Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label تصوف و سلوک. Show all posts
Showing posts with label تصوف و سلوک. Show all posts

صفت احسان اور دیدار الٰہی-2


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

قاری  معاذ شاہد حفظہ اللہ
 
٤

...اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ ...

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «««« نماز مؤمن کی معراج ہے »»»» اور معراج میں تین چیزیں ہیں :
1 : قرب الہی     2: دیدار الہی    3: ہم کلامی
 حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تینوں چیزیں معراج میں نصیب ہوئیں ... قرب کی انتہاء ، دیدار بھی ، اور اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگیا ۔
     لیکن مؤمن کی معراج صفت احسان کے ساتھ ہی نصیب ہو گی۔ جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور الحمدلللہ ربّ العلمین کہتا ہے اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے حمدنی عبدی تواس طرح ہم کلام ہوگیا ... اور جب سجدہ کرتا ہے تو گویا سر رحمٰن کے قدموں میں رکھ دیاہے تو قرب بھی نصیب ہوگیا اور نماز میں مؤمن دل کی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اور اسکا دیدار کررہاہے اور الفاظ بھی مخاطب حاضر کے ،ایّاکَ نَعبُدُ٭، تیری عبادت جیسے کہ وہ آمنے سامنے ہوں گویا کہ وہ اسے دیکھ رہاہے جب یہ تینوں صفات پائی جائیں گی تو مؤمن کی معراج بنے گی اگر ان میں سے ایک چیز بھی نکل گئی ۔جیسے کانک تراہ۔ یعنی رویت کا استحضار نہ ہوا تو مؤمن کی معراج ادھوری ہو گی تو گویا صفت احسان سے خالی نماز پُھسپُھسی اور بے جان ہو گی اور اس پر وہ اثرات مرتب نہ ہوں گے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی نمازوں پر ہوتے تھے
جلد اٹھنے نہ دے سر سجدے سے میرے مولا
 اور کچھ دیر مجھے یونہی پڑا رہنے دے
ذکر میں صفت احسان
 ٭ شاہ عبدالعزیز( رحمۃ اللہ علیہ) نے فضائل ذکر میں فرمایا کہ روح کا یہ دھیان کہ اللہ دیکھ رہا ہے اسی کو استحضار کہتے ہیں اور دوامِ استحضار کا نام ہی معیت ہے ۔ع
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
٭ جب بھی ہم ذکر کرنے بیٹھیں تو اللہ تعالی کے اس قول کا استحضار کریں فَاذکُرُونِی اَذکُرکُم ...تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور اس حدیث قدسی کا دھیان رکھتے ہوئے ذکر کریں اَنا جَلِیسُ مَن ذَکَرَنِی ...۔میں اس کا ہم نشین ہوتا ہوں جو میرا ذکر(یاد) کرتا ہے
درود پاک میں صفت احسان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھتے ہوئے اس بات کا استحضار کریں کہ اے اللہ تو بھیج رحمت اور سلامتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اللہ تعالی کی رحمتیں اور سلامتیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتر رہی ہیں اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء اقدس کے ساتھ بیٹھا ہوں اور مجھ پر بھی ان کے چھینٹے پڑ رہے ہیں
 نام لیتا ہوں محمد کا زباں سے میں
رحمتیں عرش والے کی مجھ کو گھیر لیتی ہیں
 اور جو ان صفات کے ساتھ کثرت سے درود پاک پڑھے گا اللہ تعالی اسے دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور قیامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب فرمائیں گے اور جو ذکر الہی کثرت سے کرے گا اللہ تعالی اسے حلاوت ایمانی نصیب فرمائیں گے ...۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ جب میں اللہ کا نام لیتا ہوں تو میرا منہ میٹھا ہو جاتا ہے
اللہ اللہ کیسا پیارا نام ہے
عاشقوں کا مینا اور جام ھے
٥
ذکر میں پانچ چیزیں ہیں اور ان سب میں صفت احسان ضروری ہے
:::1::: اللہ تعالی کی صفات اور بڑائی کے کلمات کا ذکر ، :::2 ::: استغفار ، :::3::: تلاوت قرآن ، ::4::: درود پاک ، :::5::: ہر موقع کی دعا
     حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ نے مولانا عبد الغنی پھول پُوری کو خواب میں فرمایا کہ میں تمہیں ایسا اللہ اللہ سکھاتا ہوں جس کو سو مرتبہ پڑھو گے تو چوبیس ہزار مرتبہ پڑھنے کا اثر پیدا ہو گا پہلی بار اللہ کرو تو یہ تصور باندھو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے پھر یہ استحضار کرو کہ اب میرے جسم کا بال بال اور رُوّاں رُوّاں اللہ اللہ کر رہا ہے اس کے بعد اس چیز کا استحضار کرو کہ میرے ساتھ کائنات کی ہر ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے ریت کے زرّے ، پہاڑ ، دریا ، سمندر کی لہریں ، بارش کے قطرے ، درختوں کے پتّے ، میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، اور میرے جسم کا رُوّاں رُوّاں بھی اللہ اللہ کر رہا ہے کائنات کی ہر چیز میرے ساتھ اللہ اللہ کر رہی ہے ، اگر اس تاثر کے ساتھ اللہ کا نام ایک سو مرتبہ لیں گے تو چوبیس ہزار مرتبہ اللہ اللہ کہنے کا تاثر پیدا ہو گا
    مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو میرے بال بال سے گویا شہد کے سمندر جاری ہوجاتے ہیں اور فرمایا شکّر زیادہ میٹھی ہے کہ شکّر کو پیدا کرنے والا ، ایک اور جگہ فرمایا کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو اللہ تعالی کی طرف سے مجھے وہ لذتیں حاصل ہوتی ہیں کہ تمام دنیا کی زبانیں اس کو بیان کرنے سے عاجز آجاتی ہیں
نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا
ذکر میں تاثیرِ دورِ جام  ہے
لا الہ الا اللہ کے ذکر میں تین چیزیں ہیں اور اس میں صفت احسان ضروری ہے
1۔دل سے اللہ تعالی کے غیر کو نکالنے کا استحضار یہ استحضار کرنا ہے کہ لا الہ کہنے پر اللہ کا سارا غیر دل سے نکل رہا ہے اور دل سے نشانہ بناکر اس سے اللہ کے غیر کو باہر کھینچنا ہے اور الااللہ پر اللہ کی ذات کے دل میں آنے کا استحضار کرنا ہے
نکالو دل سے یاد حسینوں کی اے مجذوب
 خدا کے گھر پئے عشقِ بُتاں نہیں ہوتا
2۔ اس حدیث مبارک کا استحضار کرنا ہے لا الہ الا اللہ لیس لہا حجاب دون اللہ، کہ میرے اس لاالہ الااللہ اور اللہ کے درمیان میں کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہے ...۔۔ میں تو یہاں ہوں لیکن میری لاالہ الااللہ. اللہ تعالی کے عرش پر اللہ کے پاس ہے اور گویا کہ اللہ سے ملاقات کر رہی ہے میں تو فرش پر ہوں لیکن لاالہ الااللہ کے ذریعے عرش والے سے مل رہا ہوں میں تو یہاں ہوں اور میرے تذکرے عرش پر ہورہے ہیں اس حدیث قدسی کو سوچتے ہوئے کہ تم مجھے فرش پر یاد کرو میں تمہیں عرش پر یاد کروں گا
 غیر سے بالکل ہی اٹھ جائے نظر
 تو ہی تو آئے نظر دیکھوں جدھر
 3۔اس کا استحضار کہ میری لاالہ الااللہ ۔ اللہ تعالی تک پہنچ رہی ہے اور الااللہ ۔ اللہ کا. نور لیکر میرے دل کے اوپر آرہی ہے اور اس نور کے طفیل میرا دل جگمگا رہا ہے جسکو اس دعا میں ذکر فرمایا ہے ...۔
اللہمَّ جعل فی قلبی نورا ......۔ اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمائیے ۔۔ اور دل سے نکل کر وہ نور کانوں کو آنکھوں کو گوشت پوست کو ہڈیوں کو بال بال کو نورانی کر رہا ہے اور پھر وہ نور مجھے گھیر رہا ہے ... اب وہ نور میرے دائیں جانب بھی ہے بائیں جانب بھی اوپر بھی نیچے بھی اور وہ نور مجھے سراپا نور کر رہا ہے ایک مخلوق پر خالق کا نور پڑ رہا ہے ... اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سامنے رکھنا ہے اے اللہ تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اور جس سے سب کام بنتے ہیں ... اور اس بات کا تصور کرنا ہے کہ اس نور طفیل دل سے حسد کی ظلمت اور اندھیرا ،، کبر اور بڑائی کا اندھیرا ، خود پسندی اور خود رائی کا اندھیرا ، اور جملہ اعمال بد کے اندھیرے دور ہو رہے ہیں اور دل جگمگا رہا ہے اور اس کے اندر صفات آرہی ہیں قرآن مجید میں ہے: اللہُ نورُ السموٰتِ والارض ،  اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔۔ اور وہ نور میرے دل میں ارہا ہے ...جس دل میں یہ نور آجاتا ہے اس دل کے سامنے سورج کی روشنی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔۔ کیونکہ سورج مخلوق ہے اسکی روشنی بھی مخلوق ہے اللہ خالق ہے اسکا نور بھی خالق ہے سورج محدود ہے اسکی روشنی بھی محدود ہے اللہ لا محدود ہے اسکا نور بھی لا محدود ہے سورج فانی ہے اسکی روشنی بھی فانی ہے اللہ غیر فانی ہے اسکا نور بھی غیر فانی ہے سورج کی روشنی کو اس نور سے کیا نسبت ہے …
جو دل پے ہم ان کا کرم دیکھتے ہیں
 تو دل کو بے حد جامِ جَم دیکھتے ہیں

نماز میں دل لگانے کا طریقہ


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

 مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مظمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" کی تصویر ہو۔   (مدیر)


ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدہ:۵)
(اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو)
    * اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔
    * حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ (جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے)
    * ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جس کی وجہ سے نبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔
    * وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔
    * ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقتبِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

فضائل وضو
ایک حدیث پاک میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ(وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذریعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔

حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ(تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)
اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔
٭ہمیں ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی با وضو گزارو۔ ہمارے گھر کا چھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپ کو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً نیا وضو کر لیتے ہیں۔
٭حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ اپنے مریدین کو تلقین فرماتے تھے کہ ہر وقت با وضو رہنے کی مشق کریں۔ ایک مرتبہ آپ مطبخ میں تشریف لائے تو مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جا چکا تھا۔ آپ نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا 'فقیرو! ایک بات دل کے کانوں سے سنو، جو کھانا تمہارے سامنے رکھا گیا ہے۔ اسکی فصل جب کاشت کی گئ تو وضو کے ساتھ، پھر جب اسکو پانی لگایا گیا تو وضو کے ساتھ، اسکو کاٹا گیا وضو کے ساتھ، گندم کو بھوسے سے جدا کیا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر گندم کو چکی میں پیس کر آٹا بنایا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر اس آٹے کو گوندھا گیا وضو کے ساتھ، پھر اسکی روٹی پکائی گئ وضو کے ساتھ، وہ روٹی آپکے سامنے دسترخوان پر رکھی گئ وضو کے ساتھ،کاش کہ آپ لوگ اس کو وضو سے کھا لیتے۔
٭حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا۔ چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا۔ ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نے سپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا۔ درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی۔ سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کر گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا اور پروا ہی نہ کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپکے خلاف بغاوت کر دے۔ بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے۔ انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی۔ ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے۔
شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا 'حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی'۔ ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا۔

٭فقیر کو ۱۹۷۱ء میں بینائی میں کمزوری محسوس ہوئی۔ لاہور کے مشہور ای پلومر ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو کہا کہ اڑھائی نمبر شیشے کی عینک لگانی ضروری ہے ورنہ بینائی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گی۔ فقیر نے چار ماہ عینک استعمال کی۔ ایک مرتبہ وضو کیلئے بیٹھنے لگا تو عینک گری اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ فقیر نے دعا مانگی کہ یا اللہ! میں تیرے محبوب ﷺ کی مسواک والی سنت پر پابندی سے عمل کروں گا میری بینائی کو تیز فرما۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ بینائی چیک کروائی تو بالکل ٹھیک نکلی۔ تیس سال تک دوبارہ عینک لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
٭٭

معارف وضو

درج ذیل میں وضو سے متعلق چند اسرار و رموز بیان کئے جاتے ہیں۔

    * وضو کو یکسوئی اور توجہ سے کرنا اعلیٰ مرتبہ کی نماز پڑھنے کا مقدمہ ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو عادتاً غفلت سے وضو کرے مگر نماز حضوری کے ساتھ پڑھے۔ پس معلوم ہوا کہ اہتمام وضو اور حضوری نماز میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
    * مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ در حقیقت وضو انفصال عن الخلق (مخلوق سے کٹنا ہے) جبکہ نماز اتصال مع الحق (اللہ تعالیٰ سے جڑنا) ہے۔ جو شخص جس قدر مخلوق سے کٹے گا اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے جڑے گا۔ یہی مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا۔ پس لا الہ کا مقصود یہ ہے کہ مخلوق سے کٹو اور الا اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جڑو۔ ماسوی اللہ سے قلبی تعلق توڑنے کو عربی زبان میں تبتل کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً (المزمل: ۸) (اور اپنے رب کا نام پڑھے جا اور سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف سب چھوڑ کر چلا آ)
    * پانی کی خاصیت یہ ہے کہ آگ کو بھجا دیتا ہے۔ لہذا جو شخص وضو کر کے حضوری کے ساتھ نماز ادا کرے گا تو اس شخص کیلئے نماز دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائے گی۔
    * وضو میں شش جہات (چھ اطراف) سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ سے دائیں طرف۔ بائیں ہاتھ سے بائیں طرف۔ چہرہ دھونے سے آگے کی طرف۔ گردن کا مسح کرنے سے پیچھے کی طرف۔ سر کا مسح کرنے سے اوپر کی طرف اور پاؤں دھونے سے نیچے کی طرف سے پاکیزگی حاصل ہو گئ۔
    * وضو کرنے سے انسان چھ اطراف سے پاکیزہ ہو گیا۔ پس محبوب حقیقی سے ملاقات کی تیاری مکمل ہو گئ۔ جب نماز ادا کرے گا تو اسے ملاقات بھی نصیب ہو جائے گی۔ ارشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ( تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے) اسی لئے کہا گیا کہ اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤمِنِ (نماز مومن کی معراج ہے) حدیث پاک میں بتایا گیا ہے کہ آدمی جب وضو کرتا ہے تو اعضاء دھلنے کے ساتھ ہی ان سے کئے گئے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ایسا کشف نصیب ہو گیا تھا کہ وہ وضو کے پانی کے ساتھ گناہ کو جھڑتا دیکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے وضو کے مستعمل پانی کو مکروہ کہا۔ ویسے بھی نمازی کو حکم ہے کہ وضو کا پانی کپڑوں پر نہ گرنے دے۔بعض مشائخ کا معمول تھا کہ وضو کے وقت جو لباس زیب تن فرماتے تھے اسے بدل کر نماز ادا فرماتے تھے۔
    * شرع شریف میں پاکیزگی اور طہارت کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّا بِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھَّرِیْنَ (البقرہ: ۲۲۲)(بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے)
    * توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوئے تو انسان باطنی طور پر پاکیزہ ہو گیا۔ حدیث پاک میں اسی مضمون کو مثال سے سمجھایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر بہتی ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ غسل کرے تو اس کے جسم پر میل کچیل نہیں رہ سکتی۔ جو شخص پانچ مرتبہ اہتمام سے وضو کرے اور حضوری سے نماز ادا کرے اسکے دل پر سیاہی نہیں رہ سکتی۔
    * شرع شریف کا حسن و جمال دیکھئے کہ وضو میں سارا جسم دھلانے کے بجائے صرف انہی اعضاء کو دھلوانے پر اکتفا کیا گیا جو اکثر و بیشتر کام کاج میں کھلے رہتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ، پاؤں ، بازو، چہرہ وغیرہ۔ جو اعضاء کم کھلتے ہیں ان کا مسح کروایا گیا مثلاً سر اور گردن۔ جو اعضاء پردے میں رہتے ہیں انکو مستثنیٰ قرار دیا گیا مثلاً شرمگاہ وغیرہ۔
    * وضو میں جن اعضاء کو دھلوایا گیا قیامت کے دن انہی کو نورانی حالت عطا کی جائے گی۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میں امت اپنے اعضاء کی نورانیت سے پہچان لی جائے گی۔
    * وضو مین جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے قیامت کے دن ان اعضاء کو عزت و شرافت سے نوازا جائے گا۔ ہاتھوں میں حوض کوثر کا جام عطا کیا جائے گا۔ چہرے کو تروتازہ بنا دیا جائے گا جیسے فرمایا وُجُوْہٌ یَّوْ مَئِذٍ نَّاعِمَہٌ (اس دن چہرےتروتازہ ہوں گے) سر کو عرش الٰہی کا سایہ عطا کیا جائے گا۔ حدیث پاک میں آیا ہے یوم لا ظل الا ظل عرشہ ( قیامت کے دن عرش الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا) پاؤں کو پل صراط پر چلتے وقت استقامت عطا کی جائے گی۔

وضو میں چند علمی نکات
علمی نکتہ۔ ۱
وضو میں پہلے ہاتھ دھوتے ہیں، کلی کرتے ہیں، ناک میں پانی ڈالتے ہیں پھر چہرہ دھونے کی باری آتی ہے۔ اب ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کا درجہ سنت سے زیادہ ہے تو پھر پہلے چہرہ دھلواتے بعد میں دوسرے کام کرواتے۔ مگر وضو میں سنت عمل کو فرض عمل پر مقدم کیا گیا۔ آخر اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب
پانی سے اس وقت وضو کیا جا سکتا ہے جبکہ پانی پاک ہو۔ اگر پانی ہی ناپاک ہو تو وضو ہو گا ہی نہیں۔ پانی کی پاکیزگی کا اندازہ اس کی رنگت ، بو اور ذائقہ سے لگایا جاتا ہے۔ وضو کرنے ولا آدمی جب ہاتھ دھوئے گا تو اسکو پانی کی رنگت کا پتہ چل جائے گا، جب کلی کرے گا تو ذائقے کا پتہ چل جائے گا، جب ناک میں پانی ڈالے گا تو بو کا پتہ چل جائے گا۔ جب تینوں طرح سے پاکیزگی کا پتہ چل گیا تو شریعت نے چہرہ دھونے کا حکم دیا تاکہ فرض کامل صورت میں ادا ہو جائے۔
علمی نکتہ۔ ۲
وضو کے اعضاء متعین کرنے میں کیا خصوصیت ہے؟
جواب
حضرت آدمؑ سے شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی بھول ہوئی، وضو کے ذریعے اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ تاکہ انسان اپنی تمام غلطیوں سے معافی مانگ سکے۔ حضرت آدمؑ نے اپنے ہاتھوں سے شجر ممنوعہ کا پھل توڑا، آنکھوں سے دیکھا، منہ سے کھایا، پتوں کو سر لگا، پاؤں سے اسکی طرف چل کر گئے۔ وضو کرتے وقت اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ۔ تاکہ انسان اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ سبق بھی دیا گیا کہ اگر میرے حکموں کے مطابق زندگی گزارو گے تو نعمتوں میں پلتے رہو گے، جنت میں جا سکو گے، اور اگر شیطان کی پیروی کرو گے تو نعمتوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے، جنت میں داخلہ نصیب نہ ہو سکے گا۔
علمی نکتہ۔ ۳
وضو میں ہاتھ دھونے سے ابتداء کیوں کی گئ؟
جواب
تاکہ موت کے وقت مال سے ہاتھ دھونے پڑیں گے تو دل کو رنج نہ ہو۔ مزید برآں انسان کے ہاتھ ہی سب سے زیادہ مختلف جگہوں یا چیزوں سے لگتے ہیں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ہاتھوں پر مختلف بیکٹیریا اور جراثیم لگے ہوئے ہوں۔ ہاتھ پہلے دھونے سے وہ گندگی دور ہو جائے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دوسرے اعضاء کو ہاتھوں ہی کی مدد سے دھوتا ہے اگر ہاتھ ہی پاک نہ ہوں تو دوسرے اعضاء کیسے پاک ہوں گے۔ اس لئے وضو میں ہاتھ پہلے دھلوائے گئے باقی اعضاء کو بعد میں دھلوایا گیا۔
علمی نکتہ۔ ۴
وضو میں چار فرض کیوں ہیں؟
جواب
وضو میں چار فرض ہیں۔ دو اعضاء ذرائع علم میں ہیں مثلاً سر اور چہرہ، جبکہ دو اعضاء ذرائع عمل میں سے ہیں مثلاً ہاتھ اور پاؤں۔ ان چاروں کو دھونا فرض قرار دیا گیا۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ تمام سعادتوں کی بنیاد علم پر عمل کرنے میں ہے۔
علمی نکتہ۔ ۵
تیمم میں دو فرض کیوں ہیں؟
جواب
تیمم اس وقت کرتے ہیں جب پانی موجود نہ ہو یا بیماری کا عذر ہو۔ پس عذر کی حالت میں عمل میں تخفیف کی گئ، انسان پر بوجھ کم کر دیا گیا، رخصت مل گئ، عمل کرنے میں آسانی ہو گئ۔ رہی بات یہ کہ چار میں سے کون سے دو چنے گئے۔ تو ایک عضو ذرائع علم میں سے چنا گیا مثلاً چہرہ اور سر میں چہرے کو منتخب کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ سر کا تو پہلے ہی چوتھائی حصہ کا مسح کرتے ہیں جبکہ چہرہ کامل دھلوایا جاتا ہے۔ پس کامل کو ترجیح دی گئ البتہ ذرائع عمل میں سے ہاتھ اور پاؤں میں سے ہاتھوں کو چنا گیا۔ چونکہ ہاتھ پاؤں سے اعلیٰ ہیں۔ شریعت نے کامل اور اعلیٰ اعضاء کو چن لیا۔ بقیہ کا بوجھ کم کر دیا۔
علمی نکتہ۔ ۶
تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟
جواب
وضو میں پہلے ہی چوتھائی سر کا مسح کیا جاتا ہے۔ جب معافی دینی تھی تو پورے سر کا مسح معاف کر دیا گیا۔ ویسے بھی جہلا کی عادت ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت سر پر مٹی ڈالتے ہیں تو تیمم میں سر کا مسح معاف کر دیا گیا تاکہ جہلا کے عمل سے مشابہت نہ ہو۔
عملی نکتہ۔ ۷
تیمم میں ہاتھ اور چہرے کو دوسرے اعضاء پر مقدم کیوں کیا گیا؟
جواب
انسان اکثر گناہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے ذریعے کرتا ہے۔اس لئے انکا انتخاب ضروری تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن دو اعضاء پر خوف زیادہ ہو گا ۔ ایک چہرے پر کہ گنہگاروں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْ ہٌ وَّ تَسْوَ دُّ وُجُوْ ہٌ (آل عمران:۱۰۶)
(جس دن سفید ہوں گے بعض چہرے اور سیاہ ہوں گے بعض چہرے)
کفار کے چہرے کالے اور مٹی آلود ہوں گے۔
وُجُوْ ہٌ یَّوْ مَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَ ہٌ ۔ تَرْ ھَقُھَا قَتَرَ ۃٌ ۔ اُو لٰئِکَ ھُمُ الْکَفَرَ ۃُ الْفَجَرَۃ (عبس ۳۰، ۳۱، ۳۲)
(اور کتنے منہ اس دن گرد آلود ہوں گے۔ چڑھی آتی ہے ان پر سیاہی۔ یہ لوگ وہی ہیں جو منکر اور ڈھیٹ ہیں)
دوسرا پل صراط سے گزرتے ہوئے بعض لوگوں کے پاؤں کانپ رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ اِنَّ مِنْکُمْ اِلَّا وَا رِ دُھَا کَانَ عَلیٰ رَبِّکَ حَتْماً مَّقْضِیِّاً ۔ ثُمَّ نُنِجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا (مریم: ۷۱)
(اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر۔ تیرے رب پر یہ وعدہ لازم اور مقرر ہو چکا۔ بچائیں گے ہم انکو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اس میں اوندھے گرے ہوئے۔

ماخوذ از نماز کے اسرار و رموز

صفت احسان اور دیدار الٰہی

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

قاری  معاذ شاہد حفظہ اللہ
 
١
 
 
۔۔۔۔اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ ۔۔۔۔

حضرت جبرائیل علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے   ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ تو عبادت ایسے کر گویا کہ تو اللہ تعالی کو دیکھ رہا ھےاور   اگر تو اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تو تمہیں دیکھ رہا ھے۔
    یہاں پر اشکال یہ ھے ہمارا اللہ کو دیکھنا تو محال ھے پھر ہم یہ کیسے تصور کرلیں تو اسکا طریقہ کار بیان فرمایا کہ یہ تصور کرکہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ھے جب یہ تصور کرے گا تو پھر عمل.کے اعتبار سے ایسا ہی ہو جائے گا کہ تو اس کو دیکھ رہا ھے    ۔۔ جب مالک بندے کو دیکھتا ہے تو کام بڑی توجہ سے ہوتا ھے ۔۔لیکن  اگر صرف تم اسے دیکھو تو اس میں وہ بات نہیں ھے جو مالک کے دیکھنے میں ھے
بعض علماء نے اس میں دو درجے بیان فرمائے ہیں
۔۔۔1 ۔۔۔ اعلی درجہ تو یہ ھے کہ اس چیز کا تصور کرے کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ھے
۔۔۔2 ۔۔۔ اور ادنی درجہ یہ ھے کہ وہ تجھے دیکھے ۔۔
صوفیاء کرام نے ایک بہت خوبصورت بات فرمائی  فان لم تکن   کہ اگر تو اپنے آپ کو اس ذات پر فنا کردے تو  تَرَاہ تو بدلے میں تُو اسے دیکھ لے گا
۔۔۔۔،،،۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔،،،،۔۔۔۔

ہم نے لیا ہے درد دل کھوکے بہار زندگی
اِک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹا دیا

۔۔۔۔،،۔۔۔  ایک مقام مشاہدہ ہے ایک مقام مراقبہ ھے
مقام مشاہدہ یہ کہ اللہ. تجھے دیکھ رہا ھے
مقام مراقبہ یہ ھے کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ھے
    ایک بزرگ دوسرے بزرگ کے پاس بیعت ہونے کیلئے گئے تو انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کو صفت احسان حاصل ھے؟ انہوں نے جواب دیا الحمدلللہ  حاصل ھے. تو فرمایا پھر آپ کو میری بیعت کی ضرورت نہیں ھے کیونکہ بیعت کا اصل مقصد سالک کے اندر صفت احسان کو پیدا کرنا ھے ۔۔
ایک بزرگ فرمانے لگے دنیا میں تو کانک تراہ ھے یعنی  گویا کہ اسے دیکھ رہا ھے اور آخرت میں کاف ہٹا دیا جائے گا براہ راست اسے دیکھے گا  ۔۔۔۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔۔
نہیں وہ وعدہ کرتے دید کا حشر سے پہلے
دلِ مضطر کی ضد ھے کہ ابھی ہوتی یہیں ہوتی

 
٢

صفت احسان پیدا کرنے کا طریقہ  یہ ھے کہ اخلاص کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے ۔
قرآن مجید میں ارشاد ھے ۔۔ والذین جاھدو فینا لنھدینّھم سبلنا۔ ۔۔۔ جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے لئے مجاہدہ کرے گا ہم ہدایت کی راہیں اس کیلئے کھول دیں گے ۔۔
اورجو  اخلاص کے ساتھ مجاہدہ کرے گا اللہ تعالی فرماتے ہیں ہم اسے تین انعامات عطا فرمائیں گے
۔۔۔۔۔۔1 ۔۔۔۔۔۔ اس پر ہدایت کی راہیں کھول دیں گے
۔۔۔۔۔۔ 2 ۔۔۔۔۔  صفت احسان عطا فرمائیں گے
۔۔۔۔۔۔3 ۔۔۔ صفت احسان عطا فرما کر اپنی معیت نصیب فرمائیں گے ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے ۔۔۔۔۔اللہمَّ انی اَسئلکَ لذَّۃَ نظرَۃً الی وَجھک ۔۔۔۔۔۔۔
اے اللہ میں آپ سے آپ کے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں    
--------بقول شاعر -------
نگاہ عشق بے پردہ دیکھتی ھے انہیں
خِرد کیلئے ابھی حجاب عالم ھے

۔۔۔۔۔ایک شاعر یوں کہتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فانی اسی حسرت میں جیے اور مرے ہم
بے پردہ نظر آؤ کبھی دیدہ سر سے

     قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ۔۔۔اِنَّ اللہَ لَمع الُمحسِنین ۔۔۔  اس آیت میں اللہ صفت احسان والوں کے ساتھ معیت کا وعدہ فرما رہے ہیں
اور  ایک دوسری جگہ  پر ارشاد باری تعالی ہے ۔۔
اِنَّ اللہَ یحب المحسنین ۔۔ اللہ صفت احسان والوں کو پسند فرماتے ہیں ۔۔۔
یہ بھی بتا دیا کہ میں کن سے محبت کرتا ہوں کیوں کرت ہوں اور کن  کن کو پسند کرتا ہوں 
آج میرا دل کہتا ھے آؤ بڑھ کر شاعر کے اس قول پر عمل کرتے ہیں اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے ۔۔۔
  پردے ھٹے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ھے
  بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ھے سنگ در بھی ھے

 
٣
 
اس آیت میں سب عبادات کا تذکرہ ھے یہ سب عبادات کو شامل ھے  جس طرح نماز میں صفت احسان ضروری ھے اسی طرح ہر عبادت،  ،،ذکر، تلاوت ، حج ،  زکٰوۃ ، روزہ ، ، جہاد ،  میں  استحضار (صفت احسان) ضروری ھے ۔
،،، 1 ،،، نماز
حضرت حاتم اصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں تو گویا اس طرح ہوتا ہوں کہ بیت اللہ میرے سامنے ھے دائیں طرف جنت  بائیں طرف جہنم ھے اور میرے پاؤں پل صراط پر ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا یہ میری آخری نماز ھے اور نماز پڑھ کر امید اور خوف کے درمیان میں رہتا ہوں کہ نامعلوم قبول بھی ھو گی کہ نہیں
 ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب جنگ میں تیر لگا تو وہ جسم سے نماز کے دوران نکالا گیا اور ان کو خبر تک نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔  ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو نماز میں اللہ کے غیر کا خیال نہیں آتا  تو کیا خوبصورت جواب دیا کہ نہ نماز میں آتا ھے اور نہ غیر نماز میں ( یعنی دل ہروقت اللہ کی یاد میں مصروف رہتا ھے )
 ۔۔۔۔۔۔۔۔  حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ عارف کا ایک سجدہ غیر عارف کے ایک لاکھ سجدوں پر بھاری ھے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔مولانا روم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ،،،،
کہ عارف کا ایک سجدہ دو سو ملکوں کی سلطنت سے بہتر ھے۔۔
،،،،،،،شعر.  ،،،،،،،،
لیکے ذوقِ سجدۂ پیش خدا
           خوشتر از عائد ملک دو صد ترا،

اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرنے کی لذت.  دوسو ملکوں کی سلطنت سے بہتر ھے ۔
جب ہم نماز کیلئے مسجد کی طرف جائیں تو ایسے جائیں گویا کہ احرام باندھ کر  حج کو جا رہے ہیں  اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے  اپنے رب کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے دنیا سے بے خبر ہوکر جائیں ،،
ایک بزرگ جب آزان کی آواز سنتے تو فورا کھڑے ہوجاتے اور یہ کہتے ہوئے اے اللہ میں حاضر اے اللہ میں حاضر مسجد کی طرف چل پڑتے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ دنیاوی بادشاہ تو بے وقوف ہیں ملکوں کو حاصل کرنے کے لئے لشکر کشی کرتے ہیں.  اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ اسل دولت تو ہمارے پاس ھے تو ہم پر لشکر کشی کریں ،،،،،،،
،،،،،،، شعر ،،،،،،،
خدا کی یاد میں بیٹھے سب سے بے غرض ہوکر
تو پھر اپنا بوریا بھی ہمیں تخت سلیماں تھا

٭٭٭

عشقِ الہٰی کے اثرات

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مظمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" کی تصویر ہو۔   (مدیر)



    عشقِ الہٰی کی برکات اتنی زیادہ ہیں کہ جس انسان کے دل میں یہ پیدا ہوجاتی ہیں اس کو سر سے لیکر پاؤں تک منور کر دیتی ہیں۔
چہرے میں تاثر
عاشق صادق کا چہرہ عشقِ الہٰی کے انوار سے منور ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی نظریں جب اس کے چہرے پر پڑتی ہیں تو اُن کے دل کی گرہ کھل جاتی ہے۔
•    ایک مرتبہ کچھ ہندوؤں نے اسلام  قبول کیا۔ دوسرے لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے چہرے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ یہ مسلمان ہے، اس لیے ہم بھی مسلمان بن گئے ہیں۔
•    حضرت مرشد عالمؒ ایک مرتبہ حرم شریف میں تھے کہ آپ کی نظر حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کے چہرے پر پڑی۔ آپؒ نے اُن سے ملاقات کی  اور پوچھا کہ قاری صاحب، آپ نے یہ نورانی چہرہ کیسے بنایا؟انہوں نے مسکرا کے کہا"یہ میں نے نہیں ،میرے شیخ نے بنایا ہے"
حدیثِ پاک میں اللہ  والوں کی یہ پہچان بتائی گئی ہے کہ اَلَّذِیْنَ اِذَا رَاُوْ ا ذُکِرَ اللہُ (وہ لوگ جنہیں تم دیکھو تو اللہ یاد آئے) گویا اللہ والوں کے چہروں پر اتنے انوار ہوتے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِۚ[سورة الفتح,٢٩](ان کے نشانی ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے اثر سے) گویا سجدوں  کی عبادتیں چہرے پر نور بناکر سجادی جاتی ہیں۔
•    بعض صحابہ کرام  فرمایا کرتے تھےکہ جب نبی اکرم کی طبیعت بہت زیادہ  ناساز تھی اور حضرت ابوبکر  نماز کی امامت کررہے تھے تو ایک نماز کے بعد نبی اکرم ﷺ نے گھر کا دروازہ کھول کر مسجد میں دیکھا تو ہمیں  آپ کا چہرہ یوں لگا کَاَنَّہٗ وَرْقَۃُ مُصْحَفٍ (جیسے وہ قرآن کا ورق ہو) حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ فرمایا کرتے تھے  کہ جب غارِ ثور میں حضرت ابوبکر اپنی گود میں نبی اکرم ﷺ کا سرمبارک لے کر بیٹھے تھے اور ان کے چہرہ انور کو دیکھ رہے تھے تو فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے تصور میں یوں لگتا ہے  کہ اے ابوبکرتیری گود رحل کی مانند ہے اور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ انور قرآن کی مانند ہے اور اے ابوبکر  تو قاری ہے جو بیٹھا قرآن پڑھ رہا ہے۔
•    ایک مرتبہ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا کہ بایزید بسطامیؒ  کہ چہرے پر اتنا نور تھا کہ جو دیکھتا تھا اس کی گرہ کھل جاتی تھی۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا"ابوجہل نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو اس کی گرہ نہ کھلی۔۔۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بایزیدؒ بسطامی  کے چہرے کو دیکھ کرلوگوں کے دل کی گرہ کھل جاتی تھی۔حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا ارے نامعقول ! ابو جہل نے نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا ہی کب تھا؟ وہ شخص  حیران ہوکر کہنے لگا کہ دیکھا کیوں  نہیں تھا؟فرمایا ابوجہل نے محمدؐ بن عبداللہ کو دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ بھی محمد الرسول اللہ ﷺ سمجھ کر نگاہ ڈال لیتا تو ہدایت سے محروم نہ رہتا۔
•    حضرت عبداللہ بن سلام  یہود کے بڑے عالم تھے۔ نبی اکرمﷺ سے تین سوال پوچھنے کے لیے آئے مگر  چہرہ انور کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ کسی نے کہا آپ آئے تو کسی اور مقصد سے تھے، یہ  کیا ہوا؟ نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کی طرف اشارہ کرکے کہا واللہ ہذا الوجہ لیس وجہ  الکذاب (اللہ کی قسم یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا)
•    تابعین حضرات  میں سے بعض حکام نے اپنے لوگوں کو کفار کے پاس جزیہ وصوال کرنے کے لیے بھیجا تو انہوں نے انکار کردیا۔ پوچھا کہ کیا وجہ ہے ؟ ہمارے باپ دادا کو تو تم جزیہ دیتے تھے۔انہوں نے کہا ہاں! وہ لوگ آتے تھے تو ان کے کپڑے پھٹے پرانے ، ان کے بال بکھرے ہوئے، آنکھوں میں رات کی عبادتوں کی وجہ سے سرخ ڈورے پڑے ہوئے ہوتے تھے مگر چہروں پر اتنا رعب ہوتا تھا کہ ہم آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔تم میں وہ اوصاف نہیں، جاؤ! ہم تمہیں  کچھ نہیں دے سکتے۔(١)
٭٭٭
(١) ماخوذ از "عشقِ الٰہی" –پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم ص٢٣،٢٤،٢٥،تاریخِ اشاعت غیر مذکور

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India