
(نزل الابرار ج 3 ص 94)
نعوذ باللہ من ذالک

عقیدہ نمبر 43
رام چندر اور لکشمن نبی ہیں اور انہیں نبی ماننا واجب ہے۔
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں۔
ہمارے لئے جائز نہیں کہ ہم دیگر انبیاء کی نبوت کا انکار کریں جن کا ذکر اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں نہیں کیا اور کافروں میں تواتر کے ساتھ وہ معروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نیک انبیاء  تھے جیسے رام چندر لچھمن کرشن جی جو ہندؤں میں ہے اور زراتشت جو فارسیوں میں ہیں اور کنفیوس اور مہاتما بدھ جو چین اور جاپان میں ہے اور سقراط  جو یو نان میں ہیں ہم پر واجب ہے کہ ہم یوں کہیں ہم ان تمام انبیاء پر ایمان لائے اور ان میں  کسی ایک میں بھی فرق نہیں کرتے  اور ہم سب کے فرمان بردار ہیں۔(ہدایۃ المہدی ص 85)
حافظ عبد القادر صاحب روپڑی غیرمقلد اس کا دفاع کرتے ہوئے فرماتےہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید میں بعض انبیاء کا ذکر آیا ہے اور بعض کا نہیں آیا۔۔۔۔ آگے فرماتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالٰی نے عرب کے سوا اور نبیوں کا ذکر نہیں کیا جیسے ہندوستان ، چین ، یونان ، فارس ، یورپ  افریقہ ، امریکہ جاپان اور برما وغیرہ ۔۔۔۔  اس لئے  ان نبیوں کی نبوت سے انکار کرنا جائز نہیں۔۔۔۔ (آگے امام اہلحدیث وحید الزمان صاحب کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں۔) پس ہم پر واجب ہے کہ ہم کل انبیاء  پر ایمان لاویں اور ان میں سکی میں تفریق نہ کریں۔٭
(فتوحات اہلحدیث ص 148)
اگر قران پاک میں سب انبیاء کا ذکر نہیں آیا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ کہیں سے بھی پکڑ پکڑ کے انبیاءٰ کی تعداد کو پورا کیا جائے؟ اور انہیں نبی ماننے کو واجب قرار دے دیا جائے؟ اور واجب کا انکاری گنہگار ہوتا ہے لیکن غیرمقلدین کے ہاں واجب اور فرض ایک ہی ہیں  لہذا   ان کے عقیدے کے مطابق رام چندر وغیرہ کو نبی نہ ماننے والا کافر ہوا؟

عقیدہ نمبر 44
نبی کریمﷺ ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔
مشہور  اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
”چنانچہ حضور اکرمﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اسلئے نماز پڑھنے والے کو چاہئے کہ اس بات کا خصوصیت کے ساتھ خیال رکھے اور آپﷺ کی اس حاضری سے غافل نہ ہو“۔
(مسک الختام فی شرح بلوغ المرام ص 259-260)

عقیدہ نمبر 45
غیر اللہ سے مدد 
غیرمقلد عالم غلام رسول صاحب نبیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
رحم یا نبی اللہ ترحم
یعنی  رحم کر اے اللہ کے نبی رحم کر
چونکہ جاہل غیرمقلدین کے ہاں کفر و شرک کے کوئی اصول متعین نہیں اسلئے ان کا جہاں جی چاہتا ہے کفر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب  فرماتے ہیں:
قبلۂ دیں مددی، کعبۂ ایماں مددی 
ابن قیم مددی قاضئ شوکاں مددی
ترجمہ:
اے میرے دین کے قبلہ مدد کر اے میرے ایمان کے کعبہ مدد کر اے ابن قیم مدد کر اے قاضی شوکانی مدد کر۔
(ہدیۃ المہدی صفحہ 23)
نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں :
یا سیدی یا عروتی و وسیلتی
و یا عدتی فی شدۃ ورخائی 
قد جئت بابک ضارعا متضرعا 
متاوھا بتفنس الصد بتنفس الصعداء
مالکی ورائک مستغاث فارحمن 
یا رحمۃ للعالمین بکائی
ترجمہ:
اے میرے آقا اے میرے سہارے اور اے میرے وسیلے اور اے خوشحالی و بدحالی میں میری متاع میں روتا گڑ گڑاتا اور ٹھنڈی آہیں بھرتا ۔ آپ کے درپہ آیا ہوں آپ کے علاوہ میرا کوئی فریاد رس نہیں  ۔ سو اے رحمۃ للعالمین میری گریہ وزاری پر رحم فرما۔(ماثر صدیقی  ج 2 ص 30- 31)
غیرمقلدین سے سوال ہے کہ کیا ان کے یہ علماء مشرک ہوئے یا نہیں؟
 چونکہ غیرمقلدین کے ہاں کسی  پر کوئی فتوی دینا یا اس کی تکفیر کرنے کوئی احتیاط نہیں اسلئے غیرمقلدین کے ان علماء کا مشرک ہونا لازم آتا ہے۔

عقیدہ نمبر 46
زیادہ بھوک لگتی ہو تو روزہ معاف
نوب نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
روزہ رکھنے کیلئے استطاعت شرط ہے اس لئے جس کو بہت بھوک پیاس لگتی ہو یا جس کو بہت بھوک لگتی ہو اس کو روزہ رکھنا واجب نہیں۔
(عرف الجادی ص 80)

عقیدہ نمبر 47
عام عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
عورتوں کو جائز ہے کہ غیر مردوں کو دیکھیں البتہ ازواج مطہرات کو یہ منع تھا۔(نزل الابرار ج 3 ص 74)
مجدد اہلحدیث نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
پردہ کی آیات خاص ازواج مطہرات ہی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں امت کی عورتوں کے واسطے نہیں ہیں۔
(البیان المرصوص ص 168)
نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
وہ آیت جن میں  پردہ کرنے کا حکم ہے وہ صرف رسول خداﷺ کی بیویوں کے ساتھ مختص ہے۔
(عرف الجادی ص 52)

عقیدہ نمبر 48
ماں بہن بیٹی وغیرہ  کی قبل و دبر کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔
نور الحسن صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ماں بہن بیٹی وغیر ہ کی قبل و دبر (یعنی اگلی پچھلی شرمگاہ) کے سوا پورا بدن دیکھنا جائز ہے۔(عرف الجادی ص 52)

عقیدہ نمبر 49
کافر کے پیچھے نماز جائز 
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
ولو اخبر بعد الصلوۃ بانه کافر فلا يعيدون
نماز پڑھانے کے بعد کافر نے  بتلایا کہ وہ کافر ہے تو بھی مقتدی اپنی نماز  کو نہیں دہرائیں گے۔(کنز الحقائق ص 24)
غیرمقلدین کا اس پر عمل:
خود غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب مرزئیوں کے پیچھے نماز پڑھتے تھے(فیصلہ مکہ ص 36)

عقیدہ نمبر 50
قضا نمازیں معاف
نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں
اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ  جو نماز بلا عذر شرعی چھوڑ دی گئی ہو اس کی قضا واجب ہے۔(عرف الجاد ی ص 35)

علماء اہل حدیث اور ان کی تربیت کردہ  انکی نجس عوام کے چند عقائد و نظریات  جو ان میں پائے جاتے ہیں اور کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
1۔کرامت صاحب کرامت کے اختیار میں ہوتی ہے اللہ کے نہیں۔ 
2۔فقہاء سب گمراہ تھے۔
3۔نماز میں  آہستہ آمین کہنے والا یہودی ہے۔
جبکہ  خود یہ لوگ صرف فرض نماز میں دو جگہ اونچی آمین کہتے ہیں اور بقیہ 22 جگہ پر یہودیوں کی طرح کھڑے رہتے ہیں اور عورتین تو ان کی ہر وقت ہی یہودیوں کی طرح  نماز پڑھتی ہیں۔ 
4۔اجماعی  اور غیر اجتہادی مسائل میں اجتہاد کا کرنا
5۔قرآنی تعویذ لٹکنا بھی شرک ہے۔
6۔جہاں اللہ اب موجود ہے وہاں مخولوقات کو پیدا کرنے سے پہلے موجود نہ تھا
7۔قبر میں جسم عذاب و ثواب سے بری ہوتا ہے۔ 
8۔تین طلاق تین نہیں۔
9۔ قبر میں روح کے لوٹنے کا انکار 
جبکہ قبر میں روح کا لوٹنا صحیح صریح حدیث سے  بھی ثابت ہے۔
” حضرت براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک انصاری کے جنازہ کیلئے نکلے  اور قبرستان میں پہنچے لیکن ابھی تک قبر تیار نہیں ہوئی تھی آپﷺ بھی وہاں جلوہ افروز ہوئے اور ہم بھی آپﷺ کے پاس ہی بیٹھ گئے آپ نے (ایک طویل حدیث میں)  مومن اور کافر کی وفات کا تذکرہ فرمایا اس میں مومن کے بارے میں یہ ارشاد  مذکور ہے کہ :
 ”مومن کی روح کو پھر (مرنے کے بعد) ساتوں آسمان پر پہنچا دیا جاتا ہے اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ میرے بندے کا نام علیین میں درج کر دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے ان کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں ان کو لوٹاؤنگا اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالوں گا پس اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے تو اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”من ربك“ تمہارا رب کون ہے۔۔۔ الخ“
اور اسی حدیث میں کافر کے بارے میں یہ الفاظ مذکور ہیں کہ 
”آسمانوں کے دروازے اس کیلئے نہیں کھلتے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ اس کی کارگذاری اور نام وغیرہ سجین میں لکھ دو جو ساتویں زمین میں ہے پھر اسکی روح وہاں سے پھینکی جاتی ہے پھر آپؐ نے ارشاد خدا وندی پڑھا کہ جو شخص اللہ تعالٰی کے ساتھ شرک کرتا ہے پس گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اس کو پرندے اچک کر لے گئے یا ہوا نے  گہرے گڑھے میں ڈال دیا۔ اور پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں ”من ربك“ تیرا رب کون ہے ۔۔۔ الخ“
امام حاکمؒ اس روایت کی متعدد اسانید نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
«هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، فَقَدِ احْتَجَّا جَمِيعًا بِالْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو وَزَاذَانَ أَبِي عُمَرَ الْكِنْدِيِّ، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ فَوَائِدُ كَثِيرَةٌ لِأَهْلِ السُّنَّةِ وَقَمْعٌ لِلْمُبْتَدِعَةِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِطُولِهِ، وَلَهُ شَوَاهِدُ عَلَى شَرْطِهِمَا يُسْتَدَلُّ بِهَا عَلَى صِحَّتِهِ» .
”یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔(اگے فرماتے ہیں) اس حدیث میں اہل سنت کے لئے کئی فوائد اور اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کا خاصا ثبوت موجود ہے“۔ 
[المستدرك على الصحيحين : کتاب الإيمان :أَمَا حَدِيثُ مَعْمَر]
10۔اللہ کی صفت حاضر ناظر کا انکار
11۔ بدعی طلاق کو واقع نہ کرنے فتویٰ دینا
12۔ سلف احناف پر لعن طعن کرنا۔
13۔بزرگ گان دین کے اشعار  اور  صوفیا کی عبارات میں سے من پسند عقیدہ اخذ کرکے اس کی تکفیر کر لینا۔
14۔ اولی الامر سے فقیہ مراد لینے کو غلط کہنا
حضرت جابر بن عبداللہ  ؓ” اس آیت  (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں  ہیں کہ أُولِي الْفِقْهِ وَالْخَيْر”اولی الامر سے مراد  فقہ  والے ہیں“ یعنی کہ فقہاء کرام  ہیں۔امام حاکمؒ  اس کو حدیث کونقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ ”یہ حدیث صحیح ہے“۔(مستدرک علي الصحیحین جلد۱ص۲۱۱:صحیح)
محدثین کے قاعدے کے مطابق صحابی کی تفسیر مسند اور مرفوع ہوتی ہے  یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے اور اس کی طرح حجت ہوتی ہے۔
★امام حاکم ؒ فرماتے ہیں:
” تَفْسِيرَ الصَّحَابِيِّ حَدِيثٌ مُسْنَدٌ“ ۔(المستدرك على الصحيحين ج۱ صفحہ ۷۲۶)
”صحابی کی تفسیر مسند ہوتی ہے“۔(یعنی آنحضرتﷺ کا فرمان ہوتی ہے)
15۔ائمہ اربعہؒ کے اجتہادی اختلافات کو قرآن سنت کی طرح لوٹانے کا دعویٰ کرکے خود عقائد میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کر لینا۔
16۔ ائمہ کے اجتہادی اختلافات کو گمراہی قرار دینا اور اپنے فروعی و اصولی دونوں اختلافات کو حق قرار دینا۔
17۔فقہ کے متعلق بدگمانیاں پھیلانا۔
18۔فقیہ کے کسی  غیر شرعی فعل  پر  کوئی شرعی حکم بتانے کو غلط کہنا۔
19۔ قرآن و سنت سے مسائل اخذ کرنے کا دعویٰ کرنا اور گند اور کچرہ جمع کرنا۔
20۔اپنے آپ کو فقہاء سے زیادہ حدیث کے سمجھنے والا کہنا۔
21۔ قرآن و حدیث کے ظاہری معنی پر اکتفاء کرلینا اور تفقہ حاصل نہ کرنا۔
22۔سماع موتیٰ کو شرک قرار دینا
جبکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:
«وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ خَفْقَ نِعَالِهِمْ حِينَ يُوَلُّونَ عَنْهُ»[ المستدرك على الصحيحين (ج/1ص/536)  سندہ صحیح]
”  اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے وہ (مردہ) اسوقت جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ سنتا ہے جب لوگ اس سے واپس ہوتے ہیں“۔
 امام حاکمؒ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ یعنی یہ حدیث صحیح ہے مسلم کی شرط پر۔
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ مردہ دفن کے بعد قبر میں قبر سے واپس ہونے والے لوگوں کی جوتیوں کی کھٹکھٹاہٹ  اور آواز سنتا ہے اور جب یہ سنتا ہے تو انسانوں کی آواز بطریق اولٰی سنتا ہے۔ لیکن اس کے سننے سے یہ  بات نہیں کہ وہ سن کر  کسی کی کوئی مدد بھی کر سکتا ہے جیسا آج کل جاہل مشرکین کا خیال ہوتا  ہے اور یہ بھی نہیں کہ ان مشرکین کے ڈر سے بندہ نبیﷺ کی حدیث کا ہی انکار کر  دے۔
23۔غیر مدخولہ کو ایک لفظ سے تین طلاق دینے کو واقع نہ سمجھنا۔
24۔علماء سلف کی عبارات کو توڑ موڑ کر پیش کرنا اور ان کی طرف جھوٹ منسوب کر دینا۔ 
25۔فقہاء کرام پر کافروں والی آیات فٹ کرنا۔
26۔حدیث کے معنی میں صحابی کو بھی چھوڑنا تابعی کو بھی چھوڑنا اور ان کے خلاف اپنا من گھڑت معنی بیان کرنا۔
27۔اللہ کی ذات جہاں  مخلوقات کو پیدا کرنے سے پہلے تھی اب وہاں نہیں ہے۔ 
28۔عرش اور اللہ  کی ذات کے درمیان بھی  ایک  فاصلہ غیر اللہ یعنی مخلوق ہے۔
29۔تین طلاق کو تین ماننا گمراہی ہے۔ 
30۔حدیث اور سنت میں کوئی فرق نہیں۔
31۔عورتیں بھی مردوں کی طرح ٹانگیں چوڑی کرکے نماز پڑھیں
32۔جماعت اہلسنت حنفی شافعی مالکی حنبلی کے مقابلے میں شیعوں اور مرزئیوں کے عقائد و مسائل کو ترجیح دینا
33۔ فاتحہ کے قرات ہونے کا انکار
34۔تواتر کا انکار
35۔قرآن حدیث کو جان چھڑانے کا ذریعہ بنانا۔
36۔ضعیف اور موضوع حدیث میں کوئی فرق نہ کرنا۔
37۔اپنی ذاتی تحقیق سے فقہ لکھ کر اسے نبیﷺمعصوم  کی طرف منسوب کر دینا۔
38۔نبیﷺ کی قبر اطہر کے پاس یہ عقیدہ رکھ کر صلاۃ سلام پیش کرنا ہے کہ نبیﷺ یہ نہیں سن رہے
39۔ اپنی ہر  غلطی کو اجتہادی خطا کا نام دے دینا
40۔اللہ کی صفات متاشابہات کو لغت سے سمجھنا۔
41۔امام ابو حنیفہؒ پر لعن طعن کرنا۔
42۔ بلا دلیل بات کی پیروی کو اتباع کہنا غلط ہے۔
43۔طلاق کی دل میں نیت سے بھی نکاح نہیں ہو گا بلکہ زنا ہوگا
44۔حد نہیں کا مطلب جائز ہونا ہوتا ہے۔ 
غیرمقلدین کے کئی جاہل علماء نے فقہ کے خلاف اپنی کتب اور تقاریر میں ایسا کہا ہے اور کہتے ہیں اور انکی عوام بھی یہی کہتی ہے۔ 
اب  ذرہ یہ لوگ ایک سوال کا جواب دیں کہ 
پیشاب پینے پر کتنی حد ہے؟
اگر  حد ہے تو حد دکھائیں  اگر نہیں ہے تو پی کر دکھائیں۔ 
٭٭٭

جھوٹے اہل حدیث۔۔۔تیسری اور آخری قسط

مفتی آرزومند سعد ﷾


جھوٹ نمبر ٨:
ابو اقبال سلفی اپنی کتاب مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف نامی کتاب میں لکھتا ہے۔
حنفیہ سفر کے رخصت والی آیات کو نہیں مانتے۔ص ۲۳۔
الجواب:یہ بھی اسکا صریح جھوٹ ہے۔فقہ حنفی کے تمام کتابوں میں یہ مسئلہ درج ہے کہ مسافر کے لئے نماز قصر ہے اور روزہ نہ رکھنے کی رخصت ہے۔فقہ حنفی کے ہر کتاب میں اس کے لئے الگ باب قائم ہے۔مثلا کنز الحقائق کی شرح البحر الرائق میں ہے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (5 / 82)
بَابُ الْمُسَافِرِ ) أَيْ بَابُ صَلَاةِ الْمُسَافِرِ ۔
اس طرح ہر کتاب میں یہ باب قائم ہے۔لیکن تعصب اور ضد میں آکر اس غیر مقلد نے احناف پر اتنا بڑا جھوٹ بول دیا کہ ایک عام آدمی بھی اسکے جھوٹ کو جان سکتا ہے۔
جھوٹ نمبر ٩:
ص ۳۶ پر ایک اور جھوٹ لکھا ہے کہ رفع الیدین کو نقل کرنے والے پچاس صحابہ ؓ ہیں۔
الجواب: یہ بھی صریح جھوٹ ہے جو انکے بڑوں سے متواتر چلا آرہا ہے۔غیر مقلدین کے لئے ہمارا کھلا چیلنج ہے کہ آپ پچاس کے بجائے صرف پچیس صحابہ کرام ؓ سے اپنی رفع یدین ثابت کردیں ۔یعنی چار رکعت والی نماز میں دس جگہ ہمیشہ کرنے اور نہ اٹھارہ جگہ نہ کرنے کی ۔ہم ان کو فی  صحیح روایت انعام دینے کو تیار ہیں ۔
جھوٹ نمبر ١٠:
ص ۳۷ پر لکھا ہے کہ احناف آمین کی احادیث کونہیں مانتے ۔
الجواب: یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔احناف کے اردو ،عربی ،فارسی بلکہ ہر زبان کی نماز سے متعلق کتاب اٹھا کر دیکھا جا سکتاہے کہ احناف کے نزدیک آمین کی کیا حیثیت ہے ۔ایک ان پڑھ شخص بھی دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ یہ اللہ کا بندہ کتنا جھوٹ بولتا ہے ۔(فلعنۃ اللہ علی الکاذبین)
اسی صفحہ پر لکھا ہے کہ صحیح احادیث سے آمین کا بالجہر کہنا ثابت ہے ۔حالانکہ صفت صلوۃ النبی ﷺ میں غیر مقلدین کے شیخ البانی نے لکھا ہے کہ مقتدی کے اونچی آواز میں آمین کہنے پر کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
جھوٹ نمبر ١١:
ص ۴۴ پر تو حد کردی ۔کہتا ہے کہ صبح کی نماز کے قائم ہونے کے بعد والی احادیث کو نہ ماننے والا کب مسلمان رہ سکتا ہے ۔لیکن اسلام کے علاوہ ایک حنفی مذہب ہے جو اسکی اجازت دیتا ہے۔
الجواب: قارئین کرام اس جھوٹ پر تبصرہ کرنے کے بجائے آپ ان احادیث کا مشاہدہ کریں جن میں صحابہ کرام ؓ سے نماز صبح کے قائم ہوتے ہوئے صبح کی سنتیں پڑھنا منقول ہیں۔
٭حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے صبح کی جماعت کھڑی ہونے کے بعد دورکعت سنت پڑھی(مصنف ابن ابی شیبہ جلد ۲ ص ۲۵۱)
٭طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن ابی موسی ؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ امام صبح کی نماز پڑھا رہے تھے حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے ستونے کے پاس کھڑے ہوکر اس کو ادا کیا۔
٭حضرت ابو درداء ؓ کا عمل منقول ہے کہ آپ مسجد میں داخل ہوئے  دیکھا کہ لوگو نما ز صبح باجماعت ادا ء کر رہے ہیں پھر بھی آپ نے صبح کی سنتیں پڑھ کر جماعت میں شرکت کی ۔
٭حضرت ابو عثمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم عمر بن الخطاب ؓ کے پاس آتے اس حال میں کہ ہم نے صبح کی سنتیں اداء نہ کی ہوتی تو ہم مسجد کے آخر میں سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہوجاتے ۔طحاوی جلد ۱ ص ۲۵۲۔
الغرض ابو اقبال صاحب کا یہ کہنا کہ صرف احناف ہی اس کے قائل ہیں یہ نرا جھوٹ ہے اور اس نے اس فتوی کے ذریعہ جن صحابہ کرام ﷢کو دین اسلام سے خارج کردیا ہے اس کا حساب اللہ تعالی خود لے گا۔
ص ۴۹ پر لکھا ہے کہ احناف جمع بین الصلوتین کی احادیث کو نہیں مانتے ۔٭
الجواب:یہ بھی اس کا جھوٹ ہے احناف کے ہاں جس سفر یا کسی سخت مجبوری کی وجہ سے جمع صوری کی احادیث پر عمل کرنا جائز ہے۔جسکا طریقہ احادیث کیا کتابوں میں اس طرح منقول ہے کہ ظہر کو موخر کرکے اخیر وقت میں اداء کیا جائے اور عصر کو مقدم کرکے ابتدائے وقت میں ادا کیا جائے اس طرح مغرب کی نماز کو موخر کرکے اخیر وقت میں ادا کیا جائے اور عشاء کی نماز کو مقدم کرکے اول وقت میں پڑھا جائے ۔اس کو جمع صوری کہا جاتا ہے اور اسکا انکار کسی حنفی نے نہیں کیا ۔چنانچہ فقہ حنفی کے معتبر کتاب تبیین الحقائق میں ہے۔
تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق - (1 / 423)
احْتَرَزَ بِقَوْلِهِ فِي وَقْتٍ عَنْ الْجَمْعِ بَيْنَهُمَا فِعْلًا بِأَنْ صَلَّى كُلَّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا فِي وَقْتِهَا بِأَنْ يُصَلِّيَ الْأُولَى فِي آخِرِ وَقْتِهَا وَالثَّانِيَةَ فِي أَوَّلِ وَقْتِهَا فَإِنَّهُ جَمْعٌ فِي حَقِّ الْفِعْلِ
اس طرح فتاوی شامی میں ہے۔
حاشية رد المختار على الدر المختار - (1 / 382)
 ما رواه مما يدل على التأخير محمول على الجمع فعلا لا وقتا أي فعل الأولى في آخر وقتها والثانية في أول وقته
ناظرین احناف کا مسئلہ بالکل وہی ہے جو حدیث میں ہے ۔اس لئے یہ صاف جھوٹ ہے کہ احناف ان احادیث کو نہیں مانتے ،البتہ آج کل کے غیر مقلدین جو جمع حقیقی کرتے ہیں کہ ظہر کے وقت میں عصر اور ظہر دونوں پڑھ لیتے ہیں اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھ لیتے ہیں یہ شیعہ کا مسلک ہے ۔اہل سنت میں سے کوئی بھی اسکا قائل نہیں ہے۔
ص ۵۱ پر لکھا ہے کہ احناف سبحان اللہ والی احادیث کو نہیں مانتے ۔٭
الجواب :احناف کے فقہ کے معتبر کتابوں میں یہ مسئلہ مذکور ہے کہ جب امام سے کوئی غلطی ہوجائے تو مقتدی سبحان اللہ کہہ کر امام کو لقمہ دے سکتا ہے۔مثلا عنایہ ،مبسوط اور بدائع یہ مسئلہ اس طرح ہے۔
العناية شرح الهداية - (2 / 142)
إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَائِبَةٌ فِي الصَّلَاةِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقَ لِلنِّسَاءِ 
المبسوط للسرخسي ـ مشكول - (2 / 74)
وَإِذَا مَرَّتْ الْخَادِمُ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي فَقَالَ : سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ أَوْمَأَ بِيَدِهِ لِيَصْرِفَهَا لَمْ تُقْطَعْ صَلَاتُهُ ) لِمَا رَوَيْنَا { أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَشَارَ عَلَى زَيْنَبَ فَلَمْ تَقِفْ وَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَائِبَةٌ فَلْيُسَبِّحْ ، فَإِنَّ التَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقَ لِلنِّسَاءِ
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (2 / 445)
وَلَوْ دَفَعَ الْمَارَّ بِالتَّسْبِيحِ أَوْ بِالْإِشَارَةِ أَوْ أَخَذَ طَرَفَ ثَوْبِهِ مِنْ غَيْرِ مَشْيٍ وَلَا عِلَاجٍ لَا تَفْسُدُ صَلَاتُهُ لِقَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { فَادْرَءُوا مَا اسْتَطَعْتُمْ } ، وَقَوْلِهِ { إذَا نَابَتْ أَحَدَكُمْ نَائِبَةٌ فِي الصَّلَاةِ فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّ التَّسْبِيحَ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقَ لِلنِّسَاءِ }
 ناظریں کرام یہ فقہ حنفی کا مسئلہ بالکل واضح ہے او ر احادیث کے مطابق ہے لیکن کیا کیا جائے تعصب کا کہ ابو الاقبال سلفی صاحب اس جھوٹ کو احناف کے ماتھے تھوپ کر لعنت کے مستحق بن گئے۔
ابو اقبال صاحب اور کے ہمنوا جماعت کا یہ شیوہ رہا ہے کہ جھوٹ بول کر اپنے مسلک کو فروغ دینا چاہتے ہیں ہم عوام سے یہی عرض کرتے ہیں کہ جو شخص ۱۰۰ صفحات کے ایک رسالہ میں اتنے جھوٹ بولتا ہے اس پر دین کے بارے میں اعتماد کرنا نادانی ہے ۔اللہ تعالی امت کو اس فتنہ کے شرور سے محفوظ کرے ۔آمین۔
٭٭٭

حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین

  "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015


’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘

(صحیحابنحبانج3ص178،صحیحمسلمج1ص181 )

ترجمہ:حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجدمیں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموںکی طرح اٹھایا ہےتم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (نماز میں رفع یدین نہ کرو)۔

مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔

ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:

اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔

جواب =

ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین  مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:

انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)

کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔

لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے،  ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔

جواب  =

الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ،درس ترمذی)

ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگرحضرات محققین ومحدثین نے تو بنایاہے۔مثلاً

1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)

2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)

3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)

4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)

5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی  (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)

6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(

7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)

8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)

9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)

10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)

11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)

12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)

13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی  (نور الصباح: ج1 ص76)

د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی  علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں " نور الصباح ، ج 2،  ص 321"

تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئے”الجواب صحیح“ لکھاہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  موجود ہے۔خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:

”مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: ”مسئلہ رفع یدین “کے عنوان سے بھیجا ہے،  جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھاہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے،نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے ”الجواب صحیح“لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔“ (الحدیث :93ص11)



اعتراض نمبر 3 = اس حدیث پر محدثین کا اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے کیونکہ سب محدثین نے اس حدیث پر سلام کے وقت اشارہ سے منع کرنے کے ابواب باندھے ہیں۔ اور کسی محدث نے اس حدیث سے ترکِ رفع پر استدلال نہیں کیا۔

جواب =

یہ حدیث اور بوقت سلام اشارہ سے منع کی حدیث دو الگ الگ احادیث ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔

·        اس حدیث پر امام ابو داوَد نے یوں باب باندھا ہے: باب النظر فی الصلوٰۃ {ابو داوَد ص 138 ج 1}

·        امام عبدالرزاق علیہ رحمہ نے یوں باب باندھا ہے : باب رفع الیدین فی الدعاء {مصنف عبدالرزاق ص 252  ج 2}

·        امام بخاری کے استاد ابوبکر بن شیبہ  نے یوں باب باندھا ہے:  باب من کرہ رفع الیدین فی الدعاء {مصنف ابن ابی شیبہ  ص 486  ج 2}

·        نیز قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : وقد ذکر  ابن القصار ھٰذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الایدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ {لا کمال العلم بفوائد مسلم ص 344 ج 2}

·        امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}

آئیے امام مسلم جن سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے ان کے ابواب کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں:

امام مسلم نے باب یوں قائم فرمایا ہے: باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ والنھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عندالسلام واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع

·        پہلا حصہ الامر بالسکون فی الصلوٰۃ، نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب: باب کے اس حصے کے ثبوت میں یہی حدیث اسکنو فی الصلوٰۃ والی لائے ہیں

·        دوسرا حصہ النھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عند السلام، سلام کے وقت  ہاتھ سے اشارہ کی ممانعت:  اس حصہ مکے ثبوت کے لیے دوسری حدیث لائے ہیں  وانما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ ثم یسلم علی اخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔ بس تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے دائیں بائیں والے پر سلام کرے۔

·        تیسرا حصہ ہے ، واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع، پہلی صفوں کو مکمل کرنا اور ان میں جڑنا اور اجتماع کے حکم کے بارے میں: اس حصے کو ثابت کرنے کے لیے تیسری حدیث لائے ہیں استووا ولا تختلفوا

پس ثابت ہوا کہ سلام کا لفظ دوسری حدیث کے متعلق ہے۔ پہلی حدیث پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنے کاباب۔ اس کے نیچے حدیث وہی لائی گئی ہے جس مین رفع یدین کو سکون کے خلاف قرار دے کر منع فرمایا دیا گیا۔ لہٰذا جو حدیث ہم پیش کر رہے ہیں، اس پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے، اس میں سلام اور تشہد کا لفظ نہیں۔



اعتراض نمبر 4 = یہ حدیث سلام کے وقت رفع یدین سے منع کی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کے بارے میں۔

جواب =

جیسا کہ اعتراض نمبر 3 کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ امام مسلم علیہ رحمہ نے اس حدیث پر نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب باندھا ہے اور سلام کے وقت اشارے سے منع کرنے کے لیے حضرت جابر بن سمرۃ سے دوسری حدیث لائے ہیں، جس سے اس اعتراض کا سارا دم خم ختم ہو جاتا ہے۔ مگر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مکمل مدلل جواب دیا جاتا ہے تاکہ مزید گنجائش باقی نہ رہے انشاءاللہ تعالیٰ:

·        پہلی روایت مین جابر بن سمرۃ رضی الہ عنہ کا شاگرد تمیم بن طرفہ ہے۔ دوسری میں جابر رضی اللہ عنہ کا شاگرد عبد اللہ بن القبطیہ ہے۔

·        پہلی روایت میں ہے خرج علینا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے۔ دوسری روایت میں ہے صلینا مع رسول اللہ ، یعنی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔

·        پہلی روایت میں ہے رافعی ایدیکم  یعنی رفع یدین کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں ہے  تشیرون بایدیکم تومنون بایدیکم تم اشارہ کرتے ہو۔

·        پہلی روایت میں سلام کا ذکر نہیں ، دوسری میں سلام کا ذکر ہے۔

·        پہلی روایت میں ہے اسکنو ا فی الصلوٰۃ، یعنی نماز میں سکون اختیار کرو، دوسری روایت میں ہے انما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ

ان دونوں روایتوں کو غور سے دیکھا جائے تو دونوں روایتوں میں پانچ فرق نظر آتے ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ ہم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، آپ تشریف لائے تو یہ واقعہ الگ ہوا۔ دوسری روایت میں ہے حضور صلی اللہ علپہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، یہ واقعہ الگ ہوا۔ پہلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  رافعی ایدیکم فرما کر رفع یدین کا نام لیتے ہیں اور دوسری میں رفع یدین کا نام تک نہیں بلکہ اشارے کا لفظ ہے۔ بہرحال دونوں روایتوں کو ایک بنانا فریب اور دھوکا ہو گا نہ کہ دونوں کو دو بتانا۔ چونکہ دو واقعے الگ الگ ہیں، ہم دونوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ملاتے نہیں لہٰذا الگ الگ رکھنا حقیقت حال سے اگاہ کرنا ہو گا۔ حقیقت حال سے آگاہ کرنے کو اہل انصاف میں سے تو کوئی بھی دھوکہ نہیں کہتا،  ہاں بے انصاف جو چاہیں کہیں۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

پہلی حدیث میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے اور دوسری میں سلام والے اشارے سے۔ ہمارا احناف کا دونوں روایتوں  پر عمل ہے۔ نہ ہم رفع یدین  کرتے ہیں اور نہ ہی سلام کے وقت اشارہ کرتے ہیں۔

ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو بوقتِ سلام ہاتھوں کا اشارہ نہیں کرتے تھے، ہاتھوں کااشارہ اس وقت ہوتا تھا جب باجماعت نماز پڑھتے اور پہلی حدیث میں ہے خرج علینا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علہ والہ وسلم ہماری طرف آئے، ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز فرض تھی ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر ہوتے تو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز کے لیے اتنا لمبا بیٹھے رہتے کہ کبھی نیند آنے لگتی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر کس طرح کرا سکتے تھے؟ ثابت ہوا کہ نماز فرض نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی انفرادی نماز تھی جو نفل یا سنن  ہو سکتی ہیں۔ جب نماز جماعت والی نہیں تھی بلکہ انفرادی فعل یا سنن نفل وغیرہ نماز تھی تو اس میں سلام کے وقت اشارہ ہوتا ہی نہیں تھا تو آقا نے منع کس چیز سے کیا؟ یقیناً وہ رکوع سجدے والا رفع یدیں ہی تھا  جس کو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ   کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ   علیہ والہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا اسکنوا فی الصلوٰۃ نماز میں سکون اختیار  کرو۔ مسلم شریف کا باب الامر فی الصلوٰۃ ج 1 ص 80 دیکھیں، اس میں اشارے کا ذکر جس حدیث میں ہے، اس میں صلینا مع رسول  اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوداوَد باب السلام ج 1 ص 143 پر دیکھیں اور غور کریں کہ نماز باجماعت ہے اور اشارہ  بھی ہے۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا  اذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسلم  احدانا اشار بیدہ من یمینہومن عن یسارہ یہاں بھی سلام کے اشارے کا جہاں ذکر ہے، وہاں جماعت کا ذکر بھی ہے۔ نسائی باب السلام بالیدین ج 1 ص 156 مع التعلیقات میں ہے صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکمیہاں بھی جماعت کا ذکر ہے، ساتھ سلام کے اشارے کا ذکر ہے۔ یہ طحاوی شریف ج 1 ص 190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف  ہومیں یہی جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کنا اذا صلینا خلف النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمنا بایدیناجب ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتاب الام  للشافعی علیہ رحمہ ، مسند احمد ، بیہقی دیکھیں۔ جہاں سلام کے وقت اشارے کا لفظ ہو گا وہاں جماعت کی نماز کاذکر بھی ہو گا۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ  نے اکیلے نماز ادا کی ہو اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا ہو یعنی سلام کے وقت اشارہ بھی کیا ہو، موجود نہیں ہے لہٰذا اس سلام کے اشارے کا تعلق جماعت کی نماز سے ہے نہ کہ انفرادی نماز سے۔ انفرادی نماز میں صرف رکوع سجدے والا رفع یدین تھا ، ہاتھوں کا اشارہ نہیں تھا لہٰذا نفرادی نماز میں جو عمل تھا ہی نہیں ، اسے آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے منع کر سکتے تھے۔  ہاں جو عمل تھا ، وہ رفع یدین رکوع و سجود کا تھا ، اسی سے ہی منع فرمایا ہے۔

ضمنی اعتراض: اگر اس حدیث سے " فی الصلوٰۃ "یعنی نماز کے اندر  کا رفع یدین  منع ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تو تکبیرِ تحریمہ والا رفع یدین بھی ختم ہو جاتا ہے۔

جواب: نماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ وکان یختم الصلوٰۃ بالتسلیمحدیث شریف میں آتا ہے تحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلمیم{ترمذی شریف ص 32} نما تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا  جس فعل سے نماز شروع ہو رہی ہے، اسے فی الصلوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ ثناء فی الصلوٰۃ، تعوذ فی الصلوٰۃ، قومہ فی الصلوٰۃ، جلسہ و سجدہ فی الصلوٰۃ، سجدے والا رفع یدین فی الصلوٰۃ، تشہد فی الصلوٰۃ۔ تکبیرِ تحریمہ آغاز کا نام ہے اور نماز شروع کرنے کا طریقہ ہے۔ سلام نماز کے اختتام کا نام ہے یعنی ختم کرنے کا طریقہ ہے۔ وکان تکتم بالتسلیم{مسلم ج 1 ص 195} جس طرح حدیث پاک سے ثا بت ہو چکا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب رکوع و سجدہ فی الصلوّۃ ہیں تو ان کا رفع یدین بھی فی الصلوٰۃ ہو گا لہٰذا اسکنو فی الصلوٰۃ  میں نماز کے اندر والے رفع یدین سے ہی منع ثابت ہو گی نہ کہ تحریمہ والے سے کیونکہ رفع یدین بوقتِ تحریمہ فی الصلوٰۃ نہیں بلکہ فی افتتاح الصلوٰۃ ہے جس طرح ابو داوَد ج 1 ص 105 ،  پر موجود ہے کہ تحریمہ والے رفع یدین  کو رفع افتتاح الصلوٰۃسے تعبیر کیا گیا ہے یا عند الدخول فی الصلوٰۃ جس طرح بخاری ج 1 ص 102 ، پر موجود ہے۔ جسطرح امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح یہاں لفظ مع الافتتاح تحریمہ کے رفع یدین کے لیے استعمال کیا  ہے۔  اسی صفحہ 102 پر دیکھیں ، امام بخاری علیہ رحمہ کا باب الخشوع فی الصلوٰۃ۔ نماز میں خشوع کا باب اور آگے جو حدیث لاتےہیں، وہ یہ ہے اقیمو االرکوع والسجود فواللہ انی لا اراکم من بعدی اچھی طرح رکوع اور سجدہ کیا کرو میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ خشوع فی  الصلوٰۃکا باب باندھ کے پھر رکوع اور سجدہ کا بیان فرما کر بتلانا چاہتے ہیں  کہ رکوع اور سجدے کا جوڑ فی الصلوٰۃ کے ساتھ ہے اور فی الصلوٰۃ کا سب سے زیادہ تعلق رکوع اور سجدے کے ساتھ ہے۔ فی الصلوٰۃ کا لفظ اکثر و بیشتر انہیں افعال و اعمال پر بولا جاتا ہے جو نماز میں تکبیرِ تحریمہ اور سلام کے درمیان ہیں، اس کی چند مثالیں دیکھئے:

·        امام بخاری ج 1 ص  99 پر باب باندھتے ہیں اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ، جب امام نماز میں روئے۔ امام تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ ہی رونا شروع نہیں کر دیتا بلکہ بوقتِ تلاوت روتا ہے جس طرح ترجمہ الباب  کی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ گویا رونا تحریمہ کے بعد ہوتا ہے، اسی لیے تو فی الصلوٰۃ کہا گیا ہے۔

·        بخاری ج1 ص 102 پر باب ہے باب وضع الیسی الیمنی علی الیسرہ فی الصلوٰۃ ، بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا نماز میں۔ غور فرمائیں کہ ہاتھ پر ہاتھ تحریمہ کے بعد ہی رکھا جاتا ہے جس کو فی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

·        بخاری شریف ج 1 ص 103 باب البصر  الی الامام فی الصلوٰۃ ، نماز میں امام کی طرف دیکھنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر اور عصر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت کو دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ظہر اور عصر کی نماز میں قراءۃ فرماتے ہیں۔ تو بوقت  قراءۃ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی ریش مبارک کو دیکھنا اور قراءۃ کو پہچاننا تحریمہ کے بعد ہی ہوتا تھا لہٰذا امام بخاری علیہ رحمہ فرماتے ہیں رفع البصر امام کی طرف  نظر اٹھانا فی الصلوٰۃ نماز کے اندر  یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد۔ یہاں بھی تحریمہ کے بعد ہونے والے عمل کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔

·        بخاری ج 1 ص 104 پر امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوٰۃ ۔ یہاں قراءۃ فی الصلوٰۃ فرمایا یعنی قراءۃ تحریمہ کا نام نہیں بلکہ قراءۃ تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح  اسکنوا افی الصلوٰۃ میں بھی منع تحریمہ والے رفع یدین سے نہیں بلکہ اس رفع یدین سے ہے جو تحریمہ کے بعد نماز میں کیا جاتا ہے۔

·        مسلم شریف ج 1 ص 169 پر امام نووی علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں۔ اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ ، نماز میں ہر اونچ نیچ پر تکبیر کا اثبات۔ اب اونچ نیچ رکوع اور سجدے میں ہوتی ہے اور یہاں  رکوع و سجدہ میں اونچ نیچ کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔لا محالہ رکوع اور سجدے سے قبل اور بعد کی اونچ نیچ تحریمہ کے بعد اور سلام سے قبل ہے اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا یعنی نمازمیں۔ بعینٰہ اسی طرح مسلم کی ج 1 ص 181 والی اسکنو فی الصلوٰۃ والی روایت میں فی الصلوٰۃ سے مراد رفع یدین ہے جو تحریمہ کے بعد ہوتا ہے یعنی رکوع اور سجدے کے وقت۔

·        مسلم شریف ج 1 ص 173 باب التشھد فی الصلوٰۃ۔

·        مسلم ج 1 ص 183 باب التوسط فی القراءۃ فی الصلوٰۃ۔

·        مسلم ج۱ ص 210 باب السھو فی الصلوٰۃ۔ نماز میں بھولنے کا بیان اور آگے ص 211 پر حدیث پاک لائے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم قام فی الصلوٰۃ الظھر وعلیہ جلوس، بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹھنا تھا بجائے بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ بعد میں سجدہ سہوکیا

·        مسلم ج 1 ص 202 باب کراھۃ مسح الحصی وتسویۃ التراب فی الصلوٰۃ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بوقت سجدہ مسجد میں پڑی مٹی ہاتھ سے برابر کرتے تھے، اسی کی کراہت کا بیان کیا گیا۔ اور سجدہ نماز کے اندر تحریمہ کے بعد کا ہے اسی لیے اسے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔

·        مسلم ج 1 ص 206 باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جب منبر بنوا کر  رکھ دیا گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم  منبر پر چڑھ گئے اور وہاں تکبیرِ تحریمہ کہی اور بعد میں بحالتِ نماز منبر سے اتر آئے۔ نماز کی حالت کا یہ عمل بعد تحریمہ تھا اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔

تلک عشرۃ کاملہ



ضمنی اعتراض: دونوں حدیثوں میں تشبیہ ایک چیز سے دی گئی ہے، کانھا اذناب خیل شمس لہٰذا دونوں حدیثیں ایک ہیں۔

جواب: ان احادیث کے الگ الگ ہونے کے دلائل سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ یہ احادیث الگ الگ ہیں۔

باقی تشبیہ ایک چیز کے ساتھ دینے سے چیز ایک نہیں بن جاتی۔ دیکھیں کوئی کہتا ہے کپڑا دودھ کی طرح سفید ہے۔ بطخ دودھ کی طرح سفید ہے۔ دانت دودھ کی طرح سفید ہیں۔ گائے دودھ کی طرح سفید ہے۔ بال دودھ کی طرح سفید ہیں۔ اب کپڑا ،  بطخ، دانت، گائے، بال پانچ چیزیں مشبہ ہیں ، دودھ مشبہ بہٰ ہے یعنی  پانچ چیزوں کو صرف دودھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اب کون عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ بطخ اور گائے یا بال اور دانت ایک شے ہیں کیونکہ تشبیہ صرف ایک چیز سے دی گئی ہے۔ اب اگر عندالسلام والے اشارے اور رکوع کے رفع یدین کو مست گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے تو دونوں حدیثیں ایک کیسے ہو گئیں اور دونوں عمل ایک کیسے ہو گئے۔



اعتراض نمبر 5 = امام بخاری علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جو بھی اس حدیث سے  ترکِ رفع یدین پر استدلال کرتا ہے اس کا علم میں کوئی حصہ نہیں۔

جواب: اولاً تو اعتراض نمبر 3 کے تحت امام نووی علیہ رحمہ کا ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ:

·        امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}

اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث کے معنی کے اعتبار سے فقہاء کو ترجیح حاصل ہے نہ کہ محدثین کو جیسا کہامام ترمذی فرماتے ہیں کہ " الفقھاء ھم اْعلم بمعانی الحدیث " یعنی فقہاء معنی حدیث محدثین سے زیادہ جانتے ہیں۔ [سنن الترمذی: ج 1، ص 193، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت]...۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا امام اعظم ابوحنیفہ و سفیان ثوری و مالک و ابن ابی لیلیٰ جیسے امام اور فقہاء  کو اس جملے کے تحت جاہل اور بے علم مان لیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔

اگر اس قسم کی باتیں ہی ماننی ہیں تو امام مسلم علیہ رحمہ جو کہ امام بخاری علیہ رحمہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنے استاد امام بخاری علیہ  رحمہ کو منتحل الحدیث یعنی صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں۔ یعنی حدیث میں ان کا دعویٰ تو ہے مگر وہ بات نہیں جو درحقیقت مشہور ہے۔ ادھر امام بخاری علیہ رحمہ لوگوں کو بے علم کہتے ہیں ادھر ان کے اپنے ہی شاگرد ان کو صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں اور حدیچ سے گویا بے علم کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر امام مسلم کی اپنے استاد سے اور کیا ناراضگی ہو گی؟ باوجود شاگرد ہونے کے پوری مسلم شریف میں اپنے استاد سے ایک بھی حدیث نہیں لائے۔

بات کا مقصد یہ ہے کہ  ایسی  غیر عالمانہ باتیں  بڑے بڑے علماء سے ہو جایا کرتی ہیں۔ جیسے امام بخاری علیہ رحمہ کو ایسی کسی بات سے فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح ترک رفع یدین پر اس حدیث کو پیش کرنے والوں پر امام بخاری کی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔



اعتراض نمبر 6 = اگر اس حدیث کو ترک رفع پر مان بھی لیا جائے تو حنفی پھر وتر اور عیدین کی رفع یدین کیوں کرتے ہیں، انہیں وہ بھی چھوڑ دینی چاہئیں، کیونکہ وہ بھی فی الصلوٰۃ  یعنی نماز کے اندر کی رفع یدین ہیں۔

جواب: اس حدیث سے ہمارا استدلال کس کس طرح سے ہے یہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔

·        ہمارا استدلال سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفل نماز پڑھ رہے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں باہر سے تشریف لائے  [خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم]۔ اگر یہ عیدین کی نماز ہوتی تو  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جماعت کروا رہے ہوتے۔ یہ تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ نمازِ عیدین جماعت سے ہوتی ہیں اس کے تو وہ بھی قائل نہیں کہ نمازِ عیدین انفرادی پڑھی جائے۔ تو یہ محال ہے کہ عیدین ہو رہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں شریک نہ ہوں اور یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نےبغیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جماعت کروانی شروع کر دی ہو۔ پس یہ  مان لیا جائے کہ یہ عیدین کی نماز تھی تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ نمازِ عید قضاء ہو گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتایا بھی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعد میں تشریف لائے۔ اسی طرح اگر وتر کی نماز مانا جائے تو بھی عشاء کی نماز کی جماعت کا مسئلہ اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی جماعت سے رہ گئے اور بعد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام نے انتظار بھی نہیں کیا اور خود جماعت کروا لی اور وتر بھی پڑھنے لگے تب جا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے۔ یہ محال ہے کیونکہ صحابہ کرام تو نبی پاک علیہ صلوٰۃ والسلام کا عشاء میں اتنا انتظار فرماتے تھے کہ انہیں نیند آنے لگتی۔

·        دوسری بات یہ ہے کہ عام نمازوں اور عیدین و وتر میں فرق ہے۔ جب بھی احکامِ عیدین و وتر آتے ہیں ساتھ واضح لفظ عید یا وتر موجود ہوتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں عام نماز کا عمومی لفظ ہے، پس اصول کے لحاظ سے خصوص کو عموم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، پس یہ قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

·        تیسری بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دم فرمایا ہے وہ  بغیر ذکر کے رفع یدین ہے، اور عیدین و وتر کا رفع یدین اسی طرح تحریمہ کا رفع یدین ذکر کے ساتھ ہے۔ یعنی رفع یدین کا الگ سے ذکر موجود ہے۔ جب کہ غیر مقلدین عام نمازوں میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بغیر ذکر کے ہے، یعنی رکوع کو جاتے ہیں تو اللہ اکبر کہتے ہیں، پس وہ اللہ اکبرانتقالِ رکوع کا ذکر ہے نہ کہ رفع یدین کا۔ اگر غیر مقلدین کہیں کہ وہ رفع یدین کا ذکر ہے تو پھر رکوع کی طرف انتقال کے وقت کا ذکر کہاں گیا؟ ہمارے وتر و عیدین کے رفع یدین چونکہ مع الذکر ہے تو اس کی تشبیہ گھوڑوں کی دمیں بنتی ہی نہیں، جبکہ غیر مقلدین کا رفع یدین بغیر ذکر کے ہے اس لیے وہ اس تشبیہ پر پورا پورا اترتے ہیں۔ چناچہ احناف کی رفع یدین اذناب خیل نہیں بلکہ  عبادت ہے کیونکہ اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ  اقم الصلوٰۃ لذکری۔ پس یہ رفع یدین جو عیدین و وتر و تحریمہ کا ہے یہ بھی فرق کی وجہ سے الگ ہے اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔٭

٭بشکریہ عمر نعمان http://tark-e-rafayadain.blogspot.com

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India