Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label اداریہ. Show all posts
Showing posts with label اداریہ. Show all posts

دو رنگی چھوڑ دے...قسط ۱


 "سربکف" میگزین 3-نومبر، دسمبر 2015

مدیر
ایک بلند ٹیلہ تھا۔تمام لوگ نیچے تھے، اور ”وہ“ اوپر تھا۔ زمانے کی آنکھ نے رشک سے اس ٹیلے کو دیکھا جس پر اس کے مبارک قدم ٹکے ہوئے تھے، لوگوں نے اسے  اس  بلند  ٹیلے پر چڑھ کر ایک پیش گوئی کرتے سنا، ایک سچی پیش گوئی۔۔۔جسے دنیا نہ اس وقت جھٹلا پائی، نہ قیامت تک جھٹلا سکے گی۔
”کیا تم اس چیز کو دیکھتے ہو جس کو میں دیکھ رہا ہوں؟ میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“(صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم:۳۵۹۷)
”وہ“   وہی تھا جسے بلندی دوجہان کے خالق نے عطا کی تھی۔
  وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ   (سورہ ۹۴، الانشراح:۴)
ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا۔
اور جس نے قیامت تک کے لیے اپنے راستے پر چلنے والوں کو رفعت و معراج، کامرانی وسربلندی کا مژدۂ جانفزا سنایا تھا۔
وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ(سورہ ۳،آل عمران:۱۳۹)
تم ہی سربلند ہوگے۔
رفعت والے نبی ﷺ  کی چشمِ نبوت نے فتنوں کو بارش کے پانی کی طرح برستے دیکھا۔ اور جو ہماری  نظر سے پوشیدہ تھا، وہ  ہمیں  بتلادیا گیا۔
إِنِّي أَرَى الْفِتَنَ تَقَعُ خِلَالَ بُيُوتِكُمْ مَوَاقِعَ الْقَطْرِ
” میں وہ فتنے دیکھ رہا ہوں جو تمہارے گھروں پر اس طرح برس رہے ہیں جس طرح مینہ برستا ہے۔“
اللہ اکبر!کیسی سچی پیش گوئی ہے! پتہ نہیں اُن پیارے لوگوں کے وقت ان فتنوں کا کوئی تصور ہوگا بھی یا نہیں۔ 
پہلے زمانے میں تھیٹر ہوا کرتے تھے۔اس وقت تھیٹر دیکھنے کے لیےٹکٹ خریدنا ہوتا تھا، قطار لگانی ہوتی تھی،لیکن آج  نہ وہ تھیٹر ہے نہ تھیٹر کے باہر کی قطار ہے۔ سب کچھ جیب میں  موبائل کی صورت میں سماچکا ہے۔
اس وقت  ساری دنیا کے سامنے ظاہر تھا کہ یہ شخص آج تھیٹر دیکھ رہا ہے، چھپ نہیں سکتے، بچ نہیں سکتے، کوئی پہچان والا دیکھ سکتا تھا۔اور اب ساری دنیا بے خبر ہے...   لحاف کےاندر چھپا تھیٹر ہے، باتھ روم و بیت الخلاء کے اندر تھیٹر ہے۔
پھر اس تھیٹر میں کیا ہوتا ہوگا؟ کچھ مار دھاڑ ہوتی ہوگی۔ کچھ ایکشن ہوتا ہوگا۔ کچھ جاسوسی اور سسپنس (Suspense)ہوتا ہوگا، کچھ رومانس ہوتا ہوگا، کچھ عریانیت بھی ہوتی ہوگی۔
اور اس موبائل میں...  فحاشی اور بے حیائی کا وہ سیلاب ہے جو ساری شرم و حیا بہا کے لے جائے...   شیطان جن سے شرمانے لگے۔
 آج، خداوندِ قدوس کی عزت و جلالت کی قسم،فتنوں کو بارش کی طرح برستے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ دیکھ لو  دن بدن نت نئے فتنوں میں اضافہ ہی ہورہا ہے، کمی کہیں نہیں ہے، انصاف رسوا ہے، قانون بکاؤ ہے، انسانی زندگی کھیل تماشا ہے، ننگا ناچ ایک آرٹ ہے، عریانیت اور فحاشی ایک فیشن ہے،فضا گناہوں سے آلودہ ہے،   ہر گھر میں ناچ گانے کی آواز ہے، ، ہر سو بے حیائی کا شیطانی رقص ہے ،ہر سمت موسیقی کی جھنکارہے،ہر آن شیطان کے قہقہے ہیں۔
فتنوں کی اس  دھواں دھار بارش میں...
کچھ لوگ اکھڑ جاتے ہیں۔
کچھ لوگ فتنوں کے خلاف ثابت قدم "نظر آتے ہیں"۔
کچھ لوگ ان فتنوں کے مقابل ثابت قدم ہوتے ہیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی دو اقسام بتائی ہیں:
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرٌ وَّمِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ (سورہ ۶۴،التغابن: ۲)
وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا، پھر تم میں سے کچھ انکار کرنے والے ہیں، اور کچھ ایمان لانے والے ہیں۔
یوں مجموعی طور پر انسان دو اقسام میں بٹ جاتا ہے۔
١۔ماننے والے
٢۔ نہ ماننے والے
یہ ماننے اور نہ ماننے والے، اعمال کی بنیاد پر چار طرح کی زندگی گزارتے ہیں۔
١۔ قالب کی زندگی
قالب جسم کو کہتے ہیں ۔ ان لوگوں کی زندگی صرف اپنے جسم کے لیے ہوتی ہے۔ ان کی ساری کارکردگی کا لب لباب اپنے بدن کو لذت پہنچانا ہوتا ہے۔ چنانچہ کافر کی ساری زندگی صرف کھانا، پینا اور اپنی شہوات کو پورا کرنا، اسی کے گرد ختم ہوجاتی ہے۔ان کا اس کے سوا اور کوئی مقصد ہی نہیں ہوتا۔ ان کے بارے میں اللہ نے کہا:
اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ
وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں
بَلْ هُمْ اَضَلُّ(سورہ ۷، الاعراف:۱۷۹)
 بلکہ جانوروں سے بھی بدتر(بھٹکے ہوئے) ہیں۔
کیونکہ جانوروں کی زندگی میں بھی صرف یہی کام ہیں۔ یا تو کھائے گا، پیے گا، یا پھر جماع کرے گا۔اور یہ بھی انہیں کاموں میں مگن ہے۔
جانوروں کو عقل نہیں ہوتی، یہ سمجھ بوجھ بھی رکھتا ہے ۔چنانچہ اللہ نے آگے ترقی کر کے کہا:
 بَلْ هُمْ اَضَلُّ- یہ ظالم تو چوپایوں سے بھی بدترین ہیں کہ چوپائے گو نہ سمجھیں لیکن آواز پر کان تو کھڑے کردیتے ہیں، اشاروں پر حرکت تو کرتے ہیں، یہ تو اپنے مالک کو اتنا بھی نہیں سمجھتے۔(تفسیر ابنِ کثیر، تفسیر آیتِ مذکورہ)
٢۔ قلب کی زندگی
یہ لوگ ایمان والے ہوتے ہیں۔ اور دین کے بنیادی احکام پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ سارے کفار و مشرکین والے کام بھی انجام دیتے ہیں۔ فیشن اور ٹپ ٹاپ میں رہنا انہیں پسند ہوتا ہے۔ مغربی طرزِ زندگی سے انسیت ہوتی ہے اور انہیں کے طریقے پسند ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ
جو جس قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انہیں میں سے ہوگا۔
چنانچہ ان کے دوست احباب بھی اسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ مجالس بھی اسی طرز کی ہوتی ہیں۔ اور ان کا اٹھنا بیٹھنا اسی روش پر ہوتا ہے۔ یہ پیٹ اور مال کے پجاری ہوتے ہیں، اور صرف نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ موت سے انہیں خوف آتا ہے۔
٣۔ ایمان کی زندگی
    یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جونمازکے پابند ہوتے ہیں۔  ان کا لباس سنت کے مطابق ہوتا ہے۔ چہرہ  نبی پاک ﷺ کی سنت  یعنی داڑھی سے مزین ہوتا ہے۔دین داروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ نشست و برخاست دین داروں کے ساتھ ہوتی ہے۔  دین کی محنتیں کرتے ہیں۔  اجتماعات میں شریک ہوتے ہیں۔ دین کے کام میں دوڑ دوڑ کے حصہ لیتے ہیں۔ خوب وقت لگاتے ہیں۔ ذکر و تسبیح کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ دین کے سمجھنے اور جاننے والے ہوتے ہیں۔
    اور تو اور، دین کی بات کرتے ہیں، دعوت دیتے ہیں۔ لوگوں کو دین کے مطابق زندگی گزارنے پر ابھارتے ہیں۔ وعظ و نصیحت بھی کرتے ہیں۔ تصنیف و تالیف بھی کرتے ہیں۔
     لیکن جب انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو گناہ بھی کر بیٹھتے ہیں۔ شیطان ان کو ذرا سا پُش Push  کرے تو فوراً اس کے پیچھے چلنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔یہ لوگ جلوت میں متقی اور خلوت میں گناہ گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چھُپ کر گناہ کرتے ہیں۔لوگوں کے سامنے مولانا ہوتے ہیں۔ لوگ انہیں متقی اور پرہیزگار سمجھتے ہیں۔ علم بھی انہیں خوب ہوتا ہے۔ ان کی نیکیاں کثیر تعداد میں ہوتی ہیں۔ لیکن یہ اوپر سے لا الٰہ ہوتے ہیں اور اندر سے کالی بلا ہوتے ہیں۔یہ لوگ اس لیے گناہ سے بچتے ہیں کہ "لوگ دیکھ رہے ہیں" یعنی اللہ کے ڈر کی وجہ سے گناہوں سے نہیں بچتے، بلکہ لوگوں کے ڈر سے بچتے ہیں۔
انہیں گناہ کرنے کا احساس بھی ہوتا ہے، اور یہ گناہ سے بچنا بھی چاہتے ہیں۔ رب تعالیٰ کے سامنے روتے بھی ہیں۔ لیکن جونہی انہیں گناہ کا موقع ملتا ہے تو فوراً شیطان کے پیچھے ہولیتے ہیں۔ یعنی کلیتاً ان کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا...   ۱۰۰ گناہوں میں سے ۹۵ نہیں کرتے البتہ ۵ ضرور کرتے ہیں۔ کبھی ۹۸ نہیں کرتے لیکن ایک دو گناہ ایسے ضرور ہوتے ہیں جس میں یہ لگے رہتے ہیں۔
چنانچہ  یہ اعلانیہ طور پر تو خدا پرست ہوتے ہیں، البتہ خفیہ طور پر نفس پرست اور ہویٰ پرست ہوتے ہیں۔
بقول مرشدی پیر ذوالفقار نقشبندی دامت برکاتہم:
”یاد رکھیں!زن پرستی، زر پرستی، شہوت پرستی، نفس پرستی...  یہ سب کی سب بت پرستی ہی کی اقسام ہیں...  خدا پرستی کوئی اور چیز ہے!“
(جاری......) 
      فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ
    ٢١ نومبر،بروز سنیچر،١٠:٥٠بجے صبح

روڈ کا انقلاب…Road Revolution

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مدیر
جی ہاں! محترم پرائم منسٹر نریندر مودی صاحب ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ اُن کی شخصیت کا ایک ایک حصہ انقلابی ہے۔ اُن کا ذہن اور سوچ تو اس قدر انقلابی ہے کہ انقلاب برپا کرنے کےایسے  انقلابی طریقے صرف وہی سوچ سکتے ہیں۔
ہم نے آج تک صرف انقلاب کی باتیں سنی تھیں، یا تاریخ میں پڑھا تھا، لیکن آج دیکھ لیا کہ انقلاب کسے کہتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انقلاب بدلاؤ کو کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ انقلاب یوں آیا کہ دہلی میں ابو المظفر محی الدین محمد   اورنگ زیبؒؒ روڈ کو اے پی جے عبد الکلام روڈ  کا نام دے دیا گیا۔ایسے بدلاؤ کی باتیں ہم جیسے عام  آدمیوں کے ذہن نہیں سوچ سکتے، یہ وہی سوچ سکتے ہیں جنہوں نے یہ فیصلہ لیا ہے۔
انقلابی جو ٹھہرے...
   مرکز اور دہلی سرکار کے اشتراک سے چلنے والی این ڈی ایم سی کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں یہ فیصلہ لے لیا گیا کہ ہندوستان میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے چھٹے مغل شہنشاہ کی جگہ رحم دل اور انسان دوست سابق صدر عبد الکلام کو دے دی جائے۔ادھر یہ خوشخبری ملی، اور بے جے پی کے لیڈروں نے اس "کمال " کا سہرا اپنے سر باندھنا شروع کردیا۔ ممبر آف پارلیمنٹ مہیش گری نے فرطِ مسرت کے ساتھ کہا کہ میں نے ہی نریندر مودی جی کو اس سلسلہ میں خط لکھا تھا۔ ایک اور میڈم میناکشی لیکھی کہتی ہیں میں نے تجویز پیش کی تھی۔ عام آدمی پارٹی کے روحِ رواں اروند کیجریوال کہتے ہیں یہ ہمارا چلایا ہوا موومینٹ ہے۔
سبحان اللہ! بی جے پی زندہ باد۔ نریندر مودی زندہ باد۔
پیارے جشن منانے والو! ایک بات فقیر کی یاد رکھنا... بھیڑ کبھی تاریخ نہیں لکھ سکتی۔ تاریخ ایک ایسی ٹھوس حقیقت ہے جس پر دانت نکوسنے کے لیے پوری بی جے پی کو دانتوں تلے پسینہ بھی آجائے گا اور وہ کھٹے بھی ہوجائیں گے۔ کیونکہ اورنگ زیبؒ ایک سچائی کا نام ہے...ایک ایسی سچائی جس نے سب سے زیادہ ہندوستان پر حکومت کی...جس نے ملک کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا دیا...جس نے سلطنت کی توسیع میں ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کا حصہ شامل کیا...
    ہاں مجھے پتہ ہے یہاں کے اسکولوں کے نصاب میں  اورنگ زیبؒ کی وہی تاریخ بتائی جاتی ہے جو انگریز انہیں سکھا کر گئے تھے...الزام یہ کہ شاہجہاں کو قید کردیا تھا...الزام یہ کہ ہندوؤں سے جزیہ وصول کرتا تھا٭... الزام یہ کہ مندروں کو مسمار کیا، الزام یہ کہ سکھوں کے گرو تیغ بہادر کا سرکاٹ کر اس کے بیٹے کو تحفے میں دیا...الزام یہ کہ تعصب کی حکومت کی...
واللہ میرے پیارو! کچھ تو شرم کرو...یہ الزامات ہی سچ ہیں تو بھلا وہ پرنور چہرے والا  ،متقی ،عبادت گزار،،انصاف پسند، علماء و مشائخ کی انتہائی قدر کرنے والا کون سا  اورنگ زیبؒ تھا؟ کون اولیاء اللہ کی خدمت میں بادشاہ ہونے کے باوجود یوں حاضر ہوا کرتا تھا گویا کہ میں کچھ نہیں، میرا کچھ نہیں۔
ذرا مجھے بھی تو بتاؤ وہ کون سا  اورنگ زیبؒ تھا جو کتابت کرکے اپنی روزی کماتا تھا؟  تم نے کسی بادشاہ کو اس حال میں دیکھا ہے؟ کس دلیل پر کہتے ہو وہ ظالم تھا؟ اُس تاریخ کے بل بوتے پر جسے انگریزوں نے مرتب کیا تھا؟ تعصب کی حکومت ہوتی تو ٤٩ سال کی حکمرانی میں یہاں ایک بھی ہندو باقی رہتا؟ تاریخ کا ایک ایک حرف گواہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے نہایت عدل و انصاف سے حکومت کی ہے۔
ایک دن ایسے ہی بات چل پڑی، تو میرے بھانجے نے اس سلسلے میں کچھ گوہر افشانیاں کیں... اورنگ زیب ؒکی ساری تاریخ (جو ہمارے ہاں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے) بتانے لگا۔یہ کیا اور وہ کیا، باپ کو قید کردیا، اتنا ظلم کیا وغیرہ وغیرہ۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یار یہ تاریخ لکھنے والے مسلم نہیں، یہ وہ ہیں جو ہمیشہ ہماری تاریخ کو مسخ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ اورنگ زیبؒ کے ظلم کی داستان ساری جھوٹی ہے۔ کافی سارے حوالے اور واقعات کے باوجود وہ پس و پیش میں ہی رہا، اور اپنی کتاب میں پڑھے ہوئے سبق کو حرفِ آخر سمجھتا رہا۔
اب اس تاریخ کو پڑھنے والوں کو ہم کیسے قائل کریں کہ  وہ  اورنگ زیبؒ نہیں... اورنگ زیبؒ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
تاریخ پر ڈاکہ ڈالنے والو!وائے حیرت کہ اپنے جرم پر  جشن بھی منارہے ہو؟؟؟
تم نے تو جشن منانے  کے موقع و محل کو بھی بدل ڈالا!!!
کیوں نہ بدلتے!انقلابی جو ٹھہرے...
اچھا، ویسے یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ مسلمانوں کو بہلانے کے لیے روڈ کا نام بھی بدلا تو ایک مسلم کے نام پر، تاکہ احتجاج نہ ہو۔ ایم آئی ایم کے روحِ رواں  اسد الدین اویسی نے بھی اس پر ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے...کئی سارے قسم کے ٹائمز،  اخبارات،ای نیوز  منجملہ وکی پیڈیا پر بھی اس controversy کا اندراج ہوچکا ہے۔
لوجی۔ اگر مرحوم اے پی جی عبد الکلام کے لیے ہی کچھ کرنا تھا تو کسی نئی روڈ کا نام اُن کے نام پر رکھ دیتے...کوئی یونیورسٹی ، اسکول، کالج اُن کے نام پر شروع کرتے...کوئی فری شپ یا اسکالر شپ اپ کے نام پر شروع کرتے...لیکن نہیں! ہم تو مرحوم صدر کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے روڈ کا نام بدلیں گے...
بدلو بھائی بدلو...انقلابی جو ٹھہرے...
آج  اورنگ زیبؒ نشانہ ہے، کل اورنگ آباد کا نام بھی بدلو گے؟ تاج محل کی تاریخ بھی بدلو گے؟ لال قلعہ کا کیا کرو گے آپ؟چار مینار کی ہسڑی کہاں چھپاؤ گے؟ قطب مینار کی تاریخ کہاں دفن کروگے؟ گول گنبد کیوں چھوڑ رکھا ہے؟ فتح پور سیکری بھی تو ہے...جلدی کرو بھائی سب بدلتے چلے جاؤ...چینج کردو...بدل دو...
تم......انقلابی جو ٹھہرے...
   
فقیر شکیبؔ احمدعفی عنہٗ
بروز جمعہ،٩:٢٠بجے صبح

شکر سوہنے رب دا!

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مدیر
محل کے اطراف میں باڈی گارڈز کھڑے چوکنی نظروں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔اُن کی زیرک نظریں آن کی آن میں دشمن کو تاڑ بھی لیتی تھیں، اور دشمن کے مذموم ارادوں کا اندازہ بھی کرادیتی تھیں۔
    دور ۔۔۔۔دو مختلف سمتوں  میں دو آدمی  کھڑے تاسف سے ہاتھ مل رہے تھے۔
ان میں سے ایک کے ہاتھ میں گندگی سے بھرا ہوا ٹوکرا تھا، جس کے ذریعے اس نے محل میں داخل ہوکر  گندگی پھیلانا تھا۔ اور دوسرے  کے پاس۔۔۔نقب زنی کے آلات تھے، جن کی مدد سے وہ محل کے قیمتی ساز و سامان  غائب کرنا چاہتا تھا۔۔۔
لیکن! دونوں ہی ہاتھ مل رہے تھے۔ اُن کا متفقہ فیصلہ تھا۔۔۔کہ ان باڈی گارڈز کو چکمہ دے کر نہ تو محل میں گندگی پھیلانا ممکن ہے۔۔۔اور نہ ہی محل میں نقب لگانا ،ممکنات میں سے ہے۔
٭٭٭
دو لفظ ہیں :            ١۔ افراط     ٢۔ تفریط
انہیں دو الفاظ کے اطراف ساری کہانی گھومتی ہے۔۔۔ 
محل١؎ کی مثال دین کی ہے۔گند گی٢؎ کی مثال افراط کی ہے۔نقب زنی ٣؎کی مثال تفریط کی ہے۔
اور باڈی گارڈز٤؎ کی مثال فرقہ ناجیہ اہلِ سنت والجماعت کی ہے۔
    اب ذرا غور کرنا! فرقے دو طرح کے ہیں، باطلہ اور ضالہ۔ ان کا آسان مطلب ہے غیر مسلم اور بھٹکے ہوئے مسلم۔
فرقِ باطلہ میں کسی نے کہا  میں کسی خدا کو نہیں مانتا، خدا کا کوئی وجود نہیں، انسانی نفسیات کے  ایک گوشے کی تسکین کے لیے ایک اختراع ہے،یہ کافر کہلائے۔ کسی نے کہا میں خدا کو تو مانتا ہوں، لیکن ساتھ اِس پتھر کی مورتی کو بھی مانتا ہوں، میں ٣٣ کروڑ خداؤں کو مانتا ہوں، یہ مشرک کہلائے۔کوئی کہتا ہے میں صحابہ کو نہیں مانتا۔۔۔صحابہ سارے کافر تھے سوائے چند ایک کو چھوڑ کر(معاذ اللہ) یہ شیعہ،  رافضی کہلائے۔ کسی نے کہا میں نبی پاک ﷺ کو مانتا ہوں، کلمہ بھی انہیں کا پڑھتا ہوں، لیکن اُن کے ساتھ ایک غیر تشریعی نبی(علیہ العنۃ) کی نبوت پر بھی ایمان رکھتا ہوں ، یہ مرزائی، قادیانی کہلائے۔
     مشاہدہ آسان ہے۔اِن تمام فرق باطلہ میں دو ہی چیزیں آپ دیکھ رہے ہوں گے۔
١۔ افراط                    ٢۔ تفریط
    افراط(زیادتی) و تفریط(کمی)  کی یہی شکل فرقِ ضالہ میں بھی ہے۔ افراط کو اصطلاح میں "بدعت" اور تفریط کو "الحاد" کہتے ہیں۔  اور اِن کے درمیان کی راہِ اعتدال  کو اہلِ سنت والجماعت کہتے ہیں۔
کسی نے کہا، تراویح بیس نہیں آٹھ ہے(یہ نقب زن ہے جو بارہ رکعات تراویح کو دین میں سے چُرانا چاہتا ہے) ، کوئی کہتا ہے کہ تراویح تو بیس ہی لازمی ہے، لیکن اس کے بعد اجتماعی دعا بھی ضروری ہے(یہ گند کی ٹوکری والا ہے) ، ایک طرف نقب زن آتا ہے(غیر مقلد) ایک طرف  گند کو پھینکنے والا آتا ہے(بریلوی)،یہاں اہلِ سنت والجماعت  باڈی گارڈز بن کر کھڑے ہوگئے۔۔۔ ہم نہ بیس رکعت تراویح کو" جانے "دیں گے۔۔۔اور نہ  تراویح کے بعد کی  دعاءِ لازمی کو "آنے "دیں گے۔  
ہاں ہاں! یہی دین کے محل کے محافظ اہلِ سنت والجماعت احناف دیوبند ہیں جو پروانے کی مانند دین کی شمع سے چمٹے ہوئے ہیں۔۔۔ڈٹ کے محل کے باہر کھڑے للکارتے ہیں۔۔۔نہ دو ہاتھ کا مصافحہ "جانے"دیں گے، نہ مصافحہ کے بعد چومنے اور چاٹنے کی گند کو "آنے" دیں گے۔ نہ اللہ کے حاضر ناظر ہونے کے عقیدے کو "جانے" دیں گے، نہ نبی پاک ﷺ کے حاضر ناظر ہونے کے عقیدے کو "آنے" دیں گے۔  نہ فرض نماز کے بعد کی دعا کو "جانے" دیں گے، نہ نوافل کے بعد کی دعا کو "آنے" دیں گے۔
اُصول یہی ہے، جو مذہب حق ہوگا، تمام باطل مذاہب اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔۔۔اور جو مسلک حق ہوگا، تمام باطل مسالک اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔ زمانے کی آنکھ نے دیکھا،یہی  دیوبند ہے۔۔۔یہی دیوبند ہے۔۔۔کبھی یہود سے ٹکراتا ہے، کبھی عیسائیوں  کو للکارتا ہے، کبھی شیعہ سے بھڑتا ہے، کبھی قادیانیوں   سے بھڑتا ہے، کبھی غیرمقلدیت  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہے، اور کبھی اہلِ بدعت والحماقت (١)بریلویوں کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے۔ حق حق ہے، باطل باطل ہے۔ حق آئے گا، تو باطل مٹنا ایسے ہی یقینی ہے جیسا کہ سورج کے طلوع ہونے پر روشنی کا ملنا یقینی ہے۔ پیارا اللہ کہتا ہے:
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (سورہ نمبر ١٧، بنی اسرائیل، آیت نمبر ٨١)
اور کہو کہ : حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقینا باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔
(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی مدظلہ)
(١)  یہ لفظی  ترکیب حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب قاسمی دامت برکاتہم کے زرخیز ذہن کی اُپج ہے۔

دین کے یہ شیدائی اور متوالے، پیارے نبی ﷺ کی سنتوں کے رکھوالے ہر بدعت (افراط) و الحاد(تفریط) کو  للکارنے والے دنیا کے ہر خطے میں دین کی خدمت کر رہے ہیں۔۔۔پیارے اللہ  کا احسان کہ اُس نے اس جماعت سے ہمیں تعلق دیا ہے۔۔۔
شکر سوہنے رب دا!
نوازش پیارے اللہ کی۔۔۔
اسلاف کا پاسبان ، اہلِ سنت والجماعت کا سچا ترجمان دیوبند۔۔۔کفر و شرک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے۔۔۔بدعت و الحاد کی نظروں سے نظر ملائے۔۔۔
"سربکف "کھڑا  ہے۔۔۔۔کھڑا رہے گا۔انشاءاللہ تعالیٰ۔
اللہ حامی و ناصر ہو!

فقیرشکیب احمدعفی عنہ
٢١ جون ٢٠١٥ء،بہ روز اتوار،١١بجے صبح

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India