Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label دعوت حق غیر مسلموں میں. Show all posts
Showing posts with label دعوت حق غیر مسلموں میں. Show all posts

بھائی شمیم احمد سےایک ملاقات

"سربکف" میگزین 3-نومبر، دسمبر 2015
شمیم احمد / سنیل کمار

احمد اوّاہ:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
شمیم احمد:وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
س:شمیم بھائی آپ دہلی کب اورکہاں سےآئےہیں ؟
ج:میں دہلی پرسوں آیاتھا،میں اصل میں جماعت میں چارمہینےلگاکرلوٹاہوں ،ہماری جماعت نےبہارمونگیرضلع میں چارمہینےلگائےہیں ،حضرت سےفون پرپہلےبات ہوگئی تھی کہ ۱۳ ؍تاریخ کی شام کودہلی میں ملاقات ہوجائےگی ،اس لئےمرکزمیں رک گیاتھا،آج گھرجانےکاارادہ ہے۔
س:جماعت کہاں کی تھی اورامیرصاحب کہاں کےتھے؟
ج:جماعت میں الگ الگ جگہ سےلوگ تھے،پانچ لوگ میرٹھ کےتھے،دوپانی پت ہریانہ کے،امیرصاحب غازی پورکےایک قاری صاحب تھےجومرکزکےایک مدرسہ میں پڑھاتےہیں ،دوہم ،میں اورمیرےچھوٹےبھائی نسیم احمد،جماعت میں سبھی ساتھی بہت اچھےتھےبس میرٹھ کےایک بڑےمیاں بہت ہی گرم مزاج کےتھے،مگرامیرصاحب بہت ہی نرم سوبھاؤکےتھے،ذراسی دیرمیں منالیتےتھے۔
س:جماعت کی کچھ خاص باتیں بتائیے؟
ج:ہم گاؤں کےلوگ وہ بھی ہریانہ کے،خاص بات کیابتائیں ؟بس ایک بات چارمہینےتک دل ودماغ پرچھائی رہی ،مرکزنظام الدین میں حضرت مولاناابراہیم دیولاصاحب کےبیان میں آخرت اورجنت ودوزخ کاذکرسناتھا،اس طرح انھوں نےبیان کیاجس طرح دیکھنےوالاکمنٹری بیان کرتاہے،رات کوسویاتوخواب میں دیکھاکہ حشر کےمیدان میں ہوں اورحساب کتاب ہورہاہے،ایساہولناک منظرہےکہ بس تصوربھی نہیں کیاجاسکتا،گناہ گاروں کاحال ایسابراہےکہ بس اللہ بچائے،دوزخ بھی سامنےدکھائی دےرہی تھی ،اورجنت بھی ،میراحال ڈھل مل ہےکبھی لگتاہےجہنم میں ڈالاجائےگاکبھی ہوتاہےکہ نہیں جان بچ گئی ،آنکھ کھلی تومجھ پراس قدرخوف طاری ہواکہ نینداڑگئی ،اگلےروزسفرتھا،ٹرین میں بھی نیندنہ آئی ،رات میں فضائل اعمال کی تعلیم ہوئی تواوربھی نقشہ سامنےآگیا،ایک ہفتہ تک مجھےایک منٹ کونیندنہیں آئی ،کئی ڈاکٹروں کودکھایا،امیرصاحب نےسرکی مالش کرائی ساتھیوں نےپاؤں بھی دبائے،ساتھیوں کامشورہ ہواکہ اس کوواپس گھربھیج دیاجائے،مگرمیں نےصاف منع کردیاکہ اللہ کےراستہ میں موت آجائےگی توآجائے،چارمہینےسےایک دن پہلےمیری میت بھی نہ لےجائی جائے۔
     امیرصاحب بہت پریشان تھےمگران کی عادت تھی کہ ہرمشکل میں دورکعت صلوٰ ۃالحاجۃ پڑھ کراللہ سےفریادکرتےتھے،ایک رات انھوں نےساتھیوں کومیری مالش اورخدمت وغیرہ کےلئےلگایااورخودمسجدکےایک کونےمیں 
جاکردعاشروع کی ،الحمدللہ مجھےنیندآگئی ،میں نےسوتےمیں خواب دیکھا،میں محشرکےمیدان میں ہوں اوربہت ڈررہاہوں ،کہ میراحساب کس طرح ہوگا؟
     میں نےدیکھاکہ لوگوں میں شورہونےلگا،ہمارےنبی ﷺتشریف لارہےہیں ،میں شورکی طرف کوبڑھاتواللہ کےرسول ﷺایک خوب صورت چادراوڑھےہوئےہیں ،اورآپ نےدورسےاتنی بھیڑمیں مجھےآوازلگائی ،میں جلدی جھپٹا،بھیڑکوادھرادھرکرتےہوئےآپ کےپاس پہنچا،آپ نےاپنی چادرکاایک حصہ میرےسرپرڈال دیا،اورمجھےایسالگاجیسےمیں کسی رحمت کےسایہ میں آگیاہوں ،اس کےبعدمیری آنکھ کھل گئی ،نیندنہ آنےکی شکایت تودورہوگئی مگردل ودماغ پرہروقت آخرت کامنظراورجنت ودوزخ جیسےبالکل ہی آنکھوں کےسامنےہوں ،میراحال جماعت میں یہ رہاکہ امیرصاحب اکثرمجھ سےہی بات کرواتےتھے،اورمیراحال یہ تھاکہ مجھےبس موت کےبعدکی زندگی دنیامیں ہی دکھائی دیتی تھی ،اس لئےبس موت کےبعد،میدان حشر،جنت ودوزخ کی باتیں کرتاتھا،میرےساتھی کہنےلگےکہ تم توجنت ودوزخ کاذکرایسےکرتےہوجیسےسامنےہو،امیرصاحب کہنےلگےکہ تمھارےساتھ وقت لگاکرپوری جماعت کاایمان ،ایمان ہوگیاہے۔
س:ماشاءاللہ بہت قابل رشک حال ہے،یہ حال توصحابہ کاہوتاتھا،کہ وہ کہتےتھےاگرہم جنت اورجہنم کودیکھ لیں توہمارےایمان میں کوئی اضافہ نہ ہو!
ج:صحابہ کےایمان کی توکیابات ہے،میراحال توبس مولاناابراہیم صاحب کےبیان کی برکت سے،اس کاایک قطرہ اس گندہ کومیرےاللہ نےدکھادیا،میرےلئےیہ بھی بڑی نعمت ہےکہ اللہ تعالی بس اس کوباقی رکھیں اورموت کےوقت کام آجائے،مگریہ بات ضرورہےکہ موت کےبعدکی زندگی کایہ خیال انسان کی زندگی کوبدل دیتاہے،اتنی احتیاط جیون میں آجاتی ہے،اصل یہ ہےکہ اس حقیقت کےسامنےآنےکےبعدزندگی ہی الگ ہے،انسان بالکل انسان بن جاتاہے،ایک بارمیں دہلی میں حضرت کی گاڑی میں سونی پت گیاتوحضرت کےایک خادم حافظ شہاب الدین ساتھ تھے،حضرت پنجاب جارہےتھے،گاڑی میں جگہ تھی ،حضرت نےکہاکہ سونی پت تک ساتھ چلو،بات بھی ہوجائےگی اورتم وہاں سےنکل جانا،راستہ بھرحافظ شہاب الدین حضرت سےبس جنت کی بات کرتےرہے،کبھی کہتےحضرت جنت میں توجب آپ کاقافلہ چلاکرےگاتوپوری دنیاکےاتنےسارےلوگ ہوں گے،وہاں توجام نہیں ملےگا؟کبھی کہتےوہاں ٹریفک پولیس کی ضرورت تونہیں ہوگی ،کبھی کہتےحضرت وہاں آپ کےساتھ ذکرکی مجلس بھی ہوگی ؟کبھی کہتےحضرت جنت میں خودآپ کےساتھ دنیاجڑجائےگی ،ایسانہ ہوکہ ہم دیہاتیوں کوآپ سےملنےبھی نہ دیاجائے،حضرت بھی ان کی اس طرح کی دیوانگی کی باتوں سےبہت خوش ہورہےتھےاورمزےلےرہےتھے،میں یہ سوچ رہاتھاکہ یہ حافظ جی کیسی نشہ والوں کی طرح دیوانگی کی باتیں کررہےہیں ،اورحضرت بھی ان کی ہربات کاجواب دےرہےہیں ،اس بارجماعت میں میرےاللہ نےبس ایک خواب دکھادیاتوآنکھیں کھل گئیں ،ایسالگاجیسےکسی سوتےکوخواب دیکھتےہوئےکوئی جگادے،پہلےمجھےحافظ جی کی بات خواب اورنشہ دکھائی دےرہی تھی مگراب لگتاہےکہ میں خواب اورنشہ میں تھااب جاگاہوں،اورجھوٹ کانشہ اتراہے،اورسچ میرےاللہ نےمجھےدکھادیاہے،بس میرےاللہ میرےاس حال کوباقی رکھے، میرےنبیﷺنےکتنی سچی بات فرمائی کہ ہوشیاروہ ہےجوآخرت کی حقیقی اورہمیشہ کی زندگی کویادرکھےاورفانی دنیاکی طرف نظرنہ لگائے۔
س:آپ نےواقعی بڑےپتہ کی بات کہی ،آپ اپناخاندانی تعارف کرائیں ؟
ج:میں ہریانہ کےضلع بھوانی کےایک لالہ خاندان میں ۲ ؍اپریل ۱۹۶۹ ءمیں پیداہوا،میرےپتاجی نےمیرانام سنیل کماررکھا،میرےایک بڑےبھائی اورتین بہنیں تھیں ،دومجھ سےبڑی اورایک چھوٹی تھیں ،میرےپتاجی گاؤں میں مٹھائی کی دوکان کرتےتھے،سنہ ۱۹۴۷ ءمیں دیش کےبٹوارہ کےوقت مین روڈپرایک چھوٹی سی مسجدمیں ،جومسلمانوں کےمارےجانےاورپاکستان جانےکی وجہ سےویران ہوگئی تھی ،اس کی ایک دوکان اورایک مکان مسجدسےلگاہواتھاجوامام کےلئےبنایاگیاتھا،پتاجی نےاس دوکان میں اپنی دوکان کرلی تھی ،وہاں جاتےاورمٹھائی سموسےوغیرہ بناکربیچتےتھے،وہ اچھی چلی اوربعدمیں انھوں نےوہاں ریسٹورینٹ کرلیاتھا۔
س:مسجدکی جگہ میں ریسٹورنٹ بنالیاتھا؟
ج:نہیں ،پتاجی جب تک زندہ رہےوہ مسجدکابہت ادب کرتےتھےصبح اندھیرےاندھیرےمسجدمیں جھاڑوخودلگاتےتھے۔اوروہاں منبرپرایک قرآن شریف رکھاتھااس کولوبان اوردھوپ بتی کی دھونی دیتے،اوراس کاسنسکارکرتے،بہت لوگوں نےچاہاکہ مسجدمیں مورتی رکھ کراسےمندربنالیاجائےمگرپتاجی نےکبھی ایسانہ کرنےدیااسی کی وجہ سےکئی بارپتاجی کوماربھی کھانی پڑی ،وہ کہتےتھےکہ جب تم لوگ شیومندرمیں شیوجی کوہٹاکرہنومان کونہیں رکھتےتواللہ کےمندرمیں دوسروں کوکیسےرکھنےکوکہتےہو،۲۰۰۷ ءمیں میرےپتاجی کادیہانت (انتقال )ہوگیا،میں اورمیرےبڑےبھائی دونوں ریسٹورنٹ کرتےتھے،اورسب سےبڑےبھائی گاؤں کی دوکان میں کرانہ کی دوکان کرتےتھے،اب میں نےریسٹورنٹ چھوڑدیاہےاورایک دوکان روہتک میں بہت اچھی جگہ لےلی ہے،مگراب جماعت کےبعدمیں نےارادہ کیاہےکہ بس اب تواصل کاروبارآخرت کاکرناہے،ابھی ارمغان ملا،اس پرماجددیوبندی کاشعرپڑھنےکوملا:
کاروبارِ دعوتِ اسلام بڑھتا ہے سدا
کیا خبر اس کو کہ جس نے یہ تجارت کی نہیں 
یہ پوری دنیااچھےسےاوراچھےکی طرف بڑھ رہی ہےکوئی گاؤں میں کام کرتاہے،اسےشہرمیں کوئی اچھی دوکان مل جائےتوایک آن میں سب کچھ چھوڑکرگھرباربیچ کرشہرمیں آجاتاہے،سناہےایک ہزارخاندان روزانہ دہلی آکربس جاتےہیں ،اس لئےکہ انھیں وہاں اپنےگاؤں اورشہروں سےزیادہ اچھاکاروباراوررہناسہنادکھائی دےرہاہے،جس کاروبارمیں انسان کومعلوم ہوجائےکہ نفع زیادہ ہورہاہےتوآدمی ساری پونجی بیچ کراپناسب کچھ کاروبارمیں لگادیتاہے،بلکہ قرض تک لےکرلگادیتاہے،اگردنیاوی زندگی دھوکہ ہےاورفانی ہےاوراس میں کیاشک ہےجب دنیابنانےوالےرب نےہی اسےمتاع الغروربتایاہےاورآخرت ہمیشہ کےلئےہے،وہاں کانفع اصل نفع اوروہاں کاگھاٹااصل گھاٹاہے،توآخرت کی تجارت کےلحاظ سےدعوت سےبڑاکوئی دھندہ نہیں ،اس لئےبھائی اگراس سےزیادہ نفع کاکوئی دھندہ اوربزنس ہوتاتواس دنیاکےسب سےہوشیارلوگ نبی اوررسول وہی کام کرتے۔
     ہمارےحضرت خوب پتہ کی بات کہتےہیں ،اس دھندہ میں محنت بھی کم اورپونجی بھی کم لگتی ہے،لوگ کمائیں اورہمارےکھاتےمیں جمع کرتےجائیں ،ایک آدمی ایمان میں آگیااس کےقبول ایمان کااورزندگی بھرجونیکیاں نماز،روزہ ،ذکروتلاوت ،صدقہ اوردعوت جوبھی وہ نیک کام کرےگااس کےتمام اعمال کامقبول اجرایمان کی دعوت دینےوالےکوملتارہےگا،اوراس کی نسلوں میں قیامت تک جتنےلوگ ایمان میں آئیں گے،ان کےایمان اوراعمال کااجرذریعہ بننےوالےکےکھاتہ میں جمع ہوتارہےگا،گویایہ دھندہ ایساہےکہ دعوت کےتاجرکاہرگاہک اس کارٹیلراورتجارتی نمائندہ بھی بنتاجاتاہے،اس لئےماجدصاحب کایہ شعربالکل سچالگاکہ یہ تجارت مسلسل بڑھتی ہی رہتی ہے،اس میں خسارہ کاسوال ہی نہیں ۔تومیں نےاپنےوقت اورصلاحیت کوجومیری سچی پونجی ہےروہتک کی دوکان چھوڑکراس بڑےبزنس میں لگادینےکاارادہ کرلیاہے۔
س:پھرآپ نےروزگارکےلئےکیاسوچا؟
ج:مولانااحمد!آپ اپنےماتحتوں کوکچھ بانٹ رہےہوں اورایک آدمی اس وقت آپ کےکسی کام میں مشغول ہوتوکیاآپ اس کونہیں دیں گے؟آپ یقیناًاس کاحصہ اوروں سےزیادہ محفوظ کریں گے،یہ توہمارادھوکہ ہےکہ ہم کماتےہیں ،رزّ اق تواللہ کی ذات ہےاگراس کےدین کےلئےاپنےکووقف کردیں گےتووہ دوسروں سےاچھاکھلائیں پلائیں گے،میراتوپکایقین ہے۔
س:اپنےقبول اسلام کےبارےمیں بتائیں ؟
ج:پتاجی کےدیہانت کےبعدتین سال تک میں اورمیرےبڑےبھائی مسجدکی صفائی کرتےاورصبح وشام قرآن مجیدکودھوپ بتی کی دھونی دیتےاوردن چھپتےہی مسجدمیں چراغ جلاتےکام ٹھیک چل رہاتھا،میرےمالک کواپنےگھرکی خدمت کابدلہ مجھےدیناتھااس لئےمیرےگھرایک شیطان کوبھیجا،میرےبھتیجےکی شادی ہوئی ،پھرتےپھرتےجس پنڈت جی کوبلایاوہ ہمارےریسٹورنٹ کےپاس والےگاؤں کےتھے،انھوں نےشادی کےبعدمجھےگھرآکرملنےکےلئےکہااوربتایاکہ میں نےپترےمیں تمھارےبھوشیہ 
(مستقبل )کےبارےمیں ایک بات دیکھی ہے،وہ بتانی ہے،بات کچھ اس طرح کہی کہ میں بےچین ہوگیا،اورشادی کےتیسرےدن پنڈت جی کےگھرپہنچا،پنڈت جی نےپہلےتواپنےجیوتش وگیان کامجھ پررعب جمایا،فلاں منتری کومیں نےاتنےدن پہلےبتادیاتھاوہ ہارگیا،فلاں جیت گیا،اس نےبتانےسےفیکٹری کھولی کروڑپتی بن گیا،پھرمجھ سےکہامجھےشیوجی کی طرف سےآدیش ہواہےکہ تمھارےپتاجی بڑےبھگت تھےاس لئےمیں تمھارےریسٹورنٹ پرکچھ دن تک آکرجاپ کروں اورآرتی اتاروں ،ورنہ آپ کےکاروباراورجان پرشنی کاسایہ پڑجائےگا،میں آپ سےاس کےلئےکوئی خرچ بھی نہ لوں گابس کوئی جگہ مجھےتنہائی میں جاپ کرنےکی چاہئے،میں نےبھائی سےمشورہ کیاتوانھوں نےاجازت دےدی ،مسجدکےصحن میں ایک جگہ ان کودےدی گئی ،جہاں انھوں نےآرتی کرتےکرتےمورتی رکھ لی ،وہ روڈپرجگہ تھی وہاں ان کی خوب دوکان جم گئی ،وہ مجھےاورمیرےبھائی کوسمجھاتےرہےاورہمیں تیارکرکےقرآن مجیدوہاں سےاٹھواکرمحراب میں مورتی رکھوادی ،وہ توکہہ رہےتھےکہ اس قرآن کوباندھ کرکسی کنویں میں ڈال دیں ،مگرہم نےپتاجی کی یادگارسمجھ کرگھرمیں لاکررکھ لیا،جس روزمورتی رکھی گئی ،ریسٹورنٹ میں گیس سلنڈرمیں آگ لگ گئی ،جس سےہم لوگ کسی طرح بچ گئے،تین دن کےبعدمیرےبڑےبھائی موٹرسائیکل سےگرےاوران کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی ،ہم نےماں سےمشورہ کیا،ماں نےکہاوہ پنڈت جی تمھارےساتھ راکشش (شیطان )لگ گیا،سارےجیون سےمالک کےگھرکاسنسکارکرتےتھےچین سےجی رہےتھے،اب اس کےچکرمیں پڑکرتم دکھی ہوگئےہو،ہم دونوں بھائیوں نےپنڈت جی کووہاں سےچلتاکرنےکی سوچی ،مگرایک سال میں ان کابہت میدان بن گیاتھا،ایک دن ایسےہی میں نےپنڈت جی سےکہاآپ نےمالک کےمندرمیں شیوجی کی مورتی رکھ دی ہےاس سےاوپروالامالک بہت ناراض ہے،آپ سےہم سےبھی زیادہ ناراض ہےاگرآپ یہاں سےجگہ چھوڑکرنہ گئے،توایک ہفتہ میں آپ کی پتنی یابچےمرجائیں گے،مجھےپتاجی نےسپنےمیں بتایاہے۔
س:آپ کوایساسپنادکھائی دیاتھاکیا؟
ج:نہیں ،میں نےایسےہی ڈرانےکےلئےکہاتھا،کہ زبردستی اس سےکرنامشکل تھی ،سوچاتھاشایدڈرجائےاورہماراکام بن جائے۔
س:توپھرکیاہوا؟
ج:پنڈت جی کواپنےدھندےکےلئےایسی مین روڈکی جگہ کہاں ملتی ،وہ جگہ چھوڑنےکوتیارنہ ہوئے،مالک کاکرناایک رات پنڈت جی اپنی بیوی کےساتھ سوئے،بیوی پہلےاٹھتی تھی ،مگرصبح کوپنڈت جی اٹھےتوپتنی کوسوتےہوئےپایا،اٹھایاتومعلوم ہواکہ ہمیشہ کےلئےسوچکی ہے،پنڈت جی کاحال خراب ہوگیا،مجھےمعلوم ہواتومجھےدکھ بھی ہواکہ بیچارےکےساتھ حادثہ ہوا،مگرخوشی زیادہ ہوئی کہ میراتیراندھیرےمیں لگ گیا،تین دن کےبعدمیں نےبات ذرااورپکی کی ،کہ پنڈت جی میں نےایک سپنااوردیکھاہےکہ کل تک پنڈت جی یہ مورتی یہاں سےہٹاکرنہ جائیں گےتوان کےتینوں بچےمرجائیں گے،پنڈت جی ڈرےہوئےتھےانھوں نےوہ مورتی وہاں سےاٹھائی اوراپنابستربھی وہاں سےہٹالیا،میں نےقرآن شریف لاکروہیں رکھ دیا،جب سےہم نےمورتی وہاں رکھی تھی ہمارےریسٹورنٹ کوبھی جیسےکسی نےباندھ دیاہو،جیسےہی قرآن وہاں واپس رکھا،دوبارہ کاروباراچھی طرح چلنےلگا،ایک روزظفرنام کےایک ڈاڑھی والےصاحب میرےپاس آئےاوربولےمیں پہلےہندوتھااب مسلمان ہوگیاہوں ،میں یہاں فیکٹری میں کام کرتاہوں یہاں کئی مسلمان رہتےہیں، ان کونمازکی بہت پریشانی ہے،آپ مالک کےگھرکوصاف کرتےہیں، یہاں پرچراغ جلاتےہیں مالک کی پوجاکےلئےیہ مسجدکسی نےبنائی ہوگی ،آپ یہ مسجدمسلمانوں کےسپردکردو،اورہم تمھیں اس کےبدلہ میں پیسےبھی دےدیں گے،دوتین بعدوہ دولوگوں کولےکرآئے،اورڈھائی لاکھ ان سےلےکران کوسُپردکرنےکی بات ہوگئی ،مگران پیسوں کےآنےسےمیرےبیوپارکی برکت ہی اڑگئی ،اورریسٹورنٹ بالکل ٹھنڈاپڑاگیا،مسجدبہت موقع کی تھی نمازی بڑھتےگئے،جمعہ کےدن دورسڑک تک صفیں بن جاتیں ،ایک روزظفرصاحب ممبئی کےایک حاجی صاحب کولےکرمیرےپاس آئےاوربولےکہ آپ اس ریسٹورنٹ اورگھرکومسجدکوبڑھانےکےلئےدےدیں اورآپ روہتک میں کوئی جگہ لےکروہاں دوکان کرلیں ،آپ کاریسٹورنٹ یہاں چل بھی نہیں رہاہے،ہم نےماں سےمشورہ کیا،ماں نےکہاٹھیک ہےکرلو،ساڑھےسات لاکھ روپئےمیں بات طےہوگئی ،چارمہینوں کاوقت پیسوں کےلئےطےہوا،چارمہینوں میں پیسوں کاانتظام نہ ہوسکاتوظفرصاحب کوکسی نےمولانامحمدکلیم صاحب کاپتہ اورفون نمبردیا،وہ دہلی گئے،حضرت سےملے،حضرت نےمجھ سےفون پربات کی اوردومہینےاوربڑھانےکوکہا،میں نےدودن بعددومہینےوقت اوربڑھادیا،ظفرصاحب نےڈیڑھ مہینہ میں پیسےلاکرمجھےدےدئیے،میں نےایفی یوڈبناکردےدیا،اوراپناسامان اٹھالیا،اس کےبعداگلےجمعہ کوظفرصاحب نےحضرت کووہاں آکرجمعہ پڑھانےکوکہا،حضرت نےوقت دےدیا،ظفرصاحب نےکہابڑےمولاناصاحب ہمارےدھرم گروآرہےہیں آپ دونوں بھائی ان سےضرورمل کران سےدعااورآشیروادلےلیں ،جمعہ سےپہلی رات میں نےخواب دیکھاکہ دس بڑےسانپ ہیں ،وہ مسجدسےنکلےاورہمارےگھرکی طرف دوڑرہےہیں ،لوگ کہہ رہےہیں کہ یہ دسوں تمھارےگھروالوں اورتمھارےکاروبارکوکھالیں گے،میری آنکھ کھلی تومیں بہت ڈراہواتھا،ڈرکی وجہ سےمیں صبح دس بجےمسجدپہنچ گیا،میرےبڑےبھائی ساتھ تھے،حضرت ۱۲ ؍کےبعدآئے،ہم نےان کےساتھ ناشتہ کیااورحضرت سےمیں نےاپنےخواب کےبارےمیں بتایا،کہ ڈھائی لاکھ مسجدکےاورساڑھےسات لاکھ گھراورریسٹورنٹ کےہوئے،دس لاکھ روپئےاس مسجدکےمیں نےلئےہیں ،حضرت نےکہایہ مالک کاگھرہے،اورہم سب مالک کےبندےہیں ،فرمانبردارغلام اوربندےبن کرہمیں خودمسجدمیں پیسہ لگانااوراپنےاکیلےمالک کی عبادت کرنی چاہئے،آپ نےپیسےلےکریہ مسجدخالی کی ہےیہ آپ کےلئےحلال نہیں ،اورہمارےنبی ﷺنےبتایاہےکہ حرام مال کوگنجےسانپ کی شکل میں دوزخ میں لایاجائےگاتوحرام کھانےوالےکوڈسےگا،حضرت کےساتھ حاجی شکیل صاحب بھی تھے،حضرت نےمجھےاورمیرےبھائی کوالگ مولاناکےحجرہ میں بات کرنےکےلئےبھیج دیا،حاجی صاحب نےہمیں بہت محبت سےسمجھایااوراسلام کی دعوت دی ،زندگی کےحالات میں خودہم لوگ اندرسےاسلام کےقریب تھے،رات کےخواب کااثرتازہ تھا،ہم دونوں نےکلمہ پڑھ لیا،حضرت نےکلمہ پڑھوایا،حضرت نےمیرےبھائی کانام محمدشکیل اورمیرانام محمدشمیم رکھا،ہمیں وضوکرائی اورہم نےحضرت کےساتھ پہلی جمعہ کی نمازپڑھی نمازکےبعدہم نےحضرت سےوعدہ کیاکہ دس لاکھ روپئےہم دونوں بھائی جلدی یاتوروہتک کی دوکان بیچ کریاکسی طرح انتظام کرکےلوٹادیں گے،حضرت نےکہاٹھیک ہے،آپ نیت پکی رکھواللہ تعالی سہولت سےجب انتظام کرادیں لوٹادینا،اس سےاس مسجدکی دوبارہ بڑی عمارت بناناشروع کریں گے،بھائی ظفرستمبرمیں جماعت میں چلّے کوجارہےتھے،انھوں نےحضرت سےفون پربات کرائی ،حضرت نےہمیں مشورہ دیاکہ آپ دونوں بھائی جماعت میں چالیس روزضرورلگالیں ،پہلےایک بھائی چلےجائیں اس کےبعددوسرےبھائی چلےجائیں ،ماں سےمشورہ کیا،کون پہلےجائے،ماں نےکہادھرم کےکام میں دیرنہیں کرنی چاہئےتم دونوں ساتھ چلےجاؤ،ظفربھائی کےساتھ ہم نےپہلاچلہ ستمبر۲۰۱۱ ءمیں لگایا،واپس آکرہم نےپہلےماں کوآکرپوری جماعت کی کارگذاری سنائی ،وہ الحمدللہ بہت آسانی سےاسلام قبول کرنےکوتیارہوگئیں ،اس کےبعدہمارےبچےاورگھروالیاں بھی تھوڑی تھوڑی کوشش سےایمان میں آگئیں ۔
س:مسجدکےوہ دس لاکھ روپئےواپس ہوگئے؟
ج:اللہ نےنیت کی برکت سےبالکل آسانی سےکام کرادیاہم لوگوں نےایک نئی آبادی میں ایک پلاٹ ابھی کچھ روزپہلےدولاکھ روپئےکاخریداتھا،اچانک اس علاقہ کےپاس ایک ہائی وےروڈنکل گیا،مٹی ڈالتےہی زمین کےبھاؤدس گنےبڑھ گئے،یہ پلاٹ بیس لاکھ روپئےکابک گیا،ہم نےدس لاکھ روپئےظفربھائی کودئیے،دونوں بھائیوں کی طرف سےپچاس پچاس ہزارروپئےمزیدمسجدبنوانےکےلئےاپنی طرف سےدئیے،اورنولاکھ روپئےکی ایک دوکان روہتک میں خریدلی ،بیس فددوکان ہے۔الحمدللہ ریسٹورنٹ کےلئےبہت اچھی جگہ پرہے،بڑےبھائی اس میں بیٹھ رہےہیں ۔
س:آپ نےاپنےگھروالوں کےدین سیکھنےکاکچھ انتظام کیا؟
ج:ہمارےیہاں ایک قاری صاحب ہیں جوہانسوٹ گجرات میں پڑھےمیران سےہم سب گھروالےقرآن شریف اردواوردینیات پڑھ رہےہیں ۔
س:دعوت کےلئےکیاکررہےہیں آپ ؟
ج:الحمدللہ علاقہ کےجماعت کےکام میں جڑتےہیں ۔۱۲ء میں اور۱۳ء میں چلہ لگایا،اس سال چارمہینےبھی اللہ نےلگوادئیے،اورالحمدللہ نےوہ پنڈت جی جنھوں نےمسجدمیں مورتی رکھی تھی وہ بھی ایمان میں آگئےہیں ،کچھ لوگ توشوق سےمانتےہیں ،کچھ لوگوں کوخوف سےمانناپڑتاہے،پنڈت جی ایک کےبعدایک حادثہ سےڈرکراسلام میں آئےہیں ۔
س:ان کےبارےمیں بتائیے؟
ج:اب مجھےجاناہے،ہماری گاڑی کاوقت ہے،میں ان کولےکرآؤں گا،ان کی کہانی ان سےہی سنوادوں گا۔
س:ارمغان پڑھنےوالوں کوکچھ پیغام دیجئے؟
ج:دنیاکےکسی افسرمنتری کےگھریااس کی پارٹی کاکچھ کام کوئی کردے،تووہ اس کوضرورنوازتاہے،سارےحاکموں کےحاکم ،کن کےاشارےسےساری کائنات کوبنانےوالےکےگھرمسجدمیں اس کےدین کی ذراخدمت کرکےتودیکھےکیسےنوازتے ہیں میرےمالک! میرےپتاجی نےذراسی جھاڑواس کےگھرمیں لگائی ،اس کےکلام کاسنسکارکیا،ہمارےپورےخاندان کودین سےاجڑےدیارہریانہ میں اوراس کےبھی بھوانی کےویران ترین علاقہ میں کس طرح ہدایت سےنوازا،ہرایک اس کاتجربہ کرکےدیکھ لے۔
س:واقعی بہت کام کی بات آپ نےکہی ۔جزاکم اللہ ۔فی امان اللہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ 
ج:وعلیکم السلام دعاؤں میں ضروریادرکھیں ۔٭

کم سنی میں حضرت عائشہ کا نکاح تحقیق و تجزیہ

 "سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015



حضرت عائشہ صدیقہ ر ضی ا للہ عنہا کا نکاح نبی ا کرم صلى الله عليه وسلم کےسا تھ کم سنی میں ہو ا یعنی 6/ سا ل کی عمر میں نکاج ا و ر
9/سا ل کی عمر میں رخصتی ہوئی، ا س سلسلہ میں معاندین ِ اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ ا س کم سنی کی شادی پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلمکے لئےموزوں اور مناسب تھی؟ چنانچہ ایک یہود ی عالم نے ا نٹرنیٹ پر یہی اعترا ض پیش کیا ہے
زیر  نظر مضمون میں ا سی کا مفصل ومدلل جواب دیاگیا ہے۔
سوال: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا نکاح نبی اکرم ﷺکے ساتھ کم سنی میں ہوا، بیان کیا جاتاہے کہ ۶/ سال کی عمر میں نکاح اور ۹/سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اس سلسلہ میں معاندین اسلام کی طرف سے یہ شکوک و شبہات قائم کئے جاتے ہیں کہ اس کم سنی کی شادی پیغمبر اسلام ﷺکے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھی۔ چنانچہ ایک یہودی عالم نے انٹرنیٹ پر یہی اعتراض پیش کیا ہے۔ آپ اس کا تحقیقی و تفصیلی جواب عنایت فرمائیں تو شکرگذار ہوں گا۔ (فاروق عبدالعزیز قریشی رنگ روڈ مہدی پٹنم، حیدرآباد)
جواب: حضرت عائشہ صدیقہ-رضی الله عنہا- سے جو حضوراکرم ﷺنے اُن کی کم سنی میں نکاح فرمایا اور پھر ان کی والدہ حضرت ام رومان-رضی الله عنہا- (زینب-رضی الله عنہا-) نے تین سال بعد ۹/ سال کی عمر میں رخصتی کردی، اس پر بعض گوشوں سے اعتراضات اور شکوک و شبہات نئے نہیں ہیں؛ بلکہ پرانے ہیں، علماء اور محققین نے جوابات بھی دئیے ہیں، تاہم ذیل کی سطروں میں ایک ترتیب کے ساتھ جواب دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امید کہ جواب میں تحقیق و تجزیہ کے جو پہلو سامنے آئیں گے، اُن سے ذہنی غبار دھل جائے گا اور ذہن کا مطلع بالکل صاف اور واضح ہوجائے گا۔ اس لیے مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر تفصیلی جواب لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
                اس میں کوئی شک نہیں کہ کارگاہِ عالم کا سارا نظام قانونِ زوجی (Law of Sex) پر مبنی ہے اور کائنات میں جتنی چیزیں نظر آرہی ہیں سب اسی قانون کا کرشمہ اور مظہر ہیں۔ (الذاریات:۴۹) یہ اور بات ہے کہ مخلوقات کا ہر طبقہ اپنی نوعیت، کیفیت اور فطری مقاصد کے لحاظ سے مختلف ہیں لیکن اصل زوجیت ان سب میں وہی ایک ہے۔ البتہ انواعِ حیوانات میں انسان کو خاص کرکے یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس کے زوجین کا تعلق محض شہوانی نہ ہو بلکہ محبت اور انس کا تعلق ہو دل کے لگاؤ اور روحوں کے اتصال کا تعلق ہو۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار اور شریک رنج و راحت ہوں، ان کے درمیان ایسی معیت اور دائمی وابستگی ہو جیسی لباس اور جسم میں ہوتی ہے۔ دونوں صنفوں کا یہی تعلق دراصل انسانی تمدن کی عمارت کا سنگِ بنیاد ہے اس ربط و تعلق کے بغیر نہ انسانی تمدن کی تعمیر ممکن ہے اور نہ ہی کسی انسانی خاندان کی تنظیم۔ جب یہ قانونِ زوجی خالقِ کائنات کی طرف سے ہے تو یہ کبھی صنفی میلان کو کچلنے اور فنا کرنے والا نہیں ہوسکتا۔ اس سے نفرت اور کلی اجتناب کی تعلیم دینے والا بھی نہیں ہوسکتا؛ بلکہ اس میں لازماً ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے اس اقتضاء کو پورا کرسکے حیوانی سرشت کے اقتضاء اور کار خانہٴ قدرت کے مقرر کردہ اصول و طریقہ کو جاری رکھنے کے لیے قدرت نے صنفی انتشار کے تمام دروازے مسدود کردئیے،اور ”نکاح“ کی صورت میں صرف ایک دروازہ کھولا۔ کسی بھی آسمانی مذہب و شریعت نے اس کے بغیر مرد و عورت کے باہمی اجتماع کو جائز قرار نہیں دیا۔ پھر اسلامی شریعت میں یہاں تک حکم دیاگیا ہے کہ اس فطری ضرورت کو تم پورا کرو، مگر منتشر اور بے ضابطہ تعلقات میں نہیں، چوری چھپے بھی نہیں، کھلے بندوں بے حیائی کے طریقے پر بھی نہیں؛ بلکہ باقاعدہ اعلان و اظہار کے ساتھ، تاکہ تمہاری سوسائٹی میں یہ بات معلوم اور مسلم ہوجائے کہ فلاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے ہوچکے ہیں۔
                نبی کریم ﷺایک ایسی قوم میں مبعوث ہوئے تھے، جو تہذیب و تمدن کے ابتدائی درجہ میں تھی آپ ﷺکے سپرد اللہ نے صرف یہی کام نہیں کیا تھا کہ اُن کے عقائد وخیالات درست کریں؛ بلکہ یہ خدمت بھی آپ ﷺکے سپرد تھی کہ ان کا طرزِ زندگی، بود وباش اور رہن سہن بھی ٹھیک اور درست کریں۔ ان کو انسان بنائیں، انہیں شائستہ اخلاق، پاکیزہ معاشرت، مہذّب تمدن، نیک معاملات اور عمدہ آداب کی تعلیم دیں، یہ مقصد محض وعظ و تلقین اور قیل و قال سے پورا نہیں ہوسکتا تھا، تیس سال کی مختصر مدتِ حیات میں ایک پوری قوم کو وحشیت کے بہت نیچے مقام سے اٹھاکر تہذیب کے بلند ترین مرتبہ تک پہنچادینا اس طرح ممکن نہ تھاکہ محض مخصوص اوقات میں ان کو بلاکر کچھ زبانی ہدایات دیدی جائیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ آپ ﷺخود اپنی زندگی میں ان کے سامنے انسانیت کا ایک مکمل ترین نمونہ پیش کرتے اور ان کو پورا موقع دیتے کہ اس نمونہ کو دیکھیں اور اپنی زندگیوں کو اس کے مطابق بنائیں۔ چنانچہ آپ ﷺنے ایسا ہی کیا۔ یہ آپ ﷺکا انتہائی ایثار تھا کہ آپ ﷺنے زندگی کے ہر شعبہ کو قوم کی تعلیم کے لیے عام کردیا۔ اپنی کسی چیز کو بھی پرائیویٹ اور مخصوص نہ رکھا۔ حتی کہ ان معاملات کو بھی نہ چھپایا جنھیں دنیا میں کوئی شخص عوام کے لئے کھولنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا۔ آپ ﷺنے اتنا غیر معمولی ایثار اس لئے کیا تاکہ رہتی دنیا تک کے لئے لوگوں کو بہترین نمونہ اور عمدہ نظیر مل سکے۔ اسی اندرونی اور خانگی حالات دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے آپ ﷺنے متعدد نکاح فرمایا۔ تاکہ آپ ﷺکی نجی زندگی کے تمام حالات نہایت وثوق اور اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے آجائیں اور ایک کثیر جماعت کی روایت کے بعد کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے اور شریعت کے وہ احکام ومسائل جو خاص عورتوں سے متعلق ہیں اور مردوں سے بیان کرنے میں حیاء اور حجاب مانع ہوتا ہے ایسے احکام شرعیہ کی تبلیغ ازواجِ مطہرات-رضی الله عنهن- کے ذریعہ سے ہوجائے۔
                تنہائی کے اضطراب میں، مصیبتوں کے ہجوم میں اور ستمگاریوں کے تلاطم میں ساتھ دینے والی آپ ﷺکی غمگسار بیوی ام الموٴمنین حضرت خدیجہ-رضی الله عنہا- کا رمضان ۱۰ ء نبوت میں جب انتقال ہوگیا تو آپ ﷺنے چار سال بعد یہ ضروری سمجھا کہ آپ ﷺکے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہوں جھنوں نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی میں کھولی ہو اور جو نبی ﷺکے گھرانے  میں آ کر پروان چڑھیں، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے مشیت الٰہی نے حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو منتخب فرمایا اور شوال ۳ ء قبل الہجرہ مطابق ۶۲۰/ مئی میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے آپ ﷺکا نکاح ہوا، اس وقت حضرت عائشہ کی عمر جمہور علماء کے یہاں چھ سال تھی اور تین سال بعد جب وہ ۹ سال کی ہوچکی تھیں اور اُن کی والدئہ محترمہ حضرت ام رومان-رضی الله عنہا- نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ رخصتی کی جاسکتی ہے تو نبی اکرم ﷺکے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا۔ (مسلم جلد۲، صفحہ ۴۵۶، اعلام النساء صفحہ ۱۱، جلد ۳، مطبوعہ بیروت)
                حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے والدین کا گھر تو پہلے ہی نوراسلام سے منور تھا، عالمِ طفولیت ہی میں انہیں کا شانہٴ نبوت تک پہنچادیا گیاتاکہ ان کی سادہ لوح دل پر اسلامی تعلیم کا گہرا نقش مرتسم ہوجائے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور ﷺکے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ-رضی الله عنه- کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔
                بعض مریضانہ ذہن و فکر رکھنے والے افراد کے ذہن میں یہ خلش اور الجھن پائی جاتی ہے کہ آپ ﷺکی حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے اس کم سنی میں نکاح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟اور یہ کہ اس چھوٹی سی عمر میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے نکاح کرنا آپ ﷺکے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھا؟ چنانچہ ایک یہودی مستشرق نے انٹرنیٹ پر اس قسم کا اعتراض بھی اٹھایا ہے اور اس طرح اس نے بعض حقائق و واقعات، سماجی روایات، موسمی حالات اور طبی تحقیقات سے اعراض اور چشم پوشی کا اظہار بھی کیا ہے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے نکاح اور رخصتی اس کم سنی میں کیوں کر ہوئی؟
                یہ اعتراض درحقیقت اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں وہ اہلیت وصلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی جو ایک خاتون کو اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے، حالانکہ اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو یہ واقعات اس مفروضہ کی بنیاد کو کھوکھلی کردیں گے، جس کی بناء پر حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے نکاح کے سلسلہ میں ناروا اور بیجاطریقہ پر لب کو حرکت اور قلم کوجنبش دی گئی ہے۔ سب سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ اسلامی شریعت میں صحت نکاح کے لیے بلوغ شرط نہیں ہے سورہ ”الطلاق“ میں نابالغہ کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے، واللّائی لم یحضن (المائدہ:۴) اور ظاہر ہے کہ عدت کا سوال اسی عورت کے معاملہ میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کرچکا ہو؛ کیوں کہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہی نہیں ہے۔ (الاحزاب:۴۹) اس لیے ”واللائی لم یحضن“ سے ایسی عورت کی عدت بیان کرنا جنھیں ماہواری آنا شروع نہ ہوا ہو صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔ ( احکام القرآن للجصاص جلد۲، صفحہ ۶۲۔ الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد ۷ صفحہ ۱۸)
                حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کی نسبت قابل وثوق ذرائع سے معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قوی بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشو و نما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیرمعمولی نشوونماکی صلاحیت ہے۔ دوسرے عام طورپر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیرمعمولی استعداد ہوتی ہے، اسی طرح قدوقامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لیے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لیے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔ داؤدی نے لکھا ہے کہ وکانت عائشة شبت شبابا حسنا یعنی حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- نے بہت عمدگی کے ساتھ سن شباب تک ترقی کی تھی (نووی ۴۵۶/۳) حضرت عائشہ کے طبعی حالات تو ایسے تھے ہی، ان کی والدہ محترمہ نے ان کے لیے ایسی باتوں کا بھی خاص اہتمام کیا تھاجو ان کے لیے جسمانی نشوونما پانے میں ممدومعاون ثابت ہوئی۔ چنانچہ ابوداؤد جلد دوم صفحہ ۹۸ اور ابن ماجہ صفحہ ۲۴۶ میں خود حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا بیان مذکور ہے کہ ”میری والدہ نے میری جسمانی ترقی کے لیے بہترے تدبیریں کیں۔ آخر ایک تدبیر سے خاطر خواہ فائدہ ہوا، اور میرے جسمانی حالات میں بہترین انقلاب پیدا ہوگیا“ اس کے ساتھ اس نکتہ کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرت ﷺکی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیاگیاہو، خدمتِ نبوی میں بھیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی؛ بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لیے ناممکن اور محال ہے کہ انھوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت واہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کردی  ہو اور اگر تھوڑی دیر کے لیے مان لیا جائے کہ عرب میں عموماً لڑکیاں ۹/برس میں بالغ نہ ہوتی ہوں تواس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے کہ استثنائی شکل میں طبی اعتبار سے اپنی ٹھوس صحت کے پس منظر میں کوئی لڑکی خلافِ عادت ۹/برس ہی میں بالغ ہوجائے، جو ذہن و دماغ منفی سوچ کا عادی بن گئے ہوں اور وہ صرف شکوک و شبہات کے جال بننے کے خوگر ہوں انھیں تویہ واقعہ جہالت یا تجاہل عارفانہ کے طور پر حیرت انگیز بناکر پیش کرے گا؛ لیکن جو ہرطرح کی ذہنی عصبیت و جانبداری کے خول سے باہر نکل کر عدل و انصاف کے تناظر میں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں وہ جان لیں کہ نہایت مستند طریقہ سے ثابت ہے کہ عرب میں بعض لڑکیاں ۹/برس میں ماں اور اٹھارہ برس کی عمر میں نانی بن گئی ہیں۔ سنن دار قطنی میں ہے حدثنی عباد بن عباد المہلبی قال ادرکت فینا یعنی المہالبة امرأة صارت جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة، ولدت تسع سنین ابنة، فولدت ابنتہا لتسع سنین فصارت ہی جدة وہی بنت ثمان عشرة سنة (دارقطنی، جلد۳، صفحہ ۳۲۳، مطبوعہ: لاہور پاکستان) خودہمارے ملک ہندوستان میں یہ خبر کافی تحقیق کے بعد شائع ہوئی ہے کہ وکٹوریہ ہسپتال دہلی میں ایک سات سال سے کم عمر کی لڑکی نے ایک بچہ جنا ہے۔ (دیکھئے اخبار ”مدینہ“ بجنور، مجریہ یکم جولائی ۱۹۳۴/ بحوالہ نصرت الحدیث صفحہ ۱۷۱)
                جب ہندوستان جیسے معتدل اور متوسط ماحول وآب و ہوا والے ملک میں سات برس کی لڑکی میں یہ استعداد پیدا ہوسکتی ہے تو عرب کے گرم آب و ہوا والے ملک میں ۹/ سال کی لڑکی میں اس صلاحیت کا پیدا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علی-رضی الله عنه- نے اپنی لڑکی ام کلثوم کا نکاح عروة بن الزبیر سے اور عروة بن الزبیر نے اپنی بھتیجی کا نکاح اپنے بھتیجے سے اور عبداللہ بن مسعود-رضی الله عنه- کی بیوی نے اپنی لڑکی کا نکاح ابن المسیب بن نخبة سے کم سنی میں کیا۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷، صفحہ ۱۸۰)
                ان حضرات کا کم سنی میں اپنی لڑکیوں کا نکاح کردینا بھی اس بات کی کھلی ہوئی دلیل ہے کہ اس وقت بہت معمولی عمر میں ہی بعض لڑکیوں میں شادی وخلوت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی تھی، تو اگر حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا نکاح ۶/برس کی عمر میں ہوا تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ ان میں جنسی صلاحیتیں پیدا نہ ہوئی ہوں۔ جیساکہ ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ ان کی والدہ نے خصوصیت کے ساتھ اس کا اہتمام کیا تھا الغرض شوہر سے ملنے کے لیے ایک عورت میں جو صلاحیتیں ضروری ہوتی ہیں وہ سب حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- میں موجود تھیں۔ لہٰذا اب یہ خیال انتہائی فاسد ذہن کا غماز ہوگا اور موسمی، ملکی، خاندانی اور طبی حالات سے اعراض اور چشم پوشی کا مترادف ہوگا کہ حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے کم سنی میں شادی کرنے کی آپ ﷺکو کیا ضرورت تھی؟ علاوہ ازیں حضرت عائشہ کے ماسواء جملہ ازواج مطہرات-رضی الله عنهن- بیوہ، مطلقہ یا شوہر دیدہ تھیں، حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- سے کم سنی میں ہی اس لئے نکاح کرلیا گیا تاکہ وہ آپ ﷺسے زیادہ عرصہ تک اکتسابِ علوم کرسکیں۔ اور حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کے توسط سے لوگوں کو دین و شریعت کے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل ہوسکیں۔ چنانچہ آنحضرت ﷺکی وفات کے بعد حضرت عائشہ-رضی الله عنہا-(48) اڑتالیس سال زندہ رہیں، زرقانی کی روایت کے مطابق ۶۶ھ میں حضرت عائشہ-رضی الله عنہا- کا انتقال ہوا۔ ۹/برس میں رخصتی ہوئی آپ کے ساتھ ۹/ سال رہیں اور آپ کی وفات کے وقت ان کی عمر ۱۸ برس تھی۔ (زرقانی، الاستیعاب) اور صحابہ و تابعین ان کی خداداد ذہانت و فراست، ذکاوت وبصیرت اور علم و عرفان سے فیض حاصل کرتے رہے،اور اس طرح ان کے علمی و عرفانی فیوض و برکات ایک لمبے عرصہ تک جاری رہے۔ (زرقانی جلد ۳، صفحہ ۲۲۹-۲۳۶)
                حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺکے سوا کوئی ایسا آدمی دنیا میں نہیں گزرا جو کامل ۲۳ برس تک ہر وقت، ہر حال میں منظر عام پر زندگی بسر کرلے، سینکڑوں ہزاروں آدمی اس کی ایک ایک حرکت کے تجسس میں لگے ہوئے ہوں۔ اپنے گھر میں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کے ساتھ برتاؤ کرتے ہوئے بھی اس کی جانچ پڑتال ہورہی ہو اور اتنی گہری تلاش کے بعد نہ صرف یہ کہ اس کے کیریکٹر پر ایک سیاہ چھینٹ تک نظر نہ آئے؛ بلکہ یہ ثابت ہو کہ جو کچھ وہ دوسروں کو تعلیم دیتا تھا، خود اس کی اپنی زندگی اس تعلیم کا مکمل نمونہ تھی؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ اس طویل زندگی میں وہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی عدل وتقویٰ اور سچائی و پاکیزگی کے معیاری مقام سے نہیں ہٹا؛ بلکہ یہ ثابت ہوکہ جن لوگوں نے سب سے زیادہ قریب سے اس کو دیکھا وہی سب سے زیادہ اس کے گرویدہ اور معتقد ہوئے۔ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم۔
                یہی وجہ ہے کہ انسان کی پوری آبادی میں ”انسانِ کامل“ کہلائے جانے کے آپ ﷺہی مستحق ہیں اور عیسائی سائنسداں نے جب تاریخ عالم میں ایسے شخص کو جو اپنی شخصیت کے جگمگاتے اور گہرے نقوش چھوڑے ہیں سب سے پہلے نمبر پر رکھ کر اپنی کتاب کاآغاز کرنا چاہا تو اس نے دیانت کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام اوراپنے من پسند کسی سائنسداں کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اس کی نظر انتخاب اسی پر پڑی اور اسی سے اپنی کتاب کاآغاز کیا جسے دنیا حضرت محمد ﷺکے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ اس لئے آپ ﷺکی زندگی جلوت کی ہو یا خلوت کی ایک کامل نمونہ ہے اور اس میں ایسا اعتدال و توازن پایا جاتا ہے کہ کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اور جب کوئی ”یرقانی“ نظر والے آپ ﷺکی زندگی میں کسی کمی کو تلاش کریں تو حقیقت پسند شاعر یہ کہہ کر اس کی طرف متوجہ ہوگا۔
فرق آنکھوں میں نہیں، فرق ہے بینائی میں
عیب میں عیب، ہنرمند ہنر دیکھتے ہیں
                انٹرنیٹ کی دنیا سے قریبی تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ اسلام کے خلاف مختلف شکوک و شبہات اور فتنے پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس قسم کے شکوک وشبہات کاازالہ اور فتنوں کا سدِّباب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، جو لوگ انٹرنیٹ کے ذریعہ فتنے کے شوشے چھوڑ دیتے ہیں ان کا منظم و منصوبہ بند طریقہ پرجواب دیا جائے کسی وجہ سے اگر علماء براہِ راست انگریزی میں جواب نہیں دے سکتے تو ان کا علمی تعاون حاصل کرکے جواب کی اشاعت عمل میں لائی جاسکتی ہے،1 زندگی کا کارواں جب چلتا ہے تو گرد و غبار کا اٹھنا لازمی ہے؛ لیکن منزل کی طرف رواں دواں رہنے ہی میں منزل پر پہنچا جاسکتا ہے؛ لیکن اس کے لئے قدم میں طاقت اور دست و بازو میں قوت چاہئے۔ ع
اس بحرِ حوادث میں قائم پہنچے گا وہی اب ساحل تک
جو موجِ بلاء کا خوگر ہو رخ پھیرسکے طوفانوں کا

بھائی عبدالرحمٰن سےایک ملاقات

"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
عبد الرحمٰن/ ہری موہن مشرا


احمد اوّاہ:السلام علیکم ورحمتہ اللہ
عبد الرحمٰن:وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
س:بھائی عبدالرحمن!اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے،اللہ تعالیٰ کاکیساکرم ہواکہ آپ کوایسےزمانہ میں ایمان عطافرمایاجب فتنوں کازمانہ ہے،آپ کوکیسامحسوس ہوتاہے؟
ج:مولاناصاحب میں بیان نہیں کرسکتا،اس خوشی اور کیفیت کوآدمی اپنی زبان سےبیان نہیں کرسکتا مجھ آیورویدسورج پرش برہمن کومحض اپنی رحمت سےایمان عطاکیا، میرےمولیٰ نےمیری زندگی کوالجھائےرکھ کر، زندگی اورہمیشہ کی زندگی کی سب سےبڑی الجھن کو سلجھانےکاانتظام کردیا،کاش اللہ تعالیٰ ایمان پرمیراخاتمہ فرمائے ڈرلگارہتاہےکہ ایک شیطان ہروقت میرے ساتھ لگارہتاہے،جس کومیں محسوس کرتاہوں ۔
س: آپ اپناخاندانی تعارف کرائیں ؟
ج: میراخاندانی نام ہری موہن مشرا،میرےوالدیوگندر موہن مشرا،ہم لوگ دربھنگہ بہارکےایک قصبہ کےآیورویدبرہمن ہیں جواپنےکوسورج پرش سمجھتےہیں ،یعنی ہم کسی سےدان مددلینا حرام سمجھ سکتےہیں ،ہم بھیک دےتوسکتےہیں کسی سےلےنہیں سکتے ،جس طرح سوریہ سب کوپرکاش دیتاہےلیتانہیں ،ہمارےگھرمیں کھیتی ہوتی تھی میرےبڑےبھائی گجرات میں ملازم تھےمیں نے ابتدائی تعلیم اپنےیہاں سےحاصل کرکےمدھوبنی سےگریجویشن کیا ،شروع میں ہمارےیہاں ایک صابن فیکٹری شکری دربھنگہ میں تھی ،جوکسی حادثہ کاشکارہوگئی ،تومیں نےپھرتعلیم شروع کی میں چنئی سےڈپلوماکیا،میرےایک بڑےبھائی پانی پت میں ٹھیکیداری کرتےتھے،پوری زندگی لوگوں کی بھلائی اوران کوگیان دینےاوردوسرےسےلینےکی نیت سےپورےملک میں چکر لگاتےرہے۔جگن ناتھ مشراسےان کےبہت قریبی تعلقات تھے درمیان میں میرےبڑےبھائی کاگجرات سےبنگال پوسٹنگ ہوا تومیں بھی چلاگیا،میری نوکری بھی لگ گئی مگروہ مجھےاچھی نہیں لگی اورمیں نےملازمت چھوڑدی ،کچھ روزٹائپنگ سیکھی ،ڈرائیوری سیکھی کہ کسی طرح اپنا گزاراکرسکوں ،پنجاب کے ایک بلڈراجیت سنگھ کے یہاں میں نےبنگال میں ملازمت کرلی ،ان کایہاں سےکام ختم ہواتووہ مجھےپانی پت لےکرچلےگئے،کچھ روز کےبعدمیں نےاپنی کنسٹرکشن کمپنی کھولی ،اورٹھیکیداری کرنےلگا،میرےایک بھائی سعودی عرب میں تھے،ان کافون آیا،میں کلکتہ آرہاہوں تم بھی آجاؤ،میں کلکتہ ۱۱ ؍دسمبر۲۰۰۵ ءکوپہنچا،معلوم ہواان کوH.I.V کی بیماری ہوگئی ،ان کی بیماری نےمجھ کوہلاکررکھ دیا۔دسمبر۲۰۰۷ ء میں کاروبارسےپریشان ہواتومیری کنسٹرکشن کمپنی بندہوگئی ،جن لوگوں کاکام نہیں ہواتھاانہوں نےمعذرت کردی ،میری مالی حالت بارباربگڑتی رہی ،میرےپاس ۱۱ ؍ہزارروپےتھےان کو لےکرمیں دہلی آیا،کہ اگروہاں کام نہ چلاتوپھریہ بھی ارادہ تھاکہ کہیں خودکشی کرلوں گا۔
س:خودکشی کاخیال آپ کوکیوں پیداہوا؟
ج:بھائی کی بیماری اورباربارکام چلنےاوراچانک ٹوٹ  جانےسےمیں ہمت ہارگیا،پھرایک کمپنی کےمینیجرسے ملا،انہوں نےمجھےکام دےدیااورکام چل پڑا،پھرذراکام چلاتو بھائی نےگجرات بلالیا،گجرات میں ٹھیکیداری شروع کی ،دوسال کام اچھاچلا،مالک کاشکرہےکہ دوسال میں اپنامکان بنالیا، اچانک ایک رات ہارٹ اٹیک ہوگیا،ایک وال ۹۰ ؍فیصدخراب ہوگئی، BMB ہوا،کسی درجےمیں صحت ہوئی تومیرےبھائی  کےایک دوست سنیل گوڑے،جوناسک کےرہنےوالےتھے، انہوں مجھےمشورہ دیاکہ اب تم اچھےہوگئےہو،اوراچھےہوجاؤاس کےلئےناسک میں سائیں باباکےمندرچلو،میں نےمشورہ مانا، لوٹتےوقت راستہ میں ان کی سسرال تھی ،سسرال والوں سےان کی بنتی نہیں تھی ،ان کی بستی میں ایک اللہ والےگلاب شاہ تھے، انہوں نےسنیل کی بہوکواپنی بیٹی بنالیاتھا،بس ان کےیہاں ہی جایاکرتےتھے،سنیل نےکہاچلو،ان سےملتےہیں ،ان سےملنے کےبعدمجھ کوبہت سکون ملا،انہوں نےمجھےپرس میں رکھنےکے لئےایک تعویذبھی دیا،اس ملاقات کےبعدمیری زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ،میں اصل میں گھنٹوں پوجاکرتاتھا،مگراس ملاقات کے بعدپوجامیں بالکل من نہیں لگتاتھا،ایک دن عجیب بات پیش آئی ، میں سوکراٹھاتومیں نےدیکھاکہ بہت نورانی شکل کی صورت ، خوبصورت داڑھی کونےسےآہستہ آہستہ میرےسامنےنظرپڑی ، کمرےمیں اندھیراہورہاتھا،وہ صورت میرےقریب ہوگئی ، میں نےسوال کیاتوکون ہے؟کوئی جواب نہیں ،قریب آکرپھر آہستہ واپس چلی گئی ،میں نےموبائل میں وقت دیکھاپانچ بج کر پینتیس منٹ ہورہےتھے،اس کےبعدمیں نےسناکہ کمرےمیں اذان کی آوازآرہی ہے،ہمارےگھرکےقریب دوکلومیٹرتک کوئی مسجدنہیں ہے،ایک مسجددورہےمگراس میں صبح کی اذان مائک میں دینےکی اجازت

نہیں ہے،اس دن میں پوجاکےلئےموٹر سائیکل لےکرنکلا،کچھ کیلےوہاں چڑھانےکےلئے،لےلئے مگرغیراختیاری طورپرنہ جانے،نظریں مسجدکےدروازےپرپہونچیں اورچھ کےچھ کیلےخودکھاکرواپس آگیا،اورایساتین روز تک ہوتارہا،تیسرےروزمیں امام صاحب کےیہاں گیااوربولا مجھےمسلمان بنناہے،انہوں نےمجھ سےکہاکہ تم ہمارابیوقوف بنارہےہو،تمھیں معلوم نہیں مودی کی حکومت چل رہی ہے،جاؤ یہاں سےنکلو،دوسرےروزگیاپھرانہوں نےدھمکادیا،اورکہاکہ اگرتم یہاں آئےتوہم تھانےمیں رپورٹ کردیں گے،میں نے سنیل گوڑےسےکہاکہ آپ میری بات گلاب بھائی سےکرائیں ،گلاب بھائی نےکہاکہ یہ آپ پراللہ کی رحمت ہے،آپ گھبرکھرائیے نہیں ،آپ کواس سےکچھ نقصان نہیں ہوگا،تیسرےروزپھرمیں امام صاحب کےپاس گیا،کہ مجھےمسلمان بنناہے۔
س:  آپ کوخیال نہیں آیاکہ وہ آپ کوپھردھمکادیں گے؟
ج:  میرےبس میں نہیں تھا،مجھےاندرسےکوئی مجبورکررہا تھا،اس روزمیں گیاتوامام صاحب کاغصہ کم تھا،میں نےکہاآپ مجھےقرآن مجیددیجئے،مسلمان نہیں کرتےتومت کیجئے،انہوں نےمجھےسمجھایاکہ آپ مسلمان بننےکی بات دل سےنکال دیجئے، انہوں نےمجھ سےمعلوم کیاآپ کیوں مسلمان بنناچاہتےہیں ؟ میں نےکہامجھےخودمعلوم نہیں کہ میں کیوں مسلمان بنناچاہتاہوں ، میں نےاپناحال ان کوسنایا،انہوں نےمجھےقرآن مجیدمنگواکرکل دینےکاوعدہ کیا،اگلےروزمیں گیاقرآن مجیدلےکرآیا،انھوں نےمجھےبتایاکہ ہاتھ پیردھوکراس کوادب سےپڑھناہے،میں گھر قران مجیدلےکرآیا،تومیری بھابھی نےمجھےپڑھتےہوئےدیکھ لیا،انہوں نےگھرمیں آفت برپاکردی ،میرےلئےگھرمیں رہنا مشکل ہوگیا،میں واپس قرآن شریف لےکرپھرمسجدپہنچااورامام صاحب سےاجازت لی کہ آپ مجھےمسجدمیں بیٹھ کرپڑھنےکی اجازت دیں ،دس روزتک قرآن مجیدپڑھنےکےبعدمیں نےامام صاحب سےپھرمسلمان بنانےکی درخواست کی ،انہوں نےمیراپتہ لیا،اوردوروزکےبعدآنےکوکہا،انہوں نےاپنے لوگوں سےمیری انکوائری کی ،جب ان کواطمینان ہوگیا،تووہ مجھ کو  بڑی مسجدمرکزمیں لےکرگئےاورکہاکہ وہاں آپ کوکلمہ پڑھوائیں گے،امام صاحب نےمجھےغسل کرایا،اورکہاکہ کلمہ پڑھو میں نےکہاکہ مجھےچھ کلمےیادہیں ،انہوں نےمعلوم کیاکہ تم کو کلمےکہاں یادہوئے؟،میں نےکہاکہ یہ کلمےتسلیمہ نسرین کی کتاب' لجا'سےمیں نےیادکئےہیں ٭،میں نےایک عجیب سےحال میں یہ سوچتےہوئےبھی کہ مجھےمسلمان نہیں ہوناچاہئےپھربھی کلمہ پڑھا،مگرکلمہ پڑھ کرمجھےاندرسےایک عجیب آزادی کااحساس ہوا ،جیسےمیں کسی قیدسےآزادہوگیاہوں ،اب میرےقانونی طورپر مسلمان ہونےکامسئلہ تھا،کوئی وکیل میرےکاغذات بنانےکے لئےتیارنہیں ہوا،۲۰۰۸ ءمیں کنورجن کےلئےگجرات حکومت نےبل پاس کیاتھا،میرےلئےبڑی مشکل پیش آئی ،میں موٹر سائیکل پرادھرسےادھرماراماراپھرتارہا،آخرمیں ایک بھلےوکیل جناب شیخ امین صاحب ملے،جنہوں نےمیرےکاغذات لئے، پچیس سوروپےفیس طےہوئی ،جوموانااصغرعلی نےاپنی جیب سے اداکئے،اورایک ہفتےمیں میرےکاغذتیارہوئے،اورمیراایفی ڈیوٹ بنادیا۔ میں جنوری میں بنگال چلاگیا،مجھ پرکچھ قرض بنگال میں تھا، میں نےموٹرسائیکل بیچ کرقرض اداکیا،۲۵ ؍فروری کوبھائی کافون آیا،انھوں نےمجھےگجرات بلایا،میں گجرات گیامولانااصغر صاحب اورسب لوگ سمجھ رہےتھےکہ میں واپس ہندوبن گیاہوں۔ یہ دیکھ کربہت خوش ہوئےکہ میں ابھی تک مسلمان ہوں ،بھائی بہت بیمارتھےمیں ان کولےکرپٹنہ آیا،۲۷ ؍اگست ۲۰۱۲ ءکوبھائی کاانتقال ہوگیا،میرےساتھ ایک شیطان ہروقت ساتھ ساتھ رہتاتھا،جومجھےاسلام میں آنےسےروکتاتھا،بھائی کےانتقال کےبعداس شیطان کاڈرہوا،میں نےاسلام سےتوبہ کرنےکی نیت کی اورہری دوارپہنچا،پشکرگیا،بالاجی کےمندرپرگیا،اور ویشنودیوی گیا۔
س:کیاآپ اپنےکوہندوکہنےلگےاورسمجھنےلگےتھے؟
ج:میں اپنےآپ میں یہی سمجھ رہاتھاکہ تونےمسلمان ہوکرغلطی کی ہے،توبہ کےلئےسارےتیرتھوں پرجاکررہامگرمیرا حال ابھی بھی ڈھل مل تھا،میں مسلمان داڑھی والےکودیکھتاتو اپنےکومسلمان کہتا،اورہندوؤں میں جاتاتواپنےکوہندوکہتا،شاید اس وجہ سےکہ میں مسلمانوں میں اپنےاسلام کااعلان کرچکاتھا،یا اندرسےکوئی چیزمجھےمجبورکرتی تھی کہ مسلمانوں میں خودکومسلمان کہوں ،مجھےاپنےبھتیجےاوربھائی کی خیریت لینےاوراپنےواپس ہندوبن جانےکےلئے،مطمئن کرنےکےلئےگجرات جانےکا خیال آیا،وہاں پہنچاتومولانااصغرعلی نےاپنےساتھی کےپاس سےلاکر’’آپ کی امانت ،آپ کی سیوامیں ‘‘اور’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ہندی میں لاکردی ،ان کتابوں نےمیرےدماغ ودل سب کےجالےصاف کردئیے،اب مجھےاپنی منزل اورراستہ صاف دکھائی دےگیا،اب میں نےجاکرایک امام صاحب جو دعوت سےجڑےتھےاورحضرت مولاناکلیم صدیقی کےساتھیوں کےساتھ کام کرتےتھےسچےدل سےکلمہ پڑھاانھوں نےحضرت کاتعارف کرایا،حضرت سےاب مجھےبہت ہی محبت ہوگئی تھی اور خیال تھاکہ باقی زندگی بس پھلت٭ جاکرحضرت کےساتھ گذارنی ہے۔مگرایک رات میں نےاپنےپتاجی کوسپنوں میں دیکھاآنکھ کھلی تومجھےبہت یادآئی اورخیال ہواکہ میرےپتاجودھرم کےنام پرزندگی بھرپورےدیش میں بھرمن (طواف )کرتےرہے،وہ سب سےبڑےادھرم کودھرم سمجھ کرزندگی بھرپھرتےرہے،اور مالک کےراستہ سےبھٹکتےرہے،کہیں میرےگھروالےاور خاندان والےبھی اسی طرح موت کی راہ نہ لیں ،میں نےگاؤں جاکرسب رشتےداروں کودعوت دینےکی نیت سےبہارکاسفرکیا۔
س:مفتی مہتاب سےآپ کاتعارف کہاں ہوا؟
ج:بہارواپسی ہورہی تھی کہ ایک صاحب پٹنہ میں ملے انہوں نےبتایاکہ شکری میں ایک ادارہ بالکل مین روڈکےقریب مرکزصفہ کےنام پرچل رہاہے،وہاں پرنومسلموں کےلئےبھی  انتظام ہےاوروہاں دعوت کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے،تومیں شکری گیا،اورمفتی صاحب سےملا،مفتی مہتاب نےبتایاکہ مرکز صفہ حضرت ہی کاادارہ ہے،اورہم لوگ حضرت کےمشورہ سےہی کام کررہےہیں ،بس اندھےکودونین مل گئے،میرےگاؤں کے اتنےقریب وہ بھی میرےحضرت مولاناکلیم صاحب کےلوگ مل گئے،میں نےوہاں رہنےکی خواہش ظاہرکی ،مفتی مہتاب صاحب نےایک خونی رشتہ کےسگےبھائی سےزیادہ میراساتھ دیا، میں نےاجازت لےکرگھرکاسفرکیا،میری بھابھی جوگجرات میں رہتی تھی اورماں کےانتقال کےبعدانہوں نےماں سےزیادہ محبت سےپالاتھا،وہ میری بالکل دشمن ہوگئی تھی ،انہوں نےفون کرکےسارےگھروالوں کوبتادیا،گھرجاتےہی میرےساتھ زیادتی ہونےلگی ،اب ان باتوں کاذکرکرنابھی اچھانہیں لگتاکہ مجھےان میں کام کرناہے،جب تک میری سمجھ میں اسلام نہیں آیاتھا میراحال بھی اسی طرح کاتھا،کئی بارگھرمیں پنچایت ہوئی ،ایک بار خاندان کےایک مکھیاسمجھےجانےوالےمیرےدورکےچچاکوبلایا گیا،سب لوگوں کےسامنےوہ بولے،کیاواقعی تواندرسےمسلمان ہوگیاہے؟یاکسی لڑکی وڑکی کےچکرمیں ڈھونگ بھررہاہے،میں نےدونوں ہاتھوں کوسینہ سےجکڑکربتایاکہ اگرتم کہوتومیں اپناسینہ چیرکرکلیجہ نکال کردکھادوں کہ خون کےقطرےمیں اورجگرکے ٹکڑےٹکڑےپرلاالہ الااللہ لکھاہواہے،میرےساتھ ایسی ایسی زیادتیاں کی گئیں کہ بس کیابیان کروں ،کئی بارمجھےجان سے مارنےکی کوشش کی ،مگرمیرےاللہ نےمجھےبچایا،مفتی صاحب سےمشورہ کیا،انہوں نےشکری واپس آنےکامشورہ دیا،واپس آیا تومجھےوہاں دعوتی ماحول ملا،اللہ کاشکرہےکہ پورےبہارمیں ہمارےمرکزصفہ کاتعارف ہوگیاہے،کوئی اسلام کےبارےمیں کوئی معلومات چاہتاہے،اسلام سےدلچسپی رکھتاہے،تولوگ مفتی مہتاب صاحب مرکزصفہ کاپتہ بتادیتےہیں ،اوراللہ تعالیٰ بھٹکتے ہوےلوگوں کی رہنمائی اورہدایت کامرکزہمارانقلی صفہ بھی اصلی صفہ کی طرح بنتاجارہاہے،اورمفتی مہتاب اوران کےسبھی ساتھی بہت ہی محبت سےگھرسےنکالےگئےمہاجرنومسلموں کی تربیت اورتعلیم اوران کےمسائل کی فکرکرتےہیں ۔
س: آپ دہلی سےپھلت کےسفرپرکب  آئےاورکیا ارادہ ہے؟
ج: اصل میں گجرات میں حضرت مولاناکلیم صاحب سے ملنےکابہت شوق تھا۔پچھلےدنوں معلوم ہواکہ حضرت ۸ دسمبرکو سیوان آرہےہیں ،میں نےمفتی صاحب سےدرخواست کی ، بہت سارےسوالات تھے،جوسوچےتھےکہ حضرت سےکہوں گا، ذہن میں الجھنوں کاانبارتھا،خیال تھاکہ حضرت سےکہوں گا، مگرسیوان میں بھیڑمیں مصافحہ کرکےبیٹھ گئے،حضرت نےنو مسلموں کےمسائل پربات ساتھیوں سےشروع کی اوران کےغم وفکرکواپناغم اورفکربتاکرلوگوں کےساتھ رہنےکوکہا،ایسےمیں بیٹھے بیٹھےباتیں ہورہی تھیں ،یعنی کوئی باقاعدہ جلسہ نہیں تھا،یہاں وہاں سےلوگ آئےہوئےتھے،مفتی مہتاب صاحب نےمیرا تعارف کرایا،حضرت اٹھےتوسارےغم جیسےتھوڑی دیرمیں بھلا دئیے،میں نےحضرت سےکہاکہ حضرت مجھےایک بارگلےسے لگالیجئے،حضرت نےہنستےہوئےچمٹایااوربولے،آپ دین کے لئےسب کچھ چھوڑکرآنےوالےلوگ ،توہمیشہ سےدل وجان سےلگےہوئےہو،مولوی احمدصاحب بالکل سچ کہہ رہاہوں کہ مجھےایسالگاکہ وہ ماں جومجھےڈیڑھ سال کی عمرمیں مرکرمجھےچھوڑگئی تھی اس نےمجھےگلےلگالیا٭،وہیں مشورہ ہوگیاکہ دہلی آناہے اصل میں ختنہ بھی کرانی تھی اورجماعت میں وقت لگاناتھا،حضرت نےکہاکہ ایک دوروزساتھ رہیے،گاڑی میں بیٹھ کراطمینان سے بات بھی ہوجائےگی ،پہلےجماعت میں وقت لگالو،بعدمیں ختنہ ہوجائےگا،اس لئےکہ دین سیکھنافرض ہےاورختنہ سنت ہے، دین یہ ہےکہ ہرعمل کواس کےجگہ پررکھئے،پہلےفرض اداکرلواور بعدمیں سنت ،واپس آکرختنہ کرالیں ۔ 
س:مفتی صاحب بتارہےتھےکہ آپ کواللہ تعالیٰ نے دعوت کاخوب حوصلہ دیاہے؟
ج: جی ہاں اللہ کاشکرہےکہ کوئی آدمی ہومجھےدعوت دیتے نہ ڈرلگتاہےاورنہ مرعوبیت ہوتی ہے،میرےخالہ زادبھائی سب سےپہلےمیری دعوت پرمسلمان ہوئے،اب میں دعوت دیتاہوں توایسالگتاہےکہ اندرسےمجھےکوئی پڑھاتاہےاس سےیہ بات کہو یہ بات کہو،اللہ کاشکرہےکہ جن لوگوں کومیں نےدعوت دی سب نےکلمہ پڑھا،اورزیادہ سوالات بھی نہیں کئے۔ اب آپ جماعت میں جارہےہیں آپ ہمارے لئےبھی دعاکیجئے۔ آپ میرےلئےدعاکریں کہ اللہ تعالیٰ میرےساتھ جوشیطان مکارہےاس سےمیرےایمان کوبچائے۔
س: کیاآپ کواب بھی واپس جانےکاخیال ہوتاہے؟
ج: نہیں اب تواللہ کاشکرہے،کسی بھی جگہ میں اپنےاسلام کوچھپاتانہیں ہوں بلکہ میراحال یہ ہےکہ ایک طرف ایک آگ جلی ہوکہ یاتواسلام چھوڑدوورنہ اس آگ میں جلو،تومیں انشاءاللہ انشاءاللہ اسلام نہیں چھوڑوں گا،فوراًاس آگ میں کودجاؤں گا۔ اصل میں دودھ کادھلاچھاچھ میں پھونک ماراکرتاہے،میرے ساتھ ایک باربلکہ باربارہوچکاہے،اس لئےڈرلگتاہےاورجب سےمفتی صاحب نےامام احمدبن حنبل کاواقعہ پڑھ کرسنایاایک روزتعلیم میں بتارہےتھےکہ لوگ ان کوکلمہ پڑھنےکےلئےکہہ رہےتھےوہ فرماتےتھےکہ ابھی نہیں ابھی نہیں ،گھروالےپریشان ہوگئےکہ آخری وقت میں کلمہ نہیں پڑھ رہےہیں ،تھوڑی دیرمیں ذراہوش سنبھالاتوصاجبزادوں نےمعلوم کیاکہ آپ کوجب کلمہ کی تلقین کی جارہی تھی توآپ یہ کیوں فرمارہےتھےکہ ابھی نہیں ابھی نہیں ،امام صاحب نےکہاشیطان میرےسامنےآیااوربولاکہ احمدتومیرےہاتھ سےنکل کرچلاگیا،اپناایمان سلامت لےگیا،تو میں اس سےکہہ رہاتھاکہ ابھی نہیں ،ابھی نہیں ،یعنی جب تک روح نہ نکل جائے،اس وقت تک ایمان کاخطرہ ہے،مجھےاس وقت سےتوڈرلگنےلگاکہ ایسےبڑےامام جودنیاکےچاراماموں میں سےتھے،ان کایہ حال تھاکہ موت تک ایمان کاخطرہ تھا،مجھ دودن کےمسلمان کےلئےہروقت خطرہ ،جب کہ ایمان آنےجانے کےواقعہ سےمیں گذرہی چکاہوں ،جب بھی یہ خیال آتاہےتوڈر کی وجہ سےمیرےرونگٹےکھڑےہوجاتےہیں (ہاتھ کی طرف روئیں کودکھاتےہوئے)دیکھئےکیسےبال کھڑےہوگئے،اگر ایمان چلاگیاتودوزخ میں جلناپڑےگا،آپ دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ایمان پرموت دے۔
س: آمین ۔انشاءاللہ ،اللہ تعالیٰ نےدیاہےتووہی سلامت بھی رکھیں گے،آپ ارمغان پڑھنےوالوں کےلئے پیغام دیں گے؟
ج: حضرت صاحب سیوان میں بیان کررہےتھےکہ ایک دن رات میں ایک لاکھ چون ہزارلوگ بغیرایمان کےمرجاتے ہیں ،ان بےچاروں کوبالکل پتہ نہیں کہ ایمان اتناضروری ہےکہ اسلام کےبغیرنجات نہیں ،یہ بات میں مذہبی برہمن خاندان سے تعلق رکھتاہوں ،ہمارےخواب میں بھی کبھی نہیں آیاکہ اسلام ہمیں بھی قبول کرناچاہئے،ہم تویہ سمجھتےتھےکہ اسلام مسلمانوں کادھرم ہےاورہمارےلئےہمارےمالک نےہندودھرم رکھا ہے،ہماری مکتی ہندودھرم ماننےمیں ہے،اورمسلمانوں کااس بات پرایمان ہےکہ کلمہ اورایمان کےبغیرکوئی آدمی دوزخ سےنہیں نکلےگا،توکس قدرظلم اورکھلااندھیرہےکہ ہم ان بےچاروں کونہ بتائیں اوران کواس سب سےبڑےادھرم بت پرستی سےبچانے کی کوشش نہ کریں ،جب کہ اب کوئی رسول نہیں آئےگا،ہمیں ہی کام کرناہے،بس اس کی فکرکریں اوراس خطرےکومحسوس کریں ۔
س: جزاک اللہ ،آپ نےبہت اچھی بات کہی ۔بہت بہت شکریہ السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
ج:  وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ ۔ ٭

٭ ارمغان جنوری 2013 ص 31-35

ہندو مذاہب میں توحید

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

ہندو دھرم کسی ایک عقیدہ پر مبنی نہیں ہے بلکہ وہ مختلف عقائد کا مجموعہ ہے ۔لیکن تب بھی ان کی مذہبی کتابوں میں عقیدہ توحید اور اصل دین حق کی واضح نشانیاں اور گواہیاں واضح طور پر موجود ہیں جن میں سے چندکا ذکر آگے کیا جارہا ہے ۔
ہندو بھائیوں کے مذہب کا اصل نام شاسوت مارگ اور سناتھن دھرم ہے ۔شاسوت دھرم کا مطلب وہ دھرم جو آسمان سے زمین تک سیدھاہی پہنچا ہو ۔اور سناتھن دھرم کا مطلب بہت قدیم زمانے کا دھرم یا سب سے پہلے کا دھرم جس کا ایک مفہوم اسلام بھی ہوتا ہے ۔ہندو دھرم کے بہت سے مذہبی پیشواؤں نے اسی کو دھرم کا سیدھا راستہ اور مناسب راستہ بتایا ہے جسے ایشور درشن مارگ بھی کہا جاتا ہے ۔چاروں ویدوں ،انپشد ،اور پران کے علاوہ دیگر مذہبی کتب میں اسکا ذکر آیا ہے ۔
اب ملاحظہ فرمائیں ہندو مذہبی کتب کے سینکڑوں ثبوتوں میں سے چند حوالے جن کی بنیاد پر ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اصل ہندو مذہب میں ایک خدا کا تصور (وحدانیت )بالکل اسی انداز میں دیتا ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے ۔سب سے پہلے ہم ہندو ویدانت کا برہم سوتر (کلمہ )کا ذکر کریں گے ۔
کوئی بھی مسلمان عقیدہ توحید ورسالت کے لئے کلمہ ۔لا الہ الاّ اللہ ،محمد رسول اللہ کو بیان کرتا ہے ۔ایسی ہی گواہی کسی ہندو بھائی سے معلوم کرنے کے لئے ہم کو اسکے برہم سترا کے بارے میں پوچھنا ہوگا ۔تو وحدانیت کا قائل ہندوبھائی ہندو ویدانیت کا برہما سترا سنائے گا ۔(رگ وید مہارشی وید و یاس جی )
’’ایکم برہم دو یتا نا ستح ،نیتہنا ناستح کنچن ‘‘کلمہ کے معنی جیسا برہم سوتر(رگ وید جلد ۸ سلوک ۱)
(ترجمہ ۔ایک ہی ایشور ہے جس کی عبادت اور پرستش کی جائے جو ایک الہ ہے مالک ہے اس کے سوا کوئی پوجا کے عبادت کے لائق نہیں ہے ،نہیں ہے نہیں ہے اور کبھی نہیں ہے ۔)
سورہ فاتحہ کے معنی جیسا’’ ایک منترگا یا تری منتر ‘‘
جس طرح مذہب اسلام میں سورہ فاتحہ کی اہمیت ہے ۔جسکا ہر نماز میں پڑھنا فرض ہے ۔اسی کے معنی سے مماثلت رکھتا ہوا ایک منتر گایاتری منتر ہے ۔لفظ گایاتری (گایا ۔اتری )کا مطلب اپنے ایشور کی تعریف اور تسبیح بیان کرنا ہے ۔جس طرح سورہ فاتحہ کے معنی ہیں ۔
۱) اوم بھوبھواح ۔۔سوح دت ۔سروے برورے نیم بھرو دے وش شدھی مہدی دھویونہا پر چودیات ۔(رگ وید 3-62-10)
(مطلب :اے برہمان کی رچنا کرنے والے سب سے عظیم خدا (ایشور )تو میرا صحیح مارگ دوشن کر ایسا مارگدرشن کہ میں جنت کی طرف آجاؤں اور گھمنڈ کپٹ ،چھل ان چیزوں سے مجھے دور رکھ ۔اے ایشور میں تیری پراتھنا اور تیری ارچنا اور تیرا اچرن کرتا ہوں ۔ (رگ وید 3-62-10)) اس شلوک میں ایک خدا کی تعریف بیان کی گئی ہے ۔
۲)شانتا کارم ۔۔بھوچک سینم ،پدم نابھم ،سریشٹم ،وشوا دھارم ،گگن شدشم ،میگھ ورنم ،سیھا نگم ،لکچھمی کا نتم ،کمل نینم ،یوگ ودیانگ میم ،۔
مطلب :
* ہے ایشور تو نے اس برہمان کی رچنا کی ۔تو بڑا ہی شانت سو بھاؤ کا ہے ۔
* ہے ایشور تو بڑا شتیلتا اور شالیں مزاج کا ہے ۔
* ہے ایشور تیرا بڑے سورگ پر اور بڑے آسمان پر تیرا وراجمن (عرش )ہے ۔
* تو نے اس برہمانڈ (کائنات )کو بنایا اور ایک زبر دست گگن (آسمان )بنایا جو بغیر کسی سہارے کے ہے ۔اورتو ہی اس آسمان سے پانی برساتا ہے ۔
* بس ہے ایشور تو ایک ایسی شخصیت ایسے گرو کو بھیج جو وہ بھی شانت اور شالیں مزاج کا ہو جس کی آنکھیں بہت خوبصورت اور نازک ہوں ۔
* ہے ایشور ایسے اچاریہ اور گرو مہارشی کو بھیج جو لوگوں کو صحیح آچرن کرے لوگو کا صحیح مارگ درشن کرے اور لوگو کو صحیح راستے پر لے آئے ۔(رگ وید /سرو دیو پوجنم /ادھیائے ۲ شلوک ۴)(رگ ویدمنترا نمبر /۵۷/شلوک ۷)
مندرجہ بالا تمام شلوک ایک خدا کی صفات کو ثابت کرتی ہیں ۔محمد ﷺکے آنے کی طرف بھی اشارہ صاف ظاہر ہے۔اس کے علاوہ اللہ تعالی کی وحدانیت اور ایک الہ ہونے کے ضمن ،مہارشی وید ویاس جی سرو دیوپوجنم میں لکھتے ہیں ۔
منگلم ،بھگوانم ،وشنوح منگلم ،پنڈھری کاچھو،منگلائے تنوہری ، منگلم ،بھگوانم وشنو منگلم ،پنڈھری منگلائے تنوہری منگلم ،
(مطلب:جس نے سارے سنسار کو بنایا ۔اس سنسار کا پیدا کرنے والا وشنو ،اپنے اندر اور ارجیت کرنے والا اس دنیا کی حفا ظت کرنے والا وہ ایک مہان ایشور ہے ۔جو سبحان ہے اور وہ ذات پاک ہے ۔)
سورہ فاتحہ کے معنی کی مماثلت رکھنے والا ایک اور شلوک جویجروید سے ہے جو سدھارک گروکل بھجر روہتک کے وید پردیش خصوصی نمبر ۱۰ ؍مارچ ۱۹۶۱ء میں دیئے گئے سوامی وید ویویکا آنندجی کے ہندی ترجمہ صفحہ ۵۱ سے اردوکیا گیا ہے ۔
(ترجمہ ۔اے سراپا علم ،سب کو روشن کرنے والے پر میشور ہم کو ہدایت اور مغفرت کے لئے صراط مستقیم سے لے چل ،اے مسکھ داتا پربھو ۔حاضر و ناظر مالک تو سب کے علوم ،اعمال افکار اور معاملات سے واقف ہے ۔ہم سے ٹیڑھ ،گمراہی اور گناہ کو دور کر ہم تجھے ہی بندگی اور حمد پیش کرتے ہیں ۔(یجروید ۔۴۰۔۱۶)
توحید کا ذکر رگ وید سے
* عالم کا مالک ایک ہی ہے ۔ (رگ وید ۔3-121-10)
* ہم سب سے آگے کے خدا کی ہی عبادت کرتے ہیں ۔ (رگ وید ۔1-1-1)
* وہ جو ایک الہ ہے ۔رشی اسے بہت سے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اسی اگنی یم اور ماترشون کہہ کر پکارتے ہیں ۔ (رگ وید ۔46-164-1)
* وہ تمام جاندار اور بے جان دنیا کا بڑی شان و شوکت کے ساتھ اکیلا حکمراں ہے وہ انسانوں اور جانور وں کا رب ہے (اسے چھوڑ کر )ہم کس خدا کی حمد کرتے ہیں اور نذ رانے چڑھاتے ہیں ؟ (رگ وید ۔3-2-1)
* اسی سے آسمانوں میں مضبوطی اور زمین میں استحکام ہے اسی کی وجہہ سے اجالوں کی بادشاہت ہے اور آسمان محراب کی شکل میں ٹکا ہوا ہے ۔فضا کی پیمانے بھی اسی کے لئے ہیں (اسے چھوڑکر ہم )کس خدا کی حمد و ثنا کرتے ہیں؟ اور نذ رانے چڑھاتے ہیں ۔ (رگ وید ۔5-2-1)
* ۔وہ ایک ہی ہے اسی کی عبادت کرو ۔ (رگ وید ۔16-4-3)
* ۔ایشور ہی اول ہے اور تمام مخلوقات کا اکیلا مالک ہے وہ زمینوں اور آسمانوں کا مالک ہے اسے چھوڑ کر تم کون سے خدا کو پوج رہے ہو ۔(رگ وید 1-12-10)
* ماچ دیندی سنسد ۔ (رگ وید ۔1-1-8)
* تمام تعریفیں اس اکیلے کے لئے ہیں اس اکیلے کی ہی عبادت کرو ۔
* یا اک مشتہی
* ایک ایشور کی طرف آؤ ،ایشور نراکار ہے ،اجنما ہے ،سروشکتی مان ہے ۔(رگ وید 27-5-45)
* صرف ایک خدا ہے پوجو اس اکیلے کو ۔(رگ وید ۔16-45-6)
سارے ایک
آج ہندو مذہب میں جتنے بھی خداؤں کے نام لئے جاتے ہیں وہ دراصل ایک ہی خدا کے صفاتی نام ہیں جس میں برہما برجا ،وشنو ،اندر ،سرسوتی وغیرہ ہیں لیکن آج ان کی مورتیوں کوالگ الگ بنا کر پوجا جارہا ہے اسی کو وید اور دیگر مذہبی کتابیں غلط ثابت کرتے ہیں ۔چند شلوکوں کے ترجمے نیچے درج کئے جارہے ہیں ۔
* اے اگنی (خدا ئے واحد )تم ہی نیکیوں کی دلی تمنائیں پوری کرنے والے اندر ہو اور صرف تم ہی عبادت کے قابل ہو ۔تم ہی بہت لوگوں کے قابل تعریف وشنو ہو تم برہما اور تم ہی برہنپسپتی سردار آریم ہو ۔(رگ وید 3-1-2)
* اے اگنی (خدائے واحد )تم وعدہ پورا کرنے والے راجا ورن ہو ۔تم قابل تعریف متر ہو ۔تم حقیقی سردار آریم ہو۔(رگ وید ۔4-1-2)
* اے اگنی (خدائے واحد )تم ردر ہو ،تم پسشا ہو ۔آسمانی دنیا کے محافظ شنکر ہو ۔تم ریگستانی امت کی طاقت کاذریعہ ہو ۔تم رزق دینے والے مجسم نور ہو ۔ہوا کی طرح ہر جگہ موجود نفع بخشنے والے اور عبادت گزارکے محافظ ہو ۔ (رگ وید 6-1-2)
* اے اگنی (خدائے واحد )تم ہی دولت دینے والے سویتا ہو ۔تم وایو249ہوا اور عبادت کرنے والے کے محافظ ہو ۔ (رگ وید ۔7-1-2)
* اے اگنی (خدائے واحد )تم سب سے اول ہو ۔تم بھارتی (نیکوں کا خزانہ )ہو تم اڑا ہو اور تم ہی سرسوتی ہو ۔ (رگ وید 11-1-2)
ویدوں کے ان واضح ثبوتوں کے بعد بہت سے ناموں سے پوجے جانے والے الگ الگ دیوتاؤں کا تصور بالکل باطل ہو جاتا ہے ۔
ویدیہ بھی صاف صاف بیان کرتے ہیں کہ ان تمام صفاتی ناموں سے دانشور لوگ ایک خدا کو پکارتے ہیں۔
* اندر ،مترورن ،اگنی ،گرویم ،وایو ،ماتر یشواوغیرہ )ایک ہی طاقت کے مختلف نام ہیں اہل بصیرت اور اہل علم نے ایشور کو صفات کی بنیاد پر مختلف ناموں سے پکارا ہے ۔ (رگ وید ۔5-114-10)
* ترجمہ۔(ائے مالک )تیرے جیسا کوئی دوسرا ہے نہ تو اس دنیا میں ہے اور نہ ہی زمین پر ہوا ہے اور نہ ہوگا ۔
(رگ وید ‘منڈل 7249سوکت 32منتر23)
* ترجمہ ۔ائے اللہ آپ کے علاوہ تمام مخلوقات کو کوئی اپنے اختیار میں نہیں کرسکتا ۔
(رگ وید ‘منڈل۱۰249سوکت۱ ۱۲ منتر۱۰)
* ترجمہ ۔ائے مالک آپ ہی عبادت کے لائق ہیں ‘آپ کے جیسا کوئی نہیں۔
(رگ وید ‘منڈل۱۰249سوکت۱۱۰ منتر۳)
* ترجمہ ۔وہی زمین و آسمان کا خالق ہے اس مالک کی ہم اہتمام سے عبادت کرتے ہیں۔
(رگ وید ‘منڈل۱۰249سوکت۱ ۱۲ منتر۱)
* ترجمہ ۔اس تمام کائنات کا بادشاہ ایک ہی ہے۔ (رگ وید ‘منڈل۶249سوکت۳۶ منتر۴)
* ترجمہ ۔دنیا کا خالق ‘مشرق ‘مغرب ‘اوپر نیچے سب جگہ ہے۔
(رگ وید ‘منڈل۱۰249سوکت۳۶ منتر۱۴)
* ترجمہ ۔نہ زمین اور آسمان اس خدا کے محیط ہونے کی حد کو پاسکتے ہیں نہ آسمان کے کرُے۔نہ آسمان سے برسنے والا مینہ اس خدا کے سوا کوئی اور دوسرا اس کی خلقت پر قدرت نہیں رکھ سکتا۔
(رگ وید ‘منڈل۱249سوکت۵۲ منتر۱۴)
مذکورہ بالا شلوک بالکل قرآن جیسا ہی ہے ۔قرآن ایک جگہ ذکر کرتا ہے ۔
اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ لَہُ الْأَسْمَاء الْحُسْنَی
ترجمہ ۔ایک اللہ کے سواکوئی معبود نہیں اور اس کے بہت سے اچھے اچھے نام ہیں ۔(قرآن سورہ طہ8)
پھریہ وید بالکل قرآنی طر ز (١)میں بیان کرتے ہیں کہ جن معبودوں کو تم پکاررہے ہو یہ تو خود ہی اپنے ایک خدا کی عبادت کررہے ہیں ۔
(١)واضح رہے کہ یہاں طرزِ قرآنی سے مراد  قرآنی آیات کے مطابق مفہوم رکھنا ہے۔ (مدیر)
* ایشور ہی روحانی اور جسمانی طاقتیں عطا کرنے والا ہے ۔اور اسی کی عبادت تمام دیوتا (فرشتے کیا کرتے ہیں )اس ایشور کی خوشی ہمیشہ کی زندگی عطاکرنے والی ہے اور موت کا خاتمہ کرنے والی ہے ۔اس ایشور کو چھوڑ کر تم کس دیوتا کی عبادت کر رہے ہو ۔ (رگ وید ۔2-121-10)
اسی مضمون کو اگر قرآن کی روشنی میں دیکھیں ۔
* جن لوگوں کو یہ پکارتے ہیں تو وہ خود اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا قریب ترین وسیلہ تلاش کررہے ہیں اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار ہیں اور اس کے عذاب سے خائف ہیں ۔(قرآن سورہ بنی اسرائیل ۔57)
تو حید کا ذکر اتھر وا وید میں
* دیو مہا آسی۔واقعی سب سے بڑا ایک ایشور ہی (خدائے برتر )ہے ۔
* خدا بہت مہمان ہے ۔ (اتھروا وید ۔3-58-20)
ّّّ* وہ ایک ہی بہترین پرستش کے لائق ہے ۔ (اتھر وا وید 14-52-1)
* ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔
* ترجمہ ۔وہ خدا ایک ہے وہ سچ مچ ایک ہے۔ (اتھروید کانڈ۱۳ 249سوکت۴ منتر۱۲)
* ترجمہ ۔وہ اللہ اسسے بالاتر ہے کہ اس کو موت آئے بلکہ وہ امرت کے تصور سے بھی بالاتر ہے۔
(اتھروید کانڈ۱۳ 249سوکت۴ منتر۴۶)
* ترجمہ ۔حق نے ہی زمین و آسمان اور چاند وسورج کو تخلیق دی۔(اتھروید کانڈ۱۴ 249سوکت۱ منتر۱)

توحید کا ذکر چھندو گیا اپنشید میں ۔
* ایکم ایوم او دوتم ۔(وہ ایک ہی کسی دوسرے کی شرکت کے بغیر ہے ۔(چھندو گیا اپنشد ۔1-2-6)
* ترجمہ ۔اس کائنات کی چیزوں میں جو کچھ بھی حرکت ہے وہ سب اس حاکم ‘قدرت رکھنے والے کی مرضی سے ہے۔ (یجرو ید ۔ادھیائے ۴۰۔ منتر۱)
* ترجمہ ۔(ائے مالک)تیرے جیسا نہ کوئی دونوں عالم میں ہے اور نہ زمین کے ذرات میں اور نہ تیرے جیسا کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ (یجرو ید ۔ادھیائے ۲۷۔ منتر۳۶)
* ترجمہ ۔یہ پوری کائنات اس اللہ کے حجم سے چل رہی ہے ۔ (یجرو ید ۔ادھیائے ۴۰۔ منتر۱)
تو حید کا ذکربھگوت گیتا سے
* یومام اجم آنا دم چہ ۔ویتی لوکہ مہیشورم ۔ *اسمو ڈھح سہ مریشو سروہ پاپیئح پدم چیتے ۔
(مطلب ۔اے انسانوں اپنے ایشور کو پہچانوں کیونکہ وہ ایک ایشور تمہارا پیدا کرنے والا ہے اس ایشور نے تمہیں ہوا (وایو )دیا ۔ اگنی دیا ،دھرتی دیا ،آسمان دیا ،جل دیا ،تم اپنے ایشور کو پہچانو جس نے تمہیں اتنے انعامات دیئے ۔اے انسانوں اگر تم مجھے نہیں پہچانو گے تو بہت بڑی گمراہی میں ہونگے ۔ (بھگوت گیتا ادھیائے ۔3-10)(١)

(١)بشکریہ  داعی اسلام حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب دامت برکاتہم
آفیشیل ویب سائٹ :www.EmbraceIslam-GainPeace.com

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India