نیت کا مسئلہ
"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
حافظ محمود احمد
قارئین کرام! سلف سے جنکا تعلق دور کا بھی نہیں ہوتا ایسے نام نہاد سلفی (بزعم خویش) اجتہاد کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں مثلاً روزہ رکھنے کی نیت کے بارے میں عربی کا وہ جملہ جو کہ مشہور اور عام ہے
بصوم غدٍ نویتُ من شہر رمضان.
جہالت نمبر 1:
اس جملے کو فہد محمود٭ جاہل نے اپنی جہالت کا نشانہ بناتے ہوئے اس کو دعاء لکھ دیا ہے جبکہ اس جملے میں نہ ہی اللہ سے کسی طرح کی کوئی فریاد ہے نا ہی اللہ تعالیٰ کی تعریف اور نہ التجا ہے اور نہ درخواست جبکہ دعاء میں فریاد التجاء اور درخواست و عاجزی ہوتی ہے جیسے اذان کے بعد کی دعاء اور دشمنوں کے مکروفریب سے اللہ کی پناہ کی دعا، دعا یہ ہے. اللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ
ترجمہ اے اللہ ہم ان کے مکر سے تیری پناہ چاہتے ہیں .
قارئین کرام! سلف سے جنکا تعلق دور کا بھی نہیں ہوتا ایسے نام نہاد سلفی (بزعم خویش) اجتہاد کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر فائز نظر آتے ہیں مثلاً روزہ رکھنے کی نیت کے بارے میں عربی کا وہ جملہ جو کہ مشہور اور عام ہے
بصوم غدٍ نویتُ من شہر رمضان.
جہالت نمبر 1:
اس جملے کو فہد محمود٭ جاہل نے اپنی جہالت کا نشانہ بناتے ہوئے اس کو دعاء لکھ دیا ہے جبکہ اس جملے میں نہ ہی اللہ سے کسی طرح کی کوئی فریاد ہے نا ہی اللہ تعالیٰ کی تعریف اور نہ التجا ہے اور نہ درخواست جبکہ دعاء میں فریاد التجاء اور درخواست و عاجزی ہوتی ہے جیسے اذان کے بعد کی دعاء اور دشمنوں کے مکروفریب سے اللہ کی پناہ کی دعا، دعا یہ ہے. اللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ
ترجمہ اے اللہ ہم ان کے مکر سے تیری پناہ چاہتے ہیں .
٭اس مضمون میں تو حافظ محمود (عرف عبد الباری محمود) صاحب نے کسی غیر مقلد فہد محمود کے حوالے سے تحریرلکھی ہے، البتہ مضمون نگار احتیاط کریں کہ علماء اور مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی کا نام نہ لیا جائے، بلکہ مضمون کو عموماً سب کو مخاطب کرکے لکھا جائے۔ ناگزیر حالات میں رعایت ہے۔(مدیر)
اسکے علاوہ آپ دعاء کی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں جیسے مقبول و مسنون دعاء، حصن حصین وغیرہ ـ
جہالت نمبر 2:
فہد محمود صاحب نے اپنی جہالت کا دوسرا نمونہ یہ دیا کہ انہوں نے عوام کو یہ کہہ کر دھوکہ دینے کی کوشش کی کہ یہ دعاء کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں حالانکہ پہلی بات تو یہ دعاء ہے ہی نہیں، دوسری بات جناب کے بقول اگر مان لیا جائے کہ یہ دعاء ہے تب بھی اس دعاء کے پڑھنے و لکھنے والوں کا اس بات کا دعویٰ ہی نہیں ہوتا کہ یہ حدیث میں ہے اگر لکھنے پڑھنے والے یہ دعویٰ کرتے کہ یہ دعاء ہے اور حدیث صحیح میں موجود ہے تب فہد محمود صاحب کا یہ کہنا کہ یہ صحیح حدیث میں نہیں ہے صحیح ہوتا ورنہ تو یہ سیدھے اور سادہ ذہن لوگوں کو غلط فہمی میں ڈالنا ہے اور کچھ نہیں ـ
جہالت نمبر 3:
فہد محمود صاحب اس عربی جملے کو ایک طرف صحیح حدیث میں نہ ہونے کی بات کرتے ہیں مگر وہیں دوسری طرف اس کو حدیث ہی بنا دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں: اس منگھڑت حدیث ...٭
جہالت نمبر 4:
یہ ہیکہ انہوں نے اس عربی عبارت کے پڑھنے والے پر ویری ویری فن ٹاسٹک نشانہ لگا کر جاہل اور گنوار ہونے کی گولی داغ دی یعنی جاہل ہونے کا فتویٰ دے ڈالا جبکہ اس کا پڑھنے والا جاہل نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں جو لفظ "غداً" (بمعنی کل) استعمال ہوا ہے وہ اپنے موقع و محل کے لحاظ سے مناسب اور درست ہےاللہ پاک نے رات اور دن دونوں الگ الگ بنائے ہیں رات کا اطلاق غروب آفتاب سے صبح صادق تک اور دن کا اطلاق صبح صادق کے بعد سے غروب شمس تک ہوتا ہے لہٰذا اگر کوئی نیت میں یہ عربی الفاظ استعمال کرے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ وہ صبح صادق کے بعد سے شروع ہونے والے دن کا روزہ رکھ رہا ہے اس لئے کل یعنی غدا کا لفظ بولتا ہے یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ نیت آج کی کر رہا ہے اور روزہ کل کا رکھ رہا ہے، لیکن جناب نے یہاں اپنی جہالت سے 24/گھنٹے گزرنے کے بعد آنے والا جو دن ہوتا ہے اسے سمجھ لیا ہےتبھی قرآن پاک میں آئے لفظ "غدا" کو یہاں فٹ کر دیا ہے
تیسری بات مجھے اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ فہد محمود صاحب کل کسی کو عربی اخباریا عربی کا کوئی لٹریچر پڑھتا دیکھ کر جاہل ہونے کا فتویٰ نہ لگا دیں لہٰذا فہد محمود صاحب کو میرا مشورہ ہے کہ کسی مقلد کے مدرسے کا چکّر دو چار بار لگا لیں ان شاءاللہ علم کی کچھ روشنی مل ہی جائے گی اور آپ کی کم فہمی اور علم سے ناواقفیت وجہالت پرمیں مضمون لکھوں تو مستقل ایک کتاب تیار ہو جائے لیکن میں مضمون کو طول نہ دے کرکے جناب والا سے گزارش کرتا ہوں کہ پلیز اس طرح کی پوسٹ لگا کر خود کو جاہل نہ بنائیں ۔
نوٹ:
قارئین! نیت دل کے ارادہ کا نام ہے اگر کوئی زبان سے ادا کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں، نہ اس کو کوئی فرض سمجھتا ہے نہ ہی واجب، زبان سے نیت کے الفاظ کہنا نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے اور نہ ائمہ متقدمین سے، اس لئے اصل نیت دِل ہی کی ہے، مگر لوگوں پر وساوس و خیالات اور افکار کا غلبہ رہتا ہے جس کی وجہ سے نیت کے وقت دِل متوجہ نہیں ہوتا، دِل کو متوجہ کرنے کے لئے متأخرین نے فتویٰ دیا ہے کہ نیت کے الفاظ زبان سے بھی ادا کرلینا بہتر ہے٭، تاکہ زبان کے ساتھ کہنے سے دِل بھی متوجہ ہوجائے ۔
اللہ پاک صحیح سمجھ کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
منجانب: اے آئی آئی سی
0 comments:
Post a Comment