Sarbakaf

image
Aadaab,

Want to know about us?

Sarbakaf is a group of dynamic , talented and multilingual freelancers providing timely and economic services from Data Entry to PDF eBook Creation to App Development professionally.

Language Proficiency :1. English 2. Urdu 3. Hindi

WE LOVE PERFECTION

WE OFFER

Our Projects

Sarbakaf Search

LATEST POSTS
Showing posts with label سربکف1. Show all posts
Showing posts with label سربکف1. Show all posts

فری میسنری کی "معصومیت"

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مدیر کے قلم سے


(ایجنسی) یہودیوں کی بدنامِ زمانہ خفیہ تنظیم "فری میسن" نے نیک نامی کے لیے بڑی خوبصورت باتیں کی ہیں اور اپنی جانب اٹھنے والی انگلیوں کو نیچے کرنے کی بودی کوشش کی ہے۔ اُن کے بقول  تنظیم "خفیہ" نہیں ہے، اور عوام کی غلط فہمیاں بالکل بے جا ہیں۔
    روزنامہ "دی ہتوادThe Hitavada" کے ایک کارکن  شہر میں موجود فری میسن کے ممبران سے ملاقات اور انٹرویو کے بعد اسے اس شہ سُرخی کے ساتھ شائع کرتے نظر آئے۔
Free Masonary is not a Secret Society, It’s the society with Secrets!
    انٹرویو کے خلاصے کے طور پر تمام ممبران فری میسن کی نام نہاد "معصومیت" کے گیت گاتے نظر آئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تنظیم کوئی خفیہ سرگرمی میں ملوث نہیں ہے، بلکہ سماجی خدمات انجام دینے میں پیش پیش ہے، جس کی تفصیل ویب سائٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ فری میسنری کا مشن معاشرے کا مثبت بدلاؤ اور طرزِ زندگی کی مکمل آسودگی ہے۔ امن اور شانتی کی داعی ہے، ریڈ کراس کی طرح یہ بھی سوشل ورک کا کام انجام  دیتی ہے۔
    اتنے "بے ضرر" مقاصد کو دیکھتے ہوئے جب انٹرویور نے اُن سے پوچھا کہ پھر آپ کا یہ مخصوص لباس  کیوں؟جس پر عجیب قسم کے نشانات اور اسٹارس ہیں۔ فری میسنری کی ممبران ہمیشہ رات کی تاریکی میں کیوں ملتے ہیں؟ اِن کی پہچان ہمیشہ خفیہ کیوں ہوتی ہے؟ تو تمام ممبران  ایک ہی "رٹا ہوا" جواب دیتے نظر آئے کہ" ہمارا کام اور مقصد تو وہی ہے جو بیان ہوا، اس کے علاوہ تنظیم میں کوئی خفیہ بات نہیں، ہاں یہ ضرور ہے کہ ممبران کی آپس کی پہچان کے لیے کچھ کوڈ ورڈز متعین ہیں، اور پیغام رسانی بھی انہیں کوڈ ورڈز میں ہوتی ہے۔ تنظیم بالکل بھی خفیہ نہیں۔ "
    شاید کفار و مشرکین کے شبہات  تو اس جواب سے زائل ہو گئے ہوں، لیکن امتِ مسلمہ اب بھی اِن کی "معصعومیت" پر مسکرا رہی ہے۔۔۔کہ اتنی بے ضرر مقاصد والی سوشل ورکر تنظیم  میں کوڈ ورڈز کے استعمال کی کیا ضرورت اور غایت ہے؟
٭٭٭

گوگل کے مطابق پرائم منسٹر نریندر مودی مجرم

 "سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مدیر کے قلم سے

(ایجنسی) الیکٹرانک میڈیاکے بے تاج بادشاہ "گوگل" نے  بھارتی پرائم منسٹر نریندر مودی کو  مجرموں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔  گوگل امیجز پر top 10 criminals    تلاش کرنے پر   اُسامہ بن لادن وغیرہ  کے ساتھ نریندر مودی کی تصویر بھی  تلاش کے نتائج کے طور پر دکھائی گئی۔ حیرت تو یہ ہے کہ
" محترم پرائم منسٹر" کی تصویر اس سرچ  کا پہلا رزلٹ تھی۔ کچھ ہی عرصے میں سوشل میڈیا کے ذریعے یہ خبر ہر طرف پھیل گئی۔
    اس کے بعد بدھ کے روز گوگل نے  ان الفاظ یا اس جیسے الفاظ کے سرچ پر اوپر سرخ رنگ کے ہائیلایٹ  میں یہ پیغام دکھایا"گوگل پر سرچ کے نتائج صرف سرچ کرنے والے کے الفاظ تک محدود رہتے ہیں۔ یہ نتائج بذاتِ خود گوگل کے نظریہ کی ترجمانی نہیں کرتے۔" لیکن۔۔۔اس تحریر کے باوجود بھی پرائم منسٹر نریندر مودی کی تصویر ہی اس تلاش کا اول مصداق دکھائی جاتی رہی۔
    پرائم منسٹر نریندر مودی کے ساتھ ساتھ سرچ رزلٹ میں  امریکہ کے سابق صدر "جارج بش"، لیبیا کے "معمر قذافی"، دلی کے چیف منسٹر "اروند کیجریوال"، انڈرورلڈ ڈان"داؤد ابراہیم" اور بالی ووڈ کے اداکار"سنجے دت" کو بھی دکھایا گیا۔
    گوگل نے پرائم منسٹر سے اس "غیر متوقع" سانحہ پر معذرت کرلی ہے۔

روزہ بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
کوکب شہزاد
یہ بات تو عیاں ہے کہ روزہ ایک کٹھن عبادت ہے اور خاص طورپر گرمیوں کے روزے تو بچوں کے لیے بہت ہی مشکل ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے بچوں کو یہی بتانا چاہیے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے.
اسلام میں روزہ فرض ہے اس لیے میں نے شروع سے ہی اپنے بچوں میں روزہ رکھنے کی عادت ڈالی ہے مگر میرا بڑا بیٹا رمضان میں بہت چڑچڑا ہوجاتا ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنے بہن بھائیوں سے لڑتا اور انھیں مارتا ہے اور میری اور اپنے باپ کی نافرمانی کرتا ہے۔مجھے بتائیں کہ میں اس کے لیے کیا کروں کہ وہ روزہ رکھنے کا صحیح حق ادا کرسکے؟
یہ بات تو عیاں ہے کہ روزہ ایک کٹھن عبادت ہے اور خاص طورپر گرمیوں کے روزے تو بچوں کے لیے بہت ہی مشکل ہوتے ہیں لیکن ہمیں اپنے بچوں کو یہی بتانا چاہیے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ ہے ۔تقویٰ کا مطلب ہے ایسے کام کرنا جن سے اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہوجائے۔دراصل بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ہم ان کو روزہ رکھوانے کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن اس کا فلسفہ آداب اور بنیادی تقاضے نہیں بتاتے جس کی وجہ سے بچوں کے اندر صبراور برادشت پیدا نہیں ہوتی اور وہ بھوکا اور پیاسارہنے کو ہی روزہ سمجھتے ہیں حالانکہ ہمارے دین اسلام نے روزہ رکھنے کے مقاصد واضح طورپر بتایئے ہیں ۔قرآن مجید میں ہے۔
”اے ایمان والوتم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ حاصل کرسکو۔
اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اس کی مقررکردہ حدودومیں رہنااور لڑائی ،جھگڑا،چوری،ملاوٹ،گالم گلوچ اور ہر طرح کے برے کاموں کو چھوڑدینا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھے اس کے پہلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
ایک مقام پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے روزے کی حالت میں لڑنا،جھگڑنانہ چھوڑا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے پیاسے رہنے کی کوئی پرواہ نہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر بنی آدم کی نیکی دس گناسے سات سو گنا بڑھادی جاتی ہے سوائے روزے کے پس وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزادیتا ہوں کیونکہ وہ میرے لیے اپنی شہوت اور اپنا کھانا چھوڑتا ہے ۔روزہ دار کے لیے دوہری خوشیاں ہیں۔ایک خوشی جواس کو روزہ افطار کرتے وقت ملے گی اور ایک خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت ملے گی اور روزے دار کے منہ کی بواللہ تعالیٰ کو مشک (عطر) کی خوشبو سے زیادہ پسند ہے۔روزہ ڈھال ہے۔جس دن تم میں سے کسی کا روزہ ہو تو وہ نہ فحش بات کرے نہ شور مچائے۔اگر اس کو گالی دی جائے یا اس سے کوئی لڑے تو وہ کہے میں روزے سے ہوں ۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ایک حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا رتو اللہ تعالیٰ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پینا چھوڑے۔
ہمیں اپنے بچوں کو یہ بتانا چاہیے کہ رمضان تربیت کا مہینہ ہے اور اس مہینے میں سب سے زیادہ تربیت صبروشکر کی ہوتی ہے۔اگر ہم شروع ہی سے یہ باتیں ان کے ذہن میں ڈال دیں اور خود بھی اس کا عملی نمونہ بنیں تو ضرور بچوں پر اس کا اثر ہوگا کیونکہ بچے آخر کار وہی کرتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کو کرتے دیکھتے ہیں۔(١)
(١)بشکریہ اردو پوائنٹ ڈاٹ کام

کنواروں کا مسئلہ

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

عبد الرحمٰن صدیقی حفظہ اللہ

"پہلے اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ پھر شادی کی سوچنا"
یہ ایک جملہ ہے جو ہمارے عہد کے بہت سارے کنواروں کے دل پر بجلی بن کر گرتا ہےاور ان کی سلگتی تمنّاؤں اور امنگتی آرزوں کو خاکستر کردیتا ہے ۔ ہمارےیہاں لڑکے کے لیے پیروں پر کھڑا ہونے معیار اتنی بلندی پر رکھا گیا ہے کہ وہاں تک پہنچتے پہنچتے لڑکے کی عمر اس مرحلہ میں پہنچ جاتی ہے جہاں گھٹنوں کا درد شروع ہوجاتا ہے ۔ لیکن گھنٹے میں درد شروع ہوجانے کی اور بھی کئی ساری وجوہات ہوتی ہیں ۔
عجیب معاملہ یہ ہے کہ تیس سال سے پہلے تو یہ سمجھا ہی نہیں جاتا کہ بچّہ اب بچّہ نہیں رہا۔ جوان ہوچکا ہے ۔ آرزوئیں اب اس کےدل میں بھی کچوکے لگاتی ہیں ، خواب اب اس کی راتوں کو سونے نہیں دیتے ۔بے چارہ نوجوان شرم اور بے شرمی کے بیچ جھولتا رہتا ہے اس فکر میں کہ آخر بے شرمی کی کون سی حد تک جائے کہ گھر والے اس کا مسئلہ سمجھ پائیں ۔ کبھی حیا اس کو ہاتھ پکڑ کر روک لیتی ہے تو کبھی کنوارگی کا درد اس کو مجبور کرتا ہے کہ" اتر جاؤ بے شرمی پر اور رکھ دو دل کا درد کھول کر سب کے سامنے ۔"
پھر جب عمر کی دہائی پر جب 3 آکر لگتا ہے تو گھر والوں کو لگتا ہے بچّہ اب شادی کے لائق ہوگیا ۔پھر رخ کیا جاتا ہے منڈی کی طرف ۔ لڑکے پر حسب لیاقت و صلاحیت قیمت کے ٹیگ لگتے ہیں ۔ خریدارکی تلاش ہوتی ہے ۔ دلالوں سے کانٹیکٹ کیا جاتا ہے۔ بولیاں لگتی ہیں ۔ مول بھائی ہوتا ہے۔ نیلامی ہوتی ہے ۔ اور تلاش ہوتی ہے صحیح خریدار اور مناسب دام کی ۔
مردوں کی منڈی میں ہر طرح دلہے بکنے کو دستیاب ہوتےہیں ۔ ہر قسم کے دلہے کہ اپنی ولیو ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر اور انجینر اور باہر ملکوں میں مقیم سب سے اعلیٰ نسل کے دلہے سمجھے جاتے ہیں منڈی میں جہاں اس نسل کے دولہے بکتے ہیں وہاں کی انٹری فیس بھی بڑی ہوتی ہے ۔ جو صرف انتہائی امیر گھرانے کے لڑکی والے ہی ادا کرپاتے ہیں ۔
متوسظ قسم کے مالداروں اور خوشحال گھرانوں کا بھاؤ کافی عروج پر ہے آج کل ۔ اور انگریجی پڑھائی پڑھنے والوں کی بھی کافی مانگ ہے ۔
منڈی ایک کونے مولوی بھی بکتے ہیں ۔ کیونکہ مولوی نسل کے دولہوں کے بارے میں خریداروں کی رائے یہ ہے کہ اس نسل کے دولہے کسی نا کسی طرح اپنے بال بچّوں کا پیٹ پال ہی لیتے ہیں ، اس لیے مارکیٹ میں ان کا بھی ریٹ کافی اچھا ہوگیا ہے ۔ بلکہ شاید یہی ایک مارکیٹ ہے جہاں ان کی ویلیو تھوڑی ٹھیک ٹھاک ہے ۔ دو پہیہ سے کم اب کوئی مولوی فروخت نہیں ہوتا ۔ الا من شاء ربک
لیکن مسئلہ صرف صحیح خریدار اور مناسب قیمت ملنے کا بھی نہیں ہے۔ یہ بازار ایسا ہے کہ بکنے والے کو خریدار بھی پسند آنا چاہے ورنہ ڈیل کینسل ۔
ذہنیت یہ بن گئی ہے کہ جب تک دس بیس گھرانے کی دعوتیں اڑا کر ان کی لڑکیاں ریجیکٹ نہ کردی جائیں لڑکے کے گھر والوں کو تسکین نہیں ہوتی ۔(١)
وہی ہوتا ہے کہ لڑکے کا تھوبڑا چاہے دیکھنے لائق نہ ہو ۔گھر والوں کی فکر لگی ہوتی ہے ، ۔ "وہ پری کہاں سے لاؤں ، تیری دلہن کسے بناؤں" لڑکی چاہیے حور پری ۔ لڑکے کو چاہے بات کرنے کی تمیز نہ ہو لڑکی چاہیے بے اے ایم اے ۔
لڑکیوں کو ریجکٹ کرنے کےلیے ایسے ایسے کمنٹ سنے گئے ہیں :
"رنگ سانولا ہے ۔ میرے بھائی کو گوری لڑکی چاہیے ۔ "
"بال دیکھے تھے اپّی کتنے چھوٹے تھے اس کے ۔ "
"اس کی ایڑیاں پھٹی ہوئی ہیں میں نے چپ کے سے موزہ اتروا کے دیکھ لی تھی"
"قد چھوٹا ہے نہیں جمے گی بھائی کو "
" ماسٹر ہی تو ہے ابّا لڑکی کے ۔ کچھ بھی دے لیں تو کتنا دیں لیں گے آخر"
(١) یہ صورتِ حال اکثر جگہوں پر دیکھی گئی ہے اور انتہائی شرم کا مقام ہے۔ اِن میں بلامبالغہ صرف عورتیں ہی پیش پیش رہتی ہیں۔ کاش کہ  "مرد" حضرات اپنی "مردانگی" کا  پاس کرلیں اور  نبی اکرم ﷺ کے فرمانِ عالیشان  فلیغیرہ بیدہ   کا  خیال کرلیں۔ (مدیر)
" چودھری تو ہیں وہ لوگ لیکن چھوٹے چودھری ہیں ۔ ہم بڑے چودھری کے گھر کی لڑکی لائیں
گے"
"ہم انصاری لوگ شیخوں کے یہاں شادی نہیں کرتے"
اور بعض مرتبہ بہانہ ہوتا ہے ۔
"لڑکی سمجھ نہیں آرہی ہے "
الغرض اس طرح پسندیدہ خریدار اور مناسب دام ملتے ملتے لڑکا 35 / 40 کراس کرچکا ہوتا ہے ۔
اب بھلا بتائیے کہ کہ ایک ایسے زمانہ میں جب تقویٰ مسجد کی صفوں میں بھی دکھائی نہیں دیتا ، ایک لڑکے سے جس کی ضرورت 15 /16 سال سے ہی شروع ہو گئی تھی آپ بیس سال تک روزے پر کیسے گذارا کراسکتے ہیں ۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ معاشرہ میں فحاشی بڑھ گئی ہے ۔ تو بھائی جہاں نکاح مشکل ہوگا وہاں زنا اپنے لیے راستے آسان کر ہی لے گا۔
بہت سارے معاملا ت میں نے دیکھے ہیں کہ لڑکے جہیز کی لالچ نہیں رکھتے لیکن ان کی جوانی گھر والوں کی لالچ کی بھینٹ چڑھا جاتی ہے ۔
میں اپنے عہد کے کنواروں کو بغاوت پر ابھارتا ہوں ۔ دوستو! اصل کھیلنے کے دن تو یہ بیس کی دہائی کے ہی ہوتے ہیں ۔ یہ ایک ایک دن بڑے قیمتی ہیں ۔ ان کو اپنی کنوارگی میں ضائع مت کرو، نا جوانی کی اس پاک دامنی پر بد کرداری  کا داغ نہ لگنے دو۔ تمہارے نبی کی تعلیم ہے کہ اگر بیوی کا نان نفقہ برداشت کرسکتے ہو تو شادی کرلو۔ اس سے نگاہیں جھک جاتی ہیں اور شرمگاہیں محفوظ ہوجاتی ہے ۔
یہ خوبصورت لمحے لالچی گھر والوں کی بھینٹ مت چڑھاؤ ۔ یہ لالچی لوگ تمہاری جوانی واپس نہیں لاکر دینے والے ۔ لڑکے کو شادی کےلیے ولی کی ضرورت نہیں ۔ قدم آگےبڑھاؤ اور گھر دلہن لےآؤ۔ ورنہ تیس کے بعد حور پری بھی مل جائے تونوجوانی کا یہ لطف نہیں ملنے والا۔
دیکھو تمھارے لیے بھی آسمان سے اتر کر حوریں نہیں آنے والی ۔ دنیا ہی کی کسی لڑکی سے کام چلانا پڑے گا۔ بقیہ خواہشیں پوری کرنے کے لیے دینداری اختیار کرو اور جنّت کا انتظار۔ دنیا کےلیے تو رسول کی یہی ہےہدایت ہے کہ :
تُنْکَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِهَا وَلِحَسَبِهَا وَجَمَالِهَا وَلِدِينِهَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاکَ
"عورت سے چار وجہوں سے شادی کی جاتی ہے ۔ مال ،جمال ، نسب اور دین ۔ دین دار لڑکی سے شادی کرکے کامیاب ہولے ۔ " ( متفق علیہ)
٭٭٭

صفت احسان اور دیدار الٰہی

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

قاری  معاذ شاہد حفظہ اللہ
 
١
 
 
۔۔۔۔اَن تَعبُدَاللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ فَاِلَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاکَ ۔۔۔۔

حضرت جبرائیل علیہ وسلم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احسان کیا ہے   ،، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ تو عبادت ایسے کر گویا کہ تو اللہ تعالی کو دیکھ رہا ھےاور   اگر تو اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو اللہ تو تمہیں دیکھ رہا ھے۔
    یہاں پر اشکال یہ ھے ہمارا اللہ کو دیکھنا تو محال ھے پھر ہم یہ کیسے تصور کرلیں تو اسکا طریقہ کار بیان فرمایا کہ یہ تصور کرکہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ھے جب یہ تصور کرے گا تو پھر عمل.کے اعتبار سے ایسا ہی ہو جائے گا کہ تو اس کو دیکھ رہا ھے    ۔۔ جب مالک بندے کو دیکھتا ہے تو کام بڑی توجہ سے ہوتا ھے ۔۔لیکن  اگر صرف تم اسے دیکھو تو اس میں وہ بات نہیں ھے جو مالک کے دیکھنے میں ھے
بعض علماء نے اس میں دو درجے بیان فرمائے ہیں
۔۔۔1 ۔۔۔ اعلی درجہ تو یہ ھے کہ اس چیز کا تصور کرے کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ھے
۔۔۔2 ۔۔۔ اور ادنی درجہ یہ ھے کہ وہ تجھے دیکھے ۔۔
صوفیاء کرام نے ایک بہت خوبصورت بات فرمائی  فان لم تکن   کہ اگر تو اپنے آپ کو اس ذات پر فنا کردے تو  تَرَاہ تو بدلے میں تُو اسے دیکھ لے گا
۔۔۔۔،،،۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔،،،،۔۔۔۔

ہم نے لیا ہے درد دل کھوکے بہار زندگی
اِک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹا دیا

۔۔۔۔،،۔۔۔  ایک مقام مشاہدہ ہے ایک مقام مراقبہ ھے
مقام مشاہدہ یہ کہ اللہ. تجھے دیکھ رہا ھے
مقام مراقبہ یہ ھے کہ تو اللہ کو دیکھ رہا ھے
    ایک بزرگ دوسرے بزرگ کے پاس بیعت ہونے کیلئے گئے تو انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کو صفت احسان حاصل ھے؟ انہوں نے جواب دیا الحمدلللہ  حاصل ھے. تو فرمایا پھر آپ کو میری بیعت کی ضرورت نہیں ھے کیونکہ بیعت کا اصل مقصد سالک کے اندر صفت احسان کو پیدا کرنا ھے ۔۔
ایک بزرگ فرمانے لگے دنیا میں تو کانک تراہ ھے یعنی  گویا کہ اسے دیکھ رہا ھے اور آخرت میں کاف ہٹا دیا جائے گا براہ راست اسے دیکھے گا  ۔۔۔۔۔۔ بقول شاعر ۔۔۔۔
نہیں وہ وعدہ کرتے دید کا حشر سے پہلے
دلِ مضطر کی ضد ھے کہ ابھی ہوتی یہیں ہوتی

 
٢

صفت احسان پیدا کرنے کا طریقہ  یہ ھے کہ اخلاص کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے ۔
قرآن مجید میں ارشاد ھے ۔۔ والذین جاھدو فینا لنھدینّھم سبلنا۔ ۔۔۔ جو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے لئے مجاہدہ کرے گا ہم ہدایت کی راہیں اس کیلئے کھول دیں گے ۔۔
اورجو  اخلاص کے ساتھ مجاہدہ کرے گا اللہ تعالی فرماتے ہیں ہم اسے تین انعامات عطا فرمائیں گے
۔۔۔۔۔۔1 ۔۔۔۔۔۔ اس پر ہدایت کی راہیں کھول دیں گے
۔۔۔۔۔۔ 2 ۔۔۔۔۔  صفت احسان عطا فرمائیں گے
۔۔۔۔۔۔3 ۔۔۔ صفت احسان عطا فرما کر اپنی معیت نصیب فرمائیں گے ۔۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے ۔۔۔۔۔اللہمَّ انی اَسئلکَ لذَّۃَ نظرَۃً الی وَجھک ۔۔۔۔۔۔۔
اے اللہ میں آپ سے آپ کے چہرے کو دیکھنے کی لذت کا سوال کرتا ہوں    
--------بقول شاعر -------
نگاہ عشق بے پردہ دیکھتی ھے انہیں
خِرد کیلئے ابھی حجاب عالم ھے

۔۔۔۔۔ایک شاعر یوں کہتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فانی اسی حسرت میں جیے اور مرے ہم
بے پردہ نظر آؤ کبھی دیدہ سر سے

     قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ۔۔۔اِنَّ اللہَ لَمع الُمحسِنین ۔۔۔  اس آیت میں اللہ صفت احسان والوں کے ساتھ معیت کا وعدہ فرما رہے ہیں
اور  ایک دوسری جگہ  پر ارشاد باری تعالی ہے ۔۔
اِنَّ اللہَ یحب المحسنین ۔۔ اللہ صفت احسان والوں کو پسند فرماتے ہیں ۔۔۔
یہ بھی بتا دیا کہ میں کن سے محبت کرتا ہوں کیوں کرت ہوں اور کن  کن کو پسند کرتا ہوں 
آج میرا دل کہتا ھے آؤ بڑھ کر شاعر کے اس قول پر عمل کرتے ہیں اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے ۔۔۔
  پردے ھٹے ہوئے بھی ہیں ان کی ادھر نظر بھی ھے
  بڑھ کے مقدر آزما سر بھی ھے سنگ در بھی ھے

 
٣
 
اس آیت میں سب عبادات کا تذکرہ ھے یہ سب عبادات کو شامل ھے  جس طرح نماز میں صفت احسان ضروری ھے اسی طرح ہر عبادت،  ،،ذکر، تلاوت ، حج ،  زکٰوۃ ، روزہ ، ، جہاد ،  میں  استحضار (صفت احسان) ضروری ھے ۔
،،، 1 ،،، نماز
حضرت حاتم اصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نماز کیلئے کھڑا ہوتا ہوں تو گویا اس طرح ہوتا ہوں کہ بیت اللہ میرے سامنے ھے دائیں طرف جنت  بائیں طرف جہنم ھے اور میرے پاؤں پل صراط پر ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ گویا یہ میری آخری نماز ھے اور نماز پڑھ کر امید اور خوف کے درمیان میں رہتا ہوں کہ نامعلوم قبول بھی ھو گی کہ نہیں
 ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب جنگ میں تیر لگا تو وہ جسم سے نماز کے دوران نکالا گیا اور ان کو خبر تک نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔  ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو نماز میں اللہ کے غیر کا خیال نہیں آتا  تو کیا خوبصورت جواب دیا کہ نہ نماز میں آتا ھے اور نہ غیر نماز میں ( یعنی دل ہروقت اللہ کی یاد میں مصروف رہتا ھے )
 ۔۔۔۔۔۔۔۔  حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ عارف کا ایک سجدہ غیر عارف کے ایک لاکھ سجدوں پر بھاری ھے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔مولانا روم رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ،،،،
کہ عارف کا ایک سجدہ دو سو ملکوں کی سلطنت سے بہتر ھے۔۔
،،،،،،،شعر.  ،،،،،،،،
لیکے ذوقِ سجدۂ پیش خدا
           خوشتر از عائد ملک دو صد ترا،

اللہ تعالی کے سامنے سجدہ کرنے کی لذت.  دوسو ملکوں کی سلطنت سے بہتر ھے ۔
جب ہم نماز کیلئے مسجد کی طرف جائیں تو ایسے جائیں گویا کہ احرام باندھ کر  حج کو جا رہے ہیں  اپنی نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے  اپنے رب کی آواز پر لبّیک کہتے ہوئے دنیا سے بے خبر ہوکر جائیں ،،
ایک بزرگ جب آزان کی آواز سنتے تو فورا کھڑے ہوجاتے اور یہ کہتے ہوئے اے اللہ میں حاضر اے اللہ میں حاضر مسجد کی طرف چل پڑتے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ایک بزرگ فرمانے لگے کہ دنیاوی بادشاہ تو بے وقوف ہیں ملکوں کو حاصل کرنے کے لئے لشکر کشی کرتے ہیں.  اگر انہیں معلوم ہوجائے کہ اسل دولت تو ہمارے پاس ھے تو ہم پر لشکر کشی کریں ،،،،،،،
،،،،،،، شعر ،،،،،،،
خدا کی یاد میں بیٹھے سب سے بے غرض ہوکر
تو پھر اپنا بوریا بھی ہمیں تخت سلیماں تھا

٭٭٭

عشقِ الہٰی کے اثرات

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مرشدی و مولائی حضرت مولانا  پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم

محترم قارئین! کتنے ہی ہم علم والے ہو جائیں،  مناظر و محقق بن جائیں، اصل تو عمل اور پھر رب کے دربار میں قبولیت ہے۔ رب کا عشق اور رضا مقصودِ حقیقی ہے، اور یہ عشق دنیا میں بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زیرِ نظر مظمون صدق دل سے پڑھیں اور اپنی عبادات میں اللہ کا عشق لائیں۔ رب کے سامنے کھڑے ہوتے وقت ہم نہ مناظر ہوں نہ محققِ اسلام،  نہ خطیب ہوں نہ مبلغ! بس، ہم ہوں  اللہ، اور کیفیتِ "کَاَنَّکَ تَرَاہُ" کی تصویر ہو۔   (مدیر)



    عشقِ الہٰی کی برکات اتنی زیادہ ہیں کہ جس انسان کے دل میں یہ پیدا ہوجاتی ہیں اس کو سر سے لیکر پاؤں تک منور کر دیتی ہیں۔
چہرے میں تاثر
عاشق صادق کا چہرہ عشقِ الہٰی کے انوار سے منور ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی نظریں جب اس کے چہرے پر پڑتی ہیں تو اُن کے دل کی گرہ کھل جاتی ہے۔
•    ایک مرتبہ کچھ ہندوؤں نے اسلام  قبول کیا۔ دوسرے لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ تو اس نے علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے چہرے کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا۔ چونکہ یہ مسلمان ہے، اس لیے ہم بھی مسلمان بن گئے ہیں۔
•    حضرت مرشد عالمؒ ایک مرتبہ حرم شریف میں تھے کہ آپ کی نظر حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کے چہرے پر پڑی۔ آپؒ نے اُن سے ملاقات کی  اور پوچھا کہ قاری صاحب، آپ نے یہ نورانی چہرہ کیسے بنایا؟انہوں نے مسکرا کے کہا"یہ میں نے نہیں ،میرے شیخ نے بنایا ہے"
حدیثِ پاک میں اللہ  والوں کی یہ پہچان بتائی گئی ہے کہ اَلَّذِیْنَ اِذَا رَاُوْ ا ذُکِرَ اللہُ (وہ لوگ جنہیں تم دیکھو تو اللہ یاد آئے) گویا اللہ والوں کے چہروں پر اتنے انوار ہوتے ہیں کہ اُنہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے۔ قرآن مجید میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُودِۚ[سورة الفتح,٢٩](ان کے نشانی ان کے چہروں میں ہے سجدوں کے اثر سے) گویا سجدوں  کی عبادتیں چہرے پر نور بناکر سجادی جاتی ہیں۔
•    بعض صحابہ کرام  فرمایا کرتے تھےکہ جب نبی اکرم کی طبیعت بہت زیادہ  ناساز تھی اور حضرت ابوبکر  نماز کی امامت کررہے تھے تو ایک نماز کے بعد نبی اکرم ﷺ نے گھر کا دروازہ کھول کر مسجد میں دیکھا تو ہمیں  آپ کا چہرہ یوں لگا کَاَنَّہٗ وَرْقَۃُ مُصْحَفٍ (جیسے وہ قرآن کا ورق ہو) حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ فرمایا کرتے تھے  کہ جب غارِ ثور میں حضرت ابوبکر اپنی گود میں نبی اکرم ﷺ کا سرمبارک لے کر بیٹھے تھے اور ان کے چہرہ انور کو دیکھ رہے تھے تو فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے تصور میں یوں لگتا ہے  کہ اے ابوبکرتیری گود رحل کی مانند ہے اور نبی اکرم ﷺ کا چہرہ انور قرآن کی مانند ہے اور اے ابوبکر  تو قاری ہے جو بیٹھا قرآن پڑھ رہا ہے۔
•    ایک مرتبہ حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا کہ بایزید بسطامیؒ  کہ چہرے پر اتنا نور تھا کہ جو دیکھتا تھا اس کی گرہ کھل جاتی تھی۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا"ابوجہل نے نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو اس کی گرہ نہ کھلی۔۔۔آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بایزیدؒ بسطامی  کے چہرے کو دیکھ کرلوگوں کے دل کی گرہ کھل جاتی تھی۔حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی ؒ نے فرمایا ارے نامعقول ! ابو جہل نے نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کو دیکھا ہی کب تھا؟ وہ شخص  حیران ہوکر کہنے لگا کہ دیکھا کیوں  نہیں تھا؟فرمایا ابوجہل نے محمدؐ بن عبداللہ کو دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ بھی محمد الرسول اللہ ﷺ سمجھ کر نگاہ ڈال لیتا تو ہدایت سے محروم نہ رہتا۔
•    حضرت عبداللہ بن سلام  یہود کے بڑے عالم تھے۔ نبی اکرمﷺ سے تین سوال پوچھنے کے لیے آئے مگر  چہرہ انور کو دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔ کسی نے کہا آپ آئے تو کسی اور مقصد سے تھے، یہ  کیا ہوا؟ نبی اکرمﷺ کے چہرہ انور کی طرف اشارہ کرکے کہا واللہ ہذا الوجہ لیس وجہ  الکذاب (اللہ کی قسم یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہوسکتا)
•    تابعین حضرات  میں سے بعض حکام نے اپنے لوگوں کو کفار کے پاس جزیہ وصوال کرنے کے لیے بھیجا تو انہوں نے انکار کردیا۔ پوچھا کہ کیا وجہ ہے ؟ ہمارے باپ دادا کو تو تم جزیہ دیتے تھے۔انہوں نے کہا ہاں! وہ لوگ آتے تھے تو ان کے کپڑے پھٹے پرانے ، ان کے بال بکھرے ہوئے، آنکھوں میں رات کی عبادتوں کی وجہ سے سرخ ڈورے پڑے ہوئے ہوتے تھے مگر چہروں پر اتنا رعب ہوتا تھا کہ ہم آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔تم میں وہ اوصاف نہیں، جاؤ! ہم تمہیں  کچھ نہیں دے سکتے۔(١)
٭٭٭
(١) ماخوذ از "عشقِ الٰہی" –پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مجددی دامت برکاتہم ص٢٣،٢٤،٢٥،تاریخِ اشاعت غیر مذکور

حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ پر انکارِ ختمِ نبوت کے الزام کا جواب

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مولانا ساجد خان نقشبندی حفظہ اللہ

بہتان: مولانا محمد قاسم نا نو تویؒ ختم نبوت کے قائل نہیں۔
پہلا بہتان جو علماء سُوء  کی طرف سے شیخ الاسلام مولانا محمد قاسم نا نو تویؒ پر لگا یا جاتاہے ، وہ یہ ہے کہ آپ  اجراءِ  نبوت کے قائل ہیں ۔ان کے خیال میں بانی دارا العلوم دیو بند نے اس عقیدہ کا ذکر اپنی کتاب ’’ تخد یر الناس ‘‘ میں کیا ہے یہ عقیدہ رکھنا کہ حضور ﷺکے بعد بھی اگر کوئی نبی آ جائے تو حضور ﷺکی ختم نبوت میں کوئی فر ق نہیں آ تا ہے ۔یہ عقیدہ کفر ہے اس لئے محمد قاسم نانو توی اور ان کے متبعین کا فر اور مرتد ہیں ۔
یہ اعتر اض سب سے پہلے علماء سوء کے امام مو لوی احمد رضاخاں صاحب نے حضرت نانو توی پر کیا ہے۔جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’ حسام الحر مین ‘‘ میں کیا ہے ۔اس اعتر اض کے متعلق بس مختصر الفا ظ میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ لعنۃ اللہ علی الکا ذ بین، اللہ تعالیٰ منکر ین ختم نبوت پر بھی لعنت کریں اور جھو ٹے الزام لگا نے والوں پر بھی خدا کی لعنت ہو ۔دیو بند یوں میں سے کوئی ختم نبوت کا انکار نہیں کرتا ۔
تحقیقی جواب
حسام الحر مین کی عبارت: ہم ذیل میں وہ عبارت مولوی احمد رضا خاں صاحب بر یلوی کی کتاب حسام الحر مین کی نقل کرتے ہیں جو انہوں نے حر مین الشر یفین کے علماء کو حضرت نانو توی ؒ کے متعلق لکھی اور ان سے خواہش کی کہ وہ ایسا عقیدہ رکھنے والے پر کفر کا فتوی صادر فر مائیں ۔
اور قا سمیہ قاسم نا نو توی کی طرف منسو ب کی جس کی تخدیر النا س ہے اور اس نے اپنے اس رسالے میں کہا ہے ۔
’’ بلکہ اگر بالفر ض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور نبی ہو ۔جب بھی آپ کا خاتم ہونا بد ستور باقی رہتا ہے ۔بلکہ اگر با لفر ض بعد زمانہ نبوت میں بھی کوئی نبی پیدا ہو توخاتمیت محمدی میں کچھ فر ق نہیں آ ئے گا ۔عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہو نا بایں معنی ہے ۔ کہ آپ سب میں آ خر نبی ہیں ۔مگر اہل فہم پر رو شن ہے کہ تقدم یا تا خر زمانہ میں بالذ ات کچھ فضلیت نہیں ۔
مولوی احمد رضا خان صاحب کی دیانت کا ادنی نمونہ
مذکورہ بالا حوالہ سے پہلے ہم طائفہ بر یلویہ کے امام کی جس علمی دیانت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔وہ مندرجہ ذیل ہے ۔
او لاً : مولوی صاحب نے حضرت نانو تویؒ کی اُردو عبارت کو جو معنی پہنا ئے ہیں اس سے ہر اہل علم مولوی احمد رضا خان صاحب کی علمی دیانت کا اندازہ لگا سکتا ہے ۔

ثا نیاً : یہ عبارت مولانا نا نو توی ؒ کی تخدیر الناس میں مسلسل نہیں ہے بلکہ تین مختلف مقامات پر ہے (١)جہاں سے آ دھا آ دھا فقرہ لے کر ایک مسلسل عبارت بنا دی گئی ہے ۔ آپ جانتے ہیں اگر آ دھا فقرہ دوسرے صفحہ ایک فقرہ دس صفحے اور اگلا فقرہ بیس صفحے سے لے کرمسلسل عبارت بنا دی جائے تو اس کا اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ کیا تعلق ہو گا ۔پس یہی حشر مولوی احمد رضاخان صاحب نے مولانا نا نو توی کے حوالے کے ساتھ کیا ہے اب ملا حظہ فر مائیں کہ اس عبارت کے فقر ات اصل کتاب کے کن کن صفحات پر ہیں ۔اور کس بد دیانتی سے ایک جگہ اکٹھا کر کے حضرت نا نو توی اور علماء دیو بند کو بد نام کیا گیا ہے ۔کہ نعو ذ باللہ حضرت نا نو توی اور علماء دیو بند ختم نبوت کے منکر ہیں ۔
ثا لثاً : در میان میں فقرہ ختم ہونے کی نشانی یعنی ڈیش  بھی نہیں لگائی ۔
(i) بلکہ اگر با لفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور نبی ہو ،جب بھی آپ کا خا تم ہونا بد ستور باقی رہتا ہے ۔( یہ صفحہ ۱۸ پر ہے ۔)
(ii) بلکہ اگر با لفر ض بعد زمانہ نبوی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خا تمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ ( صفحہ ۳۴)
(iii) عوام کے خیال میں تو رسول اللہ کا خاتم ہونا یا یں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد
(١)کہتے ہیں بریلوی مکتبِ فکر کے " اعلیٰ حضرت" خاتم المجددین تھے۔(پاسبانِ مجدد نمبر سنہ٥٩ءبحوالہ دیوبند سے بریلی تک ص١٥٦)   اعلیٰ حضرت کی اِس    "دیانت" سے اُن کی شانِ مجددی کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ اُنہوں نے بشمول دین کے، ہر چیز کی تجدید کر کے  یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی وہ "مجدد" ہیں۔(مدیر)
اور آپ سب میں آخری نبی ہیں ۔مگراہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تا خر کے زمانے میں بالذات کچھ
فضیلت نہیں ( صفحہ نمبر ۳۸)
خا تمیت ایک جنس ہے جس کی دو قسمیں ہیں ایک زمانی اور دوسری رتبی خاتمیت زما نیہ کے معنی یہ ہیں کہ حضو ر ﷺسب سے اخیر زمانے تمام انبیاء کے بعد مبعو ث ہوئے ۔اور اب آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعو ث نہیں ہو گا اور خاتمیت رتبیہ کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کے تمام کمالات اور مراتب حضور کی ذات بابر کات پر ختم ہیں ۔اور حضورﷺ پر نور دونوں اعتبار سے خاتم النبین ہیں ۔زمانہ کے لحاظ سے بھی آپ خاتم ہیں ۔اور مراتب نبوت اور کمالات رسالت کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں ۔حضور کی خاتمیت فقط زمانی نہیں بلکہ زمانی اوررتبی دونوں قسم کی خاتمیت حضور کو حاصل ہے ۔اس لئے کمال مدح جب ہی ہوگی کہ جب دونوں قسم کی خاتمیت ثابت ہو ۔
مولانا محمد قاسم فر ماتے ہیں کہ حضور کی خاتمیت زمانیہ قر آن اور حدیث متواتر اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔چنانچہ اسی کتاب تخدیر الناس کے صفحہ پر تحریر فر ماتے ہیں ۔
’’ سو اگر اطلاق او رعموم ہے تب تو خاتمیت ظاہر ہے ورنہ تسلیم لز وم خاتمیت زمانی بد لالت التزامی ضرور ثابت ہے ۔ادھر تصر یحات نبوی مثل انت منی بمنز لۃ ھارون من موسی الا انہ لا نبی بعدی او کماقال
جو بظاہر بطر ز مذکور اسی لفظ خاتم النبین سے ماخوذ ہے اس باب میں کافی ہے ۔کیونکہ یہ مضمون درجہ تو اتر کو پہنچ چکا ہے ۔پھراس پر اجماع بھی منعقد ہو گیا ہے ۔گو الفاظ مذکور بسند متواتر منقول نہ ہو ں سویہ عدم تو اتر الفاظ با و جود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہو گا ۔جیسا کہ تواتر عدد رکعات فر ائض وتر وغیرہ ۔با وجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات متوا تر نہیں ۔جیسا کہ اس کا منکر کافر ہے ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہے ۔
مولانا محمد قاسم نا نوتوی کی اس عبارت میں ا س امر کی صاف تصر یح موجود ہے ۔کہ خاتمیت زمانیہ کا منکر ایساہی کافر ہے جیسا کہ تعداد رکعات کا منکر کافر ہے ۔مولانا نانو توی اس خاتمیت زمانیہ کے علاوہ حضور کے لئے ایک اور معنی کو خاتمیت فر ماتے ہیں جس سے حضور کا تمام او لین و آخرین سے افضل و اعلم ہو نا ثابت ہو جائے ۔وہ یہ کہ حضور پر نور کمالات نبوت کے منتہی اور خاتم ہیں ۔اور علوم اولین و آ خرین کے منبع اور معدن ہیں ۔جس طرح تمام رو شنیوں کا سلسلہ آفتاب پر ختم ہوتا ہے ۔اسی طرح تمام علوم اور کمالات کا سلسلہ حضور پر ختم ہو تا ہے ۔
معاذاللہ مو لانا مر حوم خاتمیت زمانیہ کے منکر نہیں بلکہ زمانیہ کے منکر کو کافر سمجھتے ہیں لیکن اس خاتمیت زمانیہ کی فضیلت کے علاوہ خاتمیت رتبیہ کی فضیلت بھی حضور ﷺکے لئے ثابت کر نا چاہتے ہیں ۔تاکہ آپﷺ کی تمام اولین او آخرین پر فضیلت و سیادت ثابت ہو اور خاتمیت زمانی کے اعتبار سے بفر ض محال اگر حضور کے بعد بھی نبی مبعو ث ہوتو حضور کی خاتمیت رتبیہ میں کوئی فر ق نہیں آئے گا۔ آفتا ب اگر تمام ستاروں سے پہلے طلوع کر ے یا درمیان میں طلوع کرے آفتاب کے منبع نور ہونے میں کچھ فرق نہیں آتا اسی طرح با لفر ض اگر حضور پر نور تمام انبیاء سے پہلے مبعو ث ہوں یادر میان میں مبعو ث ہوتے تو آپ کے منبع کمالات ہونے میں کچھ فرق نہ آتا اور یہ فر ض بھی احتمال عقلی کے درجہ میں ہے ۔ورنہ جس طرح خاتمیت زمانیہ میں حضور کے بعد نبی کا آنا محال ہے ۔اسی طرح خاتمیت رتبیہ بھی آپ کے بعد نبی کا آنا محال ہے اس لئے اگر انبیاء متا خرین کا دین دین محمدی کے مخالفت ہو اتو اعلیٰ کا ادنیٰ سے منسو خ ہونا لازم آ ئے گا ۔جو حق تعالیٰ کے اس قول ماننسخ من ایۃ او ننسھا نات بخیر منھا کے خلاف ہے نیز جب علم ممکن للبشر آپ ﷺپر ختم ہو چکا تو آپﷺ کے بعد کسی نبی کا مبعو ث ہونا بالکل عبث اور بے کار ہوگا ۔حاصل یہ نکلا کہ خاتمیت رتبیہ کے لئے خاتمیت زمانیہ بھی لازم ہے ۔
لفظ با لفر ض کی تحقیق
مولانا مرحوم کے نزدیک اگرحضور کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونا شر عا جائز ہوتا تو لفظ بالفر ض استعمال نہ فر ماتے ۔مولانا مرحوم کا یہ فر مانا کہ بالفرض اگرآپ کے بعد کوئی نبی یہ لفظ بالفرض خود اس کے محال ہونے پر دلالت کرتا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ بات محال ہے کسی طرح ممکن نہیں لیکن اگر بفرض محال تھوڑی دیرکے لئے اس محال کو بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی حضور ﷺکی خاتمیت رتبیہ اور آپ ﷺکی افضلیت و سیادت میں کوئی فر ق نہیں آتا ۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے حضور ﷺکا یہ فر مانا لو کان من بعدی نبی لکان عمر اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا عمر ہوتا تو ظاہر ہے کہ حضور کا مقصو د یہ نہیں کہ آ پ ﷺکے بعد نبی کا آنا ممکن ہے بلکہ یہ بتلانا مقصود ہے کہ میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی ہو تا تو عمر ہوتا ۔اس ارشاد سے حضور ﷺکی خاتمیت اور عمرؓ کی فضیلت ثابت کر نا مقصود ہے ۔اس کو اس طرح سمجھو کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر ایک چاند نہیں بالفرض ہزاروں چاند ہوں تب بھی ان کا نورآفتاب ہی سے مستفاد ہو گا تو اس کا یہ مطلب کرتا ہے کہ آفتاب تمام انوار اور شعاعوں کا ایسا حاکم ہے اور منتہاہے کہ اگر بالفرض ہزاروں چاند بھی ہوں تو ان کا نور بھی اسی آفتاب سے مستفاد ہو گا ۔
اسطرح بالفرض ہزار چاند کہنے سے آفتاب کی فضیلت دو بالا ہو جائے گی ۔کہ آفتاب فقط اس موجودہ قمر سے افضل نہیں بلکہ اگر جس قمر کے اور بھی ہز اروں افراد فرض کر لئے جائیں تب بھی آفتاب ان سب سے افضل اور بہترہو گا ۔
با لفر ض و اگر کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نانوتویؒ کے نزدیک نبی کا پیدا ہو نا ناممکن اور محال کے قبیل سے ہے ۔کیونکہ قر آ ن پاک میں کئی محال چیزوں کو فر ض کیا گیا ہے ۔
(1) اگر رحمن کا بیٹا ہوتا تو میں پہلا عا بد ہوتا (القر آن )
(2) اگر زمین و آسمان میں کئی الہ ہوتے تو فسا د ہوجاتا (القرآن)
(3) اگر اللہ مجھے اور میرے سا تھیوں کو ہلاک کردے (القرآن)
تو ایسی بے شمار مثا لیں آپکو قر آن پاک میں مل جائیں گی ۔جو قضیہ شر طیہ کی قبیل میں سے ہیں اور یہ مسئلہ بھی قضیہ شر طیہ میں سے ہے اور قضیہ شر طیہ کے متعلق مولوی ابو الحسنات قادری لکھتے ہیں
(1) یہ قضیہ شر طیہ ہے اور قضیہ شر طیہ کے صد ق کیلئے یہ لازم نہیں کہ اس کے طر فین صا دق ہوں مثلاً اگر کوئی ضعیف بو ڑھا آدمی کہے کہ میں جوان ہو جا ؤں تو فلاں کام کروں گا ۔ظا ہر ہے کہ ا س کا جوان ہونا او ر اس کام کا وجو د میں آنا ناممکن ہے ۔ (تفسیر الحسنات۔ ج1 ۔ص 283)
(2) اور یہی بات مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں
نہ خدا کا بیٹا ہونا ممکن ہے اور نہ ہی حضور ﷺ کا ان بے دینو ں کی طرف مائل ہونا۔ قضیہ شر طیہ محض تعلق بتا تا ہے اسے مقد موں کے امکان سے کوئی تعلق نہیں ۔ (تفسیر نعیمی ۔ج 1۔ ص 603)
(3) دو سری جگہ لکھتے ہیں با لکل نا ممکن چیز کو ناممکن پر معلق کر دیا جاتا ہے۔ (تفسیر نعیمی۔ ج ا۔ ص 670)
معلوم ہو گیا کہ نہ تو رحمت کائنات ﷺ کے بعد نبی آنا ممکن ہے اور نہ ہی فرق پڑ نا ممکن ۔بلکہ یہ تو محض قضیہ شر طیہ ہے کہ دو نوں جز و ں کے وقو ع اور امکان کو ثابت نہیں کر رہا جیسا کہ مفتی احمد یار نعیمی نے لکھا ہے یہ قاعدہ ہی سرے سے غلط ہے کہ یہ جملہ شر طیہ جس کا مقصد ہوتا ہے سببیت کا بیان کرنا یعنی شرط سبب ہے جز ا کی اسکا ذکر نہیں ہوتا کہ یہ دونوں و اقع یا ممکن ہیں ۔ (تفسیر نعیمی ۔ج ا۔ ص 670)
اب ا س سے یہ گمان کرنا کہ مولانا نانوتوی ؒ نے نبی کے آنے کو جائز قر ار دیا با طل ٹھہر ا۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کی تمام افراد نبوت پر فضیلت او ر بر تری بتلانا مقصود ہے خواہ افراد ذہنی ہوں یا خارجی محقق ہوں یا مقدر ممکن ہوں یا محال اور یہ کہ حضور پر نور پر سلسلہ نبوت علی الا طلاق ختم ہے زمانی بھی اور رتبی بھی ۔
مولانا نے یہ کہیں نہیں فرمایا کہ سرور عالم ﷺ کے بعد نبی کا آنا شرعا جائز ہے ۔بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جو شخص اس امر کو جائز سمجھے کہ حضور کے بعد نبی کا آنا شر عاً ممکن الو قوع ہے وہ قطعا دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
چنا نچہ حضرت نا تو توی ’’ منا ظرہ عجیبہ کے صفحہ ۳۹ پر لکھتے ہیں " خاتمیت زمانیہ اپنا دین وایمان ہے ۔ناحق کی تہمت کا البتہ کوئی علاج نہیں ۔"
پھر اسی کتاب کے صفحۃ ۱۰۲ پر لکھتے ہیں
" امتناع بالغیر میں کسے کلا م ہے اپنا دین وایمان ہے کہ بعد رسول اللہ ﷺ کے کسی اور نبی کے ہونے کااحتمال نہیں جو اس کا قائل ہو ۔اسے کافر سمجھتا ہوں ۔"
مزیداعتر اض
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اعتر اض ا س بات پر ہے کہ فر ق نہیں آئیگا ۔
الجو اب :
(1) بات پیچھے گذری کہ قضیہ شر طیہ سے وقوع یا امکان سمجھنا غلط ہے لہذا جب اسکا وقو ع اور امکان ہی نہیں تو اعترا ض کیسا ۔
(2) سورج چمک رہا ہو اور اگر بالفر ض تار ا نکل آئے تو سورج کی چمک دمک میں فر ق آئیگا ؟بالکل نہیں ایسے ہی فرق یہاں بھی نہیں آئے گا ۔
الز امی جواب:
(1)بر یلوی اکا بر ین کے دو مختلف کونسلیں تحذیر النا س کے متعلق فیصلہ دے چکے ہیں ۔
پہلی کونسل:
(5)    خواجہ قمر الدین سیا لوی صاحب (ii) مولانا محبوب الرسول للہ شریف جہلم (iii) قار ی الحاج محمد حنیف صاحب سجادہ نشین کوٹ مومن (iv) مولانا حکیم صدیق صاحب سند یا فتہ لکھنو (v)مولانا محمد تا ج ا لملو ک صا حب فا ضل خطیب جامع شا ہ پورہ گجرات (vi) حضرت مولانا محمد فضل حق خطیب میلو والی ضلع سر گو دھا (vii)مولوی مولانا غریب اللہ صاحب صد ر مدرس مدرسہ عزیزیہ شاہی مسجد بھیرہ (viii) مولانا الحاج مفتی محمد سعید صا حب نمک میانی (ix) حضرت پیر سید حامد شاہ خطیب جامع مسجد متصل ہسپتا ل(x) حضرت پیر سید محمد صا حب خطیب جامع مسجد پویس لائن سر گو دھا۔
دو سری کونسل علماء بر یلویہ:
پیر کرم شاہ بھیروی کی زیر نگرانی میں ان کے مدرسہ کے اسا تذہ یعنی دارالعلوم محمد یہ غو ثیہ کے اسا تذہ نے مل کر تحقیق کی ۔
اور با لآ خر اس کونسل نے جو نتیجہ نکالا وہ یہ تھا جو پیر کرم شاہ نے اپنے لفظوں سے لکھا ’’ جو تحذیر النا س میری نظر میں‘‘کے آخر میں درج ہے ۔
یہ کہنا درست نہیں سمجھتا کہ مولانا نوتوی عقیدہ ختم نبوت کے منکر تھے کیونکہ یہ اقتباسات بطور عبارۃ النص اور اشا رۃ النص اس امر پر بلا شبہ دلالت کرتے ہیں کہ مو لانا نانو توی ختم نبوت زمانی کو ضر وریات دین سے یقین کرتے تھے ۔اور اس کے دلائل کو قطعی اور متو اتر سمجھتے تھے ۔انہوں نے ا س بات کو صر ا حۃً ذکر کیا ہے کہ جو حضو ر ﷺ کی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے و ہ کافر ہے او ردائرہ اسلام سے خارج ہے ۔ ( تحذیر النا س میری نظر میں ۔ص 58) (جمال کرم۔ ج ا۔ص694)
اور پہلے اکا برین کی فہرست میں سے ہم صرف خواجہ قمر الدین سیالوی کا ارشاد عر ض کرتے ہیں
میں نے تحذیر النا س کو دیکھا میں مولانا قاسم صا حب کو اعلیٰ در جے کا مسلمان سمجھتا ہوں مجھے فخر ہے میری حدیث کی سند میں انکا نام موجو دہے ۔خاتم النبین کا معنیٰ بیا ن کرتے ہوئے جہاں تک مولانا کا دماغ پہنچاہے ۔وہاں تک معتر ضین کی سمجھ نہیں گئی ۔قضیہ فر ضیہ کو واقعہ حقیقیہ سمجھ لیا گیا ہے ۔(ڈھول کی آواز ۔ص116۔117)
(2) مولوی سعید احمد کاظمی لکھتے ہیں
ہمیں نا نو تو ی صا حب سے یہ شکوہ نہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کیلئے تا خر زمانی تسلیم نہیں کیا یا یہ کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد مدعیان نبوت کی تکذیب و تکفیر نہیں کی ۔انہوں نے یہ سب کچھ کیا (مقالات کا ظمی ۔ج 2۔ ص360)
(3) مفتی جلال الدین امجدی صا حب لکھتے ہیں
بے شک سر کار اقد س ﷺ کے بعد کسی نبی کا پید اہونا شرعامحال اور عقلاً ممکن با لذات ہے ۔ (فتا وٰی فیض الرسول۔ ج 1۔ص 9)
(4)مفتی خلیل احمد خان قا دری بر کاتی لکھتے ہیں
مولوی محمد قاسم مر حوم کی تصانیف کے مطالعہ سے ثابت ہوتاہے کہ و ہ خا تمیت زمانی یعنی نبی پاک ﷺ کے آخری ہونے کے منکر نہیں بلکہ مثبت ہیں ۔اس لیے کفری قول کو ان کی طرف نسبت کرنا ہر گز صیحح نہیں (انکشاف حق۔ ص 114)
(5) مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں
اگر قادیانی نبی ہوتا تو وہ دنیا میں کسی کا شاگرد نہ ہوتا ۔ (نور العر فان۔ ص 166)
دو سری جگہ لکھتے ہیں
اگر مر زا قادیانی نبی ہو تا تو پٹھا نوں کے خوف سے حج جیسے فر یضہ سے محروم نہ رہتا ۔ (نور العر فا ن۔ ص 806)
ایک جگہ لکھتے ہیں
اگر قادیانی نبی ہوتا تو حضرت ابر اہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہوتا ۔ (نور ا لعر فان۔ ص166)

غیر مقلدین کا مختصرو مفصل تعارف

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
عمر نعمان حفظہ اللہ
مولانا امین صفدر اوکاڑوی ؒ کو ایک غیر مقلد نےخود کو "اہلِ حدیث" کہہ کر متعارف کرایا تو انہوں نے بڑے دلچسپ پیرائے میں پہلے تو اُسے اہلِ سنت اور اہلِ حدیث کا فرق سمجھایا۔ پھر  فرمایا  کہ تیرا مذہب "اہلِ حدیث" تجھے محدث تو ثابت تو نہیں کرتا، لیکن حدیث کا ایک مطلب "نیا" بھی ہوتا ہے(بمقابلہ قدیم) یہ معنی تیرے مذہب پر ضرور فٹ ہوتی ہے۔
 زیرِ نظر مضمون میں اس "نئے" فرقے کا تعارف کرایا گیا ہے(مدیر)



اہل حدیث / غیر مقلدین کا مختصر تعارف :
اہل حادث ، سرپرستی و وفاداری ہے انگریز کی ،  شجرہ نسب و بانی ہے شیعہ اور یارانہ ہے قادیانیوں کا ، ان سب کے مجموعی تعاون و اشتراک سے معارض وجود میں آیا یه فتنه "نا اہل حدیث / غیر کے مقلد"
٭٭٭
اہل حدیث / غیر مقلدین کا مفصل تعارف :
 اہل حادث :
١﴾ نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں:
“خلاصہ حال ہندستان کے مسلمانوں کا یہ ہے کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے، چونکہ اکثر لوگ بادشاہوں کے طریقہ اور مذہب کو پسند کرتے ہیں، اس وقت سے آج تک (انگریز کی آمد تک) یہ لوگ مذہب حنفی پر قائم رہے اور ہیں اور اسی مذہب کے عالم اور فاضل اور قاضی اور مفتی اور حاکم ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک جم غفیر نے مل کر فتاویٰ ہند یہ جمع کیا اور اس میں شاہ عبدالرحیم صاحب والد بزرگو ارشاہ ولی اللہ صاحب دہلویؒ بھی شریک تھے۔ (ترجمان وہابیہ ص٢٠)
۲﴾ اسی کتاب میں نواب صاحب دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
“ہندستان کے مسلمان ہمیشہ سے مذہب شیعی یا حنفی رکھتے ہیں” (ترجمان وہابیہ)
۳﴾ مولوئ محمد شاہجہانپوری اپنی مشہور کتاب “ الارشاد الٰی سبیل الرشاد” میں ہندستان میں اپنے فرقہ کے نومولود نو خیز ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے رقمطراز ہیں:
“کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیرمانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آرہے ہیں جس سے لوگ بالکل نا آشنا ہیں”۔ پچھے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو تو اہل حدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں، مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے۔ (الارشاد الی سبیل الرشاد، ص١٣)
انگریز کی سرپرستی :
١﴾ غیرمقلدین کے مشہور عالم مولوی عبدالمجید سو ہد روی لکھتے ہیں
مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی نے اشاعۃ السنۃ کے ذریعہ اہلحدیث کی بہت خدمت کی، لفظ وہابی آپ ہی کی کوششوں سے سرکاری دفاتر اور کاغذات سے منسوخ ہوا اور جماعت کو اہلحدیث کے نام سے موسوم کیا گیا"۔ (سیرت ثنائی:۳۷۲)
۲﴾ سرچارلس ایچی سن صاحب جو اسوقت پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر تھے آپ کے خیرخواہ تھے؛ انہوں نے گورنمنٹ ہند کواس طرف توجہ دلاکر اس درخواست کو منظور کرایا اور پھر مولانا محمدحسین صاحب نے سیکریٹری گورنمنٹ کو جو درخواست دی اس کے آخری الفاظ یہ تھے:
"استعمال لفظ وہابی کی مخالفت اور اجراء نام اہلحدیث کا حکم پنجاب میں نافذ کیا جائے"۔ (اشاعۃ السنۃ:۱۱ شمارہ نمبر:۲ صفحہ نمبر:۲۶)
۳﴾ جس دن اس جماعت نے سرکار انگلیشیہ سے اپنے نئے نام اہل حدیث کی تصدیق کرا دی تھی ( نگارشات ، ص 382 ، مولانا محمد اسماعیل سلفی )
۴﴾ مگر جناب مولوی اب سعید محمد حسین کو وھابی نام ہونا گوارا نہ تھا  ، انھوں نے گورنمنٹ سے درخواست کی تھی کہ اس فرقے کو جو در حقیقت اہل حدیث ہے اور لوگوں نے از راہ ضد و حقارت اس کا نام وہابی رکھ دیا ہے ، گورنمنٹ اس کو وہابی کے نام سے مخاطب نہ کرے ﴿ مکالات سرسید ، مولانا محمد اسماعیل پانی پتی ﴾
۵﴾ مولوی بٹالوی صاحب نے جماعت اہلحدیث کے وکیل اعظم کی حیثیت سے حکومت ہند اور مختلف صوبہ جات کے گورنروں کو لفظ وہابی کی منسوخی اور اہلحدیث نام کی الاٹمنٹ کی جو درخواست دی تھی کہ ان کی جماعت کو آئندہ وہابی کے بجائے اہل حدیث کے نام سے پکارا جائے اور سرکاری کاغذات اور خطوط و مراسلات میں وہابی کے بجائے  اہلحدیث لکھا جائے، انگریز سرکار کی طرف سے ان کی سابقہ عظیم الشان خدمات اور جلیل القدر کارناموں کے پیش نظر اس درخواست کو گورنمنٹ برطانیہ نے باقاعدہ منظور کرکے لفظ وہابی کی منسوخی اور اہل حدیث نام کی الاٹمنٹ کی باضابطہ تحریر اطلاع بٹالوی صاحب کو دی، سب سے پہلے حکومت پنجاب نے اس درخواست کو منظور کیا۔
لیفٹینٹ گورنر پنجاب نے بذریعہ سیکرٹری حکومت پنجاب مسٹر ڈبلیو، ایم، ینگ صاحب بہادر نے بذریعہ چھٹی نمبری ۱۷۸۷ مجریہ ۳ دسمبر ۱۸۸۶ء اس کی منظوری کی اطلاع بٹالوی صاحب کو دی، اسی طرح گورنمنٹ سی  پی کی طرف سے ۱۴ جولائی ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری ۴۰۷، گورنمنٹ یو پی کی طرف سے ۲۰ جولائی ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری  ۳۸۶ گورنمنٹ بمبئی کی طرف سے ۱۴ اگست ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری ۷۳۲، گورنمنٹ مدراس کی طرف سے ۱۵ اگست ۱۸۸۸ء بذریعہ خط نمبری  ۱۲۷، گورنمنٹ بنگال کی طرف سے  ۴ مارچ ۱۸۹۰ء بذریعہ خط نمبری ۱۵۶۔ اس درخواست کی منظوری کی اطلاعات مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو فراہم کی گئیں (اشاعت السنہ شمارہ ۲ جلد ۱۱  صفحہ ۳۲ تا صٖحہ ۳۹، جنگ آزادی از جناب پروفیسر محمد ایوب صاحب قادری صفحہ ۶۶)
انگریز کی وفاداری :
١﴾ میاں سید نذیر حسین دہلوی نے اس میں انگریز عورت کو باغیوں سے بچایا اور اس کو پناہ دی ( معیار الحق ، ص 19 )
۲﴾ مولوی سید نذیر حسین دہلی کے ایک بہت بڑے مقتدر عالم ہیں جنہوں نے نازک وقتوں میں اپنی وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ثابت کی ہے ( الحیاۃ بعد المماۃ )
۳﴾ میاں صاحب (مولوی سید نذیر حسین ) بھی گورنمنٹ انگلیشیہ کے کیسے وفادار تھے ، زمانہ غدر 1857ء میں جب دہلی کے بعض مقتدر اور بیشتر معمولی مولویوں نے انگریز پر جہاد کا فتوی دیا تو میاں صاحب نے نہ اس پردستخط کیے نہ مہر ( الحیاۃ بعد المماۃ )
۴﴾ “کتب تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو امن و آسائش و آزادگی اس حکومت انگریزی میں تمام خلق کو نصیب ہوئی کسی حکومت میں بھی نہ تھی (یعنی انگریز سے قبل عالم اسلام کے سلاطین مثلاً سلجوتی، عثمانی سلاطین، وغیرہ ہم کے ادوار حکومت اس  امن و آسائش اور آزادگی مذہب سے خالی تھے) اور وجہ اس کی سوائے اس کے کچھ نہیں سمجھی گئی کہ گورنمنٹ نے آزادی  کامل ہر مذہب والے کو دی” (ترجمان وہابیہ ص۱۶ ، نواب صدیق حسن خان )
دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ:
اور یہ لوگ (غیرمقلدین) اپنے دین میں وہی آزادگی برتتے ہیں، جس کا اشتہار بار بار انگریز سرکار سے جاری ہوا
۵﴾ سوانح نگار غیرمقلد عالم مولوی فضل حسین بہاری کی زبانی سنیئے۔ موصوف لکھتے ہیں:۔
عین حالت غدر میں (جہاد حریت کو غدر سے تعبیر کیا جا رہا ہے فوااسفا !) جبکہ ایک  ایک بچہ انگریزوں کا دشمن ہو رہا تھا (سوائے غیرمقلدوں کے)  سزلیسنس ایک زخمی میم کو میاں صاحب رات  کے وقت ا  ٹھوا کر اپنے گھر لے  گئے، پناہ دی، علاج کیا، کھانا دیتے رہے، اس وقت اگر ظالم باغیوں کو ذرا بھی خبر ہو جاتی تو آپ کے قتل اور خانماں بربادی میں مطلق دیر نہ لگتی۔ (الحیات بعد الممات ص۱۲۷)
٦﴾ مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی رقمطراز ہیں:۔
“غدر  ۱۸۵۷ء میں کسی اہل حدیث نے گونمنٹ کی مخالفت نہیں کی ( کیوں کرتے اس کے وفادار اور جان نثار جو تھے) بلکہ پیشوا یان اہل حدیث نے عین اس طوفان بے تمیزی میں ایک زخمی یورپین لیڈی کی جان بچائی اور عرصہ کئی مہینے تک اس کا علاج معالجہ  کر کے تندرست ہونے کے بعد سرکاریکیمپ میں پہنچا دی”۔(اشاعت السنۃ صفحہ۲۶ شمارہ ۹ جلد ۸)
۷﴾ مولوی فضل حسین بہاری لکھتے ہیں:۔
“ڈاکٹر حافظ مولوی نذیر احمد صاحب (جو کہ میاں صاحب کے قریبی رشتہ دور ہیں) فرماتے  تھے کہ زمانہ غدر میں مسزلیسنس زخمی میم کو جس وقت میاں (نذیر حسین صاحب) نے نیم جان دیکھا تو (زار وقطار) روئے اور اہنے مکان میں اٹھالائے، اپنی اہلیہ اور عورتوں کو ان کی خدمت کیلئے نہایت تا کید کی ۔ ۔ ۔ اس وقت اگر باغیوں (مسلمانوں) کو ذرا بھی خبر  لگ جاتی تو آپ کی بلکہ سارے خاندان کی جان بھی جاتی اور خانماں بربادی میں بھی کچھ دیر نہ لگتی۔۔۔ امن قائم ہونے کے بعد میم  کو انگریزی کیمپ میں پہنچا یا، جس کے نتیجہ میں آپ کو اور آپ کے متو سلین کو گونمنٹ انگریزی کی طرف سے امن و امان کی چھٹی ملی چنانچہ انگریزوں کے تسلط کے بعد جب سارا شہر غارت کیا جانے لگا تو صرف آپ کا محلہّ آپ کی (انگریزی خدمات) کی بدولت محفوظ رہا”۔ (الحیات بعد الممات ص۲۷۶-۲۷۵ سوانح میاں نذیر حسین دہلوی)
۸﴾ مولوی نذیر حسین دہلوی کے ایک بڑے مقتدر عالم ہیں جنہوں نے مشکل اور نازک وقتوں میں اپنی وفاداری اور نمک حلالی گونمنٹ برطانیہ پر ثابت کی ہے۔ اب وہ اپنے فرض زیارت کعبہ کے ادا کتنے کو جاتے ہیں۔
امید کرتا ہوں کہ جس کسی افسر برٹش گورنمنٹ کی وہ مدد چاہیں گے وہ ان کو مددے گا کیونکہ وہ کامل طور سے اس مدد کے مستحق ہیں۔ دسخط جی ڈی ٹریملٹ بنگال سروس کمشنر دہلی ۱۰ اگست  ۱۸۵۷ء اشاعت السنہ صفحہ ۲۹۴ شمارہ۱۰، ج۸، الحیات بعد الممات صفحہ ۱۴۰ مطبوعہ کراچی
۹﴾ سوانح نگار مولوی فضل حسین بہاری لکھتے  ہیں “چنانچہ جب شمس العلماء کا خطاب گورنمنٹ انگلشیہ سے (نمک حلالی اور وفاداری  اور مسلمانوں سے غداری کے صلہ میں آپ کو ملا اور اس کا تذکرہکوئی آپ کے سامنے کرتا تو آپ فرتے کہ:
میاں ! خطاب سے کیا ہوتا ہے۔ ۔ ۔ دنیاوی خطاب سلاطین سے ملا کرتا ہے یہ گو یا ان کی خوشنودی کا اظہار ہے۔ مجھے تو کوئی نذیر کہے تو کیا اور شمس العلماء کہے تو کیا میں نہایت خوش ہوں۔ (الحیات بعد المماۃ صفحہ٤)
١۰﴾ نواب  صدیق حسن خان لکھتے ہیں :
“اور حاکموں کی اطارت اور رئیسوں کا انقیاد ان کی ملت میں( غیرمقلدوں کی مذہب میں) سب واجبوں سے بڑا واجب ہے”۔ (ترجمان وہابیہ ص۲۹)
١١﴾ پس فکر کرنا ان لوگوں کا جواپنے حکم مذہبی سے جاہل ہیں اس امر میں کہ حکومت برٹش مٹ جائے اور یہ امن  و امان جو آج حاصل ہے فساد کے پردہ میں جہاد کا نام لے کر اٹھا دیا جائے سخت نادانی اور بےوقوفی  کی بات ہے”۔ ( ترجمان وہابیہ ص۷)
١۲﴾ سرکار انگریز کی مخلفت قطعا نا جائز ہے
نواب  صدیق حسن خان رقمطراز ہیں:
“اور کسی شخص کو حیثیت موجودہ پر ہندستان کے دارالاسلام ہونے میں شک نہیں کرنا چاہیے”۔ (ترجمان وہابیہ ص۴۸)
١۳﴾ کوئی فرقہ ہماری تحقیق میں زیادہ تر خیر خواہ اور طالب امن و امن و آسائش رعایا کا اور قدر شناس اس بندوبست گورنمنٹ کا اس گروہ (غیرمقلدین) سے  نہیں ہے۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۱۴)
حلانکہ جو  خیر خواہی ریاست بھوپال و غیرہ نے اس زمانہ میں کی ہے، وہ گورنمنٹ برطانیہ پر ظاہر ہے۔ ساگر و جھانسی تک سرکار انگریزی کو مددغلہ و فوج وغیرہ سے دی، جس کے عوض میں سرکار نے گنہ “بیرسیہ” جمع ایک لاکھ روپیہ عنایت فرمایا۔
١۴﴾ نواب  صدیق حسن خان لکھتے ہیں :
چار برس ہوئے جب اشتہار جنگ کابل اجنٹی سے بھوپال میں آیا۔ اسی دن سے نواب شاہ جہان بیگم صاحبہ والی ریاست نے طرح طرح کے عمدہ  بندوبست کئے۔ اشتہار عام جاری کیا کہ کوئی مسافر ترکی ، عربی (جس پر انگریز کی مخالفت کا ذرہ بھی شبہ ہو) شہر میں ٹھہرنے نہ پائے چنانچہ اب تک یہی حکم جاری ہے (حد ہو گئی انگریز پرستی کی) اور اس کی تعمیل ہوتی ہے سرکار گورنمنٹ میں خط لکھا کہ فوج کنجنٹ اور فوج بھوپال واسطے مدد (انگریز کے مسلمانوں کے خلاف) حاضر ہے اور ریاست سپاہ و مال سے واسطے مدد ہی (انگریز کے) موجود ہے مدت تک فوج بھوپال اس چار سال میں اندر نوکری گورنمنٹ کی چھاؤنی سیور میں عرض کنجنٹ کے بجالائی اور خاص میں  نے اور بیگم صاحبہ نے واسطے جنگ کابل کے چندہ دیا۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ ۱۱۴-۱۱۳)
١۵﴾ جو لڑائیاں غدر میں واقع  ہوئیں وہ ہر گز شرعی جہاد نہ تھیں اوور کیونکہ وہ شرعی جہاد ہو سکتا ہے کہ جو امن و امان خلائق کا اور ر احت ورفاہ مخلوق کا حکومت انگلشیہ سے زمین ہند پر قائم تھا اس میں بڑا خلل واقع ہو گیا۔ یہاں تک کہ بوجہ بے اعتباری رعا یا نوکری کا ملنا محال ہو گیا اور  جان و مال و آبرو کا بچانا محال ہو گیا۔ (ترجمان وہابیہ ص۳۴)
١٦﴾ نواب صاحب لکھتے ہیں کہ:
“کسی نے نہ سنا ہو گا کہ آج تک کوئی موحد، متبع سنت، حدیث و قرآن پر چلنے والا بیوفائی اور اقرار توڑنے کا مرتکب ہوا ہو۔ یا فتنہ انگیزی اور بغاوت پر آمادہ ہوا ہو اور جتنے لوگوں نے غد میں شروفساد کیا اور حکام انگلشیہ سے برسرعناد ہوئی وہ سب کے سب مقلدان مذہب حنفی تھے نہ متبعان سنت نبوی (غیرمقلد) (ترجمان وہابیہ ص۲۵)
١۷﴾ نواب صدیق حسن خان صاحب لکھتے ہیں
اور وہ لوگ جو بمقابلہ برٹش گورنمنٹ ہند یا کسی ایک بادشاہ کے جس نے آزادی مذہب دی ہے ہتھیار اٹھاتے ہیں اور مذہبی جہاد کرنا چاہتے ہیں کل ایسے لوگ باغی ہیں اور مستحق سزا کے مثل باغیوں کے شمار ہوتے ہیں۔ (ترجمان وہابیہ ص۱۲۰)
١۸﴾ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں:
“اس گروہ اہل حدیث کے خیر خواہ و فادار رعایا برٹش گورنمنٹ ہونے پر ایک بڑی روشن اور قوی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ برٹش گورنمنٹ کے زیر حمایت رہنے  کو اسلامی سلطنتوں کے زیر سایہ رہنے سے بہتر سمجھتے ہیں اور اس امر کو اپنے قومی وکیل اشاعت السنہ کے ذریعہ سے (جس کے نمبر ۱۰ جلد ۶ میں اس کا بیان ہوا ہے اور وہ نمبر ہر ایک لوکل گورنمنٹ اور گورنمنٹ آف اندیا میں پہنچ چکا ہے) گورنمنٹ پر بخوبی ظاہر اور مدلل کر چکے ہیں جو آج تک کسی اسلامی فرقہ رعایا گورنمنٹ نے ظاہر نہیں کیا  اور نہ آئندہ کسی سے اس کے ظاہر ہونے کی امید ہو سکتی ہے۔” (اشاعت اسنہ ۲۶۲ شمارہ ۹ جلد ۸)
١۹﴾ اس جگہ راز افزوں ترقی  واقبال پر فائز ہو کر اہل اسلام کے لئے بہبود اور نفع کا سر چشمہ بنیں اور برطانیہ کے تاج و تخت  کو (جس کی نیابت سے جناب والا بہرہ مند  ہیں) ترقی واستحکام عطا ر فرما کر ملک کے لئے امن و برکت اور اہل اسلام کے لئے حمایت و حفاظت کا ذریعہ ثابت ہوں۔
ہم ہیں حضور کے وفادار جانثار حضور کی رعایا۔
مولوی سید نذیر حسین دہلوی (شیخ الکل فی الکل شمس العلماء وآیۃ من آیات اللہ)
ابو سعید محمد حسین بٹالوی وکیل اہلحدیث ہند۔
مولوی احمد اللہ و اعظ میونسپل کمشنر امرتسر۔
مولوی قطب الدین پیشوائے اہلحدیث روپڑ۔
مولوی حافظ عبداللہ غازی پوری۔ مولوی محمد سعید بنارس۔
مولوی محمد ابرہیم آرہ۔ مولوی سید نظام الدین پیشوائے اہلحدیث مدارس۔
(اشاعت السنہ صفحہ ۴۰۔۴۲ شمارہ نمبر ۲ جلد ۱۱)
شیعہ بانی :
١﴾ عبد الحق بنارسی ( تفریظ الکلام المفید ، مولانا عبد الدیان )
۲﴾ شیخ الکل فی الکل شمس العلماء مولوی نذیر حسن دہلوی کے استاد اور  خسر مولانا ربدالخالق صاحب اپنی مشہور کتاب “تنبیہ الضالین” میں اس فرقہ کے نواحداث (نوپیدا) ہونے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
۳﴾ سو بانی مبانی اس فرقہ نو احداث (غیرمقلدین ) کا عبدالحق بنارسی ہے۔ جو چند روز بنارس میں رہتا ہے اور حضرت امیر المؤمنین (سید احمد شہیدؒ) نے ایسی ہی حرکات ناشائستہ کے باعث اپنی جماعت سے اس کو نکال دیا اور علماء حرمین شریفین نے اس کے قتل کا فتویٰ لکھا مگر کسی طرح وہاں سے بچ نکلا۔
۴﴾ نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں  یعنی کہ عبدالحق بنارسی کی عمر کے درمیانی حصے میں اس کے عقائد میں تزلزل اور اہل تشیع کی طرف رحجان بڑا مشہور ہے ﴿ سلسلتہ العسجد ﴾
۵﴾ قاری عبد الرحمان محدث پانی پتی لکھتے ہیں ًبعد تھوڑے عرصے کع مولوی عبدالحق صاحب ، مولوی گلشن کے پاس گئے ، دیوان راجہ بنارس کے شیعہ مذہب کے تھے اور یہ کہا کہ میں شیعہ ہوں اور اب میں ظاہر شیعہ ہوں ، اور میں نے عمل بالحدیث کے پردے میں ہزار ہا اہل سنت کو قید مذہب سے نکال دیا ہے اب ان کا شیعہ ہونا بہت آسان ہے ، چنانچہ مولوی گلشن علی نے تیس روپیہ ماہوار ان کی نوکری کروا دی ﴿ کشف الحجاب ، ص ۲١ ﴾
شیعہ شجرہ نسب
نواب صدیق حسن خاں کے والد نواب سید اولاد حسن خاں شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے ﴿ محدث ، خافظ عبد الرحمٰن مدنی ﴾
قادیانی یارانه :
١﴾ مرزا غلام احمد کی تصنیف "براہین احمدیه" میں غیر مقلد مولوی نذیر حسین لکهتا هے که " ... اس کا مولف بهی اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ، جسکی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت هی کم پائی گئی هے ... مولف صاحب ہمارے هم وطن هیں ، بلکه اوائل عمر کے همارے هم مکتب . اس زمانه سے لیکر آج تک هم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مرسلت جاری رهی هے ... مولف براہین احمدیه نے مسلمانوں کی عزت رکه دکهائی هے
۲﴾ بٹالوی صاحب لکھتے ہیں۔
“مولوف برائے احمدیہ” کے حالات و خیالات سے جس قدر ہم واقف ہیں ہمارے معاصرین میں سے ایسے کم واقف نکلیں گے۔ مؤلف ہمارے ہم وطن ہیں بلکہ اوائل  عمر کے (جب ہم قطبی و شرح ملا پڑھتے تھے) ہمارے ہم مکتب تھے۔ اس زما نہ سے آج تک ہم میں ان میں خط و کتابت و ملاقات و مراسلات برابر جاری و ساری ہے۔ (اشاعت السنہ جلد۷ بحوالہ مجدد اعظم ص۲۱ تا ۲۲ ج۱)
۳﴾ بٹالوی صاحب برہین احمدیہ پر دیویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
“اس  کا مؤلف (مرزا غلام احمد قادیانی) اسلام کی مالی و جانی و قلمی و لسانی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے”۔ (مجدد اعظم ص۲۲ج۱)
۴﴾ خود مولوی محمد حسین بٹالوی  باوجود اس قدر بڑا عالم  اور محدث ہونے کے اس قدر آپ (مرزا قادیانی) کی عزت و احترام کرتا تھا کہ آپ کا جوتا اٹھا کر آپ کے سامنے سیدھا کرکے رکھ دیتا اور اپنے ہاتھ سے آپ کو وضو کرانا اپنی سعادت سمجھتا تھا”۔(مجدد اعظم ص۲۲)

عقائد علماء اہلحدیث

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
عباس خان

علماء اہلحدیث کے چند باطل عقائد و نظریات:
نوٹ:ہم جہاں بھی لفظ اہل حدیث ، فرقہ  اہلحدیث ، لامذہب  یا غیرمقلدین  کا لفظ استعمال کریں تو اس سے انگریز کے دور میں وجود میں آنے والا فرقہ مراد ہو گا۔ جیسا کہ  ان کے ایک بڑے بزرگ ہیں ان کی شہادت ہے  ، چنانچہ فرماتے ہیں
”کچھ عرصہ سے ہندستان میں ایک ایسے غیر مانوس مذہب کے لوگ دیکھنے میں آ رہے ہیں جس سے لوگ بالکل ناآشنا ہیں پچھے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں تو ہوں مگر اس کثرت سے دیکھنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام بھی ابھی تھوڑے ہی دنوں میں سنا ہے۔ اپنے آپ کو اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیرمقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے“۔(الارشاد الی سبیل الرشاد ص 13)


فرقہ اہلحدیث کا سلسلہ کب اور کہاں سے شروع ہوا؟
مولانا عبد الرشید  غیرمقلد صاحب لکھتے ہیں:
”علماء اہلحدیث کا سلسلہ برصغیر میں ان ( میاں نذیر حسن دہلوی غیرمقلد) سے شروع ہوتا ہے“۔
(چالیس علماء اہلحدیث 28)
فرقہ اہلحدیث انگریزوں کا پیدہ کردہ فرقہ ہے:۔
جناب مولانا محمد حسن صاحب غیرمقلد بٹالوی  جنہوں نے اپنے فرقہ کا نام انگریز سے اہلحدیث الارٹ  کرویا تھا    خود فرماتے ہیں: "اے حضرات یہ مذہب سے آزادی اور خود سری و خود اجتہادی کی تیز ر ہوا یورپ سے چلی ہے اور ہندستان کے شہر و بستی و کوچہ و گلی میں پھیل گئ ہے۔ جس نے غالباَ َ  ہندوؤں کو ہندو اور مسلمانوں کو مسلمان نہیں رہنے دیا۔ حنفی اور شافعی مذہب کا تو پوچھنا ہی کیا" (اشاعت السنۃ  ص٢٥٥)
اس غیرمقلدیت کی سرپرستی کے لئے ایک زمنی ریاست بھوپال ان کو دی گئی:
 چنانچہ نواب بھوپال صدیق حسن صاحب تحریر فرماتے ہیں: "فرمان روایاں بھوپال کو ہمیشہ آزادگی مذہب (غیرمقلدیت) میں کوشش رہی ہے جو خاص منشاء گورنمنٹ انڈیا کا ہے" (ترجمان وہابیہ ص ٣)
پھر فرماتے ہیں : ”یہ آزادگی مذہب جدید  سے عین مراد انگلشیہ سے ہے" (ص ٥)۔
”یہ لوگ (غیرمقلدین) اپنے دین میں وہی آزادگی برتتے ہیں جس کا اشتہار بار بار انگریزی سرکار سے جاری ہوا۔ خصوصاََ دربار دہلی سے جو سب درباروں کا سردار ہے“۔)ترجمان وہابیہ ص32)

ہم علماء اہلحدیث اور عوام اہلحدیث کے چند باطل اور گمراہ کن عقائد و نظریات پیش  کریں گے  اگر کوئی غیرمقلد اپنے کسی عالم کے کسی عقیدے کو ترک کرتا ہے تو وہ ساتھ میں اس عالم  کا اور اس کے عقیدے کا حکم بھی لکھے  اور اس بات کا اقرار کرے کہ اس کا یہ عالم گمراہ کن عقائد و نظریات کا حامل تھا تاکہ معلوم ہو کہ اس لامذہب فرقے  نے کتنے گمراہ لوگ پیدا کئے ہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے ایک بڑے مولوی زبیر علی زئی صاحب جو کہ اپنے ان علماء کے گند سے جان چھڑانے کیلئے جھوٹ بولتے ہوئے لکھتے ہیں:
وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان ، نور الحسن ،  وغیرہ غیر اہل حدیث اشخاص ہیں۔(١)
(الحدیث فروری 2010 صفحہ نمبر 16)
لعنت اللہ علی الکاذبین
غیرمقلدین کے گھر کی شہادت کہ زبیر علی زئی کذاب تھا اور محدثین  کی  طرف بھی جھوٹ منسوب کر دیتا تھا۔
چنانچہ اہل  غیرمقلد عالم کفایت اللہ صاحب سنابلی لکھتے ہیں:
” زبیر علی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری کمیاں رکھتے ہیں مثلا خود ساختہ اصولوں کو بلا جھجک محدثین کا اصول بتلاتے
ہیں بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ ہی نہیں پاتے ، اور کہیں محدیث کے موقف کی  غلط ترجمانی  کرتے ہیں یا بعض محدثین  و اہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے وہ بری ہوتی ہیں۔ اور کسی  سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کر دیتے ہیں اور فریق مخالف کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کر دیتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں  بھی نہیں ہوتیں۔
 (زبیر علی زئی پر رد میں دوسری تحریر ص 2)
(١) محترم علی زئی صاحب کی یہ بوکھلاہٹ انہائی درجہ کی تھی۔ بھائی نعمان اقبال کا ایک جملہ یاد آتا ہے"باپ کی غلطی کو غلطی تسلیم کرنے والا درست ہوتا ہے، جبکہ باپ کی غلطی پر اُسے باپ تسلیم کرنے سے انکار کرنے والا حرامی ہوتا ہے۔" حافظ زبیر علی زئی صاحب کے اس شگوفے پر سہ ماہی "قافلہ حق" میں قسط وار تحقیقی مقالہ(ڈیٹ ایکسپائر) شائع ہوا  تھا۔ ملاحظہ ہو قافلہ حق 22ص  ٥٦اور قافلہ حق 23 ص٦١-از مولانا عاطف معاویہ ﷿ (مدیر)
وحید الزمان صاحب
جن کو بڑے بڑے علماء نے اپنا امام تسلیم کیا ہے۔
خود ایک جگہ غیرمقلدین کے ایک بڑے عالم رئیس ندوی صاحب  انہیں امام اہلحدیث قرار دیتے ہیں:
ملاحظہ ہو (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
اور یہ کذاب کہتا ہے کہ یہ غیر اہلحدیث اشخاص ہیں۔
نواب وحید الزمان صاحب  آخری دم تک اہلحدیث رہے۔
اہل غیرمقلد عالم لکھتے ہیں:
مرحوم (وحید الزمان) حنبلی یا اہلحدیث تھے اور آخری دم تک اسی موقف پر رہے۔
(ماہنامہ محدث ج 35 جنوری 2003 ص 77)
نوٹ : معلوم ہو گیا کہ وہ آخری دم تک اہلحدیث ہی تھے اور مولانا صاحب کی حنبلی ہونے والی بات  لطیفے سے کم نہیں۔
وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان ، ثناء اللہ امرتسری صاحب اہلحدیث کے اسلاف تھے۔
ایک اور بڑے مولوی غیرمقلدین کے وحید الزمان ، نواب صدیق حسن خان صاحب ثناء اللہ امرتسری صاحب کے نام لکھ کر آگے لکھتے ہیں:
 بلا شبہ ہمارے اسلاف   تھے۔(حدیث اور اہل تقلید ص 162)
اور آج کا ایک کذاب مولوی  زبیر علی زئی نامی کہتا ہے کہ یہ غیراہلحدیث اشخاص تھے۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان صاحب کی کتاب "نزل الابرار"  فرقہ اہلحدیث کے نزدیک نہایت مفید کتاب ہے۔
چنانچہ فرقہ اہلحدیث کے  شیخ الحدیث ثناء اللہ مدنی صاحب  نزل الابرار کے  متعلق لکھتے ہیں۔
”فی جملہ کتاب نہایت مفید ہے“۔(فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ج 1 ص 493)
نواب صدیق حسن خان صاحب بھی غیرمقلد ہی تھے۔
خود نواب صدیق حسن خان صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:
ان احمقوں نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ میں تو مشہور اہل حدیث ہوں۔(ابکار المنن ص  290)
آج نواب صدیق حسن خان صاحب زندہ ہوتے تو آپنے شہرت دیکھ لیتے ۔
یہی ہے علماء اہلحدیث کی کل اوقات جو بھی مرے اس کے گند سے جان چھڑانے کیلئے اسے اپنی جماعت سے خارج قرار دے دو ، یہ اللہ کی طرف سے ان پر خاص غضب ہے۔
 غیرمقلدین کے ایک بڑے مولوی مولانا نذیر احمد رحمانی صاحب لکھتے ہیں:
آج اہلحدیث ہی نہیں احناف بھی حضرت نواب صدیق صاحب  کا مسلک اہلحدیث ہونا اتنا مشہور اور معروف ہے کہ شاید بہتوں کو تعجب ہو گا کہ اس عنوان پر گفتگو کرنے کی ہم نے ضرورت ہی کیوں محسوس کی۔(١)
 (اہلحدیث اور سیاست ص 138)
نور الحسن خان صاحب جو کہ نواب صدیق حسن خان صاحب کے بیٹے تھے  نور الحسن صاحب نے اہلحدیث کی فقہ ”عرف الجادی “ نامی کتاب لکھی اور اپنے مسلک کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اور آج کا یہ کذاب مولوی کہتا ہے کہ یہ غیر اہلحدیث اشخاص تھے اور اللہ کا ان پر غضب دیکھئے کہ خود اس کے اپنے ہی جماعت کے کسی دوسری مولوی نے اسکے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جو اس نے دوسرے اپنے بڑے مولویوں کے ساتھ کیا تھا۔
قرآن و حدیث کے نام پر جمع کئے گئے علماء اہلحدیث کے عقائد و نظریات جماعت اہلحدیث پر حجت ہیں۔
ڈاکٹر محمد بہاولدین صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں لکھتے ہیں:
(١)ضرورت یوں  محسوس کی کہ کچھ لوگ  اپنے باپ کو باپ تسلیم نہیں کر رہے تھے(مدیر)
” بعض عوام کا لانعام گروہ اہل حدیث میں ایسے بھی ہیں جو اہل حدیث کہلانے کے مستحق نہیں۔ ان کو لامذہب ، بدمذہب ، ضال مضل جوکچھ کہو، زیبا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ خود کتاب و سنت کا علم رکھتےہیں نہ اپنے گروہ کے اہل علم کا اتباع کرتے ہیں ۔ کسی سے کوئی حدیث سن کر یا کسی اردو مترجم کتاب میں دیکھ کر نہ صرف اس کے ظاہر ی معنی کے موافق عمل کرنے پر صبر و اکتفا کرتے ہیں۔ بلکہ اس میں اپنی خواہش نفس کے موافق استنباط و اجتہاد بھی شروع کر دیتے ہیں ۔جس  میں وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسرے کو بھی گمراہ کرتے ہیں“۔(تاریخ اہلحدیث ص 164)
پہلے تو یہ تمام عقائد غیرمقلدین پر حجت ہیں کیونکہ یہ لوگ یہی دعوے کرتے ہیں کہ ہماری جماعت صرف قرآن اور حدیث کے علاوہ اور کوئی بات نہیں کرتی اور  یہ تو پھر ان کے  بڑے بڑے علماء ہیں ۔ ہاں اگر  وہ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے تو پھر پہلے اس بات کا اقرار کریں۔
فرقہ اہلحدیث کو ننگا کرنے والا اصول
 چنانچہ ایک غیرمقلد عالم لکھتا ہے۔
”کسی گروہ کے عقاےد اس کے علماء اور اکابرین طے کرتے ہیں“۔( کیا علمادیوبند اہلسنت ہیں ص 8)
اب  ہم ان شاء اللہ اس گروہ کے علماٰء اور اکابرین کے عقائد سامنے لاتے ہیں۔
عقیدہ نمبر 1
فرقہ اہلحدیث   اللہ  کی ذات کو محدود مانتا ہے اور اللہ کیلئے مکان اور جہت کا قائل ہے۔
ملاحظہ فرمائے فرقہ اہلحدیث  کے ایک بڑے عالم طالب الرحمٰن  صاحب   کی ایک ویڈیو کلپ
http://goo.gl/jDD6sO
نزل الابرار جو کہ غیرمقلدین کے لئے فی جملہ نہایت مفید کتاب ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ص 493)
میں  لکھا ہے کہ
”وهو في جهة  الفوق ، ومكانه العرش“
وہ (اللہ) اوپر کی جہت میں ہے اور اس کا مکان عرش ہے۔(نزل الابرار ص 3 کتاب الایمان)
نوٹ : نواب وحید الزمان صاحب کو خود ان کے ایک بڑے جید عالم نے امام اہلحدیث قرار دیا ہے۔ دیکھئے (سلفی تحقیقی جائزہ ص 635)
اللہ تعالٰی  کا کوئی مکان ہے؟
وقال الإمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سلامة الطحاوي الحنفي (321 ھ) في رسالته  ★
(متن العقيدة الطحاوية)ما نصه: "وتعالى أي الله عن الحدود والغايات والأركان والأعضاء والأدوات، لا تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات " اهـ.
امام الطحاوي الحنفي كبار علماء السلف میں سے ہیں اپنی کتاب (العقيدة الطحاوية) میں یہ اعلان کر رہے کہ
 ”الله تعالی ” مکان و جھت و حدود“ سے پاک ومُنزه ومُبرا ہے“  (متن العقيدة الطحاوية صفحہ ۱۵)
شیخ نظام الدین الهنديؒ اللہ کیلئے مکان  کا اثبات کرنے والے کو کافر لکھتے ہیں۔
قال الشيخ نظام الهندي: "ويكفر بإثبات المكان لله" (في كتابه الفتاوى الهندية المجلد الثاني صفحه 259)
★قال الإمام محمد بن بدر الدين بن بلبان الدمشقي الحنبليؒ  اللہ تعالٰی کی ذات کو ہر مکان میںموجود  یا کسی ایک مکان میں ماننے والے کو کافر کہتے ہیں۔
 "فمن اعتقد أو قال إن الله بذاته في كل مكان أو في مكان فكافر" (في كتابه مختصر الإفادات ص: 489).
★الشيخ محمود محمد خطاب السبكيؒ اللہ تعالٰی کیلئے جھت کے قائل کو کافر قرار دیتے ہیں "وقد قال جمع من السلف والخلف: إن من اعتقد أن الله في جهة فهو كافر".(إتحاف الكائنات)
★الله  کیلئے جسم جھت کے قائل پر چاروں آئمہ امام ابو حنیفہؒ ، امام مالکؒ امام شافعیؒ امام احمد بن حنبلؒ کا کفر کا فتویٰ۔
(وفي المنهاج القويم على المقدمة الحضرمية )في الفقه الشافعي لعبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر بافضل الحضرمي: "واعلم أن القرافي وغيره حكوا عن الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة رضي الله عنهم القول بكفر القائلين بالجهة والتجسيم وهم حقيقون بذلك"اهـ
ومثل ذلك نقل ملا علي القاري (في كتابه المرقاة في شرح المشكاة)
★محدث محمد زاهد بن الحسن الکوثریؒ فرماتے ہیں:
حيث تواتر ان ابا حنيفة كان يكفر من زعم فياللہ انه متمكن بمكان (تانیب الخطيب ص 101)
”یہ بات امام ابو حنیفہؒ سے تواتر سے ثابت ہے کہ وہ اس شخص کو کافر مانتے تھے جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اللہ کسی مکان میں متمکین ہیں“۔ ( یعنی کسی خاص مکان میں ہی ہیں اور بس)
عقیدہ نمبر2
فرقہ اہلحدیث اللہ تعالٰی کیلئے جسم کے اعضا  کے قائل ہیں۔
فرقہ اہلحدیث کے امام اہلحدیث نواب وحید الزمان خان صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالٰی کے لئے اس کی ذات مقدس کے لائق بلاتشبیہ یہ اعضا ثابت ہیں چہرہ آنکھ ہاتھ مٹھی کلائی درمیانی انگلی کے وسط سے کہنی تک کا حصہ سینہ پہلو کوکھ پاؤں ٹانگ پنڈلی، دونوں بازو(ترجمہ ہدیۃ المہدی ص 27)
عقیدہ نمبر 3
فرقہ اہلحدیث اللہ کی صفات متشابہات کے متعلق یہ عقیدہ رکھتے اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ ان متشابہات کے جو ظاہری معنی ہمیں معلوم ہیں وہی اللہ کی بھی مراد ہے لیکن کیفیت اس کی معلوم نہیں۔
محدث امام جلال الدین سیوطیؒ فرماتے ہیں:
وَجُمْهُورُ أَهْلِ السُّنَّةِ مِنْهُمُ السَّلَفُ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ عَلَى الْإِيمَانِ بِهَا وَتَفْوِيضِ مَعْنَاهَا الْمُرَادِ مِنْهَا إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَلَا نُفَسِّرُهَا مَعَ تَنْزِيهِنَا لَهُ عَنْ حَقِيقَتِهَا.
ترجمہ:جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایمان رکھنا ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو اللہ کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفسیر نہیں کرتے جبکہ ان کے ظاہری معنی سے اللہ کو پاک قرار دیتے ہیں۔
جبکہ  فرقہ سلفیہ کا دعوی ہے  کہ نصوص صفات پر ایمان لانے  کیلئے صفات  متشابہات کے معنی مراد کا معلوم ہونا ضروری ہے۔
امام سیوطی ؒ کی اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اہلحدیث عالم شمس افغانی سلفی جو کہ جامعہ اثریہ بشاور کا بانی ہے  لکھتا ہے:
هذا النص اولا صريح في التفويض المبدع المتقول علي السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف
وثانياً قوله : مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ، صارخ بالتعطيل صراخ  ثكالي الجهمية
ترجمہ:میں کہتا ہوں یہ عبارت پہلے تو اس تفویض میں صریح ہے جو کہ جھوٹے طور پر سلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے (نعوذ باللہ) کہ اہل جہل تجہیل اور اہل تعطیل کی طرف سے جو کہ متاخرین بدعتی ہیں دوسرا یہ کہ امام سیوطی (رحمہ اللہ) کی یہ عبارت کہ ہم ان کے ظاہری حقیقی معنی سے اللہ کو  پاک قرار دیتے ہیں واضح طور پر تعطیل فریاد کر رہی ہے ان جہمی عورتوں کی فریاد کی طرح جو بچوں سے محروم ہو گئی ہوں۔
 (والعیاذ باللہ)
(عداء الماتریدية للقعيدة السلفية قوله 28)
عقیدہ نمبر 3
فرقہ اہلحدیث کے عقیدہ کے مطابق اللہ کی صفات متاشابہات پر ایمان لانے کیلئے ضروری ہے اللہ کی مراد کا بھی علم ہو جیسے صفات غیر متشابہات کے متعلق  ہوتا ہے۔
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ (آل عمران آیت 7)
"وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں محکم (یعنی انکے معنیٰ واضح ہیں) وہ اصل ہیں کتاب کی اور دوسری ہیں متشابہ( یعنی جنکے معنیٰ  معین نہیں) سو جن کے دلوں میں کجی ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے اور مضبوط علم والے کہتےہیں ہم اس پر یقین لائے سب ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے۔"
ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کی غیر متشابہات صفات بھی ہیں جیسے علم ، حیات ، قدرت ، سمع ، بصر وغیرہ
اب ہم اور آپ دونوں ان کے متعلق یہی کہتے ہیں کہ اللہ کا علم ہے لیکن ہمارے علم کی طرح نہیں اللہ کی حیات ہے لیکن ہماری حیات کی طرح نہیں۔
یہ صفات تو غیر متشا بہات تھیں۔
اب جو متشابہات ہیں جیسے   ید ، قدم ، وجہ ، استوی علی العرش ، نزول الی سماء
ان صفات کے متعلق ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ  ہم نہیں جانتے کہ اللہ کی اس سے کیا مراد ہے۔ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسے حق جانتے ہیں اور یہ نہیں سمجھتے کہ جب تک مراد معلوم نہیں ہو گی تب تک ایمان نہیں لایا جاسکتا۔
جب کہ نام نہاد ان صفات  متشابہات کے متعلق بھی وہی بات کہتے ہیں جو آپ غیر متشابہات صفات کے متعلق کہتے ہیں اللہ کا  ید (ہاتھ) وجہ (چہرہ) استوی علی العرش سے جو اللہ کی مراد ہے وہ آپ کو معلوم  ہے جیسا غیر متشابہات صفات کی مراد معلوم ہے اور کیسے ہے اس کی کیفیت کیا ہے وہ آپ کو معلوم نہیں جیسا  کہ غیر متشابہات صفات کی معلوم نہیں۔
اب انہوں نے صفات متشابہات اور غیر متشابہات کا بلکل فرق ہی مٹا دیا اور دونوں کیلئے ایک ہی ضابطہ مقرر کر دیا اگر صفات متشابہات اور غیر متشابہات ایک ہی ہیں تو ان کی تقسیم کیوں کی گئی اور اگر  ان متشابہات کو بھی غیر متشابہات کی طرح رکھنا تھا تو  اللہ نے ایسا کیوں فرمایا کہ اس قرآن میں متشابہات بھی موجود ہیں؟
عقیدہ نمبر4
خدا جس صورت میں چاہے ظاہر ہو سکتا ہے۔
امام اہلحدیث نواب وحید الزمان خان صاحب خدا کی صورت کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:
وہ جس صورت میں چاہے ظاہر ہو (ترجمہ ہدیۃ المہدی ص 26)
معاذ اللہ لوگوں کے عقائد کو خراب کرنے کیلئے لوگوں کے ذہنوں میں  خدا کی صورت کا تصور بنایا جا رہا ہے جبکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے
ليس كمثله شيء
وہ کسی شے کی مثل نہیں۔ (الشوری 11)
عقیدہ نمبر5
فرقہ اہلحدیث کے نزدیک بیس رکعت تراویح بدعت ہے۔
لکھتے ہیں:
”بیس رکعت تراویح پڑھنا سنت رسول نہیں بلکہ بدعت ہے“۔ (مذہب حنفی کا دین اسلام سے اختلاف ص 69)
العیاذباللہ
بیس رکعت تراویح کب سے ہو رہی ہے؟
بیس رکعت تراویح صحابہ کرام اور تابعین کے پاک زمانے سے چلی آرہی ہیں۔
 أَخْبَرَنَا أَبُو طَاهِرٍ الْفَقِيهُ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبَصْرِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ»
السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا
ہم لوگ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحا بہ رضی اللہ عنہم ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں
 20 رکعت اور تین  وتر پڑھا کرتے تھے۔( معرفة السنن والآثار ج 4 ص 42 : صحیح)
أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة
ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں لوگوں کو رات کے وقت نماز پڑھایا کریں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: لوگ دن کو روزہ رکھتے ہیں، مگر خوب اچھا پڑھنا نہیں جانتے، پس کاش! تم رات میں ان کو قرآن سناتے۔ اُبیّ نے عرض کیا: یا امیرالموٴمنین! یہ ایک ایسی چیز ہے جو پہلے نہیں ہوئی۔ فرمایا: یہ تو مجھے معلوم ہے، لیکن یہ اچھی چیز ہے۔ چنانچہ اُبیّ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو 20 رکعتیں پڑھائیں۔( الأحاديث المختارة ج 3 ص 367 : صحیح)
أَبُو الخضيب قَالَ يحيى بْن مُوسَى قَالَ نا جَعْفَر بْن عون سَمِعَ أبا الخضيب الجعفِي كَانَ سويد بْن غفلة يؤمنا فِي رمضان عشرين ركعة.
ترجمہ:…”ابوالخصیب کہتے ہیں کہ: سوید بن غفلہ ہمیں رمضان میں بیس ( 20 ) رکعتیں پڑھا تے تھے۔”
(التاريخ الكبير ج 9 ص 28)
حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کا شمار کبار تابعین میں ہے، انہوں نے زمانہٴ جاہلیت پایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں اسلام لائے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نہیں کی، کیونکہ مدینہ طیبہ اس دن پہنچے جس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوئی، اس لئے صحابیت کے شرف سے مشرف نہ ہوسکے، بعد میں کوفہ میں رہائش اختیار کی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے خاص اصحاب میں تھے، ۸۰ھ میں ایک سو تیس برس کی عمر میں انتقال ہوا۔(تقریب التهذيب ج 1 ص 341)
اگر یہ بدعت ہے تو یہ بدعت شروع سے  آج تک حرم اور مسجد نبوی میں جاری ہے۔
عقیدہ نمبر 6
فرقہ  اہلحدیث کے امام الہند محمد جونا گڑھی لکھتا ہے کہ :
حضرت عمرؓ کی سمجھ معتبر نہ تھی (شمع محمدی ص 22)
اور حضرت عمرؓ کی سمجھ کے معتبر نہ ہونے پر دلائل بھی پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسے دلائل جس سے کل کو یہی لوگ کہہ سکتے ہیں کہ معاذ اللہ نبیﷺ کی سمجھ بھی معتبر نہیں۔
العیاذ باللہ جس عمرؓ کے متعلق نبیﷺ فرماتے ہیں
«لَوْ كَانَ نَبِيٌّ بَعْدِي لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ»
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتے تو وہ عمر بن خطابؓ ہوتے۔(سنن الترمذي ج 5 ص 619)
ان عمرؓ کے متعلق یہ رافضی کہتا ہے کہ ان کی سمجھ معتبر نہ تھی
آخر ایسا کہہ کر یہ لوگوں  کو کیا   سبق دینا چاہتے ہیں؟
عقیدہ نمبر 7
قربانی میں مرزئی بھی شریک ہو سکتا ہے۔
غیرمقلد عالم محمد علی جانباز صاحب لکھتے ہیں:
”باقی رہی مرزائی کی شرکت تو اس کے متعلق بھی حرام کا فتوی نہیں لگا سکتے“۔(فتاویٰ علمائے حدیث ج 13 ص 89)
عقیدہ نمبر 8
امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی فرض ہے اور
امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں ہوتی وہ بے نمازی ہے۔
العیاذ باللہ
مفتی عبد الستار صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
”فاتحہ ہر ایک مقتدی و منفرد و امام پر واجب ہے اور اس کے ترک سے بالکل نماز نہیں“۔(فتاویٰ ستاریہ ج 1 ص 54)
فرقہ اہلحدیث کے شیخ الکل میاں نذیر حسن دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
”فاتحہ خلف الامام پڑھنا فرض ہے بغیر فاتحہ پڑھے ہوئے نماز نہیں ہوتی“۔(فتاویٰ نذیریہ ج 1 ص 398)
 محب اللہ شاہ راشدی صاحب لکھتے ہیں
”سورۃ فاتحہ کے سوائے کوئی بھی نماز ہرگز نہیں ہو گی۔ صرف ایک رکعت میں بھی نہیں پڑھی تو اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی  وہ نماز خواہ اکیلے پڑھے یا پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی“۔(مقالات راشدیہ ص 67)
یہ الگ بات ہے کہ ان کے اس مسئلہ کی ایک بھی صحیح صریح مرفوع حدیث دنیا میں موجود نہیں۔
ان کی بنیادی 2 ہی دلیلیں ہیں
 ایک صحیح بخاری سے
فاتحہ کے بغیر نماز نہیں۔۔۔ الخ
جواب:
یہی حدیث صحیح مسلم میں بھی موجود ہے اور امام مسلمؒ نے اس کے بعد سند نقل کرکے اس میں اضافہ بھی نقل کیا ہے اور پوری حدیث یوں ہے۔
37 - (394) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ، الَّذِي مَجَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرِهِمْ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ، أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ» [ص:296] وَحَدَّثَنَاهُ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَزَادَ فَصَاعِدًا
(صحیح مسلم ج 1 ص 295)
 نبی کریمﷺ فرماتے ہیں جو سورۃ فاتحہ اور کچھ زائد قرآن نہ پڑھے اس کی نماز نہیں۔
 حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَی الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ کَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّی رَکْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَکُونَ وَرَائَ الْإِمَامِ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 301:صحیح )
 جابر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں جس نے ایک رکعت بھی سورت فاتحہ کے بغیر پڑھی گویا کہ اس نے نماز ہی نہیں پڑھی سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔
غیرمقلدین کی دوسری اور آخری مرفوع   دلیل حضرت عبادہ بن صامتؓ   سے ہے جس میں ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی ہے اس کے بغیر نماز نہیں ہو گی ۔۔۔ الخ
یہی غیرمقلدین  کی اس مسئلہ میں اکلوتی دلیل ہے جسے خؤد ان کے  محدث البانی صاحب نے ضعیف قرار دیا ہے۔
(سنن ابی داؤد ص 144)
یہی انتہائی ضعیف حدیث ان کا ہر  عامی جاہل اور عالم جاہل لئے گومتا ہے  تمام امت کی نماز کو باطل قرار دینے کیلئے۔
عقیدہ نمبر 9
مرزئی اسلامی فرقہ ہے۔(١)
ثناء اللہ امرتسری صاحب نے مرزئیوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے۔ دیکھئے (ثنائی پاکٹ بک ص 55)
عقیدہ نمبر 10
اجماع حجت شرعیہ نہیں۔
ویسے تو تمام غیرمقلدین اجماع امت کے منکر ہیں چاہے عملاً ہوں یا قولاً لیکن ہم ان کے بڑے  مولوی سے دکھاتے ہیں
حافظ عبد المننان نور پوری صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں۔
اجماع صحابہ ؓ اور اجماع ائمہ مجتہد کا دین میں حجت ہونا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔ (مکالمات نور پوری ص 85)
لعنت اللہ علی الکاذبین
(١)  جناب زبیر علی زئی اگر موجود ہوتے تو شاید کہتے " یہ بھی غیر اہلِ حدیث اشخاص میں سے ہیں"(مدیر)
اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتے ہیں
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
(سورۃ نساء آیت ١١٥)
"اور جو کوئی مخالفت کرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جب کہ کھل چکی اس پرسیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے راستہ کے خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا"
یہ اجماع  کی حجیت نہیں تو اور کیا ہے اور یہ  سب سے افضل ہستیاں صحابہ اور ائمہ مجتہدین کے اجماع کا  انکار کر رہا ہے۔
(جاری)
٭٭٭

جھوٹے اہلحدیث

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
مفتی آرزومند سعد حفظہ اللہ
غیر مقلدین یا اہل حدیث کے نام پر جو فرقہ آج ہمارے درمیان موجود ہے اس بنیاد میں شاید جھوٹ اور فریب  پر رکھی گئی ہے اس لئے اس جماعت کا ہر چھوٹا بڑا جھوٹ بولنا اپنا حق سمجھتا ہے اور جھوٹ بولنے میں ذرا برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتا۔ذیل میں غیر مقلدین کے ایک مصنف کے چند جھوٹ آپ کے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔
    ابوالاقبال سلفی نام یہ مصنف جس نے "مذہب حنفی کا دین اسلام سےاختلاف "نامی کتاب لکھی ہے۔احناف کے ضد میں آکر اس نے اتنے جھوٹ بولے ہیں کہ جی چاہتا ہے عالمی جھوٹ کا ایوارڈ اسی کو دیا جائے۔ذیل میں چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ان پر غور کریں اور اس جھوٹے مکار فرقے سے دور رہیں ۔
جھوٹ ۱:اس کتاب کے صفحہ ۲۴ پر لکھتے ہیں ۔حنفی تعدیل ارکان کے احادیث کو نہیں مانتے۔
الجواب:اس سے بڑا جھوٹ دنیا میں کوئی ہو نہیں سکتا ۔احناف کے نزدیک تعدیل ارکان واجب ہے۔حاشية رد المختار على الدر المختار - (1 / 464)
"والحاصل أن الأصح رواية ودراية وجوب تعديل الأركان"خلاصہ یہ ہے کہ صحیح قول کے مطابق تعدیل ارکان واجب ہے۔بلکہ فقہ  حنفی کے مطابق جس بھی نماز کی کتاب کو آپ اٹھا کر دیکھو گے اس میں تعدیل ارکان کے واجب ہونے کا ذکر ہوگا ۔ اس لئے ہم یہی کہہ سکتے ہیں لعنت اللہ علی الکاذبین۔
جھوٹ نمبر ۲:حنفیہ سجدوں کی حدیثوں کو نہیں مانتے  صفحہ ۲۷
الجواب:یہ جھوٹ بھی دیکھ لیں۔حدیث شریف میں سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب الدرالمختار میں سجدہ کا جو طریقہ لکھا ہوا ہے اس میں واضح طور پر ان سات اعضاء کا حکم دیا گیا ہے۔(الدر المختار جلد ۲ صفحہ ۲۱۱،دارالمعرفہ )
جھوٹ نمبر ۳:صفحہ ۴۹ پر رقم طراز ہیں۔احناف دو نمازوں کے جمع والی حدیثوں کو نہیں مانتے۔
الجواب:یہ بھی مصنف کی حماقت کی کھلی مثال ہے۔مصنف نے اس عنوان کے تحت ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں رسول اللہ ﷺ نے عذر کے وقت صورتا جمع فرمایا تھا ۔اس کے حنفیہ قائل ہیں چنانچہ نماز مدلل( مصنف فیض احمد ملتانی صاحب )نے صاف لکھا ہے کہ عذر کے وقت جمع صوری جائز ہے ۔لیکن غیر مقلدین جو جمع بین الصلوتین (ظھرین اور مغربین کی طرز پر)کرتے ہیں ۔یہ نہ تو حدیث سے ثابت ہے اور نہ احناف اس کے قائل ہیں۔
جھوٹ نمبر ۴:غیر مقلد مولوی کہتا ہے کہ نماز میں سبحان اللہ کہنے کی حدیث کو حنفیہ نہیں مانتے۔(۵۱)
الجواب:احناف کی کسی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ اگر امام سے غلطی ہو تو تسبیح نہیں کہنی چاہیے یہ بھی اس غیر مقلد کا جھوٹ ہے۔
(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

جھوٹ حاضر ہے

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
    "1893ء کے ماہ مئی میں آپ پھر قادیان سے نکلے اور امرتسر میں ڈپٹی عبداللہ آتھم عیسائی کے ساتھ تحریری مباحثہ فرمایا جس کی روئداد جنگ مقدس میں شائع ہوچکی ہے. یہ مباحثہ 22/مئی 1893ء کو شروع ہوکر 5/جون 1893ء کو ختم ہوا اور حضرت صاحب نے اپنے آخری پرچہ میں آتھم کے لئے خدا سے خبر پاکر وہ پیشگوئی فرمائی جس کے نتیجہ میں آتھم بالآخر اپنے کیفر کردار کو پہنچا. "
    (سیرت مہدی،جلد اول،حصہ دوم، تحریر نمبر420،صفحہ نمبر380)
    دوستو اصولی طور پر قادیانیوں کا یہ انگریزی نبی مرزاقادیانی ملعون اپنی کسی ایک پیش گوئی میں سچا ثابت نہیں ہوا اور اپنی تمام پیش گوئیوں میں جھوٹا نکلا.
    مرزاقادیانی ملعون کی زبانی پیش گوئیوں کی نسبت معیار صداقت ملاحضہ ہو:
    "اگر ثابت ہوجائے کہ میری سو پیش گوئیوں میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کروں گا کہ میں کاذب ہوں. "
    (حاشیہ اربعین نمبر4 ص30)
    اصل حقائق:
    تو دوستو ہم اس سفید جھوٹ اور دجل سے پردہ اٹھانے لگے ہیں اصل حقائق اس طرح سے ہیں:
    عبداللہ آتھم نامی پادری کے ساتھ مرزاقادیانی ملعون کا پندرہ دن تک مباحثہ ہوتارہا. مرزاقادیانی ملعون اپنے حریف کو میدان میں شکست دینے میں بری طرح ناکام رہا، تو 5 جون 1893ء کو الہامی پیش گوئی کرڈالی کہ پندرہ مہینے تک اس کا حریف ھادیہ میں گرایا جائے گا. بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے، اس سلسلہ میں مرزا قادیانی ملعون لکھتا ہے:
    "میں اس وقت اقرار کرتا ہوں اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلے، یعنی جو فریق خدا تعالٰی کے نزدیک جھوٹ پر ہے وہ پندرہ (15)ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ھادیہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا کو اُٹھانے کے لئے تیار ہوں. مجھ کو ذلیل کیا جائے، روسیاہ کیا جائے، میرے گلے میں رسا ڈال دیا جاوے، مجھ کو پھانسی دیا جاوے ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اللہ جل شانہ کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ وہ ضرور ایسا ہی کرے گا، ضرور کرے گا، ضرور کرے گا، زمین و آسمان مل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی.
    اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو." (جنگ مقدس ص 189)
    نتیجہ:
    پیش گوئی کو آخری معیاد 5 ستمبر 1894ء تھی مگر عبداللہ آتھم نے اس تاریخ تک نہ تو عیسائیت سے توبہ کی اور نہ اسلام کی طرف رجوع کیا، نہ بسزائے موت ھادیہ میں گرا، مرزاقادیانی لعین نے اس کو مارنے کے لئے ٹونے ٹوٹکے بھی کئے (دیکھو سیرت مہدی، جلد اول، حصہ اول، تحریری نمبر175، صفحہ نمبر168)
    اور معیاد کے آخری دن خدا سے آہ و زاری کے ساتھ یا اللہ! آتھم مرجائے یا اللہ! آتھم مرجائے کی دعائیں بھی کیں کرائیں (الفضل 20 جولائی 1940ء)مگر سب کچھ بے سود نہ عبداللہ آتھم پر ٹونے ٹوٹکوں کا اثر ہوا، نہ خدا نے قادیان کی آہ و زاری، نوحہ و ماتم اور بددعاؤں کو عبداللہ آتھم کے حق میں قبول فرمایا، اس کا نتیجہ وہی ہوا جو مرزا قادیانی ملعون نے اپنے لئے تجویز کیا تھا یعنی:
    "میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی تو مجھ کو ذلیل کیا جائے، روسیاہ کیا جائے........اور تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو."
    چنانچہ مرزا قادیانی لعین کے اس ارشاد کی تعمیل فریق مخالف نے کس طرح کی؟؟؟؟؟؟
    اس کا اندازہ ان گندے اشتہاروں سے کیا جاسکتا ہے جو اس میعاد کے گزرنے پر ان کی طرف سے شائع کئے گئے. بطور نمونہ صرف ایک شعر ملاحظہ ہو کہ قادیانی ٹولے کے اس انگریز کا خود کاشتہ پودا مرزا قادیانی ملعون کو مخاطب کرکے یہ شعر لکھا گیا:
ڈھیٹ اور بے شرم بھی ہوتے ہیں دنیا مگر(١)
سب سے سبقت لے گئی ہے بے حیائی آپکی

    یہ قادیانیوں کے منہ بولے مسیح موعود مرزا قادیانی ملعون کے اُس فقرے کی صدائے بازگشت تھی کہ "تمام شیطانوں اور بدکاروں اور لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی سمجھو."(٢)
(١)مصرع وزن کے موافق نہیں ہے۔موافقِ وزن یوں ہوگا" ڈھیٹ اور بے شرم بھی ہوتے ہیں دنیا میں مگر")مدیر)
(٢)بشکریہ ختمِ نبوت ڈاٹ آرگ www.khatmenbuwat.org

قادیانیت: مرزا غلام احمد قادیانی کی تحریروں کے آئینے میں

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015
فاروق درویش
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ سبحان تعالیٰ اور اللہ کے دین کے دشمن ، خدا کے آخری رسول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ، عامۃ المسلمین کے دشمن ، مرزائیوں کے عقائد اور مکروہ سازشوں سے پردہ اٹھانے کیلئے سب مسلمانوں کی خدمت میں ایک مفصل اور جامع تحریر پیش کر رھا ھوں تاکہ ھر اس مسلمان کو ان کے دجالی عقائد و مذھب کے بارے آگاھی ھو جو اس مذھب کے عقائد اور ان کی اسلام دشمن سوچ سے ابھی تک نا واقف ھیں ان قادیانی کفار کو ان کے پیشوا مرزا قادیانی کی لکھی ہوئی تحریروں کے آئینے میں دیکھئے، سوچئے اور فیصلہ کیجئے کیا یہ ہمارے دوست ہیں یا بد ترین دشمن ؟ کیا یہ دل آزار ، توہین آمیز اور اشتعال انگیز تحریریں مسلمانوں کیلئے قابل برداشت ہیں اور کیا امت مسلمہ ایسے لوگوں کو گوارا کر سکتی ہے ؟ قادیانیت کے ان توہین آمیزعقائد کو پڑھ کر آپ دوستوں کو بڑی حد تک اس بات کا بھی اندازہ ھو جائے گا کہ پاکستان سے فرارھو کر مغربی ممالک میں اپنے گورے مالکوں کی گود میں بیٹھے شاتم ِ اسلام اور گستاخ ِ قرآن مرزائی اور جعلی آئی ڈیوں میں چھپے دینی اور ملی ھستیوں کی توہین کرنے والے حضرات نیٹ پر کھلے عام اللہ سبحان تعالی کی شان ، قرآن حکیم کی عظمت ، انبیا اکرام، صحابہ اجمعین اور اھل ِ بیت کی توھین میں توہین کیوں لکھتے ھیں

قسطوں میں فراڈ اور عیارانہ دعوے
مرزا نے اپنی تصانیف میں اتنا جھوٹ لکھا ہے جو ایک صحیح الدماغ شخص لکھ ہی نہیں سکتا۔ اس نے قسطوں میں بہت سےدعوے کئے اور یہ بات مد نظر رھے کہ ھر جھوٹے دعوے سے مکر جانے کے بعد اگلے منصب کا دعویٰ اس کے پہلے دعوے کو باطل اور فراڈ ثابت کرتا رھا ۔
دعوی نمبر ۱مجدد ہونے کا دعویٰ کیا۔۔۔۔ تصنیف الاحمدیہ ج ۳ ص ۳۳ ۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۲ دوسرا دعویٰ محدثیت کا کیا۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۳ تیسرا دعویٰ مھدیت کا کیا ۔۔۔ تذکرہ الشہادتین ص ۲۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۴ چھوتھا دعویٰ مثلیت مسیح کا کیا ۔۔۔۔ تابلیغِ رسالت ج ۲ ص ۲۱۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ٥ پانچواں دعویٰ مسیح ہونے کا کیا ۔۔۔ جس میں کہا کہ خود مریم بنا رہا اور مریمیت کی صفات کے ساتھ نشو و نما پاتا رہا اور جب دو برس گزر گئے تو دعوی نمبر عیسیٰ کی روح میرے پیٹ میں پھونکی گئی اور استعاراً میں حاملہ ہو گیا اور پھر دس ماہ لیکن اس سے کم مجھے الہام سے عیسیٰ بنا دیا گیا
کشتیِ نوح ۔۔۔ ص ۶۸ ۔ ۶۹۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۶ چھٹا دعویٰ ظلی نبی ہونے کا کیا ۔۔۔ کلمہ فصل ۔۔۔ ص ۱۰۴۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۷ ساتواں دعویٰ بروزی بنی ہونے کا کیا ۔۔۔ اخبار الفصل۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۸ آٹھواں دعویٰ حقیقی نبی ہونے کا کیا۔۔۔۔۔۔
دعوی نمبر ۹ نواں دعویٰ کیا کہ میں نیا نبی نہیں خود محمد ہوں اور پہلے والے محمد سے افضل ہوں انہیں ۳۰۰۰ معجزات دیے گئے جب کہ مجھے ۳ لاکھ معجزات ملے روحانی خزائن ۔۔۔ ج ۱۷ ص ۱۵۳۔۔۔۔۔۔
دعویٰ خدائی
نمبر ١ میں نے اپنے تئیں خدا کے طور پر دیکھا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں وہی ہوں اور میں نے آسمان کو تخلیق کیا ہے۔(آئینہ کمالات صفحہ ٥٦٤، مرزا غلام احمد قادیانی )
نمبر٢ خدا نمائی کا آئینہ میں ہوں ۔(نزول المسیح ص ٨٤)
نمبر ٣ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو حق اور بلندی کا مظہر ہو گا ، گویا خدا آسمان سے اترے گا ۔ (تذکرہ ط ٢ص ٦٤٦(انجام آتھم ص ٦٢)
نمبر ٤ مجھ سے میرے رب نے بیعت کی ۔ ( دافع البلاء ص ٦)
نبوت کے جھوٹے دعوے
نمبر ١ :پس مسیح موعود (مرزا غلام احمد ) خود محمد رسول اللہ ہے جو اشاعت اسلام کے لیے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے ۔ اس لیے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں ہاں! اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی ۔ (کلمہ الفصل صفحہ ١٥٨مصنفہ مرزا بشیر احمد ایڈیشن اول )
نمبر ٢: آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تین ہزار معجزات ہیں ۔ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ٦٧مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی ) میرے معجزات کی تعداد دس لاکھ ہے۔ (براہین احمدیہ صفحہ ٥٧ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
نمبر ٣ :انہوں نے (یعنی مسلمانوں نے) یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے ۔۔۔۔۔۔ان کا یہ سمجھنا خدا تعالیٰ کی ۔۔۔۔۔۔ قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ورنہ ایک نبی تو کیا میں تو کہتا ہوں ہزاروں نبی ہونگے ۔ (انوار خلافت، مصنفہ بشیر الدین محمود احمد صفحہ ٦٢)
نمبر ٤ :ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں ۔ (بدر٥مارچ 190)
نمبر ٥ :میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا اور میرا نام نبی رکھا ۔ (تتمہ حقیقۃ الوحی ٦٨)
نمبر ٦: اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے یہ کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے ضرور کہوں گا کہ تو جھوٹا ہے کذاب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں ۔ ( انوار خلافت صفحہ ٦٥)
نمبر ٧ :یہ بات بالکل روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ کھلا ہے ۔ (حقیقت النبوت مصنفہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ قادیان ص ٢٢٨)
نمبر ٨ :مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا ، میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں ، اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں ۔ بد قسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے کیونکہ میرے بغیر سب تاریکی ہے۔ (کشتی نوح صفحہ ٥٦، طبع اول قادیان ١٩٠٢)
دعویٰ ِ نبوت سے انکار اور پھر مکر کر دعویٰ ِ نبوت
مرزا فروری ۱۸۹۴ کو اپنی کتاب روحانی خراین جلد۹ میں خود لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” میں نے نہ نبوت کا دعوی کیا اور نہ ہی اپنے آپ کو نبی کہا ؛ یہ کیسے ھو سکتا تھا کہ میں دعوی نبوت کر کے اسلام سے خارج ھو جاوں اور کافر بن جاؤں”
اور پھرہے نبوت کا جھوٹا دعوی کرکے اپنے ہی لکھے اور کہے کے مطابق خود کو کافر ثابت کرتا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہتا ھے ۔۔۔۔۔۔
سچا خدا وہ ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلاء صفحہ ۱۱؛ خزایین جلد ۱۸ صفحہ ۲۳۱)
اور پھرایک اور جگہ لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
”مجھے ہر گز ہر گز دعویٰ نبوت نہیں، میں امت سے خارج نہیں ہونا چاہتا۔میں لیلہ القدر ، ملائکہ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں کا انکاری نہیں۔حضور سلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے کا قائل ہوں اور حضور کو خاتم الانبیائ مانتا ہوں اور حضور کی امت میں بعد میں کوئی نبی نہیں آئے گا۔ نہ نیا آئے گا نہ پرانا آئے گا ”
(آسمانی نشانی ص ۲۸)
حتی کہ ۱۷ مئی ۱۹۰۸ تک مرزا خود نبوت کا انکاری ہے اور اپنی کتاب ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۲۰ میں کھلا دھوکہ دیتے ہویے یا مکاری سے دعوی نبوت سے انکار کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” مجھ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ میں نبوت کا دعوی کرتا ہوں ۔ سو اس تہمت کے جواب میں بجز اسکے کہ لعنت اللہ علی الکازبین کہوں اور کیا کہوں؟ ”
اور پھر خود ہی قلابازی کھاتا ہے اور کہتا ہے کہ۔۔۔۔۔
” اللہ نے مجھ پر وحی بھیجی اور میرا نام رسل رکھا یعنی پہلے ایک رسول ہوتا تھا اورپھر مجھ میں سارے رسول جمع کر دیے گئے ہیں۔میں آدم بھی ہوں۔ شیش بھی ہوں۔ یعقوب بھی ہوں اور ابراہیم بھی ہوں۔اسمائیل بھی میں اور محمد احمد بھی میں ہوں” (حقیقت الوھی ۔۔۔ ص ۷۲)
تمام انبیاء کے مجموعہ ھونے کا دجالی دعویٰ
دنیا میں کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا ۔ میں آدم ہوں ۔ میں نوح ہوں ، میں ابراہیم ، میں اسحاق ہوں ، میں یعقوب ہوں ، میں اسماعیل ہوں ۔ میں داود ہوں ، میں موسیٰ ہوں ، میں عیسیٰ ابن مریم ہوں ، میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ ( تتمہ حقیقت الوحی ، مرزا غلام احمد ص ٨٤)

نبوت مرزا غلام احمد قادیانی پر ختم ( نعوذ باللہ) ۔
اس امت میں نبی کا نام پانے کیلئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں ہیں ۔ (حقیقت الوحی ، مرزا غلام احمد صفحہ ٣٩١)
سیدنا و مولانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین
نمبر ١ :آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسائیوں کے ہاتھ کا پنیر کھالیتے تھے حالانکہ مشہو رتھا کہ سور کی چربی اس میں پڑتی ہے۔ (مکتوب مرزا غلام احمد قادیانی مندرجہ اخبار الفضل ٢٢فروری ١٩٢٤)
نمبر ٢ :مرزا قادیانی کا ذہنی ارتقاء آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تھا ۔( بحوالہ قادیانی مذہب صفحہ ٢٦٦، اشاعت نہم مطبوعہ لاہور)
نمبر ٣ :اسلام محمد عربی کے زمانہ میں پہلی رات کے چاند کی طرح تھا اور مرزا قادیانی کے زمانہ میں چودہویں رات کے چاند کی طرح ہو گیا ۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ ١٨٤)
نمبر ٤ :مرزا قادیانی کی فتح مبین آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فتح مبین سے بڑھ کر ہے ۔ (خطبہ الہامیہ صفحہ ١٩٣)
نمبر ٥ :اس کے یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیے چاند گرہن کا نشان ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں کا اب کیا تو انکار کرے گا ۔ ( اعجاز احمدی مصنفہ غلام احمد قادیانی ص ٧١)



نمبر ٦ :
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں
 اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
 محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں

(قاضی محمد ظہور الدین اکمل اخبار بدر نمبر ٤٣، جدل ٢قادیان ٢٥اکتوبر ١٩٠٦)
نمبر ٧: دنیا میں کئی تخت اترے پر تیرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ۔ (حقیقت الوحی ص ٨٩ از مرزا غلام احمد قادیانی)
نمبر ٨ :اس صورت میں کیا اس بات میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ قادیان میں اللہ تعالیٰ نے پھر محمد صلعم کو اتارا تا کہ اپنے وعدہ کو پورا کرے۔ (کلمہ الفصل ص ١٠٥، از مرزا بشیر احمد)
نمبر ٩ :سچا خدا وہی خدا ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا ۔ ( دافع البلاء کلاں تختی ص ١١، تختی خورد ص ٢٣، انجام آتھم ص ٦٢)
نمبر ١٠ :مرزائیوں نے ١٧جولائی ١٩٢٢ کے ( الفضل) میں دعویٰ کیا کہ یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ہے حتیٰ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ سکتا ہے ۔
نمبر١١ مرزا غلام احمد لکھتا ہے : خدا نے آج سے بیس برس پہلے براہین احمدیہ میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی وجود قرار دیا ہے۔ ( ایک غلطی کا ازالہ صفحہ نمبر ١٠)
نمبر ١٢ :منم مسیح زماں و منم کلیم خدا منم محمد و احمد کہ مجتبیٰ باشد ۔ ۔ ۔ ترجمہ ! میں مسیح ہوں موسی کلیم اللہ ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور احمد مجتبیٰ ہوں ۔ (تریاق القلوب ص ٥ )
مسلمانوں کی توہین
نمبر١ :کل مسلمانوں نے مجھے قبول کر لیا اور میری دعوت کی تصدیق کر لی مگر کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد نے مجھے نہیں مانا۔ (آئینہ کمالات ص ٥٤٧)
نمبر٢ :جو دشمن میرا مخالف ہے وہ عیسائی ، یہودی ، مشرک اور جہنمی ہے۔ (نزول المسیح ص ٤، تذکرہ ٢٢٧)
نمبر ٣ :میرے مخالف جنگلوں کے سؤر ہو گئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئیں ۔ (نجم الہدیٰ ص ٥٣مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)
نمبر ٤ :جو ہماری فتح کا قائل نہ ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا شوق ہے اور حلال زادہ نہیں۔( انوارالاسلام ص ٣٠مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی)(١)

 ۔۔۔جاری ہے۔۔۔
(١)تاریخِ اشاعت ١ دسمبر ٢٠١١،

خلافتِ راشدہ کے دلائل

"سربکف" میگزین 1-جولائی،اگست 2015

خلفائے راشدینؓ مسلمانوں کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلفاء تھے
مولانہ محمد  یوسف  شہید  رحمہ اللہ علیہ  اس بات پر اپنی  مشہور کتاب  شیعہ سنی اختلافت اور صراط مستقیم میں فرماتے ہیں یہ چاروں حضرات خلفائے راشدینؓ ہیں، جو افضل البشرﷺ ‘‘خیرامت’’ کے متخب امام اور اللہ تعالیٰ کے موعود خلیفہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی خلافت سے پہلے ان کے استخلاف فی الارض کی پیش گوئی فرمائی اور اس پیش گوئی میں ان کی اقامت دین اور حفظ ملت کے اوصاف کو بطور خاص ذکر فرمایا۔ پھر آنحضرت ﷺ کے بعد جب ان پیش گوئیوں کے ظہور کا وقت آیا تو حضرات مہاجرین و انصار ؓ کو توفیق خاص عطا فرمائی کہ ان خلفاء اربعہ ؓ کو اپنا امام اور خلیفہ بنائیں تاکہ ان کے ذریعہ موعود پیش گوئیاں پوری ہوں اور اقامت دین و حفظ ملت کا عظیم الشان کارنامہ پردہ غیب سے منصہ شہود پر جلوہ گر ہو۔
قرآن کریم میں اس قسم کی آیات بہت ہیں مگر خلفاء اربعہؓ کے بابرکت عدد کی مناسبت سے یہاں قرآن کریم کی چار پیش گوئیوں کے ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں:
پہلی پیش گوئی: مظلوم مہاجرین کو تمکین فی الارض نصیب ہوگی اور وہ اقامت دین کا فریضہ انجام دیں گے
الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ ۗ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا ۗ وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ(الحج 40)
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ  (الحج 41 )
یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیئے گئے (انہوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پروردگار خدا ہے۔ اور اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) صومعے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں خدا کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے ویران ہوچکی ہوتیں۔ اور جو شخص خدا کی مدد کرتا ہے خدا اس کی ضرور مدد کرتا ہے۔ بےشک خدا توانا اور غالب ہے
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے۔یہ آیت کریمہ دو پیش گوئیوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ مہاجرین کو اقتدار نصیب ہوگا اور دوسرہ یہ کہ ان کا  اقتدار اقامت دین  امر بلمعروف  ور نہی عن المنکر کا زریعہ ہوگا
اس آیت کے مطابق مہاجرین اولین میں سے چار حضرات کو اقتدار عطا کیا گیا اور دنیا نے دیکہا کہ کس طرح ان حضرات نے اقامت دین کا کام کیا بلکہ جناب صدیق نے زکواۃ کے انکاریوں سے جہاد کا اعلان کیا ۔
دوسری آیت
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ( 55 )
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
لفظ منکم سے یہ بات ظاہر ہورہی ہے کہ جو حضرات نزول آیت کے موقع پر موجود تھے یہ پیش گوئی ان کے لئے نہ کہ صدیوں بعد میں آنے والوں کے لئے ۔ اس آیت کا بلخصوص خطاب صحابہ ہی تھے ۔ اور ان سے چار وعدے کئے گئے ہیں۔
پہلا وعدہ : اس جماعت کے کچھ لوگوں کو خلیفہ بنا دیا جائے گا اور ان کی خلافت منشا الہی ہوگی ۔
دوسرا وعدہ: اللہ تعالی اپنے پسندیدہ دین کو ان خلفاء کے زریعہ سے دنیا میں ہمیشہ کے لئے قائم کردین گے ۔ یعنی وہ خلفاء دین السلام کی اشاعت کے لئے اللہ کے الا کار ہونگے
تیسرا وعدہ: ان کے خوف کو امن سے بھر دیا جائے گا آج جو ان کو خطرہ  لاحق ہے وہ پھر ختم ہوجائے
 اس کے  بر عکس شیعہ عقیدہ امامت کے مطابق شیعوں کے اماموں  کو خوف ساری زندگی ساتھ رہا اس لئے تکیہ کرتے رہے (١)
چوتھا وعدہ :وہ اللہ کے فرمانبردار ہوںگے اور شرک و بدعت کو اکھاڑ پھینکیں  گے۔
ومن کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفاسقون۔
یعنی ان حضرات کا استخلاف حق تعالیٰ شانہ کا عظیم الشان انعام ہے۔ جو لوگ اس جلیل القدر نعمت کی ناقدری و ناشکری کرین گے وہ قطعاً فاسق اور اللہ تعالیٰ کے نافرمان ٹھہریں گے۔
نزول آیت کے وقت تو کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قرعہ فال کس کس کے نام نکلتا ہے؟ خلافت الٰہیہ موعودہ کا تاج کن کن خوش بختوں کے سر پر سجایا جاتا ہے؟ کون کون خلیفہ ربانی ہوں گے؟ اور ان کی خلافت کی کیا ترتیب ہوگی؟ لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد جب یہ وعدہ الٰہی مفصہ شہود پر جلوہ گر ہوا تب معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ شانہ کے یہ عظیم الشان وعدے انہی چار اکابر سے متعلق تھے جن کو خلفائے راشدینؓ کہا جاتا ہے۔
گزشتہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوچکا ہے کہ خلفاء اربعہؓ حق تعالیٰ شانہ کے ‘‘موعود امام’’ تھے ، حکمت خداوندی نے ان حضرات کو خلافت نبوت کے لئے پہلے سے نامزد کر رکھا تھا، اور تنزیل محکم میں ان کی خلافت کا اعلان فرما رکھا تھا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ان خلفاء ربانی اور ائمہ ہدیٰ کے ذریعہ دین وملت کی حفاظت ہوئی اور وہ تمام امور جو امامت حقہ اور خلافت نبویہ سے وابستہ ہیں ان اکابر کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوئے
(١)اور ایک امام  مارے خوف  کے اب بھی "غائب " ہیں،  غالب امکان ہے کہ یہ خوف سنیوں کا ہوگا۔ (مدیر)
تیسری پیش گوئی
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (المائدہ 54)
اے ایمان والو اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو خدا ایسے لوگ پیدا کر دے گا جن کو وہ دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں خدا کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والی کی ملامت سے نہ ڈریں یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور الله بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے
اس آیت میں جناب صدیق اکبر کی خلافت کی پیش گوئی ہے ۔ وصال نبوی کے بعد جب لوگ ہر طرف سے مرتد ہونے لگے ماسواء مکہ ،مدینہ ، اور طائف کے باقی سارہ عرب اس کی لپیٹ مین آگیا ۔ تو جناب صدیق نے بہت ہی زبردست طریقہ سے اس ی سرکوبی کی او آپ اور آپ کے ساتھی  اس آیت کا مصداق بنے ۔اللہ تعالی نے آپ کے اور آپکے ساتھیوں کے جو اوصاف بتائے وہ یہ ہیں ۔
1۔اللہ تعلی ان سے محبت رکہتے ہیں
2۔یہ اللہ تعلی سے سچی محبت رکہتے ہیں
3۔مسلمانوں ہر شفیق و مہربان ہیں
4۔کافرون پر سخت ہیں اور ان پر غالب ہیں
5۔یہ مجاہد ہیں محض رضا ئے الٰہی  کے لئے جہاد کرتے ہیں
6۔یہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ( یاد رہے جناب صدیق نے جب زکواۃ کے انکاریوں سے اعلان جہا د کیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں تو آپ نے کسی کے پرواہ  نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ نماز و زکواۃ میں فرق کرتے ہیں میں ان سے جہاد کرون گا)
حضرت صدیق اکبرؓ نے مسلمانوں کی از سر نو شیرازہ بندی کی اور پورے عرب کو نئے سرے سے متحد کر کے ایمان و اخلاص اور جہاد فی سبیل اللہ کے راستہ پر ڈال دیا۔ اور ان کے ہاتھ میں علم جہاد دے کر ان کو قیصرو کسریٰ سے بھڑایا۔ لہٰذا اس قرآنی پیش گوئی کا اولین مصداق حضرت صدیق اکبر ؓ اور ان کے رفقاء ہیں۔ رضی اللہ عنہم وارضا ھم یہاں ایک اہم نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے
وہ یہ کہ غزوہ خیبر میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: ‘‘میں کل یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھتا ہے۔ اور اللہ و رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ ’’
اس ارشاد کے وقت آنحضرت ﷺ نے اس شخصیت کا نام نامی مبہم رکھا تھا۔ اس لئے ہر شخص کو تمنا تھی کہ یہ سعادت اس کے حصہ میں آئے۔ اگلے دن جب جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں دیا گیا تو اس پیش گوئی کے مصداق میں کوئی التباس نہیں رہا اور سب کو معلوم ہوگیا کہ اس بشارت کا مصداق حضرت علی کرم اللہ وجہہ تھے۔
ٹھیک اسی نہج پر سمجھنا چاہئے کہ اس آیت شریفہ میں جس قوم کو مرتدین کے مقابلہ میں لائے جانے کی پیش گوئی فرمائی گئے ہے نزول آیت کے وقت ان کے اسمائے گرامی کی تعین نہیں فرمائی گئے تھی۔ اس لئے خیال ہوسکتا تھا کہ خدا جانے کون حضرات اس کا مصداق ہیں؟ لیکن جب وصال نبویﷺ کے بعد فتنہ ارتداد نے سراٹھایا اور اس کی سرکوبی کے لئے حضرت صدیق اکبرؓ اور ان کے رفقاء ؓ کو کھڑا کیا گیا، تب حقیقت آشکارا ہوگئی اور التباس واشتباہ باقی نہ رہا کہ اس پیش گوئی کا مصداق یہی حضرات تھے اور انہی کے درج ذیل سات اوصاف بیان فرمائے گئے ہیں:
چوتھی آیت
لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًاحَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (الفتح  16 )
 جو گنوار پیچھے رہ گئے تھے ان سے کہہ دو کہ تم ایک سخت جنگجو قوم کے (ساتھ لڑائی کے) لئے بلائے جاؤ گے ان سے یا تو تم جنگ کرتے رہو گے یا پھر وہ اسلام لے کر ائیں اگر تم حکم مانو گے تو خدا تمہیں اچھا بدلا دے گا اور اگر اگر منھن پھیر لو گے جیسا کہ پہلے پھیرلیا تھا تو اللہ تم کوبری تکلیف کی سزا دےگا۔
یہ آیت دعوت اعراب کہلاتی  ہے  یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جنہوں نے حضور علیہ السلام سے حدیبیہ کے موقع پر پہلو تہی کی تھی انہیں بتایا جا رہا کہ آئندہ تمہیں جنگجو قوموں کے مقابلے مین نکلنے کی دعوت دی جائے گی اور تم کو یہاں تک جنگ کرنا ہوگی کہ وہ اسلام لے آئیں یا جزیہ دے کر اسلام کے زیر اثر آجائیں ۔ عربوں کو یہ دعوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں دی گئی کیون کہ آپ کے زمانے میں  دوسری قوموں سے جنگ کی نوبت نہین آئی تھی ۔بلکہ جناب صدیق کے زمانے میں جہاد شام و عراق کے لئے انہیں نکلنے کے کی دعوت دی گئی اور خلفاء ثلاثہ کے زمانہ مبارک مین ہی یہ مقامات اسلام کے زیر اثر آئے اس سے ان کی خلافت ،اللہ تعالی کی موعودہ خلافت ہی بنتی ہے۔
چناچہ قرآن کریم کی یہ پیش گویاں خلافاء ثلاثہ  ہی پوری کرتے ہیں نہ ہی ان کے علاوہ کوئی مہاجر  خلیفہ بنا اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے مرتدیں سے قتال کیا ۔ اور نہ ہی ان کے علاوہ کسی نے اعراب کو دعوت جہاد دی۔
اس سے خلفاءراشدہ موعودہ ثابت ہوتی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اس کو نہ ماننے والا بحکم قرآن بدکردار بنتا ہے ۔(١)
(١)بشکریہ سرونٹ آف صحابہ

We would love to work with you

Contact Us
SARBAKAF
+91-8956704184
Nagpur, India