Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label سربکف2. Show all posts
Showing posts with label سربکف2. Show all posts

منکرینِ حدیث سے چند سوالات

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
اسلام مکمل دین ہے۔
قرآن مجید رہتی دنیا تک ہمیشہ کے لیے دین اسلام کے کامل ہونے کا اعلان فرمایا ہے، چنانچہ سورہ مائدہ میں ارشاد ہے
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمھارے دین کو کامل کردیا اور میں نے تم پر اپنا انعام پورا کردیا، اور میں نے تمہارے  لیے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کرلیا، (سورہ المائدہ 5 آیت 3)
    اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ دین اسلام کامل دین ہے، ہم منکرینِ حدیث سے سوال کرتے ہیں کہ جب دین کامل ہے اور تمہارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول فعل حجت نہیں ہے( جسے حدیث کہتے ہیں) تو تم پورا دین قرآن سے ثابت کرو۔
1.قرآن مجید میں نماز کا حکم ہے، بتاؤ قرآن کی کون سی آیت میں نماز کی رکعتوں کی تعداد بتائی ہے، اور رکوع اور سجدہ میں پڑھنے کو کیا بتایا ہے، نماز میں نظر کہاں رہے، ہاتھ کہاں رہیں یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
2. اسی طرح قرآن مجید میں جگہ جگہ زکوٰۃ دینے کا ذکر ہے، زکوٰۃ کتنی فرض ہے؟ کس مال میں فرض ہے؟ کتنے کتنے دنوں یا مہینوں کے فصل سے دی جائے، درمیان میں جو مال آئے اس کی زکوٰۃ واجب ہے یا نہیں؟ یہ سب امور قرآن سے ثابت کریں۔
3.قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز کو کھڑے ہو تو ہاتھ پاؤں منہ دھو لو اور سر کا مسح کرو (سورہ المائدہ 5 آیت 6)۔ اس کو عوام و خواص سب وضو کہتے ہیں۔ اور احادیث شریفہ میں اس کا یہی نام وارد ہوا ہے۔ اس وضو کے توڑنے والی کیا چیزیں ہیں؟ اس کا جواب قرآن سے دیں۔
4. قرآن مجید میں حج و عمرہ کے پورا کرنے کا حکم ہے(سورہ بقرہ آیت  196)، حج کیسے ہوتا ہے؟ کیا کیا کام کرنے پڑتے ہیں؟ کن کن تاریخوں میں کیا عمل ہوتا ہے؟ اس کے کتنے فرائض ہیں؟ احرام کس طرح باندھا جاتا ہے؟ اس کے کیا لوازم ہیں؟کیا ممنوعات ہیں؟ یہ سب قرآن شریف سے ثابت کریں۔
5. عمرہ میں کیا کیا افعال ہیں؟ اور اس کا اتمام کس طرح ہوتا ہے؟ وہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
6. سورہ توبہ میں نمازِ جنازہ کا ذکر ہے(آیت 84) نمازِ جنازہ کس طرح پڑھی جائے؟ اس کا طریقہ ادا کیا ہے؟ یہ سب قرآن مجید سے ثابت کریں۔ نیز ساتھ ہی کفن دفن کا طریقہ بھی قرآن سے ثابت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ میت کو غسل دیا جائے یا نہیں اور اگر دیا جائے تو کس طرح دیا جائے؟ ان سب امور کے بارے میں آیاتِ قرآنیہ میں کہاں کہاں ہدایات مذکور ہیں؟
7. نکاح انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے۔ انعقادِ نکاح کس طرح ہوتا ہے؟ یہ بھی قرآن سے ثابت کریں۔
8. قرآن مجید میں دیت(خون بہا) کا ذکر ہے(سورہ  النساء آیت 92) قرآن مجید سے ثابت کریں کہ ایک جان کی دیت کتنی ہے؟ اور مختلف اعضا کی دیت کتنی ہے؟ اور مرد و عورت کی دیت میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟
9. سارق اور سارقہ(چور اور چورنی) کے ہاتھ کاٹنے کا قرآن مجید میں حکم ہے(سورہ المائدہ آیت 38)قرآن سے ثابت کریں کہ ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟(یاد رہے کہ عربی میں ید انگلیوں سے لے کر  بغل تک پورے  ہاتھ پو بولا جاتا ہے) اور کتنا مال چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے، کیا ایک چنا اور ایک لاکھ روپے چرانے کا ایک ہی حکم ہے؟ پھر اگر دوسری بار چوری کرلی تو کیا کیا جائے؟ ان سب امور کا جواب قرآن مجید سے دیں۔
10.قرآن مجید میں زانی اور زانیہ کو ماۃ جلد(سو ضرب) مارنے کا حکم دیا ہے(سورہ النور آیت 2)۔ یہ ضرب کس چیز سے ہو؟ متفرق ہو یا بیک وقت متواتر ہو؟ یہ سب قرآن سے ثابت کریں۔
    منکرینِ حدیث ان سوالات کے جوابات قرآن سے دیں اور یہ یقین ہے کہ وہ جوابات قرآن سے نہیں دے سکتے، لہذا یہ اقرار کریں کہ دین اسلام کو جو قرآن نے کامل بتایا یہ اسی طرح سے ہے۔ کہ قرآن کے ساتھ حدیث پر بھی عمل کیا جائے اور یہ بھی تسلیم کرلیں کہ قرآن مجید پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات کے بگیر عمل نہیں ہوسکتا اور یہ بھی اقرار کریں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال حجت ہیں۔
اور یہ بھی اقرار کریں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و ارشادات محفوظ ہیں۔ اگر وہ ہم تک نہ پہونچے ہوں تو  اب قرآن پر عمل ہونے کا کوئی راستہ نہیں رہتا اگر اس وقت قرآن پر عمل نہیں ہوسکتا تو قران دوامی کتاب نہ رہی(العیاذ باللہ)
    اور اگر حدیث کو حجت نہیں مانتے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف قرآن سے دین کیسے کامل ہوا؟ قرآن مجید کا اعلان ہے کہ دینِ اسلام کامل ہے اور بے شمار احکام ہیں جو قرآن میں نہیں۔ اور جو احکام قرآن میں مذکور ہیں وہ مجمل ہیں۔ بغیر تشریح اور تفسیر کے ان پر عمل نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی دشمن یہ سوال کرلے کہ قرآن کا فرمان ہے کہ دین اسلام کامل ہے لیکن اس میں تو نماز کی رکعتوں کا ذکر بھی نہیں ہے۔ اور حج کا طریقہ بھی نہیں بتایا وقوفِ عرفات کی تاریخ بھی نہیں بتائی۔ دیت کی مقدار بھی نہیں بتائی وغیرہ وغیرہ تو پھر کیسے کامل ہوا۔ اس سوال کا جواب ملحدو اور منکرو تمہارے پاس کیا ہے؟ کیا انکارِ حدیث کے گمراہانہ دعوے کی پچ میں دین اسلام کو ناقص مان لو گے؟٭

٭ بشکریہ دفاعِ اسلام بلاگ

داڑھی مونڈنا ممنوع اور داڑھی مونڈنے کی مزدوری لینا حرام

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مدیر کے قلم سے
دیوبند، (ایس این بی) داڑھی کا مونڈنا شریعت میں گناہِ کبیرہ ہے اور داڑھی مونڈنے والے حجام کی کمائی کو بھی علماءِ کرام نے ناجائز قرار دیا ہے۔ شریعت کے اس حکم کے باوجود کتنے ہی لوگ نبیﷺ کی ، اور تمام پیغمبروں کی مشترکہ سنت کو مونڈتے ہیں، اور مونڈواتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دارالعلوم چوک پر واقع فرینڈ ہیئر سیلون پر دارالعلوم دیوبند کا ایک فتویٰ فلیکس کی صورت میں چسپاں رہا، اور لوگوں کی گفتگو کا موضوع بھی بنا رہا۔ فرینڈس ہیئر سیلون کے مالک محمد ارشاد نے دارالافتاء دیوبند سے رجوع کرکے ایک فتوی طلب کیا کہ شریعت میں داڑھی مونڈنے اور مونڈانے کی کیا حیثیت ہے۔ اس کے جواب میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی وقار علی، مفتی فخر الاسلام اور مفتی زین الاسلام قاسمی کے دستخطی فتوی میں کہا گیا ہے کہ:
"داڑھی منڈوانا اور مونڈنا دونوں گناہِ کبیرہ ہیں اور معصیت و گناہ پر لی گئی اجرت ناجائز ہے۔ شیونگ خواہ مسلمان کی کی جائے یا غیر مسلم کی، دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ اس لیے شیونگ کرنے سے احتراز کرنا واجب ہے۔ حجامت کا پیشہ کرنے والے کو بھی جائز وسیلہ سے آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کرنا واجب اور ناجائز ذرائع سے احتراز کرنا لازم ہے۔ "
    اس فتویٰ کو محمد ارشاد نے اپنی دکان پر فلیکس کی شکل میں چسپاں کردیا ہے۔ یہ فتوی دن بھر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا...نوجوان اس خبر کو سوشل میڈیا  واٹس ایپ وغیرہ کے توسط سے دھڑادھڑ شیئر کرتے رہے۔
٭٭٭

عید الضحیٰ پر گائے کی قربانی؟

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مدیر کے قلم سے 

(ایجنسی) ہند میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ایک مسئلہ اس عید قرباں پر یہ آکھڑا ہوا تھا کہ آیا ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 'گئو ماتا' کی قربانی کی جائے یا نہیں؟ واضح رہے کہ گائے کی قربانی، اور گوشت و کھال کے کاروبار پر ہند کی ریاستوں میں پابندی عائد ہے۔ گائے کا مسئلہ ہمیشہ سے متنازع فیہ رہا ہے، کیونکہ ملک میں بسنے والے ہندو بھائیوں کے عقائد کے مطابق گائے اُن کی ماں ہے، بھگوان ہے، اور بعض کے مطابق ہندوؤں کے ٣٣کروڑ بھگوان گائے کے سر سے دُم تک جمع ہیں۔٭
 
٭ اِس پر عاجز نے ایک دوست سے پوچھا بھی تھا، کہ جب سارے بھگوان اسی میں یکجا ہیں تو سب کو چھوڑ کر اسی کو کیوں نہیں پوجتے؟(مدیر)

ملک کے حالات کے پیشِ نظر، اور امنِ سلامتی کی فضا کوبرقرار رکھنے کی خاطر تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے متفقہ فیصلہ دیاکہ اس سال گائے کی قربانی نہ کی جائے، اور اس کی جگہ بھینس اور بکروں کو قربان کیا جائے۔ دارالعلوم دیوبند کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تمام مکاتبِ فکر کے علماء نے عوام کو یہی مشورہ دیا۔ علماء کے مطابق نبی پاک ﷺ سے کوئی فضیلت ثابت نہیں کہ گائے ہی کی قربانی کی جائے، چنانچہ ہمیں غیر مسلم بھائیوں میں دعوت کے پیغام کو پہنچانے کے لیے دیگر جانور قربان کرنے چاہئیں۔ اور ان شاء اللہ گائے کی بڑھتی ہوئی تعداد کچھ ہی عرصے میں اُنہیں یہ پابندی ہٹانے پر مجبور کردے گی۔
    علماء کے اس بروقت اور کارآمد فیصلے سے ملک میں سلامتی کی فضا بھی قائم رہی اور کوئی پولیس و کچہری کا معاملہ بھی پیش نہ آیا۔ بعض لوگوں نے گائیں بھی قربان کیں، ان لوگوں کے متعلق سادہ دل عوام یہ بھی کہتی سنائی دی کہ اِن کی قربانی نہیں ہوگی۔ علماء نے واضح کیا کہ شریعت نہیں بدلی، صرف ہم نے ایک فیصلہ حالات کو دیکھ کر دیا ہے، البتہ اگر گائے کو قربان کرنے والوں کے سبب کوئی حادثہ خدانخواستہ امتِ مسلمہ کو پیش آتا ہے تو اس کا گناہ اسی شخص کو جائے گا۔
ملک میں امن اور سلامتی کی فضا تاحال قائم ہے۔

فکریے

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
ابنِ غوری، حیدر آباد، ہند
رمضان:
    چاند نظر آتے ہی مسلمان  -ما شاء اللہ -مساجد میں یدخلون فی دین اللہ افواجا کی مجسم تصویر پیش کرتے ہیں، لیکن پھر چاند نظر آتے ہی وہ - معاذ اللہ مساجد سے یخرجون من دین اللہ افواجا اور کالعرجون القدیم کی طرح نظروں سے دور ہوجاتے ہیں۔
    کیا یہی  طریقہ ہے (دارین میں) عزت یابی کا؟

بے ریش صوفی:
"وہ اپنے مختصر سفر میں اپنا ٹفن ساتھ رکھتے تھے۔"
پھر تو، وہ کوئی پہنچے ہوئے بزرگ ہوں گے؟
جی نہیں، وہ تھے سلطنتِ آصفیہ دکن کے دیوان سالار جنگ اول (تراب علی خاں)

جعلی کام:
جعلی نوٹ کتنی ہی بڑی رقم کا کیوں نہ ہو، اس کا نفع بالکل وقتی/ غیر یقینی ہوتا ہے۔ جب وہ حکومت کی نظر میں آجائے تو نوٹ ساز مجرم قرار دیا جاتا ہے۔
    اسی طرح غیر مسنون عمل/بدعت خواہ وہ کتنی ہی دلکش اور مفید معلوم ہو، اللہ کے نزدیک اس کے حامل مجرم ہی ہوں گے۔

دو چیزیں:
    سیاست میں اخلاقیات............اچھی بات!
    اخلاق میں سیاسیات............۔بری بات!

مدینہ -مدینہ:
    تاج دارِ مدینہ کانفرنسیں ......۔بہت ہوتی رہتی ہیں! ماشاءاللہ
لیکن ان کے شرکاء میں "تابع دارِ تاج دارِ مدینہ" کتنے ہوتے ہیں؟ انا للہ

Cell: 9392460130

جماعت والے لوگوں کو کیسے گمراہ کرتے ہیں؟؟؟

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

 محسن اقبال حفظہ اللہ
عجیب لوگ ہیں یہ تبلیغی جماعت والے بھی، جہاں دیکھو وہاں پہنچے ہوتے ہیں۔۔لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور کفریہ اور شرکیہ عقائد کی تعلیم دیتے ہیں...
نجانے کتنے لوگوں کو انہوں نے گمراہ کر دیا ہے۔ قران، حدیث تو مانتے نہیں بس ایک کتاب فضائل اعمال اٹھائی ہوتی ہے اوراس کتاب سے کچھ احادیث ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعات اور کچھ پرانے بزرگوں کے واقعات بیان کرتے ہیں...
فضائل اعمال تو ضعیف احادیث سے بھری پڑی ہے اور ضعیف حدیث تو قبول کرنے کے لائق نہیں اور جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے واقعات ہیں تو ان کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔۔ بس صرف قران اور حدیث کو ہی ماننا چائیے...۔یہ سب واقعات تو شرک ہیں۔
ان تبلیغیوں کے گمراہ کرنے کے طریقے بھی بہت عجیب ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے لڑکے کرکٹ ، یا فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں اور یہ اوپر سے آکر اپنی تبلیغ شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نماز پڑھو ، مسجد میں آؤ ،۔۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ کرکٹ یا فٹبال کھیلنا ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے ذیادہ اہم ہے...
انہوں نے تو بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے۔

اچھا بھلا جنید جمشید گانے گاتا تھا،اور بہت مشہور تھا، پکا مسلمان تھا۔۔ اب دیکھو! ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر داڑھی بھی رکھ لی، گانا بھی چھوڑ دیا اور ان تو نعتیں پڑھتا ہے،، مکمل گمراہ اور مشرک ہو گیا ہے۔۔
اسی طرح سعید انور تھا، جب تک کرکٹ کھیلتا تھا تب تک اس کا کتنا نام تھا اور تب وہ پکا مسلمان بھی تھا لیکن ان تبلیغی جماعت والوں کے ساتھ مل کر اس نے بھی داڑھی رکھ لی اور نماز پڑھنا شروع کر دی،اور دوسرے کرکٹرز کو بھی نمازوں پہ لگا دیا، خود تو گمراہ ہوا لیکن دوسرے کئی کرکٹرز جیسا کہ شاہد آفریدی،انضمام الحق وٖغیرہ کو بھی تبلیغی جماعت کے ساتھ مل کر مشرک اور گمراہ بنا دیا۔۔

ارے یہ سب تو پہلے مسلمان تھے اور تبلیغی جماعت کے ساتھ ملکر گمراہ اور مشرک ہوئے لیکن محمد یوسف کو دیکھو!،وہ عیسائی تھا پھر تبلیغی جماعت کی کوششوں سے مسلمان ہوا لیکن کیا فائدہ ۔۔ ہے وہ ابھی بھی گمراہ اور مشرک۔۔ تو اس کو عیسائیت چھوڑنے کا کیا فائدہ جب وہ مسلمان ہو کے بھی گمراہ ہوا۔ تبلیغی جماعت والوں نے اس کو مشرک بنا دیا ۔

ان جیسے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہیں جنہوں نے تبلیغی جماعت کی وجہ سےداڑھی رکھی، نماز شروع کی، برا کام چھوڑے لیکن پھر بھی وہ گمراہ ہیں کیونکہ تبلیغ والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں...

یاد آیا! ہم سچے مسلمان ہیں، قرآن و حدیث کو ماننے والے۔۔ہمارا کام لوگوں کو قرآن،حدیث کی طرف لانا ہےاور اور فضائل اعمال جیسی ضعیف کتاب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور بزرگوں کے واقعات سے نجات دلانا ہے۔


ہمارا کام بے نمازیوں کو نماز پڑھوانا نہیں بلکہ جو نماز پڑھتے ہیں ان کو بتانا ہے کہ تم لوگوں کی نماز قران حدیث والی نہیں ہے۔کیونکہ تم نے رفع یدین نہیں کیا،،تماری نماز مکمل نہیں کیونکہ تم نے اونچی آمین نہیں کہی،،تمہاری نماز نبی کریم ﷺ جیسی نماز نہیں کیونکہ تم نے سینے پہ ہاتھ نہیں باندھے...

لوگوں کو قران و حدیث سمجھانے کے لئے ہم لوگوں کو اپنے علماء کی کتابیں دیتے ہیں۔ ان کتابوں میں اگر ضعیف احادیث آ جائیں تو ہم ان کو نہیں مانتے... اگر ہمارے کسی عالم کا یا بزرگ کا کوئی ایسا واقعہ آ جائے جیسے واقعات فضائل اعمال میں ہیں تو ان سب کو ہم نہیں مانتے کیونکہ ہمارے علماء سے غلطی بھی تو ہو سکتی ہے۔۔اللہ ہمارے علماء کی غلطیوں کو معاف کرے لیکن یہ معافی صرف ہمارے علماء کے لئے ہے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں ،تبلیغی جماعت کی کتاب میں جو واقعات ہیں وہ شرکیہ ہیں کیونکہ تبلیغی جماعت والے گمراہ ہیں۔

اصل میں ہم اپنے علماء کی کتابوں کو ہی نہیں مانتے کیونکہ ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں لیکن قران و حدیث سمجھنے کے لئے ہم اپنے انہی علماء کی کتابیں ہی پڑھتے ہیں کیونکہ ان کے بغیر ہمیں قران و حدیث سمجھ نہیں آتا۔
تو ہمارے علماء کی جو کتابیں ہیں ہم ان سے قران و حدیث سمجھتے ہیں لیکن ہم ان کو مانتے نہیں اور ان کے واقعات پہ ہم شرک کا فتوی بھی نہیں لگا سکتے کیونکہ وہ ہمارے علماء ہیں...

بس صرف اتنا یاد رکھیں کہ تبلیغی جماعت والے مشرک اور گمراہ ہیں اور اگر ہمارے علماء کی کتابوں میں ایسی کوئی بات آ جائے جیسی فضائل اعمال میں ہے تو ہمارے علماء گمراہ اور مشرک نہیں کیونکہ ہم ان کو نہیں مانتے ہم صرف قران و حدیث کو مانتے ہیں۔


دوستو! یہ اوپر ایک جھلک ہے تبلیغی جماعت کے ان مخالفین کی سوچ اور نظریات کی جن کا دعوی ہے کہ وہ صرف قران و حدیث پہ عمل کرتے ہیں اور تبلیغی جماعت والے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں...۔۔
شکریہ
غلامِ خاتم النبیین ﷺ
محسن اقبال

صفت احسان اور دیدار الٰہی-2


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

قاری  معاذ شاہد حفظہ اللہ
 
٤

...اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ ...

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «««« نماز مؤمن کی معراج ہے »»»» اور معراج میں تین چیزیں ہیں :
1 : قرب الہی     2: دیدار الہی    3: ہم کلامی
 حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تینوں چیزیں معراج میں نصیب ہوئیں ... قرب کی انتہاء ، دیدار بھی ، اور اللہ تعالی سے ہم کلام ہونے کا شرف بھی حاصل ہوگیا ۔
     لیکن مؤمن کی معراج صفت احسان کے ساتھ ہی نصیب ہو گی۔ جب آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور الحمدلللہ ربّ العلمین کہتا ہے اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے حمدنی عبدی تواس طرح ہم کلام ہوگیا ... اور جب سجدہ کرتا ہے تو گویا سر رحمٰن کے قدموں میں رکھ دیاہے تو قرب بھی نصیب ہوگیا اور نماز میں مؤمن دل کی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اور اسکا دیدار کررہاہے اور الفاظ بھی مخاطب حاضر کے ،ایّاکَ نَعبُدُ٭، تیری عبادت جیسے کہ وہ آمنے سامنے ہوں گویا کہ وہ اسے دیکھ رہاہے جب یہ تینوں صفات پائی جائیں گی تو مؤمن کی معراج بنے گی اگر ان میں سے ایک چیز بھی نکل گئی ۔جیسے کانک تراہ۔ یعنی رویت کا استحضار نہ ہوا تو مؤمن کی معراج ادھوری ہو گی تو گویا صفت احسان سے خالی نماز پُھسپُھسی اور بے جان ہو گی اور اس پر وہ اثرات مرتب نہ ہوں گے جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی نمازوں پر ہوتے تھے
جلد اٹھنے نہ دے سر سجدے سے میرے مولا
 اور کچھ دیر مجھے یونہی پڑا رہنے دے
ذکر میں صفت احسان
 ٭ شاہ عبدالعزیز( رحمۃ اللہ علیہ) نے فضائل ذکر میں فرمایا کہ روح کا یہ دھیان کہ اللہ دیکھ رہا ہے اسی کو استحضار کہتے ہیں اور دوامِ استحضار کا نام ہی معیت ہے ۔ع
جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے
٭ جب بھی ہم ذکر کرنے بیٹھیں تو اللہ تعالی کے اس قول کا استحضار کریں فَاذکُرُونِی اَذکُرکُم ...تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور اس حدیث قدسی کا دھیان رکھتے ہوئے ذکر کریں اَنا جَلِیسُ مَن ذَکَرَنِی ...۔میں اس کا ہم نشین ہوتا ہوں جو میرا ذکر(یاد) کرتا ہے
درود پاک میں صفت احسان
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھتے ہوئے اس بات کا استحضار کریں کہ اے اللہ تو بھیج رحمت اور سلامتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اللہ تعالی کی رحمتیں اور سلامتیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتر رہی ہیں اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہء اقدس کے ساتھ بیٹھا ہوں اور مجھ پر بھی ان کے چھینٹے پڑ رہے ہیں
 نام لیتا ہوں محمد کا زباں سے میں
رحمتیں عرش والے کی مجھ کو گھیر لیتی ہیں
 اور جو ان صفات کے ساتھ کثرت سے درود پاک پڑھے گا اللہ تعالی اسے دنیا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت اور قیامت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب نصیب فرمائیں گے اور جو ذکر الہی کثرت سے کرے گا اللہ تعالی اسے حلاوت ایمانی نصیب فرمائیں گے ...۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ جب میں اللہ کا نام لیتا ہوں تو میرا منہ میٹھا ہو جاتا ہے
اللہ اللہ کیسا پیارا نام ہے
عاشقوں کا مینا اور جام ھے
٥
ذکر میں پانچ چیزیں ہیں اور ان سب میں صفت احسان ضروری ہے
:::1::: اللہ تعالی کی صفات اور بڑائی کے کلمات کا ذکر ، :::2 ::: استغفار ، :::3::: تلاوت قرآن ، ::4::: درود پاک ، :::5::: ہر موقع کی دعا
     حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ نے مولانا عبد الغنی پھول پُوری کو خواب میں فرمایا کہ میں تمہیں ایسا اللہ اللہ سکھاتا ہوں جس کو سو مرتبہ پڑھو گے تو چوبیس ہزار مرتبہ پڑھنے کا اثر پیدا ہو گا پہلی بار اللہ کرو تو یہ تصور باندھو کہ میرا دل اللہ اللہ کر رہا ہے پھر یہ استحضار کرو کہ اب میرے جسم کا بال بال اور رُوّاں رُوّاں اللہ اللہ کر رہا ہے اس کے بعد اس چیز کا استحضار کرو کہ میرے ساتھ کائنات کی ہر ہر چیز اللہ اللہ کر رہی ہے ریت کے زرّے ، پہاڑ ، دریا ، سمندر کی لہریں ، بارش کے قطرے ، درختوں کے پتّے ، میرا دل بھی اللہ اللہ کر رہا ہے، اور میرے جسم کا رُوّاں رُوّاں بھی اللہ اللہ کر رہا ہے کائنات کی ہر چیز میرے ساتھ اللہ اللہ کر رہی ہے ، اگر اس تاثر کے ساتھ اللہ کا نام ایک سو مرتبہ لیں گے تو چوبیس ہزار مرتبہ اللہ اللہ کہنے کا تاثر پیدا ہو گا
    مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو میرے بال بال سے گویا شہد کے سمندر جاری ہوجاتے ہیں اور فرمایا شکّر زیادہ میٹھی ہے کہ شکّر کو پیدا کرنے والا ، ایک اور جگہ فرمایا کہ جب میں اللہ اللہ کرتا ہوں تو اللہ تعالی کی طرف سے مجھے وہ لذتیں حاصل ہوتی ہیں کہ تمام دنیا کی زبانیں اس کو بیان کرنے سے عاجز آجاتی ہیں
نام لیتے ہی نشہ سا چھا گیا
ذکر میں تاثیرِ دورِ جام  ہے
لا الہ الا اللہ کے ذکر میں تین چیزیں ہیں اور اس میں صفت احسان ضروری ہے
1۔دل سے اللہ تعالی کے غیر کو نکالنے کا استحضار یہ استحضار کرنا ہے کہ لا الہ کہنے پر اللہ کا سارا غیر دل سے نکل رہا ہے اور دل سے نشانہ بناکر اس سے اللہ کے غیر کو باہر کھینچنا ہے اور الااللہ پر اللہ کی ذات کے دل میں آنے کا استحضار کرنا ہے
نکالو دل سے یاد حسینوں کی اے مجذوب
 خدا کے گھر پئے عشقِ بُتاں نہیں ہوتا
2۔ اس حدیث مبارک کا استحضار کرنا ہے لا الہ الا اللہ لیس لہا حجاب دون اللہ، کہ میرے اس لاالہ الااللہ اور اللہ کے درمیان میں کوئی حجاب اور پردہ نہیں ہے ...۔۔ میں تو یہاں ہوں لیکن میری لاالہ الااللہ. اللہ تعالی کے عرش پر اللہ کے پاس ہے اور گویا کہ اللہ سے ملاقات کر رہی ہے میں تو فرش پر ہوں لیکن لاالہ الااللہ کے ذریعے عرش والے سے مل رہا ہوں میں تو یہاں ہوں اور میرے تذکرے عرش پر ہورہے ہیں اس حدیث قدسی کو سوچتے ہوئے کہ تم مجھے فرش پر یاد کرو میں تمہیں عرش پر یاد کروں گا
 غیر سے بالکل ہی اٹھ جائے نظر
 تو ہی تو آئے نظر دیکھوں جدھر
 3۔اس کا استحضار کہ میری لاالہ الااللہ ۔ اللہ تعالی تک پہنچ رہی ہے اور الااللہ ۔ اللہ کا. نور لیکر میرے دل کے اوپر آرہی ہے اور اس نور کے طفیل میرا دل جگمگا رہا ہے جسکو اس دعا میں ذکر فرمایا ہے ...۔
اللہمَّ جعل فی قلبی نورا ......۔ اے اللہ میرے دل میں نور پیدا فرمائیے ۔۔ اور دل سے نکل کر وہ نور کانوں کو آنکھوں کو گوشت پوست کو ہڈیوں کو بال بال کو نورانی کر رہا ہے اور پھر وہ نور مجھے گھیر رہا ہے ... اب وہ نور میرے دائیں جانب بھی ہے بائیں جانب بھی اوپر بھی نیچے بھی اور وہ نور مجھے سراپا نور کر رہا ہے ایک مخلوق پر خالق کا نور پڑ رہا ہے ... اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کو سامنے رکھنا ہے اے اللہ تیرے چہرے کے اس نور کے طفیل جس سے تمام اندھیریاں روشن ہو گئیں اور جس سے سب کام بنتے ہیں ... اور اس بات کا تصور کرنا ہے کہ اس نور طفیل دل سے حسد کی ظلمت اور اندھیرا ،، کبر اور بڑائی کا اندھیرا ، خود پسندی اور خود رائی کا اندھیرا ، اور جملہ اعمال بد کے اندھیرے دور ہو رہے ہیں اور دل جگمگا رہا ہے اور اس کے اندر صفات آرہی ہیں قرآن مجید میں ہے: اللہُ نورُ السموٰتِ والارض ،  اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔۔ اور وہ نور میرے دل میں ارہا ہے ...جس دل میں یہ نور آجاتا ہے اس دل کے سامنے سورج کی روشنی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ۔۔ کیونکہ سورج مخلوق ہے اسکی روشنی بھی مخلوق ہے اللہ خالق ہے اسکا نور بھی خالق ہے سورج محدود ہے اسکی روشنی بھی محدود ہے اللہ لا محدود ہے اسکا نور بھی لا محدود ہے سورج فانی ہے اسکی روشنی بھی فانی ہے اللہ غیر فانی ہے اسکا نور بھی غیر فانی ہے سورج کی روشنی کو اس نور سے کیا نسبت ہے …
جو دل پے ہم ان کا کرم دیکھتے ہیں
 تو دل کو بے حد جامِ جَم دیکھتے ہیں

نماز میں دل لگانے کا طریقہ


"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015

 مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مظمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" کی تصویر ہو۔   (مدیر)


ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
یَا اَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْ ھَکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُؤُو سِکُمْ وَ ارْ جُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ (سورۃ المائدہ:۵)
(اے ایمان والو ! جب تم نماز کی طرف قیام کا ارادہ کرو تو تم اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو، اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو اور اپنے سر کا مسح کر لو)
    * اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز سے پہلے وضو کرنا لازمی ہے۔
    * حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ الصلوٰۃ مفاتیح الجنۃ و مفاتیح الصلوٰۃ الطھور۔ (جنت کی کنجیاں نماز ہیں اور نماز کی کنجی وضو ہے)
    * ایک حدیث پاک میں ہے کہ وضو کے اعضاء قیامت کے دن روشن ہوں گے جس کی وجہ سے نبی علیہ السلام اپنے امتی کو پہچان لیں گے۔
    * وضو کرنے والے کے سر پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر ہوتی ہے۔ جب وہ دنیا کی باتیں کرتا ہے تو چادر ہٹ جاتی ہے۔
    * ایک روایت میں ہے کہ جو شخص وضو شروع کرتے وقتبِسْمِ اللہِ الْعَظِیْمِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ عَلیٰ دِیْنِ الْاِسْلَامِ پڑھے اور وضو کے اختتام پر کلمہ شہادت پڑھے اسکے پچھلے سب گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

فضائل وضو
ایک حدیث پاک میں آیا ہے اَلْوُ ضُوْءُ سَلَّاحُ الْمُؤمِنِ(وضو مومن کا اسلحہ ہے) جس طرح ایک انسان اسلحے کے ذریعے اپنے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح مومن وضو کے ذریعے شیطانی حملوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ امام غزالیؒ فرمایا کرتے تھے کہ تم اپنے قلبی احوال پر نظر ڈالو تمہیں وضو سے پہلے اور وضو کے بعد کی حالت میں واضح فرق نظر آئے گا۔ ہمارے مشائخ اپنی زندگی با وضو گزارنے کا اہتمام فرماتے تھے۔

حدیث پاک میں ہے اَنْتُمْ تَمُوْ تُوْ نَ کَمَا تَعِیْشُوْنَ(تم جس طرح زندگی گزارو گے تمہیں اسی طرح موت آئے گی)
اس حدیث پاک سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جو شخص اپنی زندگی با وضو گزارنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالیٰ اسے با وضو موت عطا فرمائیں گے۔
٭ہمیں ایک مرتبہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ انکی کوٹھی ایک نئی کالونی میں بن رہی تھی۔ مغرب کا وقت شروع ہوا تو انہوں نے گھرکے دالان میں نماز ادا کرنے کے لئے صفیں بچھا دیں۔ انکے گھر کے صحن میں پانچ سات چھوٹے بڑے بچے کھیل رہے تھے۔ جب اقامت ہوئی تو کھیلنے والے بچے دوڑتے ہوئے آئے اور نماز میں شریک ہو گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ وضو بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تو انکے والد نے بتایا کہ ہم نے اپنے بزرگوں سے یہ بات سیکھی ہے کہ اپنی زندگی با وضو گزارو۔ ہمارے گھر کا چھوٹا بڑا کوئی بھی فرد جب بھی آپ کو ملے گا با وضو ہو گا۔ جب بھی وضو ٹوٹتا ہے فوراً نیا وضو کر لیتے ہیں۔
٭حضرت خواجہ فضل علی قریشیؒ اپنے مریدین کو تلقین فرماتے تھے کہ ہر وقت با وضو رہنے کی مشق کریں۔ ایک مرتبہ آپ مطبخ میں تشریف لائے تو مہمانوں کے سامنے دستر خوان بچھایا جا چکا تھا۔ آپ نے سب کو مخاطب کر کے فرمایا 'فقیرو! ایک بات دل کے کانوں سے سنو، جو کھانا تمہارے سامنے رکھا گیا ہے۔ اسکی فصل جب کاشت کی گئ تو وضو کے ساتھ، پھر جب اسکو پانی لگایا گیا تو وضو کے ساتھ، اسکو کاٹا گیا وضو کے ساتھ، گندم کو بھوسے سے جدا کیا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر گندم کو چکی میں پیس کر آٹا بنایا گیا تو وضو کے ساتھ، پھر اس آٹے کو گوندھا گیا وضو کے ساتھ، پھر اسکی روٹی پکائی گئ وضو کے ساتھ، وہ روٹی آپکے سامنے دسترخوان پر رکھی گئ وضو کے ساتھ،کاش کہ آپ لوگ اس کو وضو سے کھا لیتے۔
٭حضرت ملاں جیون سے وقت کے بادشاہ نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کھری کھری سنا دیں۔ بادشاہ کو بہت غصہ آیا لیکن وقتی طور پر برداشت کر گیا۔ چند دن کے بعد اس نے ایک سپاہی کے ہاتھ کوئی پیغام بھیجا۔ ملاں جیون اس وقت حدیث شریف کا درس دے رہے تھے۔ انہوں نے سپاہی کے آنے کی پروا تک نہ کی اور درس حدیث جاری رکھا۔ درس کے اختتام پر سپاہی کی بات سنی۔ سپاہی اپنے دل میں پیچ و تاب کھاتا رہا کہ میں بادشاہ کا قاصد تھا اور ملاں جیون نے تو مجھے گھاس تک نہ ڈالی۔ چنانچہ اس نے واپس جا کر بادشاہ کو خوب اشتعال دلایا کہ میں ملاں جیون کے پاس آپ کا قاصد بن کر گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھڑا کیے رکھا اور پروا ہی نہ کی۔ مجھے لگتا ہے کہ اس کو اپنے شاگردوں کی کثرت پر بڑا ناز ہے ایسا نہ ہو کہ یہ کسی دن آپکے خلاف بغاوت کر دے۔ بادشاہ نے ملاں جیون کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا۔ بادشاہ کے بیٹے ملاں جیون کے شاگرد تھے۔ انہوں نے یہ بات سنی تو اپنے استاد کو بتا دی۔ ملاں جیون نے یہ سن کر وضو کیا اور تسبیح لے کر مصلٰے پر بیٹھ گئے کہ اگر بادشاہ کی طرف سے سپاہی آئیں گے تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر معاملہ پیش کریں گے۔
شہزادے نے یہ صورت حال دیکھی تو بادشاہ کو جا کر بتایا کہ ملاں جیون نے وضو کر لیا اور وہ مصلےٰ پر دعا کرنے کیلئے بیٹھ گئے ہیں۔ بادشاہ کے سر پر اس وقت تاج نہ تھا وہ ننگے سر ، ننگے پاؤں دوڑا اور ملاں جیون کے پاس آ کر معافی مانگی اور کہنے لگا 'حضرت ! اگر آپ کے ہاتھ اٹھ گئے تو میری آئندہ نسل تباہ ہو جائے گی'۔ ملاں جیون نے اسے معاف کر دیا۔

٭فقیر کو ۱۹۷۱ء میں بینائی میں کمزوری محسوس ہوئی۔ لاہور کے مشہور ای پلومر ڈاکٹر صاحب نے چیک کیا تو کہا کہ اڑھائی نمبر شیشے کی عینک لگانی ضروری ہے ورنہ بینائی کمزور سے کمزور تر ہو جائے گی۔ فقیر نے چار ماہ عینک استعمال کی۔ ایک مرتبہ وضو کیلئے بیٹھنے لگا تو عینک گری اور شیشہ ٹوٹ گیا۔ فقیر نے دعا مانگی کہ یا اللہ! میں تیرے محبوب ﷺ کی مسواک والی سنت پر پابندی سے عمل کروں گا میری بینائی کو تیز فرما۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ بینائی چیک کروائی تو بالکل ٹھیک نکلی۔ تیس سال تک دوبارہ عینک لگانے کی ضرورت پیش نہ آئی۔
٭٭

معارف وضو

درج ذیل میں وضو سے متعلق چند اسرار و رموز بیان کئے جاتے ہیں۔

    * وضو کو یکسوئی اور توجہ سے کرنا اعلیٰ مرتبہ کی نماز پڑھنے کا مقدمہ ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہو سکتا جو عادتاً غفلت سے وضو کرے مگر نماز حضوری کے ساتھ پڑھے۔ پس معلوم ہوا کہ اہتمام وضو اور حضوری نماز میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
    * مشائخ کرام فرماتے ہیں کہ در حقیقت وضو انفصال عن الخلق (مخلوق سے کٹنا ہے) جبکہ نماز اتصال مع الحق (اللہ تعالیٰ سے جڑنا) ہے۔ جو شخص جس قدر مخلوق سے کٹے گا اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ سے جڑے گا۔ یہی مطلب ہے لا الہ الا اللہ کا۔ پس لا الہ کا مقصود یہ ہے کہ مخلوق سے کٹو اور الا اللہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جڑو۔ ماسوی اللہ سے قلبی تعلق توڑنے کو عربی زبان میں تبتل کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً (المزمل: ۸) (اور اپنے رب کا نام پڑھے جا اور سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف سب چھوڑ کر چلا آ)
    * پانی کی خاصیت یہ ہے کہ آگ کو بھجا دیتا ہے۔ لہذا جو شخص وضو کر کے حضوری کے ساتھ نماز ادا کرے گا تو اس شخص کیلئے نماز دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائے گی۔
    * وضو میں شش جہات (چھ اطراف) سے پاکیزگی حاصل کی جاتی ہے۔ دائیں ہاتھ سے دائیں طرف۔ بائیں ہاتھ سے بائیں طرف۔ چہرہ دھونے سے آگے کی طرف۔ گردن کا مسح کرنے سے پیچھے کی طرف۔ سر کا مسح کرنے سے اوپر کی طرف اور پاؤں دھونے سے نیچے کی طرف سے پاکیزگی حاصل ہو گئ۔
    * وضو کرنے سے انسان چھ اطراف سے پاکیزہ ہو گیا۔ پس محبوب حقیقی سے ملاقات کی تیاری مکمل ہو گئ۔ جب نماز ادا کرے گا تو اسے ملاقات بھی نصیب ہو جائے گی۔ ارشاد فرمایا اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَ نَّکَ تَرَاہُ( تو اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کر جیسے اسے دیکھ رہا ہے) اسی لئے کہا گیا کہ اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤمِنِ (نماز مومن کی معراج ہے) حدیث پاک میں بتایا گیا ہے کہ آدمی جب وضو کرتا ہے تو اعضاء دھلنے کے ساتھ ہی ان سے کئے گئے گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہؒ کو ایسا کشف نصیب ہو گیا تھا کہ وہ وضو کے پانی کے ساتھ گناہ کو جھڑتا دیکھتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے وضو کے مستعمل پانی کو مکروہ کہا۔ ویسے بھی نمازی کو حکم ہے کہ وضو کا پانی کپڑوں پر نہ گرنے دے۔بعض مشائخ کا معمول تھا کہ وضو کے وقت جو لباس زیب تن فرماتے تھے اسے بدل کر نماز ادا فرماتے تھے۔
    * شرع شریف میں پاکیزگی اور طہارت کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔اِنَّ اللہَ یُحِبُّ التَّوَّا بِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھَّرِیْنَ (البقرہ: ۲۲۲)(بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے اور پاکیزہ رہنے والوں سے محبت کرتا ہے)
    * توبہ کرنے سے گناہ معاف ہوئے تو انسان باطنی طور پر پاکیزہ ہو گیا۔ حدیث پاک میں اسی مضمون کو مثال سے سمجھایا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے گھر کے سامنے نہر بہتی ہو اور وہ دن میں پانچ مرتبہ غسل کرے تو اس کے جسم پر میل کچیل نہیں رہ سکتی۔ جو شخص پانچ مرتبہ اہتمام سے وضو کرے اور حضوری سے نماز ادا کرے اسکے دل پر سیاہی نہیں رہ سکتی۔
    * شرع شریف کا حسن و جمال دیکھئے کہ وضو میں سارا جسم دھلانے کے بجائے صرف انہی اعضاء کو دھلوانے پر اکتفا کیا گیا جو اکثر و بیشتر کام کاج میں کھلے رہتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ، پاؤں ، بازو، چہرہ وغیرہ۔ جو اعضاء کم کھلتے ہیں ان کا مسح کروایا گیا مثلاً سر اور گردن۔ جو اعضاء پردے میں رہتے ہیں انکو مستثنیٰ قرار دیا گیا مثلاً شرمگاہ وغیرہ۔
    * وضو میں جن اعضاء کو دھلوایا گیا قیامت کے دن انہی کو نورانی حالت عطا کی جائے گی۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میں امت اپنے اعضاء کی نورانیت سے پہچان لی جائے گی۔
    * وضو مین جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے قیامت کے دن ان اعضاء کو عزت و شرافت سے نوازا جائے گا۔ ہاتھوں میں حوض کوثر کا جام عطا کیا جائے گا۔ چہرے کو تروتازہ بنا دیا جائے گا جیسے فرمایا وُجُوْہٌ یَّوْ مَئِذٍ نَّاعِمَہٌ (اس دن چہرےتروتازہ ہوں گے) سر کو عرش الٰہی کا سایہ عطا کیا جائے گا۔ حدیث پاک میں آیا ہے یوم لا ظل الا ظل عرشہ ( قیامت کے دن عرش الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا) پاؤں کو پل صراط پر چلتے وقت استقامت عطا کی جائے گی۔

وضو میں چند علمی نکات
علمی نکتہ۔ ۱
وضو میں پہلے ہاتھ دھوتے ہیں، کلی کرتے ہیں، ناک میں پانی ڈالتے ہیں پھر چہرہ دھونے کی باری آتی ہے۔ اب ایک طالب علم کے ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرض کا درجہ سنت سے زیادہ ہے تو پھر پہلے چہرہ دھلواتے بعد میں دوسرے کام کرواتے۔ مگر وضو میں سنت عمل کو فرض عمل پر مقدم کیا گیا۔ آخر اس کی کیا حکمت ہے؟
جواب
پانی سے اس وقت وضو کیا جا سکتا ہے جبکہ پانی پاک ہو۔ اگر پانی ہی ناپاک ہو تو وضو ہو گا ہی نہیں۔ پانی کی پاکیزگی کا اندازہ اس کی رنگت ، بو اور ذائقہ سے لگایا جاتا ہے۔ وضو کرنے ولا آدمی جب ہاتھ دھوئے گا تو اسکو پانی کی رنگت کا پتہ چل جائے گا، جب کلی کرے گا تو ذائقے کا پتہ چل جائے گا، جب ناک میں پانی ڈالے گا تو بو کا پتہ چل جائے گا۔ جب تینوں طرح سے پاکیزگی کا پتہ چل گیا تو شریعت نے چہرہ دھونے کا حکم دیا تاکہ فرض کامل صورت میں ادا ہو جائے۔
علمی نکتہ۔ ۲
وضو کے اعضاء متعین کرنے میں کیا خصوصیت ہے؟
جواب
حضرت آدمؑ سے شجر ممنوعہ کا پھل کھانے کی بھول ہوئی، وضو کے ذریعے اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ تاکہ انسان اپنی تمام غلطیوں سے معافی مانگ سکے۔ حضرت آدمؑ نے اپنے ہاتھوں سے شجر ممنوعہ کا پھل توڑا، آنکھوں سے دیکھا، منہ سے کھایا، پتوں کو سر لگا، پاؤں سے اسکی طرف چل کر گئے۔ وضو کرتے وقت اس بھول کی یاد دہانی کروائی گئ۔ تاکہ انسان اپنے پچھلے گناہوں سے توبہ کرے اور آئندہ گناہوں سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ سبق بھی دیا گیا کہ اگر میرے حکموں کے مطابق زندگی گزارو گے تو نعمتوں میں پلتے رہو گے، جنت میں جا سکو گے، اور اگر شیطان کی پیروی کرو گے تو نعمتوں سے محروم کر دیئے جاؤ گے، جنت میں داخلہ نصیب نہ ہو سکے گا۔
علمی نکتہ۔ ۳
وضو میں ہاتھ دھونے سے ابتداء کیوں کی گئ؟
جواب
تاکہ موت کے وقت مال سے ہاتھ دھونے پڑیں گے تو دل کو رنج نہ ہو۔ مزید برآں انسان کے ہاتھ ہی سب سے زیادہ مختلف جگہوں یا چیزوں سے لگتے ہیں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ہاتھوں پر مختلف بیکٹیریا اور جراثیم لگے ہوئے ہوں۔ ہاتھ پہلے دھونے سے وہ گندگی دور ہو جائے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان دوسرے اعضاء کو ہاتھوں ہی کی مدد سے دھوتا ہے اگر ہاتھ ہی پاک نہ ہوں تو دوسرے اعضاء کیسے پاک ہوں گے۔ اس لئے وضو میں ہاتھ پہلے دھلوائے گئے باقی اعضاء کو بعد میں دھلوایا گیا۔
علمی نکتہ۔ ۴
وضو میں چار فرض کیوں ہیں؟
جواب
وضو میں چار فرض ہیں۔ دو اعضاء ذرائع علم میں ہیں مثلاً سر اور چہرہ، جبکہ دو اعضاء ذرائع عمل میں سے ہیں مثلاً ہاتھ اور پاؤں۔ ان چاروں کو دھونا فرض قرار دیا گیا۔ گویا یہ طے شدہ بات ہے کہ تمام سعادتوں کی بنیاد علم پر عمل کرنے میں ہے۔
علمی نکتہ۔ ۵
تیمم میں دو فرض کیوں ہیں؟
جواب
تیمم اس وقت کرتے ہیں جب پانی موجود نہ ہو یا بیماری کا عذر ہو۔ پس عذر کی حالت میں عمل میں تخفیف کی گئ، انسان پر بوجھ کم کر دیا گیا، رخصت مل گئ، عمل کرنے میں آسانی ہو گئ۔ رہی بات یہ کہ چار میں سے کون سے دو چنے گئے۔ تو ایک عضو ذرائع علم میں سے چنا گیا مثلاً چہرہ اور سر میں چہرے کو منتخب کیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ سر کا تو پہلے ہی چوتھائی حصہ کا مسح کرتے ہیں جبکہ چہرہ کامل دھلوایا جاتا ہے۔ پس کامل کو ترجیح دی گئ البتہ ذرائع عمل میں سے ہاتھ اور پاؤں میں سے ہاتھوں کو چنا گیا۔ چونکہ ہاتھ پاؤں سے اعلیٰ ہیں۔ شریعت نے کامل اور اعلیٰ اعضاء کو چن لیا۔ بقیہ کا بوجھ کم کر دیا۔
علمی نکتہ۔ ۶
تیمم میں سر کو کیوں نہ چنا گیا؟
جواب
وضو میں پہلے ہی چوتھائی سر کا مسح کیا جاتا ہے۔ جب معافی دینی تھی تو پورے سر کا مسح معاف کر دیا گیا۔ ویسے بھی جہلا کی عادت ہوتی ہے کہ مصیبت کے وقت سر پر مٹی ڈالتے ہیں تو تیمم میں سر کا مسح معاف کر دیا گیا تاکہ جہلا کے عمل سے مشابہت نہ ہو۔
عملی نکتہ۔ ۷
تیمم میں ہاتھ اور چہرے کو دوسرے اعضاء پر مقدم کیوں کیا گیا؟
جواب
انسان اکثر گناہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کے ذریعے کرتا ہے۔اس لئے انکا انتخاب ضروری تھا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن دو اعضاء پر خوف زیادہ ہو گا ۔ ایک چہرے پر کہ گنہگاروں کے چہرے سیاہ ہوں گے۔
یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْ ہٌ وَّ تَسْوَ دُّ وُجُوْ ہٌ (آل عمران:۱۰۶)
(جس دن سفید ہوں گے بعض چہرے اور سیاہ ہوں گے بعض چہرے)
کفار کے چہرے کالے اور مٹی آلود ہوں گے۔
وُجُوْ ہٌ یَّوْ مَئِذٍ عَلَیْھَا غَبَرَ ہٌ ۔ تَرْ ھَقُھَا قَتَرَ ۃٌ ۔ اُو لٰئِکَ ھُمُ الْکَفَرَ ۃُ الْفَجَرَۃ (عبس ۳۰، ۳۱، ۳۲)
(اور کتنے منہ اس دن گرد آلود ہوں گے۔ چڑھی آتی ہے ان پر سیاہی۔ یہ لوگ وہی ہیں جو منکر اور ڈھیٹ ہیں)
دوسرا پل صراط سے گزرتے ہوئے بعض لوگوں کے پاؤں کانپ رہے ہوں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ اِنَّ مِنْکُمْ اِلَّا وَا رِ دُھَا کَانَ عَلیٰ رَبِّکَ حَتْماً مَّقْضِیِّاً ۔ ثُمَّ نُنِجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظّٰلِمِیْنَ فِیْھَا جِثِیًّا (مریم: ۷۱)
(اور کوئی نہیں تم میں جو نہ پہنچے گا اس پر۔ تیرے رب پر یہ وعدہ لازم اور مقرر ہو چکا۔ بچائیں گے ہم انکو جو ڈرتے رہے اور چھوڑ دیں گے گنہگاروں کو اس میں اوندھے گرے ہوئے۔

ماخوذ از نماز کے اسرار و رموز

کیا علمائے اہلسنت دیوبند انگریز کے خیر خواہ تھے؟؟

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
مولانا ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ


اعتراض نمبر۱:
مکالمۃ الصدرین ص۷ میں ہے کہ جمعیت علماء اسلام حکومت کی مالی امداد اور اس کی ایماء پر قائم ہوئی۔
جواب: بریلوی حضرات کا یہ دعوی سرے سے باطل ہے۔
(اولا): اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند کتاب نہیں اگر اس کتاب میں درج شدہ باتیں واقعۃ کوئی مکالمہ تھا تواس پر فریقین کے سربراہوں کے دستخط ہونے چاہئے تھے۔جب کہ اس پر نہ تو حضرت مولانا مدنی ؒ کے دستخط ہیں اور نہ حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کے۔اصل حقیقت اس کی فقط اتنی ہے کہ نظریہ قومیت کے اختلاف کے دنوں میں جمعیۃ علماٗ ھند کے ارکان کا ایک وفد حضرت شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی صاحب ؒ کی تیمارداری کیلئے ان کے مکان پر حاضر ہوا۔اس ملاقات میں چند ایک اختلافی مسائل بھی زیر بحث آئے۔ارکان جمعیہ اور حضرت علامہ ؒ کے سوا اس مجلس میں کوئی اور شخص موجود نہ تھا ۔جمعیۃ علمائے ہند کے مخالفین کو جب اس ملاقات کا علم ہوا تو ان بزرگوں کا آپس میں مل بیٹھنا سخت ناگوار گزرا۔چنانچہ ان مخالفین نے بتوسط مولوی محمد طاہر صاحب حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب ؒ کی شخصیت کو استعمال کرکے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ ان بزرگوں کو دوبارہ آپس میں مل بیٹھنے کا موقع ہی نہ مل سکے۔مولوی محمد طاہر صاحب نے کچھ باتیں تو حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ سے حاصل کیں اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے ملا کر مکالمۃ الصدرین کے نام سے رسال طبع کرادیا۔اس رسالہ کے غیر مستند ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کے مرتب یعنی مولوی محمد طاہر بزرگوں کی اس ملاقات میں سرے سے شریک ہی نہیں تھے چنانچہ حضرت مدنی ؒ فرماتے ہیں کہ:
مگر خود غرض چالاک لوگوں نے نہ معلوم مولانا (عثمانی)کو کیا سمجھایا اور کس قسم کا پروپگینڈا کیا کہ کچھ عرصہ بعد یہ رسالہ مکالمۃ الصدرین شائع کردیا گیا۔جس میں نہ فریقین کے دستخط ہیں نہ فریق ثانی (اراکین جمعیہ)کو کوئی خبر دی گئی نہ ان میں سے کسی سے تصدیق کرائی گئی۔خود مولانا موصوف کے دستخط بھی نہیں بلکہ مولوی محمد طاہر صاحب کے دستخط ہیں جو اثنائے گفتگو میں موجود تک نہ تھے(کشف حقیقت ص ۸)
ارکان جمعیۃ کو جب اس رسالہ کی اشاعت کا علم ہوا تو عوام کے بے حد اصرار پر حضرت مولانا مدنی ؒ نے ۱۳۶۵ ؁ ھ بمطابق ۱۹۴۶ ؁ء میں کشف حقیقت کے نام سے اس کا جواب لکھاجو دلی پریس پرنٹنگ سے طبع ہوا(یہ کتاب آپ کو ہماری سائٹ اہلحق٭ پر بریلویوں کے رد میں کتابوں کے سیکشن میں مل جائے گی)جن میں انھوں نے اس بات کی صراحت فرمائی کہ رسالہ مذکورہ اس کے مرتب کے ذہن کی اختراع ہے جسے غلط طور پر علامہ عثمانی ؒ کی طرف منسوب کردیا گیا ہے چنانچہ حضرت علامہ مدنی ؒ فرماتے ہیں کہ :
مکالمہ مذکورہ مولوی محمد طاہر صاحب ہی کا اثر خامہ اور ان ہی کے فہم و خیالات کا نتیجہ ہے۔اور ہماری باہمی گفتگو کو صرف ان خیالات و افکار کا حیلہ بنایا گیا ہے اور اسی لئے یہ حقیقت سے دور اور کذب و افتراء کا مجموعہ ہے۔(کشف حقیقت ص ۹)
نیز فرماتے ہیں کہ اگر واقع میں یہ تمام تحریر مولانا شبیر احمد عثمانی کی مصدقہ تھی تو مولانا نے اس پر دستخط کیوں نہ فرمائے ؟اور اگر اس میں صداقت اور واقعیت تھی تو قبل اشاعت جمعیت کو دکھایا کیوں نہیں گیا۔(کشف حقیقت ص ۱۰)
یعنی حضرت علامہ عثمانی ؒ کا اس پر دستخط نہ کرنا ہی اس چیز کی دلیل ہے کہ یہ رسالہ ان کا مصدقہ نہیں بلکہ مخالفین نے ان بزرگوں کے درمیان مزید بعد پیدا کرنے کیلئے اس کی نسبت حجرت علامہ عثمانی ؒ کی طرف کردی۔چنانچہ حضرت مولانا مدنی ؒ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :
چونکہ اس (مکالمۃ الصدرین)کی نسبت علامہ مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی کی طرف کی گئی ہے اس لئے اس سے لوگوں کو بہت سے شبہات اور خلجانات پیدا ہوئے اور وہ ہماری طرف رجوع ہوئے۔دیکھنے سے معلوم ہوا کہ بلاشبہ اس میں اکذیب اور غلط بیانیاں ہیں کہ جن کو دیکھ کر ہماری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی اور بغیر افسوس اور انا للہ و انا الیہ رجعون پڑھنے کے اور کوئی چارہ کار نظر نہ آیا(ایضا ص ۴)
ان حقائق سے صاف طاہر ہے کہ مکالمۃ الصدرین کوئی مستند اور مصدقہ کتاب نہیں یہ ایک غیر مستند کتاب ہے تو اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی سرے سے غلط ہے میری تمام بریلوی حضرات سے گزارش ہے کہ خود کشف حقیقت کا مطالعہ کریں جو ہماری سائٹ سے فری میں ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں انشاء اللہ آپ پر تاریخ کے کئی مخفی راز عیاں ہونگے۔
ثانیا: یہ بات مولانا حفظ الرحمن صاحب سے نقل کی گئی مکالمۃ الصدرین میں اور مولانا نے خود ان تمام باتوں کی تردید کی ہے کشف حقیقت میں اس تردید کی تفصیل موجود ہے جس میں سے کچھ عبارتیں ہم آئیندہ پیش کریں گے ۔پس جب کتاب غیر مستند اس کی راوی کی تردید موجود تو ایسے حوالے سے استدلال کرنا سوائے دل ماؤف٭ کو تسکین دینا نہیں تو اور کیا ہے۔
ثالثا: خود مکالمۃ الصدرین کے آگے والے صفحہ میں یہ عبارت موجود ہے کہ انگریز کی طرف سے یہ نوٹ لکھاگیا کہ
ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئیندہ کیلئے امداد بند ہوگئی۔(مکالمۃ الصدرین،ص۸)
پس اگر جمعیت علمائے اسلام انگریز حکومت کی حمایت یافتہ تھی اور اس کی پشت پناہی حاصل تھی تو انگریز نے یہ حمایت اور یہ امداد بند کیوں کردی ۔۔ ؟؟؟اور کیوں یہ کہا کہ ایسے انجمنوں پر پیسہ لگانا فضول ہے۔
اس سے آپ حضرات ’’سابقہ دیوبندی کلین شیو‘‘ خلیل رانا صاحب کے دجل و فریب کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
باقی رہا جمعیت علمائے ہند کا انگریز کے خلاف جدوجہد تو الحمد للہ اس پر اب تک پوری پوری کتابیں لکھی جاچکی ہیں اس جماعت کو ایسے اکابرین بھی ملے جنھوں نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگیاں جیلوں میں گزار دیں میں یہاں صرف ایک حوالہ پیش کرتا ہوں:
جمعیت علمائے ہند کے ۱۹۲۰ کے اجلاس میں جو حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں ہوا انگریز کے خلاف یہ فتوی صادر کیا گیا:
مسلمانوں کیلئے ایسی ملازمت جس میں دشمنان اسلام (انگریز)کی اعانت و امداد ہو اور اپنے بھائیوں کو قتل کرنا پڑے قطعا حرام ہیں۔
اس فتوے پر چار سو چوہتر علماء نے دستخط کئے اور اسی فتوے کے بعدتحریک ترک موالات شروع ہوئی ۱۹۲۱ میں جمعیت کا یہ فتوی ضبط کرلیا گیا مگر جمعیت نے قانون شکنی کرکے بار بار اس کو شائع کیا ۔اور اسی تحریک میں حضرت شیخ الہندرحمۃ اللہ علیہ اور مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ ’’اسیر مالٹا‘‘ ہوئے ۔ غور فرمائیں انگریز کی روٹیوں پر پلنے والے اس طرح ہوتے ہیں؟؟۔اگر یہ لوگ بھی انگریز کی جوتیاں چاٹنے والے ہوتے تو جیلیں آباد کرنے کے بجائے احمد رضاخان کی طرح ساری زندگی ’’بریلی ‘‘ کے ایک حجرے میں بیٹھ کر ہر اس تحریک پر کفر کا فتوی لگاتے جو انگریز کی مخالفت پر کمر بستہ ہو۔

اعتراض نمبر۲:
تبلیغی جماعت کو بھی ابتداء میں حاجی رشید احمد کے ذریعہ حکومت سے کچھ روپیہ ملتا۔مکالمۃ الصدرین،ص۸۔
جواب:اس سے بھی فریق مخاف کو کوئی فائدہ نہیں
اولا: اس لئے کہ مکالمۃ الصدرین کی حقیقت پہلے بیان ہوچکی ہے وہ غیر معتبر کتاب ہے لہٰذا اس پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی درست نہیں ۔
ثانیا: یہ روایت بھی مولانا حفظ الرحمن کے حوالے سے ہے اور مولانا نے خود اس کی پرزور تردید کی ہے:
چنانچہ کشف حقیقت ص۴۲ میں یہ عنوان ہے مولانا حفظ الرحمن صاحب کا بیان اور پھر ص۴۴ میں مکالمۃ الصدرین کے حوالے سے لکھا کہ مولانا حفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولا نا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد صاحب کچھ روپیہ ملتا تھا پھر بند ہوگیا مکالمۃ الصدرین اس کا جواب حضرت حفظ الرحمن سیوہاروی ؒ ناظم جمعیۃ علماء ہند یہ دیتے ہیں :
وکفی باللہ شھیدااس کا ایک ایک حرف افتراء اور بہتان ہے میں نے ہر گز ہر گز یہ کلمات نہیں کہے اور نہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تبلیغی تحریک کے متعلق یہ بات کہی گئی ہے سبحانک ھذا بہتان عظیم۔بلکہ مرتب صاحب (مولوی محمد طاہر مسلم لیگی)نے اپنی روانی طبع سے اس کو گھڑ کر اس لئے میری جانب منسوب کرنا ضروری سمجھاکہ اس کے ذریعہ سے حضرت مولانا الیاس صاحب کی تحریک سے والہا نہ شغف رکھنے والے ان مخلصوں کو بھی جمعیۃ علماء ہند سے برہم اور متنفر کرنے کی ناکام سعی کریں جو جمعیۃ علماء ہند کے اکابر و رفقاء کار کے ساتھ بھی مخلصانہ عقیدت اور تعلق رکھتے ہیں اب یہ قارئین کرام کا اپنا فرض ہے کہ وہ اس تحریر کو صحیح قرار دیں جس کی بنیاد شرعی اور اختلافی احساسات کو نظر انداز کرکے محض جھوٹے پروپگینڈے پرقائم کی گئی ہے یا اس سلسلہ میں میری گزارش اور تردید پر یقین فرمائیں البتہ میں مرتب صاحب کی اس بے جا جسارت کے متعلق اس سے اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہوں والی اللہ المشتکی واللہ بصیر بالعباد۔انتھی بلفظہ کشف حقیقت ص۴۴،۴۵۔
ایسی واضح اور صریح تردید کی موجودگی میں تبلیغی جماعت کو سرکار برطانیہ کا ہمدرد اور نمک خوار ثابت کرنا کہاں کاانصاف و دیانت ہے ؟سچ کہا
نور خدا ہے کفر کی حرکت پر خندہ زن
 پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
ثالثا: اس لئے کہ فریق مخالف نے عبارت نقل کرنے میں بھی دجل سے کام لیا ہے اور پوری عبارت نقل نہیں کی جواس طرح ہے کہ :
اس ضمن میں مولاناحفظ الرحمن صاحب نے کہا کہ مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو بھی ابتداء حکومت کی جانب سے بذریعہ حاجی رشید احمد کچھ روپیہ ملتا تھا۔پھر بند ہوگیا۔ص۸۔
خلیل رانا صاحب نے اپنے اعلحضرت اور دیگر اکابر کا روایتی طریقہ واردات اختیار کرتے ہوئے آخری خط کشیدہ جملہ حذف کردیا ہے یہ جملہ باقی رہتا اور حذف نہ کیا جاتا تو ہر قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتا کہ:
(۱) اگر تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال ہورہی تھی تو یہ روپیہ بند کیوں کردیا گیا؟اس روپیہ کا بند ہوجانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت گورنمنٹ کے مقاصد کیلئے استعمال نہ ہوسکی اور انگریز کواس کی توقع بھی نہ تھی ورنہ رقم کبھی بند نہ ہوتی رقم کابند ہوجانا اور بند کردینا ہی اس کی روشن دلیل ہے کہ تبلیغی جماعت انگریز کیلئے آلہ کار نہیں بنی اور بفضلہ تعالی پہلے سے اب جماعت تمام دنیا میں زیادہ عروج پر ہے اور ان ملکوں اور علاقوں میں بھی کام کررہی ہے جو انگریزوں کے سخت مخالف ہے۔
(۲) انگریز کچھ لوگوں اور بعض انجمنوں کواپنے جال میں پھنسانے کیلئے ابتداء کچھ رقمیں دیا کرتا تھا پھر بند کردیں۔۔چنانچہ مذکورہ بالا عبارت سے متصل ہی یہ عبارت بھی مذکور ہے کہ (ایک سرکاری ہندو افسر نے)گورنمنٹ کو نوٹ لکھا جس میں دکھلایا گیا کہ ایسے لوگوں یا انجمنوں پر حکومت کا روپیہ صرف کرنا بالکل بے کار ہے اس پر آئیندہ کیلئے امداد بند ہوگئی۔
اس سرکاری افسر کے بیان سے بالکل عیا ں ہوگیا کہ جن لوگوں اور انجمنوں کو جال میں پھنسانے کیلئے انگریز کچھ رقمیں دیا کرتا تھا وہ بند کردی گئی تھیں کیونکہ ان میں رقمیں صرف کرنا بالکل بے کار تھا اس لئے کہ ان سے انگریز کے حامی ہونے کی قطعا کوئی توقع نہ تھی ۔جو بزبان حال یوں گویا ہے
ہزار دام سے نکلاہوں کہ ایک جنبش سے
 جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے
الفضل ما شھدت بہ الاعداء
تبلیغی جماعت کے متعلق بریلویوں کے روحانی پیشوا نظام الدین مرولوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
تبلیغی جماعت کی کوششیں بے حد مخلصانہ ہیں لیکن اس کے نتائج خاطر خواہ برآمد نہیں ہورہے ہیں۔(ھو المعظم،ص۷۲)
اس کے نتائج خاطر خواہ کیسے ظاہر ہوں (بقول نظام الدین مرولوی صاحب کے) جبکہ بریلوی حضرات کی طرف سے اس کی مخالفت کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں ان کے بستروں کو مسجدوں سے باہر پھینک دیا جاتا ہے خودتو کبھی گھروں سے نکلنے کی توفیق نہ ہو اور تبلیغی جماعت جنھوں نے لاکھوں انگریزوں کو مسلمان کیا پر انگریز کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جائے ان کووہابی کہہ کر بدنام کیا جائے۔
اعتراض نمبر ۳:
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو ۶۰۰ روپے انگریز سے ملتے تھے ملاحظۃ مکالمۃ الصدرین اس امر کی تردید خود حضرت تھانوی صاحب بھی نہ کرسکے ملاحظہ ہوالاضافات الیومیہ ص ۶۹ ج۶۔
جواب:یہ حوالہ بھی فریق مخالف کیلئے سود مند نہیں اس لئے کہ
(اولا) مکالمۃ الصدرین کی حقیقت واضح کی جاچکی ہے ایسی غیر مستند کتاب پر کسی دعوے کی بنیاد رکھنا ہی جہالت ہے۔
(ثانیا): اگر بالفرض اس مکالمہ کو مصدقہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی بریلوی حضرات کا یہ دعوی کے مکالمہ الصدرین میں تسلیم کیا گیا ہے کہ مولانا تھانوی ؒ انگریز سے چھ سو روپے ماہوار لیا کرتے تھے سراسر دجل اور صریح افتراء ہے کیونکہ مکالمہ میں حضرت علامہ عثمانی ؒ کی اصل عبارت اس طرح منقول ہے فرماتے ہیں کہ:
عام دستور ہے کہ جب کوئی شخص کسی سیاسی جماعت یا تحریک کا مخالف ہو تو اس قسم کی باتیں اس کے حق میں مشتہر کی جاتی ہیں۔دیکھئے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ ہمارے اور آپ کے مسلم بزرگ پیشوا تھے۔ان کے متعلق بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ ان کو چھ سو روپے ماہوار حکومت کی جانب سے دئے جاتے تھے۔(مکالمۃ الصدرین ص ۹)
اس عبارت میں حضرت عثمانی ؒ صاف لفظوں میں اس الزام کو مخالفین کا سیاسی پروپگینڈا قرار دے رہے ہیں لیکن بریلوی حضرات کا دجل ملاحظہ فرمائیں کہ وہ پوری عبارت نقل کرنے کے بجائے صفحہ کو ایک مخصوص جگہ سے کاٹ کر پیش کرتے ہیں۔فالی اللہ المشتکی۔
(ثالثا): اگر مکالمہ کے حوالے بالفرض سے اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے۔کیونکہ خود حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے اس الزام کی تردید موجود ہے ۔چنانچہ جب حکیم الامت ؒ کو جب اس الزام کا علم ہوا تو بڑا حکیمانہ جواب دیافرمایا:
اگر چھ سو روپے گورنمنٹ سے پاتا ہوں تو طمع ہے خوف نہیں اور اگر طمع کا یہ عالم ہے تو تم نو سو روپے دے کر اپنے موافق کرلو۔اگر قبول کرلوں تو صحیح وگرنہ غلط۔(الاضافات الیومیہ ص ۶۹۸ ج ۴،بحوالہ مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک آزادی ص۵۴)۔

جبکہ اس کے مقابلے میں فریق مخالف کے اعلحضرت کی حکومت انگریز کیلئے وفاداری کا اقرار خود انگریزوں نے کیا ہے ملاحظ ہو:
The mashrik of gorakhpor and albashir usually took note the pro-government fatwas of Ahmed raza Khan.(Separatism among india Muslims,page 268(.
انگریز مورخ سر فرانسس رابنسن کی کتاب علماء فرنگی محل اینڈ اسلامی کلچر میں مندرجہ ذیل الفاظ میں احمد رضاخان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے:
The actions of One learned man ,the very influentional Ahmed Rada Khan (1855,1921) of barielly,present our conlusion yet more Clearly....at the same time he Support the colonial Government loudly and vigorousily through world warI,and through the khilafat Movement when he opposed mahatma Gnadhi allaince with tha nationalist movement and and non-Cooperation with the british.(ulam farange Mehal and Islamic culture page )
Khan ahmed rada of bareilly 37,37 & 47,58,67 and Support for the British 196(Index ,ulma farangi mehal and Islamic Culture page 263(
جبکہ اس کے برخلاف خود انگریز مورخین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہمارے راستے میں سب سے سخت رکاوٹ دارالعلوم دیوبند تھا ملاحظہ ہو:
The most Vital School of Ulma in india is the second Half of the initeenth Century was that centerd upon Deoband,the Darul Uloom.(The Muslims or british India,byP.Hardy page 170(
اعلی حضرت اعلی سیرت کے صفحہ ۳۳ اور اسی طرح حیات اعلی حضرت میں یہ بات موجود ہے کہ مولوی احمد رضاخان کے دادا نے گورنمنٹ کی پولیٹیکل خدمات انجام دی جس کے عوض ان کو آٹھ گاؤں جاگیر میں ملے اور ان کے ساتھ آٹھ سو فوجیوں کی بٹالین ہواکرتی تھی۔

شاہ عبد العزیز ؒ کے فتوے کے خلاف کے ہندوستان دارالحرب ہے اعلی حضرت نے ہندوستان کے دارلسلام ہونے کا فتوی دیا اس لئے کہ دارالسلام میں جہاد جائز نہیں۔اس کے علاوہ اس مکتبہ فکر نے آزادی کے ہر متوالے پر کفر کے فتوے لگا کر عوام کوان سے بد ظن کرنے کی کوشش کی۔۱۹۱۴ میں الدلائل القاہرہ علی الکفرۃ النیاشرہ کے نام سے فتوی شائع ہوا جس میں خان صاحب کے علاوہ کئی بریلوی علمائے کے تصدیقات موجود تھے جس میں قائد اعظم کو کافر کہا گیا اور مسلم لیگ سے ہر قسم کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا۔ان کے مولوی حشمت علی نے مسلم لیگ کی زریں بخیہ دری کے نام سے کتاب لکھی جس میں قائد اعظم کو کافر قرار دیا گیا۔مولوی مصطفی رضاخان نے اس زمانے میں مسلمانوں کے دلوں سے کعبہ و مدینہ کی محبت نکالنے کیلئے حج کے ساقط ہونے کا فتوی دیا اور آج بھی بریلوی برملا امام کعبہ اور مدینہ کو کافر لکھتے اور کہتے ہیں ٭مصطفی رضاخان نے ایک کتاب لکھی اس زمانہ میں جو اب نایاب ہے رسالۃ الامارہ والجہاد جس میں انگریز سے جہاد کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ یہ چند مثالیں میں نے دے دی ہے ورنہ ان کی غداریوں سے تاریخ کے صفحات آج بھی بھرے پڑے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے تاریخ آزادی میں کہیں بھی اس گروہ کا نام و نشان نہیں جس کا اعتراف خود مولوی احمد رضاخان کے سوانح نگار کرتے ہیں کہ اور اس کا الزام مورخین پر ڈالتے ہیں کہ انھوں نے محض تعصب کی وجہ سے ہمارے اعلحضرت کا ذکر کہیں نہیں کیا اور وہابی (یعنی دیوبند) کی خدمات سے ساری تاریخ کو بھر دیا۔
حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات کے حوالے سے بھی آپ نے اپنی ’’مخصوص رضاخانیت‘‘ کامظاہرہ کیا ہے پوری عبارت اس طرح ہے :
ایک صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تحریکات کے زمانہ میں میرے متعلق یہ مشہور کیا گیا تھا کہ چھ سو روپیہ ماہانہ گورنمنٹ سے پاتا ہے ایک شخص نے ایک ایسے ہی مدعی سے کہا کہ اس سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ خوف سے متاثر نہیں لیکن طمع سے متاثر ہے بلکہ خوف سے تو گورنمنٹ ہی متاثر ہوئی چنانچہ تمھیں اور ہمیں سو روپیہ نہیں دیتی تو اب اس کا امتحان یہ ہے کہ تم نو سو روپے دیکر اپنی موافق فتوی لے لو اگر وہ قبول کرلے تو وہ بات صحیح ہے ورنہ وہ بھی جھوٹ ۔(الاضافات الیومیہ،ج۶،ص۱۰۳،ملفوظ نمبر،۸۸)
غور فرمائیں کس حکیمانہ اور بلیغ انداز میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس الزام کی تردید کررہے ہیں مگر خلیل رانا صاحب کہتے ہیں کہ نہیں وہ تو تردید نہیں بلکہ تصدیق کررہے ہیں۔۔تف ہے ایسی تحقیق پر اور ایسی دیانت پر...ہم بار بار خلیل رانا صاحب کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حوالہ دیتے ہوئے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان حوالہ جات کو کل کو کوئی چیک بھی کرسکتا ہے ۔۔
اعتراض: تھا کون جو انگریز کو کہتا رحمت؟ کس نے کیا گوروں کے وظیفے پر گزارا
جواب: ارے وہی جس کی وفاداری کے گن گاتے انگریز بھی بھائی وہی جن کو سیر کرائی جاتی ہے پینٹاگون کی آج بھی
(روزنامہ وقت لاہور ۱۰ مئی ۲۰۱۰ ؁ء کی خبر کے مطابق بریلوی علماء و مشائخ کو انتہا ء پسندی کے خلاف پینٹاگون میں تربیت دی جائے گی۔)



اعتراض نمبر ۴:
 مولانا رشید احمد گنگوہی اور قاسم نانوتوی صاحب اپنی مہربان سرکار کے دلی خیر خواہ تھے ۔ملاحظہ ہو تذکرۃ الرشید ج۱ص۷۹۔
جواب:فریق مخالف کا یہ حوالہ بھی بالکل سود مند نہیں اس لئے کہ انھوں نے تو یہ ثابت کرنا تھا کہ حضرت گنگوہی اور حضرت حجۃ الاسلام رحمہمااللہ انگریز کے وفادار تھے اور اس کے خلاف انھوں نے کچھ نہ کہا مذکورہ بالا عبارت مولف تذکرۃ الرشید کی ہے جس کے ذمہ دار وہ خود ہیں کسی اور کی عبارت کو لیکر کسی اور پر فٹ کرنا کہاں کا انصاف ہے۔۔؟؟آپ کا یہ ثابت کرنا کہ ان حضرا ت نے انگریز کی مخالف نہیں کہ قطعا باطل اور مردود ہے جبکہ خود اسی تذکرۃ الرشید میں یہ حوالے بھی موجود ہیں کہ:
(۱) تینوں حضرات (حاجی امداد اللہ صاحب ،حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ )کے نام چو نکہ وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں اور گرفتار کنندہ کیلئے صلہ (انعام) تجویز ہوچکا تھا اس لئے لوگ تلاش میں ساعی اور حراست کی تگ و دو میں پھرتے تھے۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۷۷)
(۲) روش (پولیس)رامپور پہنچی اور حضرت امام ربانی مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ حکیم ضیاء الدین صاحب کے مکان سے گرفتار ہوئے تخمینے سے یہ زمانہ۱۲۷۵ ؁ ھ کا ختم یا ۱۲۷۶ کا شروع سال ہے (الی قولہ)آپ کے چاروں طرف محاٖفظ پہرہ دار تعنیات کردئے گئے اور بند بیل (بیل گاڑی)میں آپ کو سوار کرکے سہارنپور چلتا کردیا گیا (الی قولہ)حضرت مولانا سہارنوپر پہنچتے ہی جیل خانہ بھیج دئے گئے اور حوالات میں بند ہوکر جنگی پہرہ کی نگرانی میں دے دئے گئے۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۸۲)
(۳) حضرت مولانا تین یا چار یوم کال کوٹھری میں اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے تحقیقات پر تحقیقات اور پیش پر پیشی ہوتی رہی آخر عدالت سے حکم ہوا کہ تھانہ بھون کا قصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے چنانچہ امام ربانی جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرہ میں براہ دیوبند دو پڑاؤ کرکے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور اب یہاں کے جیل خانہ میں بند کردئے گئے ۔(الی قولہ)مظفر نگر کے جیل خانہ میں حضرت کوکم و بیش چھ ماہ رہنے کا اتفاق ہوا اس اثناء میںآپ کی استقامت ،جوانمردی ،استقلال کی پختگی ،توکل،رضا،تدین،اتقاء،شجاعت،ہمت،اور سب پر طرہ حق تعالی کی اطاعت و محبت جو آپ کی رگ رگ میں سرایت کئے ہوئے تھی اس درجہ حیرت انگیز ثابت ہوئیں کہ جن کی نظیر نہیں نظر ملتی۔(تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۸۴)
(۴) حضرت امام ربانی قطب الارشاد مولانا رشید احمد صاحب قدس سرہ کو اس سلسلہ میں امتحان کا بڑا مرحلہ طے کرنا تھا اس لئے گرفتار ہوئے اور چھ مہینے حوالہ جات میں بھی رہے ۔(تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۷۹)
ان تمام واضح حوالوں سے حضرت مولانا گنگوہی اور ان کے رفقاء کا گرفتار ہونا جنگی حراست میں رہنا حوالہ جات اور کال کوٹھریوں کا آباد کرنا اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانا روز روشن کی طرح واضح ہے اور ہمارا مدعی بھی یہی ہے۔غرض ان کو انگریز کا وفادار ثابت کرنا تاریخ کو مسخ کرنا ہے اور خلیل رانا صاحب نے جو مجمل اور مبہم حوالہ دیا ہے اس سے انکا مدعی ہرگز ثابت نہیں ہوسکتا یہ مجمل عبارت صرف اس کا مصداق ہے
تم جو دیتے ہو نوشتہ وہ نوشتہ کیا ہے
جس میں ایک حرف وفا بھی کہیں مذکور نہیں
لفظ ’’سرکار‘‘ کا اطلاق رب تعالی (حقیقی سرکار) پر بھی ہوتا ہے
اصل میں فریق مخالف کو اس عبارت میں لفظ ’’مہربان سرکار‘‘ سے مغالطہ ہوا ہے حالانکہ یہ لفظ دیگر متعدد معنوں کے علاوہ مالک حقیقی آقا اور ولی نعمت پر بھی صادق آتا ہے چنانچہ فرہنگ آصفیہ ج۳ ص ۷۰ میں سرکار کے معنی سردار،میر،پیشوا،رئیس ،آقا،ولی نعمت اور والی وغیرہ کے کئے گئے ہیں۔
اور پھر ’’مولف تذکرۃ الرشید‘‘جس طرح لفظ سرکار کا انگریز پر اطلاق کرتے ہیں اسی طرح ’’اللہ تعالی ‘‘ پر بھی اس کا اطلاق کرتے ہیں۔چنانچہ وہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے سہارنپور جیل سے مظفر نگر منتقل کرنے کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:
سنا ہے کہ دیوبند کے قریب سے گذرنے پرمولانا قاسم العلوم نظر براہ راستہ سے کچھ ہٹ کر بغرض ملاقات پہلے سے آکھڑے ہوئے تھے گو خود بھی مخدوش حالت میں تھے مگر بیتابئ شوق نے اس وقت چھپنے نہ دیا اور دور ہی دور سے سلام ہوئے ایک نے دوسرے کو دیکھا مسکرائے اور اشاروں ہی اشاروں میں خدائے تعالی کے وہ وعدے یاد دلائے جو سچے سرکاری خیرخواہوں اور امتحانی مصیبتوں پر صبر و استقلال کرنے والوں کیلئے انجام کار ودیعت رکھے گئے ہیں۔(تذکرۃ الرشید ،ج۱،ص۸۴)
بالکل واضح امر ہے کہ یہ وعدے اللہ تعالی کے واللہ مع الصبرین ،و ان جندنا لھم الغلبون ،انا لننصررسلنا والذین امنوافی الحیوۃ الدنیا اور فان حزب اللہ ھم الغلبون وغیرہ کلمات جو قرآن کریم میں موجود ہیں ۔۔سچی سرکار ،آقائے حقیقی اور مالک الملک کے مخلص بندوں کیلئے ہیں جو امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں ۔یہاں سرکار کے لفظ سے اللہ تعالی ہی کی ذات مقدسہ مراد ہے۔

اعتراض نمبر ۵:
حافظ ضامن ،قاسم نانوتوی ،رشید گنگوہی انگریز کی حمایت میں لڑے اور اور حافظ ضامن ’’شہید‘‘ ہوگئے۔تذکرۃ الرشید،ج۱،ص۷۴،۷۵


جواب: لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔۔خلیل رانا صاحب اتنا صریح دھوکہ ۔۔ہم نے یہ صفحہ بار بار چیک کیااور کہیں ہمیں یہ عبارت نہیں ملی ٭کہ حافظ ضامن صاحب انگریز کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے تاریخ کاادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ ان کی شہادت شاملی کے میدان میں انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے ہوئی۔۔مگر آپ کس طرح خدا خوفی سے بے پرواہ ہوکر جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔۔جن صفحات کا حوالہ آپ نے دیا ہے اس میں بھی اسی شاملی کے معرکہ کا ذکر ہورہا ہے ۔آپ میں اگر ذرا بھی انصاف ودیانت کامادہ ہے تو جو عبارت آپ نے نقل کی ہے اس کتاب کا اصل عکسی حوالہ دے کر بعینہ ثابت کریں ورنہ
لعنۃ اللہ علی الکاذبین  کا وظیفہ پڑھ کر اپنے اوپردم کریں۔
۱۸۵۷ کی جنگ آزادی حضرت حاجی امداداللہ رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں لڑی گئی اور شاملی کے میدان پر قبضہ کرلیا گیا جو ایک ماہ تک رہا ۔
* حاجی امدااللہ صاحب کو امام ،مولانا قاسم نانوتوی ؒ کو سپہ سالار افواج مولانا رشیداحمد گنگوہی ؒ کو قاضی ،مولانا محمد منیر نانوتوی ؒ اور حافظ محمد ضامن ؒ کو میمنہ اور میسرہ کے افسر مقرر کئے گئے۔(سوانح قاسمی ،ج۲،ص۱۲۷)
* اس معرکہ میں حافظ محمد ضامن شید ہوئے حضرت حاجی صاحب اور مولانا رحمت اللہ کیرانوی مکہ مکرمہ کی طرف حجرت کرگئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ روپوش ہوگئے اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ گرفتار کرلئے گئے۔مولانا گنگوہی ؒ کو سہارنپور کی جیل میں قید کردیا گیا ۔تین چار یوم کال کوٹھری میں رہے اور پندرہ دن جیل خانہ کی حوالات میں قید رہے ۔آخر عدالت سے حکم ہوا تھانہ بھون کاقصہ ہے اس لئے مظفر نگر منتقل کیا جائے ۔چنانچہ جنگی حراست اور ننگی تلواروں کے پہرے میں براستہ دیوبند چند پڑاؤ کرکے پاپیادہ مظفر نگر لائے گئے اور حوالات کے اندر بند کرئے گئے چھ ماہ قید رہے آخر چھوڑ دئے گئے۔(ایسٹ انڈیا کمپنی کے باغی علماء ،ص۱۱۳،از مفتی انتظام اللہ شہابی)۔

جناب پروفیسر محمد ایو ب صاحب قادری مرحوم لکھتے ہیں کہ
* اسی (۱۸۵۷ کی جنگ آزادی ) میں حافظ محمد ضامن ؒ صاحب کو گولی لگی اور وہ شہید ہوگئے آخر میں مجاہدین کے پاؤں بھی اکھڑ گئے انگریزوں نے قبضہ کرنے کے بعد تھانہ بھون کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔(جنگ آزادی ،ص۱۸۱)
نوٹ:پروفیسر ایوب قادری بریلوی حضرات کے ہاں بھی مستند مانے جاتے ہیں عبد الحکیم شرف قادری نے اپنی کتاب پر ان سے تقریظ لکھوائی اوران کے انتقال پر اظہار غم بھی کیا۔
غرض یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حضرت حافظ ضامن صاحب انگریز کے خلاف لڑتے ہوئے شاملی کے میدان میں شہید ہوئے مگر فریق مخالف کا سوء ظن دیوبند دشمنی ملاحظہ ہو کہ جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے بھی کچھ حیاء نہیں۔ہمیں تو یوں لگتا ہے کہ خلیل رانا صاحب یہ تمام حوالے کسی بریلوی ملاں کے رسالے سے ہی کاپی پیسٹ کرتے ہیں اس لئے کہ ظاہر ہے کہ بندہ ایک دو حوالوں میں چلو دھوکہ دہی کردے مگر ان کا ہر حوالہ دجل و فریب کا شاہکار ہوتا ہے ۔پہلے تو ہم ان کوان کی داڑھی کا واسطہ دیتے کہ چہرے پرسجائی اس سنت رسول ﷺ سے ہی شرما جاؤ مگر ان کی تو داڑھی بھی نہیں واسطہ دیں بھی تو کس کا...؟؟؟
اب آخر میں ہم فریق مخالف سے سوال کرتے ہیں کہ شاہ صاحب اور انکی تحریک کے لوگ تو تھے ہی بقول آپ کے وہا بی تھے، معاذاللہ ،اللہ و رسولﷺ اور تمام مسلمانوں کے دشمن تھے ، اسلام کے بد خواہ تھے مگر آپ کے روحانی دادا حضور مولوی نقی علی۱۸۵۷ء ؁ کی جنگ آزادی میں کہاں تھے ؟ انکو بھی چھوڑئے آپکے روحانی ابا حضور مولوی احمد رضاخان جو بزعم خویش پورے ہندوستان میں واحد مسلمان اور اسلام کے خیر خواہ تھے، انہوں نے انگریز کے خلاف جہاد کے کتنے فتوے دیے۔؟؟؟؟؟؟؟
٭٭٭

حدیث جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین

  "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015


’’قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ ابْنُ حِبَّا نٍ اَخْبَرَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ یُوْسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدِ الْعَسْکَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ شُعْبَۃَ عَنْ سُلَیْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الْمُسَیِّبَ بْنَ رَافِعٍ عَنْ تَمِیْمِ بْنِ طُرْفَۃَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَرضی اللہ عنہما عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنَّہٗ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَاَبْصَرَقَوْمًا قَدْرَفَعُوْا اَیْدِیَھُمْ فَقَا لَ قَدْ رَفَعُوْھَا کَاَنَّھَااَذْنَابُ خَیْلٍ شُمُسٍ اُسْکُنُوْا فِی الصَّلَاۃِ۔‘‘

(صحیحابنحبانج3ص178،صحیحمسلمج1ص181 )

ترجمہ:حضرت جابربن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مسجدمیں داخل ہوئے لوگوں کو رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’انہوں نے اپنے ہاتھوں کو شریر گھوڑوں کی دموںکی طرح اٹھایا ہےتم نماز میں سکون اختیار کرو ۔‘‘ (نماز میں رفع یدین نہ کرو)۔

مذکورہ حدیث اپنے اندازِ استدلال اور وضاحتِ الفاظ کے ساتھ بالکل صریح ہے اور احناف کے دعویٰ عدم رفع فی الصلوۃ کو مکمل ہے۔

ذیل میں اس روایت سے ترکِ رفع کے استدلال پر کئے گئے اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے:

اعتراض نمبر 1= اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کا ذکر نہیں۔

جواب =

ہمار ا دعویٰ ہے کہ نماز میں رفع یدین نہ کیا جائے،چاہے وہ رکوع والا ہو یا سجود والا۔حدیث کے الفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو نماز میں رفع یدین کرتے دیکھا تو فرمایا: اسکنوا فی الصلوۃ(نماز میں سکون اختیار کرو)اس سے مذکورہ رفع یدین کی نفی ہوجاتی ہے۔جیسا کہ مشہور محدثین  مثلاً علامہ زیلعی اور علامہ بدرالدین عینی نے تصریح کی ہے۔یہ حضرات فرماتے ہیں:

انما یقال ذلک لمن یرفع یدیہ فی اثناء الصلوۃ وہو حالۃ الرکوع او السجود ونحو ذالک(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص472، شرح سنن ابی داود للعینی ج3ص29)

کہ یہ الفاظ (نماز میں سکون اختیار کرو)اس شخص کو کہے جاتے ہیں جو دوران نماز رفع یدین کر رہا ہو اور یہ حالت رکوع یا سجود وغیرہ کی ہوتی ہے۔

لہذا یہ اعتراض باطل ہے۔

اعتراض نمبر 2 = حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے نقل کیا، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو بطور دلیل پیش نہیں کرتے،  ان کا کہنا ہے کہ یہ سلام کے متعلق ہے۔

جواب  =

الف: ان دونوں حضرات کا موقف ترک رفع یدین کا ہے(ادلہ کاملہ،درس ترمذی)

ب: عرض ہے کہ اگر ان حضرات نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا تو دیگرحضرات محققین ومحدثین نے تو بنایاہے۔مثلاً

1.امام ابوالحسن القدوری (التجرید ج2ص519)

2.علامہ زیلعی (نصب الرایہ ج1ص472)

3.علامہ عینی (شرح سنن ابی داود ج3ص29)

4.ملاعلی قاری (فتح باب العنایہ ج1ص78 اور حاشیہ مشکوٰۃ ص 75)

5.امام محمد علی بن زکریا المنبجی  (اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب ج1ص256)

6.مولانا محمد ہاشمی سندھی )رسالہ کشف الرین(

7.حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)

8.شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی (اوجز المسالک: ج 2ص66)

9.شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (فتح الملہم: ج3 ص317)

10.شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی (اعلاء السنن للعثمانی: ج3ص56)

11.مولانا الشیخ محمد عبد اللہ بن مسلم البہلوی (ادلۃ الحنفیۃ: ص167)

12.امین الملۃ مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی (تجلیات صفدر: ج2، ص313)

13.مناظر اسلام حضرت مولانا حبیب اللہ ڈیروی  (نور الصباح: ج1 ص76)

د: اسی حدیثِ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے ترکِ رفع پر استدلال کی نسبت سےمفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم اور مولانا حبیب اللہ ڈیروی  علیہ رحمہ کی آپس میں بات چیت بذریعہ خط و کتابت تفصیلاً ملاحظہ فرمانے کے لیے دیکھیں " نور الصباح ، ج 2،  ص 321"

تنبیہ:شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے ترک رفع یدین کے دلائل پر مشتمل ایک تحریر کی تصدیق کرتے ہوئے”الجواب صحیح“ لکھاہے۔ ان دلائل میں یہی حدیث جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ  موجود ہے۔خود علی زئی کی زبانی یہ حقیقت سنیے:

”مری سے تجمل حسین صاحب نے ایک چار ورقی پمفلٹ: ”مسئلہ رفع یدین “کے عنوان سے بھیجا ہے،  جسے کسی دوست محمد مزاری دیوبندی نے لکھاہے اور محمد رفیع عثمانی دیوبندی نے اس پمفلٹ کی تصدیق کی ہے،نیز محمد تقی عثمانی، محمد عبدالمنان اور عبدالرؤف وغیرہ نے ”الجواب صحیح“لکھ کر اس پر مہریں لگائی ہیں۔“ (الحدیث :93ص11)



اعتراض نمبر 3 = اس حدیث پر محدثین کا اجماع ہے کہ اس حدیث کا تعلق تشہد کے ساتھ ہے کیونکہ سب محدثین نے اس حدیث پر سلام کے وقت اشارہ سے منع کرنے کے ابواب باندھے ہیں۔ اور کسی محدث نے اس حدیث سے ترکِ رفع پر استدلال نہیں کیا۔

جواب =

یہ حدیث اور بوقت سلام اشارہ سے منع کی حدیث دو الگ الگ احادیث ہیں، تفصیل آگے آ رہی ہے۔

·        اس حدیث پر امام ابو داوَد نے یوں باب باندھا ہے: باب النظر فی الصلوٰۃ {ابو داوَد ص 138 ج 1}

·        امام عبدالرزاق علیہ رحمہ نے یوں باب باندھا ہے : باب رفع الیدین فی الدعاء {مصنف عبدالرزاق ص 252  ج 2}

·        امام بخاری کے استاد ابوبکر بن شیبہ  نے یوں باب باندھا ہے:  باب من کرہ رفع الیدین فی الدعاء {مصنف ابن ابی شیبہ  ص 486  ج 2}

·        نیز قاضی عیاض مالکی علیہ رحمہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : وقد ذکر  ابن القصار ھٰذا الحدیث حجۃ فی النھی عن رفع الایدی علی روایۃ المنع من ذالک جملۃ {لا کمال العلم بفوائد مسلم ص 344 ج 2}

·        امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}

آئیے امام مسلم جن سے یہ حدیث پیش کی گئی ہے ان کے ابواب کو ذرا تفصیلاً دیکھتے ہیں:

امام مسلم نے باب یوں قائم فرمایا ہے: باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ والنھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عندالسلام واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع

·        پہلا حصہ الامر بالسکون فی الصلوٰۃ، نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب: باب کے اس حصے کے ثبوت میں یہی حدیث اسکنو فی الصلوٰۃ والی لائے ہیں

·        دوسرا حصہ النھی عن الاشارۃ بالید ورفعھا عند السلام، سلام کے وقت  ہاتھ سے اشارہ کی ممانعت:  اس حصہ مکے ثبوت کے لیے دوسری حدیث لائے ہیں  وانما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ ثم یسلم علی اخیہ من علی یمینہ وشمالہ ۔ بس تمہارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنا ہاتھ اپنی ران پر رکھے ، پھر اپنے دائیں بائیں والے پر سلام کرے۔

·        تیسرا حصہ ہے ، واتمام الصفوف الاول والیراص فیھما والامر بالاجتماع، پہلی صفوں کو مکمل کرنا اور ان میں جڑنا اور اجتماع کے حکم کے بارے میں: اس حصے کو ثابت کرنے کے لیے تیسری حدیث لائے ہیں استووا ولا تختلفوا

پس ثابت ہوا کہ سلام کا لفظ دوسری حدیث کے متعلق ہے۔ پہلی حدیث پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنے کاباب۔ اس کے نیچے حدیث وہی لائی گئی ہے جس مین رفع یدین کو سکون کے خلاف قرار دے کر منع فرمایا دیا گیا۔ لہٰذا جو حدیث ہم پیش کر رہے ہیں، اس پر باب الامر بالسکون فی الصلوٰۃ ہے، اس میں سلام اور تشہد کا لفظ نہیں۔



اعتراض نمبر 4 = یہ حدیث سلام کے وقت رفع یدین سے منع کی ہے نہ کہ رکوع جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع یدین کے بارے میں۔

جواب =

جیسا کہ اعتراض نمبر 3 کے جواب میں بیان کر دیا گیا ہے کہ امام مسلم علیہ رحمہ نے اس حدیث پر نماز میں سکون اختیار کرنے کا باب باندھا ہے اور سلام کے وقت اشارے سے منع کرنے کے لیے حضرت جابر بن سمرۃ سے دوسری حدیث لائے ہیں، جس سے اس اعتراض کا سارا دم خم ختم ہو جاتا ہے۔ مگر غیر مقلدین کے اعتراضات کا مکمل مدلل جواب دیا جاتا ہے تاکہ مزید گنجائش باقی نہ رہے انشاءاللہ تعالیٰ:

·        پہلی روایت مین جابر بن سمرۃ رضی الہ عنہ کا شاگرد تمیم بن طرفہ ہے۔ دوسری میں جابر رضی اللہ عنہ کا شاگرد عبد اللہ بن القبطیہ ہے۔

·        پہلی روایت میں ہے خرج علینا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے۔ دوسری روایت میں ہے صلینا مع رسول اللہ ، یعنی ہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔

·        پہلی روایت میں ہے رافعی ایدیکم  یعنی رفع یدین کا ذکر ہے۔ دوسری روایت میں ہے  تشیرون بایدیکم تومنون بایدیکم تم اشارہ کرتے ہو۔

·        پہلی روایت میں سلام کا ذکر نہیں ، دوسری میں سلام کا ذکر ہے۔

·        پہلی روایت میں ہے اسکنو ا فی الصلوٰۃ، یعنی نماز میں سکون اختیار کرو، دوسری روایت میں ہے انما یکفی احدکم ان یضع یدہ علی فخذہ

ان دونوں روایتوں کو غور سے دیکھا جائے تو دونوں روایتوں میں پانچ فرق نظر آتے ہیں۔ پہلی روایت میں ہے کہ ہم اکیلے نماز پڑھ رہے تھے، آپ تشریف لائے تو یہ واقعہ الگ ہوا۔ دوسری روایت میں ہے حضور صلی اللہ علپہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ، یہ واقعہ الگ ہوا۔ پہلی حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  رافعی ایدیکم فرما کر رفع یدین کا نام لیتے ہیں اور دوسری میں رفع یدین کا نام تک نہیں بلکہ اشارے کا لفظ ہے۔ بہرحال دونوں روایتوں کو ایک بنانا فریب اور دھوکا ہو گا نہ کہ دونوں کو دو بتانا۔ چونکہ دو واقعے الگ الگ ہیں، ہم دونوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ملاتے نہیں لہٰذا الگ الگ رکھنا حقیقت حال سے اگاہ کرنا ہو گا۔ حقیقت حال سے آگاہ کرنے کو اہل انصاف میں سے تو کوئی بھی دھوکہ نہیں کہتا،  ہاں بے انصاف جو چاہیں کہیں۔

جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

پہلی حدیث میں رفع یدین سے منع کیا گیا ہے اور دوسری میں سلام والے اشارے سے۔ ہمارا احناف کا دونوں روایتوں  پر عمل ہے۔ نہ ہم رفع یدین  کرتے ہیں اور نہ ہی سلام کے وقت اشارہ کرتے ہیں۔

ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو بوقتِ سلام ہاتھوں کا اشارہ نہیں کرتے تھے، ہاتھوں کااشارہ اس وقت ہوتا تھا جب باجماعت نماز پڑھتے اور پہلی حدیث میں ہے خرج علینا رسول ا للہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علہ والہ وسلم ہماری طرف آئے، ہم نماز پڑھ رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ نماز فرض تھی ہرگز نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم گھر ہوتے تو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ مسجد میں نماز کے لیے اتنا لمبا بیٹھے رہتے کہ کبھی نیند آنے لگتی اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم  اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت تشریف لائے۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ فرضوں کی جماعت آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بغیر کس طرح کرا سکتے تھے؟ ثابت ہوا کہ نماز فرض نہیں تھی بلکہ صحابہ کرام کی انفرادی نماز تھی جو نفل یا سنن  ہو سکتی ہیں۔ جب نماز جماعت والی نہیں تھی بلکہ انفرادی فعل یا سنن نفل وغیرہ نماز تھی تو اس میں سلام کے وقت اشارہ ہوتا ہی نہیں تھا تو آقا نے منع کس چیز سے کیا؟ یقیناً وہ رکوع سجدے والا رفع یدیں ہی تھا  جس کو  صحابہ کرام رضی اللہ عنہ   کرتے تھے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ   علیہ والہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا اسکنوا فی الصلوٰۃ نماز میں سکون اختیار  کرو۔ مسلم شریف کا باب الامر فی الصلوٰۃ ج 1 ص 80 دیکھیں، اس میں اشارے کا ذکر جس حدیث میں ہے، اس میں صلینا مع رسول  اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کہ ہم آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ابوداوَد باب السلام ج 1 ص 143 پر دیکھیں اور غور کریں کہ نماز باجماعت ہے اور اشارہ  بھی ہے۔ جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا  اذا صلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فسلم  احدانا اشار بیدہ من یمینہومن عن یسارہ یہاں بھی سلام کے اشارے کا جہاں ذکر ہے، وہاں جماعت کا ذکر بھی ہے۔ نسائی باب السلام بالیدین ج 1 ص 156 مع التعلیقات میں ہے صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فکنا اذا سلمنا قلنا بایدینا السلام علیکمیہاں بھی جماعت کا ذکر ہے، ساتھ سلام کے اشارے کا ذکر ہے۔ یہ طحاوی شریف ج 1 ص 190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف  ہومیں یہی جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے کنا اذا صلینا خلف النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلمنا بایدیناجب ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو ہاتھوں سے سلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کتاب الام  للشافعی علیہ رحمہ ، مسند احمد ، بیہقی دیکھیں۔ جہاں سلام کے وقت اشارے کا لفظ ہو گا وہاں جماعت کی نماز کاذکر بھی ہو گا۔کسی صحابی رضی اللہ عنہ  نے اکیلے نماز ادا کی ہو اور ہاتھوں سے اشارہ بھی کیا ہو یعنی سلام کے وقت اشارہ بھی کیا ہو، موجود نہیں ہے لہٰذا اس سلام کے اشارے کا تعلق جماعت کی نماز سے ہے نہ کہ انفرادی نماز سے۔ انفرادی نماز میں صرف رکوع سجدے والا رفع یدین تھا ، ہاتھوں کا اشارہ نہیں تھا لہٰذا نفرادی نماز میں جو عمل تھا ہی نہیں ، اسے آپ  صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیسے منع کر سکتے تھے۔  ہاں جو عمل تھا ، وہ رفع یدین رکوع و سجود کا تھا ، اسی سے ہی منع فرمایا ہے۔

ضمنی اعتراض: اگر اس حدیث سے " فی الصلوٰۃ "یعنی نماز کے اندر  کا رفع یدین  منع ثابت ہوتا ہے تو پھر اس سے تو تکبیرِ تحریمہ والا رفع یدین بھی ختم ہو جاتا ہے۔

جواب: نماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ وکان یختم الصلوٰۃ بالتسلیمحدیث شریف میں آتا ہے تحریمھا التکبیر وتحلیلھا التسلمیم{ترمذی شریف ص 32} نما تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہو جاتی ہے لہٰذا  جس فعل سے نماز شروع ہو رہی ہے، اسے فی الصلوٰۃ نہیں کہا جاسکتا۔ ثناء فی الصلوٰۃ، تعوذ فی الصلوٰۃ، قومہ فی الصلوٰۃ، جلسہ و سجدہ فی الصلوٰۃ، سجدے والا رفع یدین فی الصلوٰۃ، تشہد فی الصلوٰۃ۔ تکبیرِ تحریمہ آغاز کا نام ہے اور نماز شروع کرنے کا طریقہ ہے۔ سلام نماز کے اختتام کا نام ہے یعنی ختم کرنے کا طریقہ ہے۔ وکان تکتم بالتسلیم{مسلم ج 1 ص 195} جس طرح حدیث پاک سے ثا بت ہو چکا ہے۔ اب قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب رکوع و سجدہ فی الصلوّۃ ہیں تو ان کا رفع یدین بھی فی الصلوٰۃ ہو گا لہٰذا اسکنو فی الصلوٰۃ  میں نماز کے اندر والے رفع یدین سے ہی منع ثابت ہو گی نہ کہ تحریمہ والے سے کیونکہ رفع یدین بوقتِ تحریمہ فی الصلوٰۃ نہیں بلکہ فی افتتاح الصلوٰۃ ہے جس طرح ابو داوَد ج 1 ص 105 ،  پر موجود ہے کہ تحریمہ والے رفع یدین  کو رفع افتتاح الصلوٰۃسے تعبیر کیا گیا ہے یا عند الدخول فی الصلوٰۃ جس طرح بخاری ج 1 ص 102 ، پر موجود ہے۔ جسطرح امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح یہاں لفظ مع الافتتاح تحریمہ کے رفع یدین کے لیے استعمال کیا  ہے۔  اسی صفحہ 102 پر دیکھیں ، امام بخاری علیہ رحمہ کا باب الخشوع فی الصلوٰۃ۔ نماز میں خشوع کا باب اور آگے جو حدیث لاتےہیں، وہ یہ ہے اقیمو االرکوع والسجود فواللہ انی لا اراکم من بعدی اچھی طرح رکوع اور سجدہ کیا کرو میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ خشوع فی  الصلوٰۃکا باب باندھ کے پھر رکوع اور سجدہ کا بیان فرما کر بتلانا چاہتے ہیں  کہ رکوع اور سجدے کا جوڑ فی الصلوٰۃ کے ساتھ ہے اور فی الصلوٰۃ کا سب سے زیادہ تعلق رکوع اور سجدے کے ساتھ ہے۔ فی الصلوٰۃ کا لفظ اکثر و بیشتر انہیں افعال و اعمال پر بولا جاتا ہے جو نماز میں تکبیرِ تحریمہ اور سلام کے درمیان ہیں، اس کی چند مثالیں دیکھئے:

·        امام بخاری ج 1 ص  99 پر باب باندھتے ہیں اذا بکی الامام فی الصلوٰۃ، جب امام نماز میں روئے۔ امام تکبیرِ تحریمہ کے ساتھ ہی رونا شروع نہیں کر دیتا بلکہ بوقتِ تلاوت روتا ہے جس طرح ترجمہ الباب  کی حدیث سے ثابت ہو رہا ہے۔ گویا رونا تحریمہ کے بعد ہوتا ہے، اسی لیے تو فی الصلوٰۃ کہا گیا ہے۔

·        بخاری ج1 ص 102 پر باب ہے باب وضع الیسی الیمنی علی الیسرہ فی الصلوٰۃ ، بائیں ہاتھ پر دایاں ہاتھ رکھنا نماز میں۔ غور فرمائیں کہ ہاتھ پر ہاتھ تحریمہ کے بعد ہی رکھا جاتا ہے جس کو فی الصلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

·        بخاری شریف ج 1 ص 103 باب البصر  الی الامام فی الصلوٰۃ ، نماز میں امام کی طرف دیکھنا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ظہر اور عصر کی نماز میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کی حرکت کو دیکھ کر پہچان جاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ظہر اور عصر کی نماز میں قراءۃ فرماتے ہیں۔ تو بوقت  قراءۃ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی ریش مبارک کو دیکھنا اور قراءۃ کو پہچاننا تحریمہ کے بعد ہی ہوتا تھا لہٰذا امام بخاری علیہ رحمہ فرماتے ہیں رفع البصر امام کی طرف  نظر اٹھانا فی الصلوٰۃ نماز کے اندر  یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد۔ یہاں بھی تحریمہ کے بعد ہونے والے عمل کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔

·        بخاری ج 1 ص 104 پر امام بخاری علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں باب وجوب القراءۃ للامام والماموم فی الصلوٰۃ ۔ یہاں قراءۃ فی الصلوٰۃ فرمایا یعنی قراءۃ تحریمہ کا نام نہیں بلکہ قراءۃ تحریمہ کے بعد اور سلام سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی طرح  اسکنوا افی الصلوٰۃ میں بھی منع تحریمہ والے رفع یدین سے نہیں بلکہ اس رفع یدین سے ہے جو تحریمہ کے بعد نماز میں کیا جاتا ہے۔

·        مسلم شریف ج 1 ص 169 پر امام نووی علیہ رحمہ باب باندھتے ہیں۔ اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ ، نماز میں ہر اونچ نیچ پر تکبیر کا اثبات۔ اب اونچ نیچ رکوع اور سجدے میں ہوتی ہے اور یہاں  رکوع و سجدہ میں اونچ نیچ کو فی الصلوٰۃ کہا گیا۔لا محالہ رکوع اور سجدے سے قبل اور بعد کی اونچ نیچ تحریمہ کے بعد اور سلام سے قبل ہے اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا یعنی نمازمیں۔ بعینٰہ اسی طرح مسلم کی ج 1 ص 181 والی اسکنو فی الصلوٰۃ والی روایت میں فی الصلوٰۃ سے مراد رفع یدین ہے جو تحریمہ کے بعد ہوتا ہے یعنی رکوع اور سجدے کے وقت۔

·        مسلم شریف ج 1 ص 173 باب التشھد فی الصلوٰۃ۔

·        مسلم ج 1 ص 183 باب التوسط فی القراءۃ فی الصلوٰۃ۔

·        مسلم ج۱ ص 210 باب السھو فی الصلوٰۃ۔ نماز میں بھولنے کا بیان اور آگے ص 211 پر حدیث پاک لائے ہیں کہ ان رسول اللہ صلی علیہ والہ وسلم قام فی الصلوٰۃ الظھر وعلیہ جلوس، بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بیٹھنا تھا بجائے بیٹھنے کے نماز میں کھڑے ہو گئے۔ بعد میں سجدہ سہوکیا

·        مسلم ج 1 ص 202 باب کراھۃ مسح الحصی وتسویۃ التراب فی الصلوٰۃ۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ بوقت سجدہ مسجد میں پڑی مٹی ہاتھ سے برابر کرتے تھے، اسی کی کراہت کا بیان کیا گیا۔ اور سجدہ نماز کے اندر تحریمہ کے بعد کا ہے اسی لیے اسے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔

·        مسلم ج 1 ص 206 باب جواز الخطوۃ والخطوتین فی الصلوٰۃ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں جب منبر بنوا کر  رکھ دیا گیا تو رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم  منبر پر چڑھ گئے اور وہاں تکبیرِ تحریمہ کہی اور بعد میں بحالتِ نماز منبر سے اتر آئے۔ نماز کی حالت کا یہ عمل بعد تحریمہ تھا اسی لیے فی الصلوٰۃ کہا گیا۔

تلک عشرۃ کاملہ



ضمنی اعتراض: دونوں حدیثوں میں تشبیہ ایک چیز سے دی گئی ہے، کانھا اذناب خیل شمس لہٰذا دونوں حدیثیں ایک ہیں۔

جواب: ان احادیث کے الگ الگ ہونے کے دلائل سے یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ یہ احادیث الگ الگ ہیں۔

باقی تشبیہ ایک چیز کے ساتھ دینے سے چیز ایک نہیں بن جاتی۔ دیکھیں کوئی کہتا ہے کپڑا دودھ کی طرح سفید ہے۔ بطخ دودھ کی طرح سفید ہے۔ دانت دودھ کی طرح سفید ہیں۔ گائے دودھ کی طرح سفید ہے۔ بال دودھ کی طرح سفید ہیں۔ اب کپڑا ،  بطخ، دانت، گائے، بال پانچ چیزیں مشبہ ہیں ، دودھ مشبہ بہٰ ہے یعنی  پانچ چیزوں کو صرف دودھ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ اب کون عقل مند یہ کہہ سکتا ہے کہ بطخ اور گائے یا بال اور دانت ایک شے ہیں کیونکہ تشبیہ صرف ایک چیز سے دی گئی ہے۔ اب اگر عندالسلام والے اشارے اور رکوع کے رفع یدین کو مست گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دی گئی ہے تو دونوں حدیثیں ایک کیسے ہو گئیں اور دونوں عمل ایک کیسے ہو گئے۔



اعتراض نمبر 5 = امام بخاری علیہ رحمہ نے فرمایا کہ جو بھی اس حدیث سے  ترکِ رفع یدین پر استدلال کرتا ہے اس کا علم میں کوئی حصہ نہیں۔

جواب: اولاً تو اعتراض نمبر 3 کے تحت امام نووی علیہ رحمہ کا ارشاد نقل کیا جا چکا ہے کہ:

·        امام نووی علیہ رحمہ نے اپنی کتاب شرح المہذب میں فرمایا جسکا خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث سے امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری ، امام ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک علیہ رحمہ نے ترک رفع یدین پر استدلال کیا ہے۔ {المجموع شرح المہذب جلد 3، ص 400}

اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حدیث کے معنی کے اعتبار سے فقہاء کو ترجیح حاصل ہے نہ کہ محدثین کو جیسا کہامام ترمذی فرماتے ہیں کہ " الفقھاء ھم اْعلم بمعانی الحدیث " یعنی فقہاء معنی حدیث محدثین سے زیادہ جانتے ہیں۔ [سنن الترمذی: ج 1، ص 193، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی غسل المیت]...۔۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا امام اعظم ابوحنیفہ و سفیان ثوری و مالک و ابن ابی لیلیٰ جیسے امام اور فقہاء  کو اس جملے کے تحت جاہل اور بے علم مان لیا جائے؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔

اگر اس قسم کی باتیں ہی ماننی ہیں تو امام مسلم علیہ رحمہ جو کہ امام بخاری علیہ رحمہ کے شاگرد ہیں انہوں نے اپنے استاد امام بخاری علیہ  رحمہ کو منتحل الحدیث یعنی صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں۔ یعنی حدیث میں ان کا دعویٰ تو ہے مگر وہ بات نہیں جو درحقیقت مشہور ہے۔ ادھر امام بخاری علیہ رحمہ لوگوں کو بے علم کہتے ہیں ادھر ان کے اپنے ہی شاگرد ان کو صرف حدیث کا دعوے دار فرما رہے ہیں اور حدیچ سے گویا بے علم کہتے ہیں۔ اب اس سے بڑھ کر امام مسلم کی اپنے استاد سے اور کیا ناراضگی ہو گی؟ باوجود شاگرد ہونے کے پوری مسلم شریف میں اپنے استاد سے ایک بھی حدیث نہیں لائے۔

بات کا مقصد یہ ہے کہ  ایسی  غیر عالمانہ باتیں  بڑے بڑے علماء سے ہو جایا کرتی ہیں۔ جیسے امام بخاری علیہ رحمہ کو ایسی کسی بات سے فرق نہیں پڑتا بالکل اسی طرح ترک رفع یدین پر اس حدیث کو پیش کرنے والوں پر امام بخاری کی بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا۔



اعتراض نمبر 6 = اگر اس حدیث کو ترک رفع پر مان بھی لیا جائے تو حنفی پھر وتر اور عیدین کی رفع یدین کیوں کرتے ہیں، انہیں وہ بھی چھوڑ دینی چاہئیں، کیونکہ وہ بھی فی الصلوٰۃ  یعنی نماز کے اندر کی رفع یدین ہیں۔

جواب: اس حدیث سے ہمارا استدلال کس کس طرح سے ہے یہ اوپر واضح کر دیا گیا ہے۔

·        ہمارا استدلال سے واضح ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نفل نماز پڑھ رہے تھے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں باہر سے تشریف لائے  [خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم]۔ اگر یہ عیدین کی نماز ہوتی تو  نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم جماعت کروا رہے ہوتے۔ یہ تو غیر مقلدین بھی مانتے ہیں کہ نمازِ عیدین جماعت سے ہوتی ہیں اس کے تو وہ بھی قائل نہیں کہ نمازِ عیدین انفرادی پڑھی جائے۔ تو یہ محال ہے کہ عیدین ہو رہی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز میں شریک نہ ہوں اور یہ بھی محال ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نےبغیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جماعت کروانی شروع کر دی ہو۔ پس یہ  مان لیا جائے کہ یہ عیدین کی نماز تھی تو یہ ماننا لازم آئے گا کہ نمازِ عید قضاء ہو گئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بتایا بھی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بعد میں تشریف لائے۔ اسی طرح اگر وتر کی نماز مانا جائے تو بھی عشاء کی نماز کی جماعت کا مسئلہ اور سوال اٹھتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کی جماعت سے رہ گئے اور بعد میں تشریف لائے اور صحابہ کرام نے انتظار بھی نہیں کیا اور خود جماعت کروا لی اور وتر بھی پڑھنے لگے تب جا کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے۔ یہ محال ہے کیونکہ صحابہ کرام تو نبی پاک علیہ صلوٰۃ والسلام کا عشاء میں اتنا انتظار فرماتے تھے کہ انہیں نیند آنے لگتی۔

·        دوسری بات یہ ہے کہ عام نمازوں اور عیدین و وتر میں فرق ہے۔ جب بھی احکامِ عیدین و وتر آتے ہیں ساتھ واضح لفظ عید یا وتر موجود ہوتا ہے۔ جب کہ اس حدیث میں عام نماز کا عمومی لفظ ہے، پس اصول کے لحاظ سے خصوص کو عموم پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، پس یہ قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔

·        تیسری بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جس رفع یدین کو شریر گھوڑوں کی دم فرمایا ہے وہ  بغیر ذکر کے رفع یدین ہے، اور عیدین و وتر کا رفع یدین اسی طرح تحریمہ کا رفع یدین ذکر کے ساتھ ہے۔ یعنی رفع یدین کا الگ سے ذکر موجود ہے۔ جب کہ غیر مقلدین عام نمازوں میں جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بغیر ذکر کے ہے، یعنی رکوع کو جاتے ہیں تو اللہ اکبر کہتے ہیں، پس وہ اللہ اکبرانتقالِ رکوع کا ذکر ہے نہ کہ رفع یدین کا۔ اگر غیر مقلدین کہیں کہ وہ رفع یدین کا ذکر ہے تو پھر رکوع کی طرف انتقال کے وقت کا ذکر کہاں گیا؟ ہمارے وتر و عیدین کے رفع یدین چونکہ مع الذکر ہے تو اس کی تشبیہ گھوڑوں کی دمیں بنتی ہی نہیں، جبکہ غیر مقلدین کا رفع یدین بغیر ذکر کے ہے اس لیے وہ اس تشبیہ پر پورا پورا اترتے ہیں۔ چناچہ احناف کی رفع یدین اذناب خیل نہیں بلکہ  عبادت ہے کیونکہ اللہ پاک کا بھی فرمان ہے کہ  اقم الصلوٰۃ لذکری۔ پس یہ رفع یدین جو عیدین و وتر و تحریمہ کا ہے یہ بھی فرق کی وجہ سے الگ ہے اور قیاس مع الفارق ہونے کی وجہ سے یہ اعتراض بھی باطل ثابت ہوا۔٭

٭بشکریہ عمر نعمان http://tark-e-rafayadain.blogspot.com

نیت کا مسئلہ

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
حافظ محمود احمد
قارئین کرام! سلف سے جنکا تعلق دور کا بھی نہیں ہوتا ایسے نام نہاد سلفی (بزعم خویش) اجتہاد کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں مثلاً روزہ رکھنے کی نیت کے بارے میں عربی کا وہ جملہ جو کہ مشہور اور عام ہے
بصوم غدٍ نویتُ من شہر رمضان.
جہالت نمبر 1:
 اس جملے کو فہد  محمود٭ جاہل نے اپنی جہالت کا نشانہ بناتے ہوئے اس کو دعاء لکھ دیا ہے جبکہ اس جملے میں نہ ہی اللہ سے کسی طرح کی کوئی فریاد ہے نا ہی اللہ تعالیٰ کی تعریف اور نہ التجا ہے اور نہ درخواست جبکہ دعاء میں فریاد التجاء اور درخواست و عاجزی ہوتی ہے جیسے اذان کے بعد کی دعاء اور دشمنوں کے مکروفریب سے اللہ کی پناہ کی دعا، دعا یہ ہے. اللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ
ترجمہ اے اللہ ہم ان کے مکر سے تیری پناہ چاہتے ہیں . 

٭اس مضمون میں تو حافظ محمود (عرف عبد الباری محمود) صاحب نے کسی غیر مقلد فہد محمود   کے حوالے سے تحریرلکھی ہے، البتہ مضمون نگار احتیاط کریں کہ علماء اور مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی کا نام نہ لیا جائے، بلکہ مضمون کو عموماً سب کو مخاطب کرکے لکھا جائے۔ ناگزیر حالات میں رعایت ہے۔(مدیر)

اسکے علاوہ آپ دعاء کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں جیسے مقبول و مسنون دعاء، حصن حصین وغیرہ ـ
جہالت نمبر 2:
فہد  محمود صاحب نے اپنی جہالت کا دوسرا نمونہ یہ دیا کہ انہوں نے عوام کو یہ کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ یہ دعاء کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں حالانکہ پہلی بات تو یہ دعاء ہے ہی نہیں، دوسری بات جناب کے بقول اگر مان لیا جائے کہ یہ دعاء ہے تب بھی اس دعاء کے پڑھنے و لکھنے والوں کا اس بات کا دعویٰ ہی نہیں ہوتا کہ یہ حدیث میں ہے اگر لکھنے پڑھنے والے یہ دعویٰ کرتے کہ یہ دعاء ہے اور حدیث صحیح میں موجود ہے تب فہد  محمود صاحب کا یہ کہنا کہ یہ صحیح حدیث میں نہیں ہے صحیح ہوتا ورنہ تو یہ سیدھے اور سادہ ذہن لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنا ہے اور کچھ نہیں ـ
جہالت نمبر 3:
 فہد  محمود صاحب اس عربی جملے کو ایک طرف صحیح حدیث میں نہ ہونے کی بات کرتے ہیں مگر وہیں دوسری طرف اس کو حدیث ہی بنا دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: اس منگھڑت حدیث ...٭
جہالت نمبر 4:
 یہ ہیکہ انہوں نے اس عربی عبارت کے پڑھنے والے پر ویری ویری فن ٹاسٹک نشانہ لگا کر جاہل اور گنوار ہونے کی گولی داغ دی یعنی جاہل ہونے کا فتویٰ دے ڈالا جبکہ اس کا پڑھنے والا جاہل نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں جو لفظ "غداً" (بمعنی کل) استعمال ہوا ہے وہ اپنے موقع و محل کے لحاظ سے مناسب اور درست ہےاللہ پاک نے رات اور دن دونوں الگ الگ بنائے ہیں رات کا اطلاق غروب آفتاب سے صبح صادق تک اور دن کا اطلاق صبح صادق کے بعد سے غروب شمس تک ہوتا ہے لہٰذا اگر کوئی نیت میں یہ عربی الفاظ استعمال کرے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صبح صادق کے بعد سے شروع ہونے والے دن کا روزہ رکھ رہا ہے اس لئے کل یعنی غدا کا لفظ بولتا ہے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ نیت آج کی کر رہا ہے اور روزہ کل کا رکھ رہا ہے، لیکن جناب نے یہاں اپنی جہالت سے 24/گھنٹے گزرنے کے بعد آنے والا جو دن ہوتا ہے اسے سمجھ لیا ہےتبھی قرآن پاک میں آئے لفظ "غدا" کو یہاں فٹ کر دیا ہے
تیسری بات مجھے اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ فہد  محمود صاحب کل کسی کو عربی اخباریا عربی کا کوئی لٹریچر پڑھتا دیکھ کر جاہل ہونے کا فتویٰ نہ لگا دیں لہٰذا فہد  محمود صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ کسی مقلد کے مدرسے کا چکّر دو چار بار لگا لیں ان شاءاللہ علم کی کچھ روشنی مل ہی جائے گی اور آپ کی کم فہمی اور علم سے ناواقفیت وجہالت پرمیں مضمون لکھوں تو مستقل ایک کتاب تیار ہو جائے لیکن میں مضمون کو طول نہ دے کرکے جناب والا سے گزارش کرتا ہوں کہ پلیز اس طرح کی پوسٹ لگا کر خود کو جاہل نہ بنائیں ۔
نوٹ:
قارئین! نیت دل کے ارادہ کا نام ہے اگر کوئی زبان سے ادا کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نہ اس کو کوئی فرض سمجھتا ہے نہ ہی واجب، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ ائمہ متقدمین سے، اس لئے اصل نیت دِل ہی کی ہے، مگر لوگوں پر وساوس و خیالات اور افکار کا غلبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے نیت کے وقت دِل متوجہ نہیں ہوتا، دِل کو متوجہ کرنے کے لئے متأخرین نے فتویٰ دیا ہے کہ نیت کے الفاظ زبان سے بھی ادا کرلینا بہتر ہے٭، تاکہ زبان کے ساتھ کہنے سے دِل بھی متوجہ ہوجائے ۔
اللہ پاک صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
منجانب: اے آئی آئی سی



عقائد علماء اہلحدیث (قسط ٢)

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
عباس خان حفظہ اللہ
غیر مقلدوں کی چیلینج بازیاں  خوب ہوتی ہیں۔  جنہیں اتنی سادہ سی بات بھی  سمجھ نہ آتی ہو کہ ہر علم کی اصطلاحات جُدا ہوتی ہیں، ہر فن کی اصطلاح اُسی پر منطبق کر کے   دیکھی جاتی ہیں،خصوصاً تصوف(احسان) میں۔ انہوں نے تصوف کی عبارت کو عقیدہ پر فٹ کیا، نتیجہ ظاہر ہے کہ ہر "جی ایم" مفتی اور مجتہد بنا ہوا ہے۔ ذیل کے مضمون میں اُن کے اپنے عقائد بتائے گئے ہیں، شاید کچھ انصاف سے پڑھنے پر ذہن صاف ہوجائے۔ ہداھم  اللہ۔ (مدیر)  

عقیدہ نمبر 11
آذان عثمانی بدعت ضلالت ہے۔
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں۔
یہ اذان رائجہ بدعت ضلاف ہے (فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 432)
مولوی محمد جونا گڑھی  صاحب لکھتے ہیں:
پس ہمارے زمانہ میں مسجد میںجو دو اذانین جمعہ کے لئے ہوتی ہیں صریح بدعت  ہے کسی طرح جائز نہیں۔
(فتاویٰ اہلحدیث  ج 2 ص 106)
غیرمقلد وکٹورین ایک اور بات بھی کہتے ہیں کہ  دور عثمانی میں یہ آذان  کسی بلند جگہ کہلاوئی جاتی تھی اور آج کل  اہلسنت حنفی شافعی مالکی اور حنبلی یہ آذان مسجد میں دی جاتی ہے اور ہم اسے بدعت ضلالت کہتے ہیں۔ العیاذ باللہ یہ لوگ کس دلیل سے اسے بدعت ضلالت کہتے ہیں حضورﷺ کے دور میں  تو بقیہ آذانیں بھی بلند جگہ پر دی جاتی تھیں اور اب صرف مسجد میں دی جاتی ہیں  اگر یہ بدعت ضلالت ہے تو کیا یہی آذان مسجد کی بجائے بازار یا کسی بلند عمارت پر دیں تو کیا  جائز ہو گئی ؟ اور یہی آذان حرم میں بھی دی جاتی ہے کیا وہ بھی بدعت ضلالت ہے؟

عقیدہ نمبر 12
دین میں نبی کی رائے حجت نہیں۔
غیرمقلدین کے خطیب الہند محمد جونا گڑھی صاحب لکھتے ہیں۔
”تعجب ہے کہ جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے  کو دلیل اور حجت سمجھنے لگے“
(طریق محمدی ص 40)
جبکہ یہ بات ہی صحیح نہیں کیونکہ نبیﷺ دینی معملات میں رائے نہیں دیتے بلکہ وہ ان کا حکم ہوتا ہے جسے اپنانا لازم ہوتا ہے ہاں البتہ دنیاوی معملات میں آپﷺ نے خود اختیار دیا ہے اور جان چھڑانے کیلئے  اسے مجتہدین کے اجتہادات کے ساتھ جوڑ  نا بھی  صریح حماقت ہے۔
«إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيِي، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ»
  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک انساں ہوں، جب میں تمہیں کوئی دین کی بات کا حکم دوں تو تم اس کو اپنا لو اور جب میں (دنیاوی معملات میں) اپنی رائے سے کسی چیز کے بارے میں بتاؤں تو میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔
(صحیح مسلم ج 4 ص 1835)
اسی طرح ایک اور روایت میں آتا ہے۔
آپﷺ فرماتے ہیں۔
مَا لِنَخْلِکُمْ قَالُوا قُلْتَ کَذَا وَکَذَا قَالَ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاکُمْ۔
(صحیح مسلم  ج 4 ص 1836)
 تم لوگ اپنے دنیوی معاملات کو میرے نسبت زیادہ بہتر جانتے ہو۔
عقیدہ نمبر 13
ائمہ اربعہؒ کی تقلید بھی شرک ہے۔
فرقہ اہلحدیث کا ہر عامی جاہل اور عالم کہلائے جانے والا جاہل  یہ بات کرتا ہے۔
اب ان  کا اپنا اقرار بھی دیکھئے
ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں:
” اور اس بات میں کچھ شک نہیں کہ تقلید خواہ آئمہ اربعہ میں سے کسی کی ہو خواہ ان کے سوا کسی اور کی شرک ہے“۔
(الظفر المبین ص 20)
جبکہ  پوری قرآن میں ایک بھی ایسی آیت موجود نہیں جس  میں اللہ تعالٰی نے آئمہ فقہاء مجتہدین  اہل استنباط کی تقلید کو شرک کہا ہو٭یا کم از کم روکا  ہو منع کیا ہو جیسا کفار مشرکین بے دین اور نا اہلوں کی تقلید سے منع  کیا ہے۔

عقیدہ نمبر 14
سنت عمر کفر ہے۔ نعوذ باللہ
فرقہ اہلحدیث کے مولوی عبد المتین میمن طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں لکھتا ہیں:
”سنت محمدی کو چھوڑ کر سنت عمرؓ کی طرف لوٹیں گے تو کفر ہے“۔
(حدیث خیر و شر ص 110)
العیاذ باللہ
پہلے عمرؓ کو نبی کے مقابلے میں کھڑا کر دیا  پھر ان کی طرف رجوع کرنے والے کو کافر قرار دیا اس میں وہ تمام صحابہ کرام ؓ آگے جنہوں نے حضرت عمرؓ کی پیروی کی لہذا اس احمق مولوی  کے مطابق حضرت عمرؓ اور ان کے پیروا سب کافر ہوئے۔  نعوذ باللہ 

عقیدہ نمبر 15
بیک وقت چار سے زائد شادیاں کی جاسکتی ہیں۔٭
فرقہ اہلحدیث کے مشہور عالم  نواب صدیق حسن خان صاحب اور نور الحسن صاحب لکھتے ہیں:
”چار کی کوئی حد نہیں (غیر مقلدمرد) جتنی عورتیں چاہے نکاح میں رکھ سکتا ہے“
(ظفرالامانی ص 141 ، عرف الجادی ص 111)

عقیدہ نمبر 16
فرقہ اہلحدیث کے نزدیک پیشاب پاخانہ کرتے وقت قبلہ کی طرف ہونا یا پشت کرنا بالکل جائز ہے ناجائز ہونا تو دور رہا مکروہ بھی نہیں ہے۔
(دستور المتقی ص 45 از مولانا یونس دہلوی، نزل الابرار ج 1 ص 53 از امام اہلحدیث نواب وحید الزمان)
جبکہ  احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پیشاب ، پاخانہ کرتے وقت بغیر کسی عذر کے قبلہ رو ہونا اور پشت کرنا مطلقا ناجائز ہے، آبادی میں ہو یا صحرام میں حضورﷺ نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے اور بقلہ کے اکرام کرنے کا حکم دیا ہے۔
(بخاری ج1 ص 57 ، مسلم ج1 ص 130 ، زاد المعاد ج1 ص 8 ، مجمع الزوائد ج1 ص 205  ابو داود ؤغیرہ)

عقیدہ نمبر 17
زکوۃ کا انکار اور  اس میں حیلے
فرقہ اہلحدیث کے مجدد نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں
زیورات اور مال تجارت میں زکوۃ نہیں۔(بدور الاہلہ ص 102)
 اور زکوۃ کہاں دی جائے؟
نواب نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
ماں باپ اور سگی اولاد کو زکوۃ دینی جائز ہے۔
(عرف الجادی ص 72)
گویا کہ زکوۃ کے اصل حقداروں کو چھوڑ کر آپس میں ہی  ایک دوسرے  کو زکوۃ دے دی جائے تاکہ مال اندر ہی رہ جائے۔

عقیدہ نمبر 18
عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکنے والا ملعون ہے۔
حضرت عائشہؓ کی بدترین توہین
فتاویٰ نذیریہ کے مفتی غیرمقلدین کے شیخ الکل نے حضرت عائشہؓ کی شان میں زبردست گستاخی کی ہے ، انکا قول ” کہ اگر آج نبی کریمﷺان باتوں کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو انہیں  مسجد جانے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک گی گئی تھیں“۔
 (بخاری ج1 ص 120)
 اس کے بعد  غیرمقلدین کے شیخ الکل کی بات ملاحظہ ہو۔
”پھر اب جو شخص بعد ثبوت قول رسول و فعل صحابہ کی مخالفت کرے وہ اس آیت کا مصداق ہے۔ ومن یشاقق الرسول من بعد ...۔۔ الخ (الایۃ) جو حکم صراحۃ شرع  میں ثابت ہو جائے اس میں ہر گز رائے و قیاس کو دخل نہ دینا چاہئے کہ شیطان اس قیاس سے کہ انا خیر منہ حکم صریح الٰہی سے انکار کرکے ملعون بن گیا ہے اور یہ بالکل شریعت کو بدل ڈالنا ہے“
(فتاویٰ نذیریہ جلد۱ ص۲۶۶)
غیرمقلدین کے شیخ الکل کی گمراہی ملاحظہ  فرمائیں اس نے در پر دہ حضرت عائشہؓ پر کیسا زبردست حملہ کیا ہے، افسوس اس فتویٰ  غیرمقلدین کے شیخ الکل کا بھی بلا کسی اختلافی نوٹ کے دستخط موجود ہے۔
اور نذیر حسن  نے لوگوں کو کیا تاثر دیا ہے
حضرت عائشہؓ نے آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت کی۔
حضرت عائشہ نے اس مسئلہ میں آنحضرت ﷺ کے حکم کی مخالفت کرکے آیت مذکورہ بالا کا مصداق ہوئیں۔
حضرت عائشہؓ نے اس مسئلہ میں اپنے قیاس اور رائے کو دخل دیا۔
حضرت عائشہؓ نے دین کے حکم میں رائے اور قیاس کو دخل دیکر وہی کام کیا جو شیطان نے انا خیر منہ کہہ کر کیا تھا۔
حضرت عائشہؓ نے معاذ اللہ یہ کہہ کرکہ موجودہ وقت عورتوں کو مسد اور عید گاہ جاانا مناسب نہیں ہے۔شریعت کو بدل ڈالنے کی جرأت کی۔

عقیدہ نمبر 19
آج کل کے تمام غیرمقلدین یہ عقیدہ رکھتے  اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ
اللہ کی ذات صرف عرش  کے اوپر اوپر تک ہے نیچے سے ختم ہوتی ہے اور اللہ کی ذات کے بعد اس کے نیچے سے  عرش اور دیگر مخلوقات شروع ہوتی ہیں   العیاذ باللہ
جبکہ یہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے خلاف ہے
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ(الحدید 3)
وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن
رسول اللہﷺ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں
"اللهم أنت الأول، فليس قبلك شيء، وأنت الآخر، فليس بعدك شيء، وأنت الظاهر فليس فوقك شيء، وأنت الباطن، فليس دونك شيء".
اے اللہ تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ، تو ”آخر“ ہے تیرے بعد کوئی نہیں، تو ”ظاہر“ ہے تیسرے اوپر کچھ نہیں، تو ”باطن“ ہے  تیرے نیچے کچھ نہیں۔(صحیح مسلم)
دون کا مطلب ”علاوہ“  بھی ہوتا ہے اور ”دون“ کا مطلب ”نیچے بھی ہوتا ہے۔(المورد ص 557)
ہم دونوں باتوں کا اقرار کرتے ہیں خود حدیث میں بھی لفظ ”دون“ نیچے کیلئے استعمال ہوا ہے۔
نبی کریمﷺ کی حدیث ہے
وَلَا الْخُفَّيْنِ إِلَّا أَنْ لَا تَجِدَ نَعْلَيْنِ فَإِنْ لَمْ تَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَمَا دُونَ الْكَعْبَيْنِ
”اور اگر تمہارے پاس جوتے نہ ہوں تو ٹخنوں کے نیچے تک موزے پہن لیا کرو“۔
(سنن نسائی ج 2 ح 587 : صحیح)
امام بيهقي رحمہ الله فرماتے ہیں کہ
وَاسْتَدَلَّ بَعْضُ أَصْحَابِنَا فِي نَفْيِ الْمَكَانِ عَنْهُ بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَيْسَ فَوْقَكَ شَيْءٌ» . وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَيْسَ دُونَكَ شَيْءٌ ". وَإِذَا لَمْ يَكُنْ فَوْقَهُ شَيْءٌ وَلَا دُونَهُ شَيْءٌ لَمْ يَكُنْ فِي مَكَانٍ.
(الأسماء والصفات للبيهقي ج۲ ص۲۸۷)
”ہمارے بعض اصحاب اللہ کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبیﷺ کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ تو (اللہ) الظاہر مطلب کوئی چیز اسکے اوپر نہیں الباطن یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں اسلئے اللہ کے اوپر کچھ نہیں اور اسکے نیچے کچھ نہیں تو اللہ مکان  و جگہ سے پاک ہے۔“

عقیدہ نمبر 20
اللہ کی صفت ”ید“ متشابہات میں سے نہیں۔
زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں:
” اللہ کی صفت ”ید“ کو متشابہات میں سے کہنا اہل بدعت کا مسلک ہے“۔
(اصول المصابیح  ص 38 ترجمہ و تحقیق و تخریج زبیر علی زئی)

عقیدہ نمبر 21
ننگے ہو کر نماز پڑھنا
نواب صدیق حسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
” عورت کی نماز بغیر ستر چھپائے صحیح ہے عورت تنہا ہو یا دوسری عورتوں کے ساتھ ہو یا پھر اپنے شوہر کے ساتھ ہو یا دوسرے محارم(باپ بھائی بیٹے) کے ساتھ  ہو غرض ہر طرح صحیح ہے زیادہ سے زیادہ سر چھپا لے“۔
(بدول الاہلہ ص 39)

عقیدہ نمبر 22
صحابہ کرام پر فاسق ہونے کا اطلاق  کیا جاسکتا ہے۔
غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے(حوالہ فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)  نزل الابرار میں لکھتا ہے کہ :
” تمام صحابہ کو عدول قرار دینے کا معنی ہے کہ وہ نقل روایت میں ثقہ و عادل و معتبر ہیں نہ کہ سارے صحابہ معصوم ہیں، ان سے کوئی ایسی بات سر زد  ہو ہی نہیں سکتی جس کی بنا پر ان پر لفظ فاسق کا اطلاق نا ممکن ہے“۔
(حاشیہ نزل الابرار ج 3 ص 94)
 معاذ اللہ

عقیدہ نمبر 23
   مشت زنی واجب ہے
نور الحسن خان صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
”نظر بازی کا خطرہ ہو تو مشت زنی واجب ہے“۔
(عرف الجادی ص 207)
سوال یہ ہے کہ اگر یہ واجب ادا نہ کیا گیا تو کیا گناہ  ہو گا؟
ایک غیرمقلد سنت پڑھنے کیلئے کھڑا ہوا اسے نظربازی  کا خطرہ محسوس ہوا اب وہ سنت ادا کرے یا پہلے واجب ؟
اگر نظر بازی کا یہی اعلاج ہے تو پھر نفس پر قابو کا کیا مطلب ہے؟

عقیدہ نمبر 24
اگر زنا پر مجبور کیا جائے تو  زنا کرنا جائز ہے۔
نواب الحسن خان صاحب  غیرمقلد لکھتے ہیں:
” کوئی شخص زنا پر مجبور کیا جائے اس کیلئے زنا کرنا جائز ہے“۔
(عرف الجادی ص 215)
العیاذ باللہ
حضرت یوسفؑ کا مشہور واقعہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب زلیخا انہیں اپنی طرف مجبور کر رہی تھیں تو حضرت یوسفؑ نے اس سے کہا
معاذ اللہ انه ربياحسن مثواي انه لا يفلح الظلمون
ترجمہ:
معاذ اللہ ! تیرا شوہر عزیز مالک ہے میرا اور اچھی طرح رکھا ہے مجھے اس نے ، بے شک ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔
(سورۃ یوسف ص 23)
اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت کوئی  غیرمقلد وکٹورین موجود نہیں تھا جو  جائز کا فتویٰ دے دیتا۔

عقیدہ نمبر 25
بار بار طلاق دینا اور بار بار رجوع کرلینا جائز ہے۔
سائل نے  ایک غیرمقلد مولوی عبد اللہ ویلوری سے سوال پوچھا۔
سوال: زید نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ اس کے بعد 10 یو زید نے رجوع کر لیا پھر کچھ عرصے بعد دوبارہ تنازع ہونے کی صورت میں اس نے طلاق دے دی۔ آٹھ یوم کے بعد پھر رجوع کر لیا۔ اس نے چار پانچ مرتبہ ایسا ہی کیا۔ طلاق دے دی اور رجوع کر لیا زید کو اس مسئلہ کے بارے میں کوئی علم نہ تھا اب اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟؟ اب پھر دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے قرآن و حدیث کی روشنی میں  فتویٰ صادر فرمائیں۔ اللہ آپ جو جزائے خیر دے۔
جواب:
صورت مسئلولہ میں رجوع کر سکتا ہے......۔ دو گواہوں کے ر برو رجوع کرکے بیوی کو آباد کر سکتا ہے
(فتاویٰ جات ص 482)
اس احمق مولوی نے طلاق کی  مقدار  ہی ختم کر دی جو کہ شریعت نے ہمیں دی تھی۔
اب کوئی غیرمقلد  صبح شام بیوی کو طلاق دیتا پھرے اور رجوع کرے بیوی اس کے لئے حلال ہے۔
عقیدہ نمبر 26
کسی کو  حاضر ناظر جاننا شرک نہیں
فرقہ اہلحدیث کا عقیدہ ہے کہ
اللہ کی ذات حاضر و ناظر نہیں اب  جب اللہ کی ذات ہی حاضر ناظر نہیں تو کسی  ولی یا نبی کی ذات کو حاضر و ناظر سمجھا کس طرح سے شرک ہو سکتا ہے ؟ شرک ہو  تو  کس کے ساتھ اللہ  کی ذات تو حاضر و ناظر نہیں۔

عقیدہ نمبر 27
نماز کے سنت واجبات فرائض وغیرہ سب بدعات ہیں۔
ایک غیرمقلد مولوی صاحب لکھتے ہیں:
” نماز کے واجبات فرائض سنن اور مستحبات یہ تمہاری  بدعت ہے اگر بدعت نہیں تو قرآن و سنت سے ثابت کریں“۔
(حنفیوں کے 350 سوالات کے جوابات ص 125)
فرقہ اہلحدیث کے ایک اور احمق مولوی صاحب لکھتے ہیں:
”فقہائے احناف کا نماز کے ارکان میں سے بعض کو فرض بعض کو واجب بعض کو سنت بعض کو مستحب قرار دینا بدترین بدعت ہے“۔
(تحفہ حنفیہ ص 125)
تمام فقہاء اور محدثین کرام نے اپنی اپنی کتب  میں بعض جگہ پر کسی مسئلہ کو فرض یا کسی کو سنت یا کسی کو واجب قرار دیا لیکن ان تمام محدثین فقہاء  جلیل القدر علماء کے خلاف ان وکٹورینوں کے نزدیک یہ ایک بدترین بدعت ہے۔

عقیدہ نمبر 28
ہر ایک اجتہاد کا حقدار ہے۔
ویسے تو یہ عقیدہ ہر ایک غیرمقلد  کا ہوتا ہے۔  لیکن ہم ایک حوالہ بھی پیش کرتے دیتے ہیں۔
مشہور غیرمقلد عالم زبیر علی زئی صاحب  ایک سائل کو سوال کا مختصر جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”باقی امور کے بارے میں خود اجتہاد کر لیں“۔٭
(فتاویٰ علمیہ ص198)
اس احمق کے اس قول پر ہم ایک مشہور محدث کا قول نقل کرتے ہیں
امام الجرح والتعدیل حضرت امام شمس الدین ذہبیؒ (وفات 748ھ)فرماتے ہیں:
نعم من بلغ رتبة الاجتهاد وشهد له بذلك عدة من الأئمة لم يسغ له أن يقلد كما أن الفقيه المبتدئ والعامي الذي يحفظ القرآن أو كثيرا منه لا يسوغ له الاجتهاد أبدا فكيف يجتهد وما الذي يقول؟ وعلام يبني؟ وكيف يطير ولما يريش؟
ترجمہ:
” جو شخص اجتہاد کے مرتبہ پر فائذ ہو بلکہ اس کی شہادت متعد آئمہ دیں اس کیلئے تقلید کی گنجائش نہیں ہے مگر مبتدی قسم کا فقیہ کا عامی درجے کا آدمی جو قرآن کا یا اسکے اکثر حصے کا حافظ ہو  اس کیلئے اجتہاد جائز نہیں، وہ کیسے اجتہاد کرے گا؟ کیا کہے گا کس چیز پر اپنے اجتہاد کی امارت قائم کرے گا؟ کیسے اڑھے گا ابھی اسکے پر بھی نہیں نکلے؟“۔
(سير أعلام النبلاء ج 13 ص 337)
عقیدہ نمبر 29
من پسند مسائل کو راجح قرار دینا۔
غیرمقلدین کے امام شوکانی صاحب لکھتے ہیں”چار دن قربانی والا موقف راجح ہے“
(نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 149)
غیرمقلدین کے محدث العصر حافظ زبیر علی زئی صاحب  لکھتے ہیں ”قول راجح یہ ہے کہ قربانی کے صرف 3 دن ہیں“۔
(علمی مقالات صفحہ 219)
تبصرہ : اگر ان جہلا سے ہی کسی مسئلہ کو راجح مرجوع کروانا ہے تو بہتر نہیں  ائمہ میں سے کسی ایک کی پیروی کی جائے۔

عقیدہ نمبر 30
زبان سے نیت کا مطلق انکار کرنا
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں
”زبان سے نیت کرنا بدعت ہے“۔
(نزل الابرار ج 1 ص 69)
 جبکہ زبان سے نیت کر نا حدیث سے ثابت ہے۔٭
حضرت ابن عباسؓ حضرت ابن  عمرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے نبیﷺ نے بیان فرمایا کہ میرے پاس رات کو میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا (فرشتہ) آیا اور اس وقت آپ عقیق میں تھے (اس نے کہا) اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور کہیں کہ میں نے عمرہ اور حج کی نیت کی۔
(صحیح بخاری ج 3 ح 2244)

جاری...

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India