بھائی عبدالرحمٰن سےایک ملاقات
"سربکف" میگزین 2-ستمبر، اکتوبر 2015
عبد الرحمٰن/ ہری موہن مشرا
احمد اوّاہ:السلام علیکم ورحمتہ اللہ
عبد الرحمٰن:وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
س:بھائی عبدالرحمن!اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے،اللہ تعالیٰ کاکیساکرم ہواکہ آپ کوایسےزمانہ میں ایمان عطافرمایاجب فتنوں کازمانہ ہے،آپ کوکیسامحسوس ہوتاہے؟
ج:مولاناصاحب میں بیان نہیں کرسکتا،اس خوشی اور کیفیت کوآدمی اپنی زبان سےبیان نہیں کرسکتا مجھ آیورویدسورج پرش برہمن کومحض اپنی رحمت سےایمان عطاکیا، میرےمولیٰ نےمیری زندگی کوالجھائےرکھ کر، زندگی اورہمیشہ کی زندگی کی سب سےبڑی الجھن کو سلجھانےکاانتظام کردیا،کاش اللہ تعالیٰ ایمان پرمیراخاتمہ فرمائے ڈرلگارہتاہےکہ ایک شیطان ہروقت میرے ساتھ لگارہتاہے،جس کومیں محسوس کرتاہوں ۔
س: آپ اپناخاندانی تعارف کرائیں ؟
ج: میراخاندانی نام ہری موہن مشرا،میرےوالدیوگندر موہن مشرا،ہم لوگ دربھنگہ بہارکےایک قصبہ کےآیورویدبرہمن ہیں جواپنےکوسورج پرش سمجھتےہیں ،یعنی ہم کسی سےدان مددلینا حرام سمجھ سکتےہیں ،ہم بھیک دےتوسکتےہیں کسی سےلےنہیں سکتے ،جس طرح سوریہ سب کوپرکاش دیتاہےلیتانہیں ،ہمارےگھرمیں کھیتی ہوتی تھی میرےبڑےبھائی گجرات میں ملازم تھےمیں نے ابتدائی تعلیم اپنےیہاں سےحاصل کرکےمدھوبنی سےگریجویشن کیا ،شروع میں ہمارےیہاں ایک صابن فیکٹری شکری دربھنگہ میں تھی ،جوکسی حادثہ کاشکارہوگئی ،تومیں نےپھرتعلیم شروع کی میں چنئی سےڈپلوماکیا،میرےایک بڑےبھائی پانی پت میں ٹھیکیداری کرتےتھے،پوری زندگی لوگوں کی بھلائی اوران کوگیان دینےاوردوسرےسےلینےکی نیت سےپورےملک میں چکر لگاتےرہے۔جگن ناتھ مشراسےان کےبہت قریبی تعلقات تھے درمیان میں میرےبڑےبھائی کاگجرات سےبنگال پوسٹنگ ہوا تومیں بھی چلاگیا،میری نوکری بھی لگ گئی مگروہ مجھےاچھی نہیں لگی اورمیں نےملازمت چھوڑدی ،کچھ روزٹائپنگ سیکھی ،ڈرائیوری سیکھی کہ کسی طرح اپنا گزاراکرسکوں ،پنجاب کے ایک بلڈراجیت سنگھ کے یہاں میں نےبنگال میں ملازمت کرلی ،ان کایہاں سےکام ختم ہواتووہ مجھےپانی پت لےکرچلےگئے،کچھ روز کےبعدمیں نےاپنی کنسٹرکشن کمپنی کھولی ،اورٹھیکیداری کرنےلگا،میرےایک بھائی سعودی عرب میں تھے،ان کافون آیا،میں کلکتہ آرہاہوں تم بھی آجاؤ،میں کلکتہ ۱۱ ؍دسمبر۲۰۰۵ ءکوپہنچا،معلوم ہواان کوH.I.V کی بیماری ہوگئی ،ان کی بیماری نےمجھ کوہلاکررکھ دیا۔دسمبر۲۰۰۷ ء میں کاروبارسےپریشان ہواتومیری کنسٹرکشن کمپنی بندہوگئی ،جن لوگوں کاکام نہیں ہواتھاانہوں نےمعذرت کردی ،میری مالی حالت بارباربگڑتی رہی ،میرےپاس ۱۱ ؍ہزارروپےتھےان کو لےکرمیں دہلی آیا،کہ اگروہاں کام نہ چلاتوپھریہ بھی ارادہ تھاکہ کہیں خودکشی کرلوں گا۔
س:خودکشی کاخیال آپ کوکیوں پیداہوا؟
ج:بھائی کی بیماری اورباربارکام چلنےاوراچانک ٹوٹ جانےسےمیں ہمت ہارگیا،پھرایک کمپنی کےمینیجرسے ملا،انہوں نےمجھےکام دےدیااورکام چل پڑا،پھرذراکام چلاتو بھائی نےگجرات بلالیا،گجرات میں ٹھیکیداری شروع کی ،دوسال کام اچھاچلا،مالک کاشکرہےکہ دوسال میں اپنامکان بنالیا، اچانک ایک رات ہارٹ اٹیک ہوگیا،ایک وال ۹۰ ؍فیصدخراب ہوگئی، BMB ہوا،کسی درجےمیں صحت ہوئی تومیرےبھائی کےایک دوست سنیل گوڑے،جوناسک کےرہنےوالےتھے، انہوں مجھےمشورہ دیاکہ اب تم اچھےہوگئےہو،اوراچھےہوجاؤاس کےلئےناسک میں سائیں باباکےمندرچلو،میں نےمشورہ مانا، لوٹتےوقت راستہ میں ان کی سسرال تھی ،سسرال والوں سےان کی بنتی نہیں تھی ،ان کی بستی میں ایک اللہ والےگلاب شاہ تھے، انہوں نےسنیل کی بہوکواپنی بیٹی بنالیاتھا،بس ان کےیہاں ہی جایاکرتےتھے،سنیل نےکہاچلو،ان سےملتےہیں ،ان سےملنے کےبعدمجھ کوبہت سکون ملا،انہوں نےمجھےپرس میں رکھنےکے لئےایک تعویذبھی دیا،اس ملاقات کےبعدمیری زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ،میں اصل میں گھنٹوں پوجاکرتاتھا،مگراس ملاقات کے بعدپوجامیں بالکل من نہیں لگتاتھا،ایک دن عجیب بات پیش آئی ، میں سوکراٹھاتومیں نےدیکھاکہ بہت نورانی شکل کی صورت ، خوبصورت داڑھی کونےسےآہستہ آہستہ میرےسامنےنظرپڑی ، کمرےمیں اندھیراہورہاتھا،وہ صورت میرےقریب ہوگئی ، میں نےسوال کیاتوکون ہے؟کوئی جواب نہیں ،قریب آکرپھر آہستہ واپس چلی گئی ،میں نےموبائل میں وقت دیکھاپانچ بج کر پینتیس منٹ ہورہےتھے،اس کےبعدمیں نےسناکہ کمرےمیں اذان کی آوازآرہی ہے،ہمارےگھرکےقریب دوکلومیٹرتک کوئی مسجدنہیں ہے،ایک مسجددورہےمگراس میں صبح کی اذان مائک میں دینےکی اجازت
نہیں ہے،اس دن میں پوجاکےلئےموٹر سائیکل لےکرنکلا،کچھ کیلےوہاں چڑھانےکےلئے،لےلئے مگرغیراختیاری طورپرنہ جانے،نظریں مسجدکےدروازےپرپہونچیں اورچھ کےچھ کیلےخودکھاکرواپس آگیا،اورایساتین روز تک ہوتارہا،تیسرےروزمیں امام صاحب کےیہاں گیااوربولا مجھےمسلمان بنناہے،انہوں نےمجھ سےکہاکہ تم ہمارابیوقوف بنارہےہو،تمھیں معلوم نہیں مودی کی حکومت چل رہی ہے،جاؤ یہاں سےنکلو،دوسرےروزگیاپھرانہوں نےدھمکادیا،اورکہاکہ اگرتم یہاں آئےتوہم تھانےمیں رپورٹ کردیں گے،میں نے سنیل گوڑےسےکہاکہ آپ میری بات گلاب بھائی سےکرائیں ،گلاب بھائی نےکہاکہ یہ آپ پراللہ کی رحمت ہے،آپ گھبرکھرائیے نہیں ،آپ کواس سےکچھ نقصان نہیں ہوگا،تیسرےروزپھرمیں امام صاحب کےپاس گیا،کہ مجھےمسلمان بنناہے۔
س: آپ کوخیال نہیں آیاکہ وہ آپ کوپھردھمکادیں گے؟
ج: میرےبس میں نہیں تھا،مجھےاندرسےکوئی مجبورکررہا تھا،اس روزمیں گیاتوامام صاحب کاغصہ کم تھا،میں نےکہاآپ مجھےقرآن مجیددیجئے،مسلمان نہیں کرتےتومت کیجئے،انہوں نےمجھےسمجھایاکہ آپ مسلمان بننےکی بات دل سےنکال دیجئے، انہوں نےمجھ سےمعلوم کیاآپ کیوں مسلمان بنناچاہتےہیں ؟ میں نےکہامجھےخودمعلوم نہیں کہ میں کیوں مسلمان بنناچاہتاہوں ، میں نےاپناحال ان کوسنایا،انہوں نےمجھےقرآن مجیدمنگواکرکل دینےکاوعدہ کیا،اگلےروزمیں گیاقرآن مجیدلےکرآیا،انھوں نےمجھےبتایاکہ ہاتھ پیردھوکراس کوادب سےپڑھناہے،میں گھر قران مجیدلےکرآیا،تومیری بھابھی نےمجھےپڑھتےہوئےدیکھ لیا،انہوں نےگھرمیں آفت برپاکردی ،میرےلئےگھرمیں رہنا مشکل ہوگیا،میں واپس قرآن شریف لےکرپھرمسجدپہنچااورامام صاحب سےاجازت لی کہ آپ مجھےمسجدمیں بیٹھ کرپڑھنےکی اجازت دیں ،دس روزتک قرآن مجیدپڑھنےکےبعدمیں نےامام صاحب سےپھرمسلمان بنانےکی درخواست کی ،انہوں نےمیراپتہ لیا،اوردوروزکےبعدآنےکوکہا،انہوں نےاپنے لوگوں سےمیری انکوائری کی ،جب ان کواطمینان ہوگیا،تووہ مجھ کو بڑی مسجدمرکزمیں لےکرگئےاورکہاکہ وہاں آپ کوکلمہ پڑھوائیں گے،امام صاحب نےمجھےغسل کرایا،اورکہاکہ کلمہ پڑھو میں نےکہاکہ مجھےچھ کلمےیادہیں ،انہوں نےمعلوم کیاکہ تم کو کلمےکہاں یادہوئے؟،میں نےکہاکہ یہ کلمےتسلیمہ نسرین کی کتاب' لجا'سےمیں نےیادکئےہیں ٭،میں نےایک عجیب سےحال میں یہ سوچتےہوئےبھی کہ مجھےمسلمان نہیں ہوناچاہئےپھربھی کلمہ پڑھا،مگرکلمہ پڑھ کرمجھےاندرسےایک عجیب آزادی کااحساس ہوا ،جیسےمیں کسی قیدسےآزادہوگیاہوں ،اب میرےقانونی طورپر مسلمان ہونےکامسئلہ تھا،کوئی وکیل میرےکاغذات بنانےکے لئےتیارنہیں ہوا،۲۰۰۸ ءمیں کنورجن کےلئےگجرات حکومت نےبل پاس کیاتھا،میرےلئےبڑی مشکل پیش آئی ،میں موٹر سائیکل پرادھرسےادھرماراماراپھرتارہا،آخرمیں ایک بھلےوکیل جناب شیخ امین صاحب ملے،جنہوں نےمیرےکاغذات لئے، پچیس سوروپےفیس طےہوئی ،جوموانااصغرعلی نےاپنی جیب سے اداکئے،اورایک ہفتےمیں میرےکاغذتیارہوئے،اورمیراایفی ڈیوٹ بنادیا۔ میں جنوری میں بنگال چلاگیا،مجھ پرکچھ قرض بنگال میں تھا، میں نےموٹرسائیکل بیچ کرقرض اداکیا،۲۵ ؍فروری کوبھائی کافون آیا،انھوں نےمجھےگجرات بلایا،میں گجرات گیامولانااصغر صاحب اورسب لوگ سمجھ رہےتھےکہ میں واپس ہندوبن گیاہوں۔ یہ دیکھ کربہت خوش ہوئےکہ میں ابھی تک مسلمان ہوں ،بھائی بہت بیمارتھےمیں ان کولےکرپٹنہ آیا،۲۷ ؍اگست ۲۰۱۲ ءکوبھائی کاانتقال ہوگیا،میرےساتھ ایک شیطان ہروقت ساتھ ساتھ رہتاتھا،جومجھےاسلام میں آنےسےروکتاتھا،بھائی کےانتقال کےبعداس شیطان کاڈرہوا،میں نےاسلام سےتوبہ کرنےکی نیت کی اورہری دوارپہنچا،پشکرگیا،بالاجی کےمندرپرگیا،اور ویشنودیوی گیا۔
س:کیاآپ اپنےکوہندوکہنےلگےاورسمجھنےلگےتھے؟
ج:میں اپنےآپ میں یہی سمجھ رہاتھاکہ تونےمسلمان ہوکرغلطی کی ہے،توبہ کےلئےسارےتیرتھوں پرجاکررہامگرمیرا حال ابھی بھی ڈھل مل تھا،میں مسلمان داڑھی والےکودیکھتاتو اپنےکومسلمان کہتا،اورہندوؤں میں جاتاتواپنےکوہندوکہتا،شاید اس وجہ سےکہ میں مسلمانوں میں اپنےاسلام کااعلان کرچکاتھا،یا اندرسےکوئی چیزمجھےمجبورکرتی تھی کہ مسلمانوں میں خودکومسلمان کہوں ،مجھےاپنےبھتیجےاوربھائی کی خیریت لینےاوراپنےواپس ہندوبن جانےکےلئے،مطمئن کرنےکےلئےگجرات جانےکا خیال آیا،وہاں پہنچاتومولانااصغرعلی نےاپنےساتھی کےپاس سےلاکر’’آپ کی امانت ،آپ کی سیوامیں ‘‘اور’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ہندی میں لاکردی ،ان کتابوں نےمیرےدماغ ودل سب کےجالےصاف کردئیے،اب مجھےاپنی منزل اورراستہ صاف دکھائی دےگیا،اب میں نےجاکرایک امام صاحب جو دعوت سےجڑےتھےاورحضرت مولاناکلیم صدیقی کےساتھیوں کےساتھ کام کرتےتھےسچےدل سےکلمہ پڑھاانھوں نےحضرت کاتعارف کرایا،حضرت سےاب مجھےبہت ہی محبت ہوگئی تھی اور خیال تھاکہ باقی زندگی بس پھلت٭ جاکرحضرت کےساتھ گذارنی ہے۔مگرایک رات میں نےاپنےپتاجی کوسپنوں میں دیکھاآنکھ کھلی تومجھےبہت یادآئی اورخیال ہواکہ میرےپتاجودھرم کےنام پرزندگی بھرپورےدیش میں بھرمن (طواف )کرتےرہے،وہ سب سےبڑےادھرم کودھرم سمجھ کرزندگی بھرپھرتےرہے،اور مالک کےراستہ سےبھٹکتےرہے،کہیں میرےگھروالےاور خاندان والےبھی اسی طرح موت کی راہ نہ لیں ،میں نےگاؤں جاکرسب رشتےداروں کودعوت دینےکی نیت سےبہارکاسفرکیا۔
س:مفتی مہتاب سےآپ کاتعارف کہاں ہوا؟
ج:بہارواپسی ہورہی تھی کہ ایک صاحب پٹنہ میں ملے انہوں نےبتایاکہ شکری میں ایک ادارہ بالکل مین روڈکےقریب مرکزصفہ کےنام پرچل رہاہے،وہاں پرنومسلموں کےلئےبھی انتظام ہےاوروہاں دعوت کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے،تومیں شکری گیا،اورمفتی صاحب سےملا،مفتی مہتاب نےبتایاکہ مرکز صفہ حضرت ہی کاادارہ ہے،اورہم لوگ حضرت کےمشورہ سےہی کام کررہےہیں ،بس اندھےکودونین مل گئے،میرےگاؤں کے اتنےقریب وہ بھی میرےحضرت مولاناکلیم صاحب کےلوگ مل گئے،میں نےوہاں رہنےکی خواہش ظاہرکی ،مفتی مہتاب صاحب نےایک خونی رشتہ کےسگےبھائی سےزیادہ میراساتھ دیا، میں نےاجازت لےکرگھرکاسفرکیا،میری بھابھی جوگجرات میں رہتی تھی اورماں کےانتقال کےبعدانہوں نےماں سےزیادہ محبت سےپالاتھا،وہ میری بالکل دشمن ہوگئی تھی ،انہوں نےفون کرکےسارےگھروالوں کوبتادیا،گھرجاتےہی میرےساتھ زیادتی ہونےلگی ،اب ان باتوں کاذکرکرنابھی اچھانہیں لگتاکہ مجھےان میں کام کرناہے،جب تک میری سمجھ میں اسلام نہیں آیاتھا میراحال بھی اسی طرح کاتھا،کئی بارگھرمیں پنچایت ہوئی ،ایک بار خاندان کےایک مکھیاسمجھےجانےوالےمیرےدورکےچچاکوبلایا گیا،سب لوگوں کےسامنےوہ بولے،کیاواقعی تواندرسےمسلمان ہوگیاہے؟یاکسی لڑکی وڑکی کےچکرمیں ڈھونگ بھررہاہے،میں نےدونوں ہاتھوں کوسینہ سےجکڑکربتایاکہ اگرتم کہوتومیں اپناسینہ چیرکرکلیجہ نکال کردکھادوں کہ خون کےقطرےمیں اورجگرکے ٹکڑےٹکڑےپرلاالہ الااللہ لکھاہواہے،میرےساتھ ایسی ایسی زیادتیاں کی گئیں کہ بس کیابیان کروں ،کئی بارمجھےجان سے مارنےکی کوشش کی ،مگرمیرےاللہ نےمجھےبچایا،مفتی صاحب سےمشورہ کیا،انہوں نےشکری واپس آنےکامشورہ دیا،واپس آیا تومجھےوہاں دعوتی ماحول ملا،اللہ کاشکرہےکہ پورےبہارمیں ہمارےمرکزصفہ کاتعارف ہوگیاہے،کوئی اسلام کےبارےمیں کوئی معلومات چاہتاہے،اسلام سےدلچسپی رکھتاہے،تولوگ مفتی مہتاب صاحب مرکزصفہ کاپتہ بتادیتےہیں ،اوراللہ تعالیٰ بھٹکتے ہوےلوگوں کی رہنمائی اورہدایت کامرکزہمارانقلی صفہ بھی اصلی صفہ کی طرح بنتاجارہاہے،اورمفتی مہتاب اوران کےسبھی ساتھی بہت ہی محبت سےگھرسےنکالےگئےمہاجرنومسلموں کی تربیت اورتعلیم اوران کےمسائل کی فکرکرتےہیں ۔
س: آپ دہلی سےپھلت کےسفرپرکب آئےاورکیا ارادہ ہے؟
ج: اصل میں گجرات میں حضرت مولاناکلیم صاحب سے ملنےکابہت شوق تھا۔پچھلےدنوں معلوم ہواکہ حضرت ۸ دسمبرکو سیوان آرہےہیں ،میں نےمفتی صاحب سےدرخواست کی ، بہت سارےسوالات تھے،جوسوچےتھےکہ حضرت سےکہوں گا، ذہن میں الجھنوں کاانبارتھا،خیال تھاکہ حضرت سےکہوں گا، مگرسیوان میں بھیڑمیں مصافحہ کرکےبیٹھ گئے،حضرت نےنو مسلموں کےمسائل پربات ساتھیوں سےشروع کی اوران کےغم وفکرکواپناغم اورفکربتاکرلوگوں کےساتھ رہنےکوکہا،ایسےمیں بیٹھے بیٹھےباتیں ہورہی تھیں ،یعنی کوئی باقاعدہ جلسہ نہیں تھا،یہاں وہاں سےلوگ آئےہوئےتھے،مفتی مہتاب صاحب نےمیرا تعارف کرایا،حضرت اٹھےتوسارےغم جیسےتھوڑی دیرمیں بھلا دئیے،میں نےحضرت سےکہاکہ حضرت مجھےایک بارگلےسے لگالیجئے،حضرت نےہنستےہوئےچمٹایااوربولے،آپ دین کے لئےسب کچھ چھوڑکرآنےوالےلوگ ،توہمیشہ سےدل وجان سےلگےہوئےہو،مولوی احمدصاحب بالکل سچ کہہ رہاہوں کہ مجھےایسالگاکہ وہ ماں جومجھےڈیڑھ سال کی عمرمیں مرکرمجھےچھوڑگئی تھی اس نےمجھےگلےلگالیا٭،وہیں مشورہ ہوگیاکہ دہلی آناہے اصل میں ختنہ بھی کرانی تھی اورجماعت میں وقت لگاناتھا،حضرت نےکہاکہ ایک دوروزساتھ رہیے،گاڑی میں بیٹھ کراطمینان سے بات بھی ہوجائےگی ،پہلےجماعت میں وقت لگالو،بعدمیں ختنہ ہوجائےگا،اس لئےکہ دین سیکھنافرض ہےاورختنہ سنت ہے، دین یہ ہےکہ ہرعمل کواس کےجگہ پررکھئے،پہلےفرض اداکرلواور بعدمیں سنت ،واپس آکرختنہ کرالیں ۔
س:مفتی صاحب بتارہےتھےکہ آپ کواللہ تعالیٰ نے دعوت کاخوب حوصلہ دیاہے؟
ج: جی ہاں اللہ کاشکرہےکہ کوئی آدمی ہومجھےدعوت دیتے نہ ڈرلگتاہےاورنہ مرعوبیت ہوتی ہے،میرےخالہ زادبھائی سب سےپہلےمیری دعوت پرمسلمان ہوئے،اب میں دعوت دیتاہوں توایسالگتاہےکہ اندرسےمجھےکوئی پڑھاتاہےاس سےیہ بات کہو یہ بات کہو،اللہ کاشکرہےکہ جن لوگوں کومیں نےدعوت دی سب نےکلمہ پڑھا،اورزیادہ سوالات بھی نہیں کئے۔ اب آپ جماعت میں جارہےہیں آپ ہمارے لئےبھی دعاکیجئے۔ آپ میرےلئےدعاکریں کہ اللہ تعالیٰ میرےساتھ جوشیطان مکارہےاس سےمیرےایمان کوبچائے۔
س: کیاآپ کواب بھی واپس جانےکاخیال ہوتاہے؟
ج: نہیں اب تواللہ کاشکرہے،کسی بھی جگہ میں اپنےاسلام کوچھپاتانہیں ہوں بلکہ میراحال یہ ہےکہ ایک طرف ایک آگ جلی ہوکہ یاتواسلام چھوڑدوورنہ اس آگ میں جلو،تومیں انشاءاللہ انشاءاللہ اسلام نہیں چھوڑوں گا،فوراًاس آگ میں کودجاؤں گا۔ اصل میں دودھ کادھلاچھاچھ میں پھونک ماراکرتاہے،میرے ساتھ ایک باربلکہ باربارہوچکاہے،اس لئےڈرلگتاہےاورجب سےمفتی صاحب نےامام احمدبن حنبل کاواقعہ پڑھ کرسنایاایک روزتعلیم میں بتارہےتھےکہ لوگ ان کوکلمہ پڑھنےکےلئےکہہ رہےتھےوہ فرماتےتھےکہ ابھی نہیں ابھی نہیں ،گھروالےپریشان ہوگئےکہ آخری وقت میں کلمہ نہیں پڑھ رہےہیں ،تھوڑی دیرمیں ذراہوش سنبھالاتوصاجبزادوں نےمعلوم کیاکہ آپ کوجب کلمہ کی تلقین کی جارہی تھی توآپ یہ کیوں فرمارہےتھےکہ ابھی نہیں ابھی نہیں ،امام صاحب نےکہاشیطان میرےسامنےآیااوربولاکہ احمدتومیرےہاتھ سےنکل کرچلاگیا،اپناایمان سلامت لےگیا،تو میں اس سےکہہ رہاتھاکہ ابھی نہیں ،ابھی نہیں ،یعنی جب تک روح نہ نکل جائے،اس وقت تک ایمان کاخطرہ ہے،مجھےاس وقت سےتوڈرلگنےلگاکہ ایسےبڑےامام جودنیاکےچاراماموں میں سےتھے،ان کایہ حال تھاکہ موت تک ایمان کاخطرہ تھا،مجھ دودن کےمسلمان کےلئےہروقت خطرہ ،جب کہ ایمان آنےجانے کےواقعہ سےمیں گذرہی چکاہوں ،جب بھی یہ خیال آتاہےتوڈر کی وجہ سےمیرےرونگٹےکھڑےہوجاتےہیں (ہاتھ کی طرف روئیں کودکھاتےہوئے)دیکھئےکیسےبال کھڑےہوگئے،اگر ایمان چلاگیاتودوزخ میں جلناپڑےگا،آپ دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ایمان پرموت دے۔
س: آمین ۔انشاءاللہ ،اللہ تعالیٰ نےدیاہےتووہی سلامت بھی رکھیں گے،آپ ارمغان پڑھنےوالوں کےلئے پیغام دیں گے؟
ج: حضرت صاحب سیوان میں بیان کررہےتھےکہ ایک دن رات میں ایک لاکھ چون ہزارلوگ بغیرایمان کےمرجاتے ہیں ،ان بےچاروں کوبالکل پتہ نہیں کہ ایمان اتناضروری ہےکہ اسلام کےبغیرنجات نہیں ،یہ بات میں مذہبی برہمن خاندان سے تعلق رکھتاہوں ،ہمارےخواب میں بھی کبھی نہیں آیاکہ اسلام ہمیں بھی قبول کرناچاہئے،ہم تویہ سمجھتےتھےکہ اسلام مسلمانوں کادھرم ہےاورہمارےلئےہمارےمالک نےہندودھرم رکھا ہے،ہماری مکتی ہندودھرم ماننےمیں ہے،اورمسلمانوں کااس بات پرایمان ہےکہ کلمہ اورایمان کےبغیرکوئی آدمی دوزخ سےنہیں نکلےگا،توکس قدرظلم اورکھلااندھیرہےکہ ہم ان بےچاروں کونہ بتائیں اوران کواس سب سےبڑےادھرم بت پرستی سےبچانے کی کوشش نہ کریں ،جب کہ اب کوئی رسول نہیں آئےگا،ہمیں ہی کام کرناہے،بس اس کی فکرکریں اوراس خطرےکومحسوس کریں ۔
س: جزاک اللہ ،آپ نےبہت اچھی بات کہی ۔بہت بہت شکریہ السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
ج: وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ ۔ ٭
٭ ارمغان جنوری 2013 ص 31-35
احمد اوّاہ:السلام علیکم ورحمتہ اللہ
عبد الرحمٰن:وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
س:بھائی عبدالرحمن!اللہ تعالیٰ مبارک فرمائے،اللہ تعالیٰ کاکیساکرم ہواکہ آپ کوایسےزمانہ میں ایمان عطافرمایاجب فتنوں کازمانہ ہے،آپ کوکیسامحسوس ہوتاہے؟
ج:مولاناصاحب میں بیان نہیں کرسکتا،اس خوشی اور کیفیت کوآدمی اپنی زبان سےبیان نہیں کرسکتا مجھ آیورویدسورج پرش برہمن کومحض اپنی رحمت سےایمان عطاکیا، میرےمولیٰ نےمیری زندگی کوالجھائےرکھ کر، زندگی اورہمیشہ کی زندگی کی سب سےبڑی الجھن کو سلجھانےکاانتظام کردیا،کاش اللہ تعالیٰ ایمان پرمیراخاتمہ فرمائے ڈرلگارہتاہےکہ ایک شیطان ہروقت میرے ساتھ لگارہتاہے،جس کومیں محسوس کرتاہوں ۔
س: آپ اپناخاندانی تعارف کرائیں ؟
ج: میراخاندانی نام ہری موہن مشرا،میرےوالدیوگندر موہن مشرا،ہم لوگ دربھنگہ بہارکےایک قصبہ کےآیورویدبرہمن ہیں جواپنےکوسورج پرش سمجھتےہیں ،یعنی ہم کسی سےدان مددلینا حرام سمجھ سکتےہیں ،ہم بھیک دےتوسکتےہیں کسی سےلےنہیں سکتے ،جس طرح سوریہ سب کوپرکاش دیتاہےلیتانہیں ،ہمارےگھرمیں کھیتی ہوتی تھی میرےبڑےبھائی گجرات میں ملازم تھےمیں نے ابتدائی تعلیم اپنےیہاں سےحاصل کرکےمدھوبنی سےگریجویشن کیا ،شروع میں ہمارےیہاں ایک صابن فیکٹری شکری دربھنگہ میں تھی ،جوکسی حادثہ کاشکارہوگئی ،تومیں نےپھرتعلیم شروع کی میں چنئی سےڈپلوماکیا،میرےایک بڑےبھائی پانی پت میں ٹھیکیداری کرتےتھے،پوری زندگی لوگوں کی بھلائی اوران کوگیان دینےاوردوسرےسےلینےکی نیت سےپورےملک میں چکر لگاتےرہے۔جگن ناتھ مشراسےان کےبہت قریبی تعلقات تھے درمیان میں میرےبڑےبھائی کاگجرات سےبنگال پوسٹنگ ہوا تومیں بھی چلاگیا،میری نوکری بھی لگ گئی مگروہ مجھےاچھی نہیں لگی اورمیں نےملازمت چھوڑدی ،کچھ روزٹائپنگ سیکھی ،ڈرائیوری سیکھی کہ کسی طرح اپنا گزاراکرسکوں ،پنجاب کے ایک بلڈراجیت سنگھ کے یہاں میں نےبنگال میں ملازمت کرلی ،ان کایہاں سےکام ختم ہواتووہ مجھےپانی پت لےکرچلےگئے،کچھ روز کےبعدمیں نےاپنی کنسٹرکشن کمپنی کھولی ،اورٹھیکیداری کرنےلگا،میرےایک بھائی سعودی عرب میں تھے،ان کافون آیا،میں کلکتہ آرہاہوں تم بھی آجاؤ،میں کلکتہ ۱۱ ؍دسمبر۲۰۰۵ ءکوپہنچا،معلوم ہواان کوH.I.V کی بیماری ہوگئی ،ان کی بیماری نےمجھ کوہلاکررکھ دیا۔دسمبر۲۰۰۷ ء میں کاروبارسےپریشان ہواتومیری کنسٹرکشن کمپنی بندہوگئی ،جن لوگوں کاکام نہیں ہواتھاانہوں نےمعذرت کردی ،میری مالی حالت بارباربگڑتی رہی ،میرےپاس ۱۱ ؍ہزارروپےتھےان کو لےکرمیں دہلی آیا،کہ اگروہاں کام نہ چلاتوپھریہ بھی ارادہ تھاکہ کہیں خودکشی کرلوں گا۔
س:خودکشی کاخیال آپ کوکیوں پیداہوا؟
ج:بھائی کی بیماری اورباربارکام چلنےاوراچانک ٹوٹ جانےسےمیں ہمت ہارگیا،پھرایک کمپنی کےمینیجرسے ملا،انہوں نےمجھےکام دےدیااورکام چل پڑا،پھرذراکام چلاتو بھائی نےگجرات بلالیا،گجرات میں ٹھیکیداری شروع کی ،دوسال کام اچھاچلا،مالک کاشکرہےکہ دوسال میں اپنامکان بنالیا، اچانک ایک رات ہارٹ اٹیک ہوگیا،ایک وال ۹۰ ؍فیصدخراب ہوگئی، BMB ہوا،کسی درجےمیں صحت ہوئی تومیرےبھائی کےایک دوست سنیل گوڑے،جوناسک کےرہنےوالےتھے، انہوں مجھےمشورہ دیاکہ اب تم اچھےہوگئےہو،اوراچھےہوجاؤاس کےلئےناسک میں سائیں باباکےمندرچلو،میں نےمشورہ مانا، لوٹتےوقت راستہ میں ان کی سسرال تھی ،سسرال والوں سےان کی بنتی نہیں تھی ،ان کی بستی میں ایک اللہ والےگلاب شاہ تھے، انہوں نےسنیل کی بہوکواپنی بیٹی بنالیاتھا،بس ان کےیہاں ہی جایاکرتےتھے،سنیل نےکہاچلو،ان سےملتےہیں ،ان سےملنے کےبعدمجھ کوبہت سکون ملا،انہوں نےمجھےپرس میں رکھنےکے لئےایک تعویذبھی دیا،اس ملاقات کےبعدمیری زندگی میں بڑی تبدیلی آئی ،میں اصل میں گھنٹوں پوجاکرتاتھا،مگراس ملاقات کے بعدپوجامیں بالکل من نہیں لگتاتھا،ایک دن عجیب بات پیش آئی ، میں سوکراٹھاتومیں نےدیکھاکہ بہت نورانی شکل کی صورت ، خوبصورت داڑھی کونےسےآہستہ آہستہ میرےسامنےنظرپڑی ، کمرےمیں اندھیراہورہاتھا،وہ صورت میرےقریب ہوگئی ، میں نےسوال کیاتوکون ہے؟کوئی جواب نہیں ،قریب آکرپھر آہستہ واپس چلی گئی ،میں نےموبائل میں وقت دیکھاپانچ بج کر پینتیس منٹ ہورہےتھے،اس کےبعدمیں نےسناکہ کمرےمیں اذان کی آوازآرہی ہے،ہمارےگھرکےقریب دوکلومیٹرتک کوئی مسجدنہیں ہے،ایک مسجددورہےمگراس میں صبح کی اذان مائک میں دینےکی اجازت
نہیں ہے،اس دن میں پوجاکےلئےموٹر سائیکل لےکرنکلا،کچھ کیلےوہاں چڑھانےکےلئے،لےلئے مگرغیراختیاری طورپرنہ جانے،نظریں مسجدکےدروازےپرپہونچیں اورچھ کےچھ کیلےخودکھاکرواپس آگیا،اورایساتین روز تک ہوتارہا،تیسرےروزمیں امام صاحب کےیہاں گیااوربولا مجھےمسلمان بنناہے،انہوں نےمجھ سےکہاکہ تم ہمارابیوقوف بنارہےہو،تمھیں معلوم نہیں مودی کی حکومت چل رہی ہے،جاؤ یہاں سےنکلو،دوسرےروزگیاپھرانہوں نےدھمکادیا،اورکہاکہ اگرتم یہاں آئےتوہم تھانےمیں رپورٹ کردیں گے،میں نے سنیل گوڑےسےکہاکہ آپ میری بات گلاب بھائی سےکرائیں ،گلاب بھائی نےکہاکہ یہ آپ پراللہ کی رحمت ہے،آپ گھبرکھرائیے نہیں ،آپ کواس سےکچھ نقصان نہیں ہوگا،تیسرےروزپھرمیں امام صاحب کےپاس گیا،کہ مجھےمسلمان بنناہے۔
س: آپ کوخیال نہیں آیاکہ وہ آپ کوپھردھمکادیں گے؟
ج: میرےبس میں نہیں تھا،مجھےاندرسےکوئی مجبورکررہا تھا،اس روزمیں گیاتوامام صاحب کاغصہ کم تھا،میں نےکہاآپ مجھےقرآن مجیددیجئے،مسلمان نہیں کرتےتومت کیجئے،انہوں نےمجھےسمجھایاکہ آپ مسلمان بننےکی بات دل سےنکال دیجئے، انہوں نےمجھ سےمعلوم کیاآپ کیوں مسلمان بنناچاہتےہیں ؟ میں نےکہامجھےخودمعلوم نہیں کہ میں کیوں مسلمان بنناچاہتاہوں ، میں نےاپناحال ان کوسنایا،انہوں نےمجھےقرآن مجیدمنگواکرکل دینےکاوعدہ کیا،اگلےروزمیں گیاقرآن مجیدلےکرآیا،انھوں نےمجھےبتایاکہ ہاتھ پیردھوکراس کوادب سےپڑھناہے،میں گھر قران مجیدلےکرآیا،تومیری بھابھی نےمجھےپڑھتےہوئےدیکھ لیا،انہوں نےگھرمیں آفت برپاکردی ،میرےلئےگھرمیں رہنا مشکل ہوگیا،میں واپس قرآن شریف لےکرپھرمسجدپہنچااورامام صاحب سےاجازت لی کہ آپ مجھےمسجدمیں بیٹھ کرپڑھنےکی اجازت دیں ،دس روزتک قرآن مجیدپڑھنےکےبعدمیں نےامام صاحب سےپھرمسلمان بنانےکی درخواست کی ،انہوں نےمیراپتہ لیا،اوردوروزکےبعدآنےکوکہا،انہوں نےاپنے لوگوں سےمیری انکوائری کی ،جب ان کواطمینان ہوگیا،تووہ مجھ کو بڑی مسجدمرکزمیں لےکرگئےاورکہاکہ وہاں آپ کوکلمہ پڑھوائیں گے،امام صاحب نےمجھےغسل کرایا،اورکہاکہ کلمہ پڑھو میں نےکہاکہ مجھےچھ کلمےیادہیں ،انہوں نےمعلوم کیاکہ تم کو کلمےکہاں یادہوئے؟،میں نےکہاکہ یہ کلمےتسلیمہ نسرین کی کتاب' لجا'سےمیں نےیادکئےہیں ٭،میں نےایک عجیب سےحال میں یہ سوچتےہوئےبھی کہ مجھےمسلمان نہیں ہوناچاہئےپھربھی کلمہ پڑھا،مگرکلمہ پڑھ کرمجھےاندرسےایک عجیب آزادی کااحساس ہوا ،جیسےمیں کسی قیدسےآزادہوگیاہوں ،اب میرےقانونی طورپر مسلمان ہونےکامسئلہ تھا،کوئی وکیل میرےکاغذات بنانےکے لئےتیارنہیں ہوا،۲۰۰۸ ءمیں کنورجن کےلئےگجرات حکومت نےبل پاس کیاتھا،میرےلئےبڑی مشکل پیش آئی ،میں موٹر سائیکل پرادھرسےادھرماراماراپھرتارہا،آخرمیں ایک بھلےوکیل جناب شیخ امین صاحب ملے،جنہوں نےمیرےکاغذات لئے، پچیس سوروپےفیس طےہوئی ،جوموانااصغرعلی نےاپنی جیب سے اداکئے،اورایک ہفتےمیں میرےکاغذتیارہوئے،اورمیراایفی ڈیوٹ بنادیا۔ میں جنوری میں بنگال چلاگیا،مجھ پرکچھ قرض بنگال میں تھا، میں نےموٹرسائیکل بیچ کرقرض اداکیا،۲۵ ؍فروری کوبھائی کافون آیا،انھوں نےمجھےگجرات بلایا،میں گجرات گیامولانااصغر صاحب اورسب لوگ سمجھ رہےتھےکہ میں واپس ہندوبن گیاہوں۔ یہ دیکھ کربہت خوش ہوئےکہ میں ابھی تک مسلمان ہوں ،بھائی بہت بیمارتھےمیں ان کولےکرپٹنہ آیا،۲۷ ؍اگست ۲۰۱۲ ءکوبھائی کاانتقال ہوگیا،میرےساتھ ایک شیطان ہروقت ساتھ ساتھ رہتاتھا،جومجھےاسلام میں آنےسےروکتاتھا،بھائی کےانتقال کےبعداس شیطان کاڈرہوا،میں نےاسلام سےتوبہ کرنےکی نیت کی اورہری دوارپہنچا،پشکرگیا،بالاجی کےمندرپرگیا،اور ویشنودیوی گیا۔
س:کیاآپ اپنےکوہندوکہنےلگےاورسمجھنےلگےتھے؟
ج:میں اپنےآپ میں یہی سمجھ رہاتھاکہ تونےمسلمان ہوکرغلطی کی ہے،توبہ کےلئےسارےتیرتھوں پرجاکررہامگرمیرا حال ابھی بھی ڈھل مل تھا،میں مسلمان داڑھی والےکودیکھتاتو اپنےکومسلمان کہتا،اورہندوؤں میں جاتاتواپنےکوہندوکہتا،شاید اس وجہ سےکہ میں مسلمانوں میں اپنےاسلام کااعلان کرچکاتھا،یا اندرسےکوئی چیزمجھےمجبورکرتی تھی کہ مسلمانوں میں خودکومسلمان کہوں ،مجھےاپنےبھتیجےاوربھائی کی خیریت لینےاوراپنےواپس ہندوبن جانےکےلئے،مطمئن کرنےکےلئےگجرات جانےکا خیال آیا،وہاں پہنچاتومولانااصغرعلی نےاپنےساتھی کےپاس سےلاکر’’آپ کی امانت ،آپ کی سیوامیں ‘‘اور’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ہندی میں لاکردی ،ان کتابوں نےمیرےدماغ ودل سب کےجالےصاف کردئیے،اب مجھےاپنی منزل اورراستہ صاف دکھائی دےگیا،اب میں نےجاکرایک امام صاحب جو دعوت سےجڑےتھےاورحضرت مولاناکلیم صدیقی کےساتھیوں کےساتھ کام کرتےتھےسچےدل سےکلمہ پڑھاانھوں نےحضرت کاتعارف کرایا،حضرت سےاب مجھےبہت ہی محبت ہوگئی تھی اور خیال تھاکہ باقی زندگی بس پھلت٭ جاکرحضرت کےساتھ گذارنی ہے۔مگرایک رات میں نےاپنےپتاجی کوسپنوں میں دیکھاآنکھ کھلی تومجھےبہت یادآئی اورخیال ہواکہ میرےپتاجودھرم کےنام پرزندگی بھرپورےدیش میں بھرمن (طواف )کرتےرہے،وہ سب سےبڑےادھرم کودھرم سمجھ کرزندگی بھرپھرتےرہے،اور مالک کےراستہ سےبھٹکتےرہے،کہیں میرےگھروالےاور خاندان والےبھی اسی طرح موت کی راہ نہ لیں ،میں نےگاؤں جاکرسب رشتےداروں کودعوت دینےکی نیت سےبہارکاسفرکیا۔
س:مفتی مہتاب سےآپ کاتعارف کہاں ہوا؟
ج:بہارواپسی ہورہی تھی کہ ایک صاحب پٹنہ میں ملے انہوں نےبتایاکہ شکری میں ایک ادارہ بالکل مین روڈکےقریب مرکزصفہ کےنام پرچل رہاہے،وہاں پرنومسلموں کےلئےبھی انتظام ہےاوروہاں دعوت کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے،تومیں شکری گیا،اورمفتی صاحب سےملا،مفتی مہتاب نےبتایاکہ مرکز صفہ حضرت ہی کاادارہ ہے،اورہم لوگ حضرت کےمشورہ سےہی کام کررہےہیں ،بس اندھےکودونین مل گئے،میرےگاؤں کے اتنےقریب وہ بھی میرےحضرت مولاناکلیم صاحب کےلوگ مل گئے،میں نےوہاں رہنےکی خواہش ظاہرکی ،مفتی مہتاب صاحب نےایک خونی رشتہ کےسگےبھائی سےزیادہ میراساتھ دیا، میں نےاجازت لےکرگھرکاسفرکیا،میری بھابھی جوگجرات میں رہتی تھی اورماں کےانتقال کےبعدانہوں نےماں سےزیادہ محبت سےپالاتھا،وہ میری بالکل دشمن ہوگئی تھی ،انہوں نےفون کرکےسارےگھروالوں کوبتادیا،گھرجاتےہی میرےساتھ زیادتی ہونےلگی ،اب ان باتوں کاذکرکرنابھی اچھانہیں لگتاکہ مجھےان میں کام کرناہے،جب تک میری سمجھ میں اسلام نہیں آیاتھا میراحال بھی اسی طرح کاتھا،کئی بارگھرمیں پنچایت ہوئی ،ایک بار خاندان کےایک مکھیاسمجھےجانےوالےمیرےدورکےچچاکوبلایا گیا،سب لوگوں کےسامنےوہ بولے،کیاواقعی تواندرسےمسلمان ہوگیاہے؟یاکسی لڑکی وڑکی کےچکرمیں ڈھونگ بھررہاہے،میں نےدونوں ہاتھوں کوسینہ سےجکڑکربتایاکہ اگرتم کہوتومیں اپناسینہ چیرکرکلیجہ نکال کردکھادوں کہ خون کےقطرےمیں اورجگرکے ٹکڑےٹکڑےپرلاالہ الااللہ لکھاہواہے،میرےساتھ ایسی ایسی زیادتیاں کی گئیں کہ بس کیابیان کروں ،کئی بارمجھےجان سے مارنےکی کوشش کی ،مگرمیرےاللہ نےمجھےبچایا،مفتی صاحب سےمشورہ کیا،انہوں نےشکری واپس آنےکامشورہ دیا،واپس آیا تومجھےوہاں دعوتی ماحول ملا،اللہ کاشکرہےکہ پورےبہارمیں ہمارےمرکزصفہ کاتعارف ہوگیاہے،کوئی اسلام کےبارےمیں کوئی معلومات چاہتاہے،اسلام سےدلچسپی رکھتاہے،تولوگ مفتی مہتاب صاحب مرکزصفہ کاپتہ بتادیتےہیں ،اوراللہ تعالیٰ بھٹکتے ہوےلوگوں کی رہنمائی اورہدایت کامرکزہمارانقلی صفہ بھی اصلی صفہ کی طرح بنتاجارہاہے،اورمفتی مہتاب اوران کےسبھی ساتھی بہت ہی محبت سےگھرسےنکالےگئےمہاجرنومسلموں کی تربیت اورتعلیم اوران کےمسائل کی فکرکرتےہیں ۔
س: آپ دہلی سےپھلت کےسفرپرکب آئےاورکیا ارادہ ہے؟
ج: اصل میں گجرات میں حضرت مولاناکلیم صاحب سے ملنےکابہت شوق تھا۔پچھلےدنوں معلوم ہواکہ حضرت ۸ دسمبرکو سیوان آرہےہیں ،میں نےمفتی صاحب سےدرخواست کی ، بہت سارےسوالات تھے،جوسوچےتھےکہ حضرت سےکہوں گا، ذہن میں الجھنوں کاانبارتھا،خیال تھاکہ حضرت سےکہوں گا، مگرسیوان میں بھیڑمیں مصافحہ کرکےبیٹھ گئے،حضرت نےنو مسلموں کےمسائل پربات ساتھیوں سےشروع کی اوران کےغم وفکرکواپناغم اورفکربتاکرلوگوں کےساتھ رہنےکوکہا،ایسےمیں بیٹھے بیٹھےباتیں ہورہی تھیں ،یعنی کوئی باقاعدہ جلسہ نہیں تھا،یہاں وہاں سےلوگ آئےہوئےتھے،مفتی مہتاب صاحب نےمیرا تعارف کرایا،حضرت اٹھےتوسارےغم جیسےتھوڑی دیرمیں بھلا دئیے،میں نےحضرت سےکہاکہ حضرت مجھےایک بارگلےسے لگالیجئے،حضرت نےہنستےہوئےچمٹایااوربولے،آپ دین کے لئےسب کچھ چھوڑکرآنےوالےلوگ ،توہمیشہ سےدل وجان سےلگےہوئےہو،مولوی احمدصاحب بالکل سچ کہہ رہاہوں کہ مجھےایسالگاکہ وہ ماں جومجھےڈیڑھ سال کی عمرمیں مرکرمجھےچھوڑگئی تھی اس نےمجھےگلےلگالیا٭،وہیں مشورہ ہوگیاکہ دہلی آناہے اصل میں ختنہ بھی کرانی تھی اورجماعت میں وقت لگاناتھا،حضرت نےکہاکہ ایک دوروزساتھ رہیے،گاڑی میں بیٹھ کراطمینان سے بات بھی ہوجائےگی ،پہلےجماعت میں وقت لگالو،بعدمیں ختنہ ہوجائےگا،اس لئےکہ دین سیکھنافرض ہےاورختنہ سنت ہے، دین یہ ہےکہ ہرعمل کواس کےجگہ پررکھئے،پہلےفرض اداکرلواور بعدمیں سنت ،واپس آکرختنہ کرالیں ۔
س:مفتی صاحب بتارہےتھےکہ آپ کواللہ تعالیٰ نے دعوت کاخوب حوصلہ دیاہے؟
ج: جی ہاں اللہ کاشکرہےکہ کوئی آدمی ہومجھےدعوت دیتے نہ ڈرلگتاہےاورنہ مرعوبیت ہوتی ہے،میرےخالہ زادبھائی سب سےپہلےمیری دعوت پرمسلمان ہوئے،اب میں دعوت دیتاہوں توایسالگتاہےکہ اندرسےمجھےکوئی پڑھاتاہےاس سےیہ بات کہو یہ بات کہو،اللہ کاشکرہےکہ جن لوگوں کومیں نےدعوت دی سب نےکلمہ پڑھا،اورزیادہ سوالات بھی نہیں کئے۔ اب آپ جماعت میں جارہےہیں آپ ہمارے لئےبھی دعاکیجئے۔ آپ میرےلئےدعاکریں کہ اللہ تعالیٰ میرےساتھ جوشیطان مکارہےاس سےمیرےایمان کوبچائے۔
س: کیاآپ کواب بھی واپس جانےکاخیال ہوتاہے؟
ج: نہیں اب تواللہ کاشکرہے،کسی بھی جگہ میں اپنےاسلام کوچھپاتانہیں ہوں بلکہ میراحال یہ ہےکہ ایک طرف ایک آگ جلی ہوکہ یاتواسلام چھوڑدوورنہ اس آگ میں جلو،تومیں انشاءاللہ انشاءاللہ اسلام نہیں چھوڑوں گا،فوراًاس آگ میں کودجاؤں گا۔ اصل میں دودھ کادھلاچھاچھ میں پھونک ماراکرتاہے،میرے ساتھ ایک باربلکہ باربارہوچکاہے،اس لئےڈرلگتاہےاورجب سےمفتی صاحب نےامام احمدبن حنبل کاواقعہ پڑھ کرسنایاایک روزتعلیم میں بتارہےتھےکہ لوگ ان کوکلمہ پڑھنےکےلئےکہہ رہےتھےوہ فرماتےتھےکہ ابھی نہیں ابھی نہیں ،گھروالےپریشان ہوگئےکہ آخری وقت میں کلمہ نہیں پڑھ رہےہیں ،تھوڑی دیرمیں ذراہوش سنبھالاتوصاجبزادوں نےمعلوم کیاکہ آپ کوجب کلمہ کی تلقین کی جارہی تھی توآپ یہ کیوں فرمارہےتھےکہ ابھی نہیں ابھی نہیں ،امام صاحب نےکہاشیطان میرےسامنےآیااوربولاکہ احمدتومیرےہاتھ سےنکل کرچلاگیا،اپناایمان سلامت لےگیا،تو میں اس سےکہہ رہاتھاکہ ابھی نہیں ،ابھی نہیں ،یعنی جب تک روح نہ نکل جائے،اس وقت تک ایمان کاخطرہ ہے،مجھےاس وقت سےتوڈرلگنےلگاکہ ایسےبڑےامام جودنیاکےچاراماموں میں سےتھے،ان کایہ حال تھاکہ موت تک ایمان کاخطرہ تھا،مجھ دودن کےمسلمان کےلئےہروقت خطرہ ،جب کہ ایمان آنےجانے کےواقعہ سےمیں گذرہی چکاہوں ،جب بھی یہ خیال آتاہےتوڈر کی وجہ سےمیرےرونگٹےکھڑےہوجاتےہیں (ہاتھ کی طرف روئیں کودکھاتےہوئے)دیکھئےکیسےبال کھڑےہوگئے،اگر ایمان چلاگیاتودوزخ میں جلناپڑےگا،آپ دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ ایمان پرموت دے۔
س: آمین ۔انشاءاللہ ،اللہ تعالیٰ نےدیاہےتووہی سلامت بھی رکھیں گے،آپ ارمغان پڑھنےوالوں کےلئے پیغام دیں گے؟
ج: حضرت صاحب سیوان میں بیان کررہےتھےکہ ایک دن رات میں ایک لاکھ چون ہزارلوگ بغیرایمان کےمرجاتے ہیں ،ان بےچاروں کوبالکل پتہ نہیں کہ ایمان اتناضروری ہےکہ اسلام کےبغیرنجات نہیں ،یہ بات میں مذہبی برہمن خاندان سے تعلق رکھتاہوں ،ہمارےخواب میں بھی کبھی نہیں آیاکہ اسلام ہمیں بھی قبول کرناچاہئے،ہم تویہ سمجھتےتھےکہ اسلام مسلمانوں کادھرم ہےاورہمارےلئےہمارےمالک نےہندودھرم رکھا ہے،ہماری مکتی ہندودھرم ماننےمیں ہے،اورمسلمانوں کااس بات پرایمان ہےکہ کلمہ اورایمان کےبغیرکوئی آدمی دوزخ سےنہیں نکلےگا،توکس قدرظلم اورکھلااندھیرہےکہ ہم ان بےچاروں کونہ بتائیں اوران کواس سب سےبڑےادھرم بت پرستی سےبچانے کی کوشش نہ کریں ،جب کہ اب کوئی رسول نہیں آئےگا،ہمیں ہی کام کرناہے،بس اس کی فکرکریں اوراس خطرےکومحسوس کریں ۔
س: جزاک اللہ ،آپ نےبہت اچھی بات کہی ۔بہت بہت شکریہ السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ
ج: وعلیکم السلام ورحمہ اللہ وبرکاتہ ۔ ٭
٭ ارمغان جنوری 2013 ص 31-35
ماشاءاللہ بہت عمدہ روداد اللہ کے ہاتھ میں ہے ہدایت جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے ۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو ایمان کے ساتھ موت آئے
ReplyDelete